12:19    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ برگِ صحرا

23210 12 0 34.5




نظم

اب کے اُس کی آنکھوں میں بے سبب اُداسی تھی

اب کے اُس کے چہرے پر دُکھ تھا بدحواسی تھی

اب کے یُوں مِلا مُجھ سے یُوں غزل سُنی جیسے

میں نا شناسا ہوں وہ بھی اجنبی جیسے

زرد خال و خد اُس کے سوگوار دامن تھا

اب کے اُس کے لہجے میں کتنا کھردرا پن تھا

وہ کہ عمر بھر جس نے شہر بھر کے لوگوں سے

مجھ کو ہم سُخن جانا ازل سے آشنا لکھا

خُود سے مہربان لکھا مجھ کو دِلربا لکھا

اب کے سادہ کاغذ پہ سرخ روشنائی سے

اس نے تلخ لہجے میں میرے نام سے پہلے

صرف بے وفا لکھا

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر

سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ

سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں

حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ

کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے

شعلے اگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا

سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ

رزق، ملبوس ، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا

منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن

آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ

***

ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے

ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے

کون سورج کی آنکھ سے دن بھر

زخم گنتا ہے شب کی چادر کے

صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے

میرے دشمن نہ تھے برابر کے

خود سے خیمے جلا دیئے میں نے

حوصلے دیکھنا تھے لشکر کے

یہ ستارے یہ ٹوٹتے موتی

عکس ہیں میرے دیدہ تر کے

گر جنوں مصلحت نہ اپنائے

سارے رشتے ہیں پتھر کے

***

ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے

تو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے

ہم ایسے خاک نشیں کب لبھا سکیں گے اسے

وہ اپنا عکس بھی میزان زر میں تولتا ہے

جو ہو سکے تو یہی رات اوڑھ لے تن پر

بجھا چراغ اندھیرے میں کیوں ٹٹولتا ہے ؟

اسی سے مانگ لو خیرات اس کے خوابوں کی

وہ جاگتی ہوئی آنکھوں میں نیند کھولتا ہے

سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن

کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے

***

ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد

وہ مسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟

جس آنکھ میں کوئی چہرہ نہ کوئی عکس طلب

وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟

ہجوم درد میں کیا مسکرایئے کہ یہاں

خزاں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟

ملے بغیر جو مجھ سے بچھڑ گیا محسن

وہ راستے میں رکے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟

***

چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں

میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں؟

سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں

اور بانہوں کو شاخیں لکھتا رہتا ہوں

مجھ کو خط لکھنے کے تیور بھول گئے

آڑی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں

تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے ؟

تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا ہوں

تیری زلف کے سائے دھیان میں رہتے ہیں

میں صبحوں کی شامیں لکھتا رہتا ہوں

اپنے پیار کی پھول مہکتی راہوں میں

لوگوں کی دیواریں لکھتا رہتا ہوں

تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا

ہجر کی ساری باتیں لکھتا رہتا ہوں

سوکھے پھول، کتابیں، زخم جدائی کے

تیری سب سوغاتیں لکھتا رہتا ہوں

اس کی بھیگی پلکیں ہستی رہتی ہیں

محسن جب تک غزلیں لکھتا رہتا ہوں

اتنی مدت بعد ملے ہو

کن سوچوں میں گم پھرتے ہو

اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟

ہر آہٹ سے ڈر جا تے ہو

تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا

ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟

کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے

رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟

میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں

تم دریا سے بھی گہرے ہو

کون سی بات ہے تم میں ایسی

اتنے اچھے کیوں لگتے ہو؟

پچھے مڑ کر کیوں دیکھتا تھا

پتھر بن کر کیا تکتے ہو

جاؤ جیت کا جشن مناؤ

میں جھوٹا ہوں، تم سچے ہو

اپنے شہر کے سب لوگوں سے

میری خاطر کیوں الجھے ہو؟

کہنے کو رہتے ہو دل میں

پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو

رات بہت ہی یاد آئے ہو

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے

اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟

محسن تم بدنام بہت ہو

جیسے ہو، پھر بھی اچھے ہو

***

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا

میں خود ہی سر منزل شب چیخ پڑا تھا

لمحوں کی فصیلیں بھی مرے گرد کھڑی تھیں

میں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا

تو نے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں، ورنہ

میں فکر کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا تھا

پھیلی تھیں بھرے شہر میں تنہائی کی باتیں

شاید کوئی دیوار کے پیچھے بھی کھڑا تھا

اب اس کے سوا یاد نہیں جشن ملاقات

اک ماتمی جگنو مری پلکوں پہ سجا تھا

یا بارش سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی

یا پھر میں ترے شہر کی راہ بھول گیا تھا

ویران نہ ہو اس درجہ کوئی موسم گل بھی

کہتے ہیں کسی شاخ پہ اک پھول کھلا تھا

اک تو کہ گریزاں ہی رہا مجھ سے بہر طور

اک میں کہ ترے نقش قدم چوم رہا تھا

دیکھا نہ کسی نے بھی مری سمت پلٹ کر

محسن میں بکھرتے ہوئے شیشوں کی صدا تھا

***

چاہت کا رنگ تھا نہ وفا کی لکیر تھی

قاتل کے ہاتھ میں تو حنا کی لکیر تھی

خوش ہوں کہ وقت قتل مرا رنگ سرخ تھا

میرے لبوں پہ حرف دعا کی لکیر تھی

میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے

صحرا کی ریت پر وہ ہوا کی لکیر تھی

سورج کو جس نے شب کے اندھیروں میں گم کیا

موج شفق نہ تھی وہ قضا کی لکیر تھی

گزرا ہے سب کو دشت سے شاید وہ پردہ دار

ہر نقش پا کے ساتھ ردا کی لکیر تھی

کل اس کا خط ملا کہ صحیفہ وفا کا تھا

محسن ہر ایک سطر حیا کی لکیر تھی

***

ہر ایک زخم کا چہرہ گلا جیسا ہے

مگر یہ جاگتا منظر بھی خواب جییسا ہے

یہ تلخ تلخ سا لہجہ، یہ تیز تیز سی بات

مزاج یار کا عالم شراب جیسا ہے

مرا سخن بھی چمن در چمن شفق کی پھوار

ترا بدن بھی مہکتے گلاب جیسا ہے

بڑا طویل، نہایت حسیں، بہت مبہم

مرا سوال تمہارے جواب جیسا ہے

تو زندگی کے حقائق کی تہہ میں یوں نہ اتر

کہ اس ندی کا بہاؤ چناب جیسا ہے

تری نظر ہی نہیں حرف آشنا ورنہ

ہر ایک چہرہ یہاں پر کتاب جیسا ہے

چمک اٹھے تو سمندر، بجھے تو ریت کی لہر

مرے خیال کا دریا سراب جیسا ہے

ترے قریب بھی رہ کر نہ پا سکوں تجھ کو

ترے خیال کا جلوہ حباب جیسا ہے

***

آنکھیں کھلی رہیں گی تو منظر بھی آئیں گے

زندہ ہے دل تو اور ستمگر بھی آئیں گے

پہچان لو تمام فقیروں کے خدوخال

کچھ لوگ شب کو بھیس بدل کر بھی آئیں گے

گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ

چھینٹے اّڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے

خود کو چھپا نہ شیشہ گروں کی دکان میں

شیشے چمک رہے ہیں تو پتھر بھی آئیں گے

اّس نے کہا--گناہ کی بستی سے مت نکل

اِک دن یہاں حسین پیمبر بھی آئیں گے

اے شہریار دشت سے فرصت نہیں--مگر

نکلے سفر پہ ہم تو تیرے گھر بھی آئیں گے

محسن ابھی صبا کی سخاوت پہ خوش نہ ہو

جھونکے یہی بصورتَ صرصر بھی آئیں گے

***

شکل اس کی تھی دلبروں جیسی

خو تھی لیکن ستمگروں جیسی

اس کے لب تھے سکوت کے دریا

اس کی آنکھیں سخنوروں جیسی

میری پرواز جاں میں حائل ہے

سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی

دل کی بستی میں رونقیں ہیں مگر

چند اجڑے ہوئے گھروں جیسی

کون دیکھے گا اب صلیبوں پر

صورتیں وہ پیمبروں جیسی

میری دنیا کے بادشاہوں کی

عادتیں ہیں گداگروں جیسی

رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن

دل میں لہریں سمندروں جیسی

***

اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانیئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے ؟

خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے

وہ جھوٹ نہ بولے گا میرے سامنے آ کر

اب دستکیں دے گا تو کہاں اے غمِ احباب

میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے

ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر

***

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے

یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا

مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے

وہ مسکرا کے وسوسوں میں‌ڈال گیا

خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ہے

ترے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے

کہ شغل شب تو ستارے شمار کرنا ہے

خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن

خود اپنی جاں کے دشمن سے پیار کرنا ہے

***

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے

ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے

یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو

وہ روٹھ کر بھی مجھے مسکرا کے ملتا ہے

میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا سا رہتا ہوں

کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے

کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں ہے عشق ترا

یہ زہر دل میں اتر کر ہی راس آتا ہے

اسے گنوا کے میں زندہ ہوں اس طرح محسن

کہ جیسے تیز ہوا میں چراغ جلتا ہے

***

تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا

مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیا

دیکھے جو خدّوخال تو سوچا ہے بارِ ہا

صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا

میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا

لیکن تِری قبا کو شکن کون دے گیا

تیرے ہنر میں خلقتِ خوشبو سہی مگر

کانٹوں کو عمر بھر کی چبھن کون دے گیا

جنگل سے پوچھتی ہے ہواؤں کی برہمی

جگنو کو تیرگی میں کرن کون دے گیا

کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے

بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا

تجھ سے تو ہر پَل کی مسافت کا ساتھ تھا

میرے بدن کو اتنی تھکن کون دے گیا

توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر

لب بستگی کو تابِ سخن کون دے گیا

محسن وہ کائناتِ غزل ہے اُسے بھی دیکھ

مجھ سے نہ پوچھ مجھ کو یہ فن کون دے گیا

عذاب دید میں‌آنکھیں لہو لہو کر کے

میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے

چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے

ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن

ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے

***

اک دیا دل میں جلانا بھی بجھا بھی دینا

یاد کرنا بھی اسے روز بھلا بھی دینا

خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رہنا اس سے

جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا

مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارہ لیکن

جی میں‌آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا

کیا کہوں یہ مری چاہت ہے کہ نفرت اس کی

نام لکھنا بھی مرا لکھ کے مٹا بھی دینا

صورت نقش قدم دشت میں رہنا محسن

اپنے ہونے سے نہ ہونے کا پتہ بھی دینا

***

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

تو جفا کی میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن

پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

تو مجھے میں تجھے الزام دھرتا ہوں

اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف

ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

بد گمانی شہر میں کس نے پھیلا دی جبکہ

ایک دوسرے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

جرم کی نوعیتو ں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو

در حقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی

دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

***

آنکھوں میں کوئی خواب اُترنے نہیں دیتا

یہ دل کہ مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا

بچھڑے تو عجب پیار جتاتا ہے خطوں میں

مل جائے تو پھر حد سے گزرنے نہیں دیتا

وہ شخص خزاں رُت میں محتاط رہے کتنا

سوکھے ہوئے پھولوں کو بکھرنے نہیں دیتا

اِک روز تیری پیاس خریدے گا وہ گبرو

پانی تجھے پنگھٹ سے جو بھرنے نہیں دیتا

وہ دل میں تبسم کی کرن گھولنے والا

روٹھے تو رُوتوں کو بھی سنورنے نہیں دیتا

میں اُس کو مناؤں کہ غمِ دہر سے اُلجھوں

محسن وہ کوئی کام بھی کرنے نہیں دیتا

***

وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی

پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی

سورج اس کو دیکھ کر پیلا پرتا تھا

وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلی تھی

اسکو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا

سوچ کے صحرا میں وہ تنہا ہرنی تھی

آتے جاتے موسم اس کو ڈستے تھے

ہنستے ہنستے پلکوں سے رو پڑتی تھی

آدھی رات گنوا دیتی تھی چپ رہ کر

آدھی رات کو چاند سے باتیں کرتی تھی

دور سے اجڑے مندر جیسا گھر اس کا

وہ اپنے گھر میں اکلوتی دیوی تھی

موم سے نازک جسم سھر کو دکھتا تھا

دیئے جلا کر شب بھر آپ پگھلتی تھی

تیز ہوا کو روک کر اپنے آنچل پر

سوکھے پھول اکٹھے کرتی پھرتی تھی

سب ظاہر کر دیتی تھی بھید اپنا

سب سے ایک تصویر چھپائے رکھتی تھی

کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا

یا پھر پہلی بار وہ دل کھول کر روئی تھی

محسن کیا جانے دھوپ سے بے پروا

وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی ؟

***






آؤ وعدہ کریں

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

دیدۂ دل کی بے انت شاہی میں ہم

زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم

اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو

فکر کے مو قلم سے تراشی ہوئی

اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو

اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو

یوں سنبھالیں گے ، مثلِ چراغِ حرم

جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی

بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں

پہرہ داروں کی صورت چھپائے رک ہے

جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم

آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم - پھر ارادہ کریں

جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں

جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں

جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں

جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں

جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں

جتنے گل رنگ مہتاب گہنا گئے - جتنے معصوم رخسار

مرجھا گئے

جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں

سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں

بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم

مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم

دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم

زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئے

اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل

صرف آرائشِ پیرہن کے لئے ، مسکرائیں گے رنج و غم

دہر میں

اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئے

طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے

فن کے لئے

آؤ وعدہ کریں

سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئے

جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے

دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم

آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم

آؤ وعدہ کریں

***






آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم

تیرے ملنے کا اک لمحہ

بس اک لمحہ سہی – لیکن

وفا کا بے کراں موسم

ازل سے مہرباں موسم

یہ موسم آنکھ میں اترے

تو رنگوں سے دہکتی روشنی کا عکس کہلائے

یہ موسم دل میں ٹھہرے تو

سنہری سوچتی صدیوں کا گہرا نقش بن جائے

ترے ملنے کا اک لمحہ

مقدر کی لکیروں میں دھنک بھرنے کا موسم ہے

آج بھی شام اداس رہی

آج بھی تپتی دھوپ کا صحرا

ترے نرم لبوں کی شبنم

سائے سے محروم رہا

آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ صدیوں سے بے خواب رتوں کی

آنکھوں کا مفہوم رہا

آج بھی اپنے وصل کا تارا

راکھ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم رہا

آج بھی شہر میں پاگل دل کو

تری دید کی آس رہی

مدت سے گم صم تنہائی، آج بھی میرے پاس رہی

آج بھی شام اداس رہی

***

میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسمان کا ہے

کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے

بُرا نہ مان میرے حرف زہر زہر سہی

میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زبان کا ہے

ہر ایک گھر پہ مسلط ہے دِل کی ویرانی

تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے

بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا

وہ کہہ گیا تھا یہی وقت امتحان کا ہے

مسافروں کی خبر ہے نہ دُکھ ہے کشتی کا

ہوا کو جتنا بھی غم ہے وہ بادبان کا ہے

یہ اور بات عدالت ہے بے خبر ورنہ

تمام شہر میں چرچہ میرے بیان کا ہے

اثر دِکھا نہ سکا اُس کے دل میں اشک میرا

یہ تیر بھی کسی ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

بچھڑ بھی جائے مگر مجھ سے بدگمان بھی رہے

یہ حوصلہ ہی کہاں میرے بدگمان کا ہے

قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن

ہوا میں شور ابھی تک میری اُڑان کا ہے

تن پہ اوڑھے ہوئے صدیوں کا دھواں شامِ فراق

دل میں اتری ہے عجب سوختہ جاں شامِ فراق

خواب کی راکھ سمیٹے گی بکھر جائے گی

صورتِ شعلئہ خورشید رخاں شامِ فراق

باعثِ رونقِ اربابِ جنوں ویرانی

حاصلِ وحشتِ آشفتہ سراں شامِ فراق

تیرے میرے سبھی اقرار وہیں بکھرے تھے

سر جھکائے ہوئے بیٹھی ہے جہاں شامِ فراق

اپنے ماتھے پہ سجا لے ترے رخسار کا چاند

اتنی خوش بخت و فلک ناز کہاں شامِ فراق

ڈھلتے ڈھلتے بھی ستاروں کا لہو مانگتی ہے

میری بجھتی ہوئی آنکھوں میں رواں شامِ فراق

اب تو ملبوس بدل، کاکلِ بے ربط سنوار

بجھ گئی شہر کی سب روشنیاں شامِ فراق

کتنی صدیوں کی تھکن اس نے سمیٹی محسن

یہ الگ بات کہ پھر بھی ہے جواں شامِ فراق

متاعِ شامِ سفر بستیوں میں چھوڑ آئے

بجھے چراغ ہم اپنے گھروں میں چھوڑ آئے

ہم اپنی در بدری کے مشاہدے اکثر

نصیحتوں کی طرح کم سنوں میں چھوڑ آئے

بچھڑ کے تجھ سے چلے ہم تو اب کے یوں بھی ہوا

کہ تیری یاد کہیں راستوں میں چھوڑ آئے

گھرے ہیں لشکر اعدا میں اور سوچتے ہیں

ہم اپنے تیر تو اپنی صفوں میں چھوڑ آئے

ہوا ہی دن میں پرندے اڑائے پھرتی ہے

ہوا ہی پھر سے انہیں گھونسلوں میں چھوڑ آئے

کسے خبر ہے کہ زخمی غزال کس کے لیے

نشاں لہو کے گھنے جنگلوں میں چھوڑ آئے

اڑیں گے کیا وہ پرندے جو اپنے رزق سمیت

سفر کا شوق بھی ٹوٹے پروں میں چھوڑ آئے

ہمارے بعد بھی رونق رہے گی مقتل میں

ہم اہلِ دل کو بڑے حوصلوں میں چھوڑ آئے

سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں ‘محسن‘

بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے






تمھیں کس نے کہا تھا؟

تمھیں کس نے کہا تھا

دوپہر کے گرم سورج کی طرف دیکھو

اور اتنی دیر تک دیکھو

کہ بینائی پگھل جائے

تمھیں کس نے کہا تھا؟

آسماں سے ٹوٹتی اندھی اُلجھتی بجلیوں سے

دوستی کر لو

اور اتنی دوستی کر لو

کہ گھر کا گھر ہی جل جائے

تمھیں کس نے کہا تھا؟

***

لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے

میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کے لئے

اتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر

سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کے لئے

سخن لباس پہ ٹھہرا تو جوگیوں نے کہا

کہ آستیں ہے فقط سانپ پالنے کے لئے

میں سوچتا ہوں کبھی میں بھی کوہکن ہوتا

ترے وجود کو پتھر میں ڈھالنے کے لئے

کسے خبر کہ شبوں کا وجود لازم ہے

فضا میں چاند ستارے اچھالنے کے لئے

بہا رہی تھی وہ سیلاب میں جہیز اپنا

بدن کی ڈوبتی کشتی سنبھالنے کے لئے

وہ ماہتاب صفت' آئینہ جبیں محسن

گلے ملا بھی تو مطلب نکالنے کے لئے

***

عذاب دید میں‌آنکھیں لہو لہو کر کے

میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے

چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے

ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسن

ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے

***






اے مرے کبریا۔۔۔۔!

اے انوکھے سخی!

اے مرے کبریا!!

میرے ادراک کی سرحدوں سے پرے

میرے وجدان کی سلطنت سے ادھر

تیری پہچان کا اولیں مرحلہ!

میری مٹی کے سب ذائقوں سے جدا!

تیری چاہت کی خوشبو کا پہلا سفر!!

میری منزل؟

تیری رہگزر کی خبر!

میرا حاصل؟

تری آگہی کی عطا!!

میرے لفظوں کی سانسیں

ترا معجزہ!

میرے حرفوں کی نبضیں

ترے لطف کا بے کراں سلسلہ!

میرے اشکوں کی چاندی

ترا آئینہ!

میری سوچوں کی سطریں

تری جستجو کی مسافت میں گم راستوں کا پتہ!

میں مسافر ترا ۔۔۔۔ (خود سے نا آشنا)

ظلمتِ ذات کے جنگلوں میں گھرا

خود پہ اوڑھے ہوئے کربِ وہم و گماں کی سُلگتی رِدا

ناشناسائیوں کے پرانے مرض

گُمرہی کے طلسمات میں مبتلا

سورجوں سے بھری کہکشاں کے تلے

ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ترا نقش پا ۔ ۔ ۔ !!

اے انوکھے سخی!

اے مرے کبریا!!

کب تلک گُمرہی کے طلسمات میں؟

ظلمتِ ذات میں

ناشناسائیوں سے اَٹی رات میں

دل بھٹکتا رہے

بھر کے دامانِ صد چاک میں

بے اماں حسرتوں کا لہو

بے ثمر خواہشیں

رائیگاں جستجو!!

اے انوکھے سخی!

اے مرے کبریا!!

کوئی رستہ دکھا

خود پہ کُھل جاؤں میں

مجھ پہ افشا ہو تُو'

اے مرے کبریا!!

کبریا اب مج ہے

لوحِ ارض و سما کے

سبھی نا تراشیدہ پوشیدہ

حرفوں میں لپٹے ہوئے

اسم پڑھنا سکھا

اے انوکھے سخی!

اے مرے کبریا!

میں مسافر ترا






ایک نظم

مجھے معلوم ہے سب کچھ

کہ وہ حرفِ وفا سے اجنبی ہے

وہ اپنی ذات سے ہٹ کر

بہت کم سوچتی ہے

وہ جب بھی آئینہ دیکھے

تو بس اپنے ہی خال و خد کے

تیور دیکھتی ہے

اسے اپنے بدن کے زاویے ،قوسیں ، مثلث ، مستطیلیں

بازوؤں کی دسترس میں رقص کرتی خواہشوں کی سب اڑانیں

قیمتی لگتی ہیں سیم و زر کے پوشیدہ خزانوں سے

زمینوں آسمانوں میں رواں روشن زمانوں سے

وہ لمحہ لمحہ اپنے ہی تراشیدہ کروں میں

گھومتی ہے

وہ بارش میں نہائی دھوپ کے آنگن میں

کھلتی کھلتی ہنستی ہری بیلوں کی شہ رگ سے

نچڑتی ناچتی بوندوں کو پی کر

جھومتی ہے

اسے اپنے سوا دنیا کی ہر صورت، ہر اک تصویر

بے ترتیب لگتی ہے

مجھے معلوم ہے سب کچھ

کہ وہ رنگوں بھرے منظر،دھنک کے ذائقے

اجلی فضا کی خوشبوئیں ،جھلمل شعاعیں

اپنی بینائی کے حلقوں میں مقید کر کے اپنی مسکراہٹ

کے دریچے کھولتی ہے

کہ وہ اقرار کے لمحوں میں کم کم بولتی ہے

مجھے معلوم ہے سب کچھ

مگر معلوم ہی سب کچھ نہیں ہے

کہ اس معلوم کی سرحد کے اس جانب

فشارِ آگہی کا آسماں ہے

خود فراموشی خموشی کی سر زمیں ہے

جہاں ظاہر کی آنکھوں سے ابھی معدوم ہے سب کچھ

مجھے معلوم ہے سب کچھ

مگر معلوم ہی سب کچھ نہیں ہے ۔






وہ میں نہیں ہوں

وہ آنکھوں آنکھوں میں بولتی ہے

تو اپنے لہجے میں

کچی کلیوں کی نکہتیں

ادھ کھلے گلابوں کا رس

خنک رت میں شہد کی موج گھولتی ہے

وہ زیرِ لب مسکرا رہی ہو

تو ایسے لگتا ہے

جیسے شام و سحر گلے مل کے ان سنی لے میں گائیں

صبا کی زلفیں کھلیں

ستاروں کے تر سانسوں میں جھنجھنائیں

وہ ابروؤں کی کماں کے سائے

چاہتوں سے اٹی ہوئی دھوپ

راحتوں میں کھلی ہوئی چاندنی

کے موسم نکھارتی ہے

وہ دل میں خواہش کی لہر لیتی ضدیں

خیالوں کی کرچیاں تک اتارتی ہے

ہوا کی آوارگی کے ہمراہ اپنی زلفیں سنوارتی ہے

کبھی وہ اپنے بدن پہ اجلی رتوں کا ریشم پہن کے نکلے

تو کتنے رنگوں کے دائرے

سلوٹوں کی صورت میں ٹوٹتے ہیں

وہ لب ہلائے تو پھول جھڑتے ہیں

اسکی باتیں؟

کہ جیسے کجِ دیارِ یاقوت سے شعاعوں کے ان گنت

تار پھوٹتے ہیں

وہ سر سے پاؤں تلک

دھنک دھوپ چاندنی ہے

دھلے دھلے موسموں کی بے ساختہ

غزل بخت شاعری ہے

( میرے ہنر کے سبھی اثاثوں سے قیمتی ہے )

وہ مجھ میں گھل مل گئی ہے لیکن

ابھی تلک مجھ سے اجنبی ہے

کسی ادھوری گھڑی میں

جب جب وہ بے ارادہ محبتوں کے

چھپے چھپے بھید کھولتی ہے

تو دل یہ کہتا ہے

جس کی خاطر وہ اپنی "سانسیں"

وفا کی سولی پہ تولتی ہے

وہ آسماں زاد، کہکشاں بخت، ( کچھ بھی کہہ لو)

جو اسکی چاہت کا آسرا ہے

وہ میں نہیں ہوں

کوئی تو ہے جو میرے سوا ہے

وہ شہر بھر کے تمام چہروں سے ہٹ کے

اک اور مہرباں ہے

جو اسکی خواہش کا آسماں ہے

( کسے خبر کون ہے کہاں ہے ؟)

مگر مجھے کیا ؟

کہ میں زمیں ہوں

وہ جس کی چاہت میں اپنی سانسیں لٹا رہی ہے

وہ" میں" نہیں ہوں

وہ آنکھوں آنکھوں میں بولتی ہے

دیکھ رہین احتیاط یوں نہ ابھی سنبھل کے چل

صورت موج تند خو، سمت بدل بدل کے چل

قریۂ جاں کے اس طرف روشنیوں کی بھیڑ ہے

آج حدودِ ذات سے چار قدم نکل کے چل

دشتِ انا میں ہے تجھے ، تیرگیوں کا سامنا

ذہن سے برف چھیل دے ، دھوپ بدن پہ مل کے چل

موجِِ ہوا سے کر کشید، اور سفر کا حوصلہ

راہ کے خار خار کو پھول سمجھ ، مسل کے چل

موسمِ بے قبا ٹھہر، وقتِ ودَاعِ شوق ہے

اوڑھ لے رات ہجر کی، درد کی لے میں ڈھل کے چل

نکتۂ رازِ دل نشیں کون زماں کہاں زمیں

تو بھی تو بے کنار ہو تہہ سے کبھی اچھل کے چل

جاگ بھی محسنِ حزیں، زندگیوں کا بھید پا

سانس کی ہر صراط پہ ساتھ صدا اجل کے چل

***

کبھی تو محیطِ حواس تھا سو نہیں رہا

میں تیرے بغیر اداس تھا سو نہیں رہا

مری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو

میرا گاؤں شہر کے پاس تھا سو نہیں رہا

تیری دسترس میں تھیں بخششیں سو نہیں رہیں

میرے لب پہ حرف سپاس تھا سو نہیں رہا

مرا عکس مجھ سے الجھ پڑا تو گرہ کھلی

کبھی میں بھی چہرہ شناس تھا سو نہیں رہا

میرے بعد نوحہ بہ لب ہوائیں کہا کریں

وہ جو اک دریدہ لباس تھا سو نہیں رہا

میں شکستہ دل ہوں صفِ عدو کی شکست پر

وہ جو لطفِ خوف و ھراس تھا سو نہیں رہا

***






ہم ایسے لوگ بہت ہیں۔۔

یہ راکھ راکھ رتیں اپنی رات کی قسمت

تم اپنی نیند بچھاؤ تم اپنے خواب چنو

بکھرتی ڈوبتی نبضوں پہ دھیان کیا دینا

تم اپنے دل میں دھڑکتے ہوے حروف سنو

تمہارے شہر کی گلیوں میں سیل رنگ بخیر

تمہارے نقش قدم پھول پھول کھلتے ر ہیں

وہ رہگزر جہاں تم لمحہ بھر ٹھہر کے چلو

وہاں پہ ابر جھکیں آسماں ملتے رہیں

نہیں ضرور کہ ہر اجنبی کی بات سنو

ہر اک صدا پہ دھڑکنا بھی دل پہ فرض نہیں

سکوت حلقہ زنجیر در بھی کیوں ٹوٹے

صبا کا ساتھ نبھانا جنوں پہ قرض نہیں

ہم ایسے لوگ بہت ہیں جو سوچتے ہی نہیں

کہ عمر کیسے کٹی کس کے ساتھ بیت گئ

ہماری تشنہ لبی کا مزاج کیا جانے ؟

کہ فصل بخشش موج فرات بیت گئ

یہ ایک پل تھا جسے تم نے نوچ ڈالا تھا

وہ اک صدی تھی جو بے التفات بیت گئ

ہماری آنکھ لہو ہے تمہیں خبر ہو گی

چراغ خود سے بجھا ہے کہ رات بیت گئی

***

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے

کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے

اب کے بستی نظر آتی نہیں اجڑی گلیاں

آو ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے

سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے

کتنے سادہ تھے وہ بلورّ سے پاوں والے

ہم نے ذّروں سے تراشے تری خاطر سورج

اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاؤں والے

کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا

کیسے موسم تھے وہ پرﹸ شور ہواؤں والے

تو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا

مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے

ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسن !

خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے

***

شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی

درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی

ہم وہیں پر بسا لیں خود کو

وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی

مجھے تنہائیوں کا خوف کیوں ہے

وہ مرے پیار کو سمجھے تو سہی

وہ قیامت ہو ،ستارہ ہو کہ دل

کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی

سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے

ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی

اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی

میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی

دل اُسی وقت سنبھل جائے گا

دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں

میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے

میری جانب کبھی دیکھے تو سہی

اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن

شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی

***

اب کے یو ں بھی تری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے

رنگ پھوٹے ، کہیں خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے

موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی

سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے

سینۂ گل جہاں نکہت بھی گراں ٹھہری تھی

تیر بن کر وہاں سورج کی کرن ٹوٹی ہے

دِل شکسہ تو کئی بار ہوئے تھے لیکن

اب کے یوں ہے کہ ہر اک شاخِ بدن ٹوٹی ہے

اتنی بے ربط محبت بھی کہاں تھی اپنی

درمیاں سے کہیں زنجیرِ سخن ٹوٹی ہے

اک شعلہ کہ تہِ خیمۂ جاں لپکا تھا

ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے

سلسلہ تجھ سے بچھڑنے پہ کہاں ختم ہوا

اک زمانے سے رہ و رسم کہن ٹوٹی ہے

مرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں

نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے

ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سو محسن

شیشہ شیشہ مری سنگینیء فن ٹوٹی ہے

***






وہم

وہ نہیں ہے

تو اُ س کی چاہت میں

کس لیے

رات دن سنورتے ہو

خود سے بے ربط باتیں کرتے ہو

اپنا ہی عکس نوچنے کے لیے

خود اُلجھتے ہو، خود سے ڈرتے ہو

ہم نہ کہتے تھے

ہجر والوں سے ، آئینہ گفتگو نہیں کرتا

***






میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں

کوئی شہر ایسا بساؤں میں

جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ سے نغمۂ رازِ حیات میں

جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں جو چھنک اُٹھیں

تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک

جہاں چاند ماند نہ ہو کبھی ، جہاں چاندنی کی رِدا بنے

میری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک

جہاں صرف حکمِ یقیں چلے ، جہاں بے نشاں ہو قیاس تک

جہاں آدمیت کے نطق و لب پہ ، نہ شہرِ یار کا خوف ہو

جہاں سرسرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی ہراس تک

جہاں وہم ہو نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو

جہاں سچ کو سچ سے ہو واسطہ

جہاں جگنو کو ہوا دکھاتی ہو راستہ

جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رُت کو حسد نہ ہو

جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی قد نہ ہو

جہاں خواب آنکھوں میں جگمگائیں تو۔۔۔۔۔

جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں تیرگی کا گزر نہ ہو

کوئی رات ایسی بسر نہ ہو کہ ، بشر کو اپنی خبر نہ ہو

جہاں داغ داغ سحر نہ ہو

جہاں کشتیاں ہوں رواں دواں ۔۔ تو سمندروں میں بھنور نہ ہو

جہاں برگ و بار سے اجنبی کوئی ، شاخ کوئی شجر نہ ہو

جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں کو ، بارشوں کے عذاب کا کوئی ڈر نہ ہو

میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں کوئی شہر ایسا بساؤں میں

جہاں برف برف محبتوں پہ غمِ جاں کا اثر نہ ہو

راہ و رسمِ دنیا کی بندشیں غمِ ذات کے سبھی ذائقے

سمے کائنات کی تلخیاں کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں

جہاں میری سانس کی تازگی ، تیری چاہتوں کے کنول میں ہو

تیرا حسن میری غزل میں ہو ، جہاں کائنات کی اِ ک صدف

شب و روز کے کسی پل میں ہو

جہاں نوحۂ غمِ زندگی ، میری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو

جہاں لوحِ خاک پہ عمر بھر ، کسی بے گناہ کے خون کا

کوئی داغ ، کوئی نشاں نہ ہو

کوئی شہر ایسا کبھی کہیں بساؤں میں

جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں

جہاں بانجھ رُت میں بھی گُل کھلیں

جہاں چاہتوں کے ہجوم میں ، کبھی گیت امن کے گاؤں میں

جہاں زندگی کا رِجز پڑھوں ، جہاں بے خلل گنگناؤں میں

جہاں موج موج کی اوٹ میں تو کرن بنے ، مسکراؤں میں

میرے بس میں ہو تو کبھی کہیں

کوئی شہر ایسا بساؤں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

***






میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں

جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے

جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے

جیسے خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے

جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے

جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں

جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے

جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں

میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا

وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے

میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا

میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے

خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا

نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے

تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے

توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے

میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا

میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے

میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار

تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے

طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول

میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا

رقص کرتا رہے ، بھرتا رہے خوشبو کا خمار

میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا

تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن

میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی

تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی

چارۂ زخمِ غمِ دیدۂ تر کر نہ سکی

تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ

آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے

تو کہ سیماب طبیعت ہے تجھے کیا معلوم

موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے

تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں

دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں

اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی

یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں

مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب

تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں

یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے

جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں !

***






ابھی کیا کہیں۔۔۔۔ ابھی کیا سنیں۔۔۔؟

ابھی کیا کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کیا سنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

کہ سر ِ فصیل ِ سکوت ِ جاں

کف ِ روز و شب پہ شرر نما

وہ جو حرف حرف چراغ تھا

اسے کس ہوا نے بجھا دیا ؟

کبھی لب ہلیں گے تو پوچھنا!

سر ِ شہر ِ عہد ِ وصال ِ دل

وہ جو نکہتوں کا ہجوم تھا

اسے دست ِ موج ِ فراق نے

تہ ِ خاک کب سے ملا دیا ؟

کبھی گل کھلیں گے تو پوچھنا!

ابی کیا کہیں ۔۔۔ ابھی کیا سنیں؟

یونہی خواہشوں کے فشار میں

کبھی بے سبب ۔۔۔ کبھی بے خلل

کہاں، کون کس سے بچھڑ گیا ؟

کسے ، کس نے کیسے بھلا دیا ؟

کبھی پھر ملیں گے تو پوچھنا۔۔!

***

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا

رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی

اس رات دیر تک وہ رہا محوِ گفتگو

مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی

سنتا تھا میں بھی سب سے پرانی کہانیاں

تازہ رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص

حالانکہ شہر بھر سے رقابت اسے بھی تھی

وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا

ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

***






یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں،

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں،

جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے

جب دل میں داغ چمکتے تھے

جب پلکیں شہر کے رستوں میں

اشکوں کا نور لٹاتی تھیں،

جب سانسیں اجلے چہروں کی

تن من میں پھول سجاتی تھیں

جب چاند کی رم جھم کرنوں سے

سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے

جب ایک تلاطم رہتا تھا !

اپنے بے انت خیالوں میں

ہر عہد نبھانے کی قسمیں

خط، خون سے لکھنے کی رسمیں

جب عام تھیں ہم دل والوں میں

اب اپنی اجڑی آنکھوں میں

جتنی روشن سی راتیں ہیں،

اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں

جس عمر کے خواب خیال ہوئے

وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی

وہ عمر بتائے سال ہوئے

اب اپنی دید کے رستے میں

کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا

کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں،

کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں

کچھ یادوں کی برساتیں ہیں

پچھلے عشق کی باتیں ہیں !

***

رہتے تھے پستیوں میں مگر خود پسند تھے

ہم لوگ اِس لحاظ سے کتنے بلند تھے

آخر کو سو گئی کھلی گلیوں میں چاندنی

کل شب تمام شہر کے دروازے بند تھے

گزرے تو ہنستے شہر کو نمناک کر گئے

جھونکے ہوائے شب کے بڑے درد مند تھے

موسم نے بال و پر تو سنوارے بہت مگر

اُڑتے کہاں کہ ہم تو اسیرِ کمند تھے

وہ ایک تو کہ ہم کو مٹا کر تھا مطمئن

وہ ایک ہم کے پھر بھی حریصِ گزند تھے

محسن ریا کے نام پہ ساتھی تھے بے شمار

جن میں تھا کچھ خلوص وہ دشمن بھی چند تھے

***

بہار کیا، اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے تو کچھ نہ پائے

میں برگِ صحرا ہوں ، یوں بھی مجھ کو ہَوا اُڑائے تو کچھ نہ پائے

میں پستیوں میں پڑا ہوا ہوں، زمیں کے ملبوس میں جڑا ہوں

مثالِ نقشِ قدم پڑا ہوں، کوئی مٹائے ، تو کچھ نہ پائے

تمام رسمیں ہی توڑ دی ہیں، کہ میں نے آنکھیں ہی پھوڑ دی ہیں

زمانہ اب مجھ کو آئینہ بھی، مرا دکھائے تو کچھ نہ پائے

عجیب خواہش ہے میرے دل میں، کبھی تو میری صدا کو سن کر

نظر جھکائے تو خوف کھائے ، نظر اُٹھائے تو کچھ نہ پائے

میں اپنی بے مائیگی چھپا کر، کواڑ اپنے کھلے رکھوں گا

کہ میرے گھر میں اداس موسم کی شام آئے تو کچھ نہ پائے

تو آشنا ہے نہ اجنبی ہے ، ترا مرا پیار سرسری ہے

مگر یہ کیا رسمِ دوستی ہے ، تو روٹھ جائے تو کچھ نہ پائے ؟

اُسے گنوا کر پھر اس کو پانے کا شوق دل میں تو یوں ہے محسن

کہ جیسے پانی پہ دائرہ سا، کوئی بنائے تو کچھ نہ پائے

***

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے

خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر

اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب!

میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے

ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر

برہم نہ ہو کم فہمیِ کوتہ نظراں پر

اے قامتِ فن اپنی بلندی کا گِلا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے

تُو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر!

میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں

اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر

پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم

اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر

اِس رُت میں کہاں پھول کھلیں گے دلِ ناداں

زخموں کو ہی وابستۂ زنجیرِ صبا کر

اِک رُوح کی فریاد نے چونکا دیا مجھ کو

تُو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر

اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

***

بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے

نہ اپنے زخم ہی مہکے ، نہ دل کے چاک سلے

کہاں تلک کوئی ڈھونڈے مسافروں کا سراغ

بچھڑنے والوں کا کیا ہے ، ملے ملے نہ ملے

عجیب قحط کا موسم تھا اب کے بستی میں

کیے ہیں بانجھ زمینوں سے بارشوں نے گِلے

یہ حادثہ سرِ ساحل رُلا گیا سب کو

بھنور میں ڈوبنے والوں کے ہاتھ بھی نہ ملے

سناں کی نوک، کبھی شاخِ دار پہ محسن

سخنوروں کو ملے ہیں مشقتوں کے صلے

***

یہ دل یہ پاگل دل میرا کیاں بجھ گیا! آوارگی

اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا

میں نے کہا! تُو کون ہے ؟ اُس نے کہا! آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب

صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا! آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر

ہم لوگ تو اُکتا گئے ، اپنی سُنا! آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں

محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

یہ دل یہ پاگل دل میرا کیاں بجھ گیا! آوارگی

اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا

میں نے کہا! تُو کون ہے ؟ اُس نے کہا! آوارگی

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا میرے غم کا سبب

صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا! آوارگی

یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر

ہم لوگ تو اُکتا گئے ، اپنی سُنا! آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں

محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا آوارگی

***

اِتنی مُدّت بعد ملے ہو

کن سوچوں میں گم رہتے ہو؟

اِتنے خائف کیوں رہتے ہو؟

ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو

تیز ہَوا نے مجھ سے پوچھا

ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟

کاش کوئی ہم سے بھی پوچ ہے

رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟

میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں

تم دریا سے بھی گہرے ہو!

کون سی بات ہے تم میں ایسی

اِتنے اچھّے کیوں لگتے ہو؟

پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا تھا

ّپتھر بن کر کیا تکتے ہو

جاؤ جیت کا جشن مناؤ!

میں جھوٹا ہوں، تم سچّے ہو

اپنے شہر کے سب لوگوں سے

میری خاطر کیوں اُلجھے ہو؟

کہنے کو رہتے ہو دل میں!

پھر بھی کتنے دُور کھڑے ہو

رات ہمیں کچھ یاد نہیں تھا

رات بہت ہی یاد آئے ہو

ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصّے

اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟

محسن تم بدنام بہت ہو

جیسے ہو، پھر بھی اچھّے ہو

***

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ

میں بھی اُڑتا رہا اک لمحۂ بے خواب کے ساتھ

کس میں ہمت ہے کہ بدنام ہو سائے کی طرح

کون آوارہ پھرے جاگتے مہتاب کے ساتھ

آج کچھ زخم نیا لہجہ بدل کر آئے

آج کچھ لوگ نئے مل گئے احباب کے ساتھ

سینکڑوں ابر اندھیرے کو بڑھائیں گے لیکن

چاند منسوب نہ ہو کرمکِ شبِ تاب کے ساتھ

دل کو محروم نہ کر عکسِ جنوں سے محسن

کوئی ویرانہ بھی ہو قریۂ شاداب کے ساتھ

***

کب تلک شب کے اندھیرے میں شہر کو ترسے

وہ مسافر جو بھرے شہر میں گھر کو ترسے

آنکھ ٹھہرے ہوئے پانی سے بھی کتراتی ہے

دل وہ راہرو کہ سمندر کے سفر کو ترسے

مجھ کو اس قحط کے موسم سے بچا ربِ سخن

جب کوئی اہلِ ہُنر عرضِ ہُنر کو ترسے

اب کے اس طور مسلط ہوا اندھیرا ہر سُو

ہجر کی رات میرے دیدۂ تر کو ترسے

عمر اتنی تو میرے فن کو عطا کر خالق

میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

اس کو پا کر بھی اسے ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں

جیسے پانی میں کوئی سیپ گُہر کو ترسے

ناشناسائی کے موسم کا اثر تو دیکھو

آئینہ خال و خدِ آئینہ گر کو ترسے

ایک دنیا ہے کہ بستی ہے تری آنکھوں میں

وہ تو ہم تھے جو تری ایک نظر کو ترسے

شورِ صرصر میں جو سر سبز رہی ہے محسن

موسمِ گُل میں وہی شاخ ثمر کو ترسے






کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!

کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کہ لہو کی ساری تمازتیں

تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں

تمہں رنگ رنگ نکھار دیں

تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں

تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو

تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو

مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کہ دل و نظر میں اُتر سکو

کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑ ہے

تو حواس بن کے بکھر سکو

کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں

کبھی خونِ جگر میں سنور سکو

سرِ رہگزر جو ملو کبھی

نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو

مرا درد پھر سے غزل بنے

کبھی گنگناؤ تو اس طرح

مرے زخم پھر سے گلاب ہوں

کبھی مسکراؤ تو اس طرح

مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں

کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح

جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے

سبھی رابطے سبھی ضابطے

کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو

نہ شکستِ دل کا ستم سہو

نہ سنو کسی کا عذابِ جاں

نہ کسی سے اپنی خلش کہو

یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو

نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں

کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح

نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں

کبھی بھول جاؤ تو اس طرح

کسی طور جاں سے گزر سکیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!

کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!

***

اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں

کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں

کیوں تیرے درد کو دیں تہمتِ ویرانئ دل

زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑ جاتے ہیں

موسمِ زرد میں ایک دل کو بچاؤں کیسے

ایسی رُت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں

اب کوئی کیا میرے قدموں کے نِشاں ڈھونڈھے گا

تیز آندھی میں تو خیمے بھی اُکھڑ جاتے ہیں

شغلِ اربابِ ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ

ّپتھروں میں بھی کبھی آئینے جڑ جاتے ہیں

سوچ کا آئینہ دھُندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ

چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں

شِدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی

کچھ دیے تُند ہواؤں میں بھی لڑ جاتے ہیں

وہ بھی کیا لوگ ہیں محسنؔ جو وفا کی خاطر!

خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں

***

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی

حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی

اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا

ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی

حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں

جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی

حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر

آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی

سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں

آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی

وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر

اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی

محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس

حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی

***

مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں

سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں

وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں

وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں

صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو

کچھ سوالی بڑے خود دار ہُوا کرتے ہیں

وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں

اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں

صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے ،

وہ ستاروں کے عزا دار ہُوا کرتے ہیں

جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں

در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں

شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسنؔ

دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں

***






میرے نام سے پہلے ۔۔۔۔۔۔۔

اب کے اُس کی آنکھوں میں

بے سبب اداسی تھی

اب کے اُس کے چہرے پر

دُکھ تھا ۔۔۔۔ بے حواسی تھی

اب کے یوں ملا مجھ سے

یوں غزل سنی ۔۔۔۔۔ جیسے

میں بھی نا شناسا ہوں

وہ بھی اجنبی جیسے

زرد خال و خد اُس کے

سوگوار دامن تھا

اب کے اُس کے لہجے میں

کتنا کھردرا پن تھا

وہ کہ عمر بھر جس نے

شہر بھر کے لوگوں میں

مجھ کو ہم سخن جانا

خود سے مہرباں سمجھا

مجھ کو دلربا لکھا

اب کے سادہ کاغذ پر

سرخ روشنائی سے

اُس نے تلخ لہجے میں

میرے نام سے پہلے

صرف " بے وفا “ لکھا !!!!

***






میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی !!!!!!

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں

میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے

میرے حرفوں ، میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا

میرا فن اب میرا مذہب ، میرا ایمان بھی ہے

میر و غالب نہ سہی ، پھر بھی غنیمت جانو

میرے یاروں کے سِرہانے میرا دیوان بھی ہے

مجھ سے پوچھو کہ شکستِ دل و جاں سے پہلے

میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیا کیا

سایۂ دار و شبِ غم کی سخاوت سے الگ

میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا

میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے

میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا

طنزِ اغیار سے احباب کے اخلاص تلک

میں نے ہر نعمتِ عظمیٰ کا لبادہ پہنا

دستِ قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی

میں نے ہر زخم قبا سے بھی زیادہ پہنا

میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن

میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا

ضربتِ سنگِ ملامت میرے سینے پہ سجی

تمغۂ جرّات و اعزازِ حکومت کی طرح

کھُل کے برسی میری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا

آسمانوں سے اُترتی ہوئی دولت کی طرح

قریہ قریہ ہوئی رسوا میرے فن کی چاہت

کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح

میرے آنگن میں حوادث کی سواری اُتری

میرا دل وجہِ عذابِ در و دیوار ہوا

عشق میں عزّتِ سعادت بھلا کر اکثر

میر صاحب کی طرح میں بھی گناہ گار ہوا

اپنی اُجڑی ہوئی آنکھوں سے شعاعیں لے کر

میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے

اپنی غزلوں کے سُخن تاب ستارے چُن کر

سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے

حسنِ خاکِ رہِ یاراں سے محبت کر کے

میں نے ہر موڑ کو اِک تازہ کہانی دی ہے

مجھ سے روٹھے ہیں میرے اپنے قبیلے والے

میرے سینے میں ہر اِک تیرِ ستم ٹوٹا ہے

کربِ نا قدریِ یاراں کے بھنور میں گھِر کر

بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں

میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے

میرے اعدا کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو

میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے

مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا

جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی

میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے

وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی

میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا

میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!!!!

***

وہ دل کا برا نہ بے وفا تھا

بس مجھ سے یونہی بچھڑ گیا تھا

لفظوں کی حدوں سے ماوراء تھا

اب کس سے کہوں وہ شخص کیا تھا

وہ میری غزل کا آئینہ تھا

ہر شخص یہ بات جانتا تھا

ہر سمت اُسی کا تذکرہ تھا

ہر دل میں وہ جیسے بس رہا تھا

میں اُس کی انا کا آسرا تھا

وہ مجھ سے کبھی نہ روٹھتا تھا

میں دھوپ کے بن میں جل رہا تھا

وہ سایۂ ابر بن گیا تھا

میں بانجھ رتوں کا آشنا تھا

وہ موسمِ گُل کا ذائقہ تھا

اک بار بچھڑ کے جب ملا تھا

وہ مجھ سے لپٹ کے رو پڑا تھا

کیا کچھ نہ اُسے کہا گیا تھا

اُس نے تو لبوں کو سی لیا تھا

وہ چاند کا ہمسفر تھا شائد

راتوں کو تمام جاگتا تھا

ہونٹوں میں گُلوں کی نرم خوشبو

باتوں میں تو شہد گھولتا تھا

کہنے کو جدا تھا مجھ سے لیکن

وہ میری رگوں میں گونجتا تھا

اُس نے جو کہا کیا وہ دل نے

انکار کا کس میں حوصلہ تھا

یوں دل میں تھی یاد اُس کی جیسے

مسجد میں چراغ جل رہا تھا

مت پوچھ حجاب کے قرینے

وہ مجھ سے بھی کم ہی کُھل سکا تھا

اُس دن مرا دل بھی تھا پریشاں

وہ بھی میرے دل سے کچھ خفا تھا

میں بھی تھا ڈرا ہوا سا لیکن

رنگ اُس کا بھی کچھ اُڑا اُڑا تھا

اک خوف سا ہجر کی رتوں کا

دونوں پہ محیط ہو چلا تھا

اک راہ سے میں بھی تھا گریزاں

اک موڑ پہ وہ بھی رک گیا تھا

اک پل میں جھپک گئیں جو آنکھیں

منظر ہی نظر میں دوسرا تھا

سوچا تو ٹھہر گئے زمانے

دیکھا تو وہ دور جا چکا تھا

قدموں سے زمیں سرک گئی تھی

سورج کا بھی رنگ سانولا تھا

چلتے ہوئے لوگ رُک گئے تھے

ٹھہرا ہوا شہر گھومتا تھا

سہمے ہوئے پیڑ کانپتے تھے

پتّوں میں ہراس رینگتا تھا

رکھتا تھا میں جس میں خواب اپنے

وہ کانچ کا گھر چٹخ گیا تھا

ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا

احساس مگر جدا جدا تھا

کل شب وہ ملا تھا دوستوں

کہتے ہیں اداس لگ رہا تھا

محسن یہ غزل یہ کہہ رہی ہے

شائد ترا دل دُکھا ہوا تھا

***






چلو چھوڑو!

محبت جھوٹ ہے

عہدِ وفا شغل ہے بے کار لوگوں کا

طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے

خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے

چلو چھوڑو

کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ

چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا

مجھے احساس ہی کب تھا

کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے

چلو چھوڑو

میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے

تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو

تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو

میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو

پھر نیا مکتوب لکھو

پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو

میرے ماضی کی چاہت رائیگاں سمجھو

میری یادوں کے کچے رابطے توڑو

چلو چھوڑو

محبت جھوٹی ہے

عہدِ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا

٭٭٭

ٹائپنگ: منیر احمد طاہر (ہلا گلا اردو فورم:

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید


4.5 "8"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 3 تبصرے

حمزا
چین سے چلا قاصد خورشید نکلا شام میں دریا کی جو ٹوٹی کلائی زلف الجھی بام میں دو لام میں دو میم میں ،دومیم میں دو لام میں
آصٍف سراج خانزادہ
آپ کی کاوش سراہنے کے قابل ہے۔
سید علی رضا
Speechless

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔