نہیں رہے اب سردی کے دن
کیا کم ہیں یہ گرمی کے دن
گھر میں بیٹھیں حبس رلائے
باہر نکلے دھوپ ستائے
لو بھی اب تو چلنے لگی ہے
یہ تو اور بھی کَھلنے لگی ہے
بجلی اور غضب ڈھاتی ہے
جب وہ آکے چلی جاتی ہے
گرمی ہے یا یہ ہے قیامت
اُف کتنی ہے پیاس کی شدت
سب کو ٹھنڈی چیز ہی بھائے
شربت لسی سب کو لبھائے
ٹھنڈا پانی ہے گویا نعمت
کس کو نہیں اب اس سے رغبت
کوئی کوکو کولا مانگے
کوئی شربت ٹھنڈا مانگے
جیسے ہی اسکول سے چھوٹیں
بچے آئس کریم پہ ٹوٹیں
ہم جب بازار کو جائیں
ہاتھ میں فروٹی لے کر آئیں
سنترے تو ہیں بہت ہی مہنگے
باقی پھل بھی نہیں ہیں سستے
ورنہ زیادہ سے زیادہ کھاتے
پیاس سے بھی ہم راحت پاتے