بے کلی بے خودی کچھ آج نہیں
ایک مدت سے وہ مزاج نہیں
درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے
اب دوا کی کچھ احتیاج نہیں
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مَرَضِ عشق کا علاج نہیں
شہرِ خوبی کو خوب دیکھا میرؔ
جنسِ دل کا کہیں رواج نہیں
وحشت میں ہوں بَلاگر وادی پہ اپنی آؤں
مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں
ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رُلایا
اُس کی ستم ظریفی کس کے تئیں دکھاؤں
از خویش رفتہ ہر دم فکر وصال میں ہوں
کتنا میں کھویا جاؤں یا رب کہ تجھ کو پاؤں
عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی
تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تئیں چھپاؤں
آسودگی تو معلوم اے میرے جیتے جی یاں
آرام تب ہی پاؤں جب جی سے ہاتھ اُٹھاؤں
سوزشِ دل سے مفت گلتے ہیں
داغ جیسے چراغ جلتے ہیں
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں
بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں
جیسے دریا کہیں اُبلتے ہیں
دمِ آخر ہے بیٹھ جا مت جا
صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں
تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں
ایسے ڈوبے کہیں اُچھلتے ہیں!
فتنہ در سر بتانِ حشر خرام
ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں
نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں
سوتے سے اُٹھ کے آنکھ ملتے ہیں
شمع رُو موم کے بنے ہیں مگر
گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں
میرؔ صاحب کو دیکھیے جو بنے
اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں
آیا کمال نقص مرے دل کی تاب میں
جاتا ہے جی چلا ہی مرا اضطراب میں
دوزخ کیا ہے سینہ مرا سوزِ عشق سے
اس دل جلے ہوئے کے سبب ہوں عذاب میں
مت کر نگاہِ خشم یہی موت ہے مری
ساقی نہ زہر دے تُو مجھے تو شراب میں
دل لے کے رو بھی ٹک نہیں دیتے کہیں گے کیا
خوبانِ بد معاملہ یوم الحساب میں
جا کر درِ طبیب پہ بھی میں گرا ولے
جز آہ اُن نے کچھ نہ کیا میرے باب میں
(ق)
عیش و خوشی ہے شیب میں ہو گر پہ وہ کہاں
لذت جو ہے جوانی کے رنج و عباب میں
دیں عمرِ حضر موسمِ پیری میں تو نہ لے
مرنا ہی اس سے خوب ہے عہدِ شباب میں
(ق)
آ نکلے تھے جو حضرتِ میرؔ اس طرف کہیں
میں نے کیا سوال یہ اُن کے جناب میں
حضرت سنو تو میں بھی تعلق کروں کہیں
فرمانے لاگے رو کے یہ اس کے جواب میں
تُو جان ایک تجھ سے بھی آئے جو کل تھے یاں
ہیں آج صرف خاک جہانِ خراب میں
آوازہ ہی جہاں میں ہمارا سنا کرو
عنقا کے طور زیست ہے اپنا بنام یاں
مت کھا فریبِ عجز عزیزانِ حال کا
پنہاں کیے ہیں خاک میں یاروں نے دام یاں
کوئی ہوا نہ دست بسر شہرِ حسن میں
شاید نہیں ہے رسمِ جوابِ سلام یاں
ناکام رہنے ہی کا تمہیں غم ہے آج میرؔ
بہتوں کے کام ہو گئے ہیں کل تمام یاں
نہ گیا خیالِ زلفِ سیہِ جفا شعاراں
نہ ہوا کہ صبح ہووے شبِ تیرہ روزگاراں
ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباسِ سوگواراں
کہیں خاکِ کُو کو اُس کی تُو صبا نہ دیجو جنبش
کہ بھرے ہیں اس زمیں میں جگرِ جگر فگاراں
رکھے تاجِ زر کو سر پر چمنِ زمانہ میں گُل
نہ شگفتہ ہو تو اتنا کہ خزاں ہے یہ بہاراں
تُو جہاں سے دل اُٹھا یاں نہیں رسم دردمندی
کسی نے بھی یوں نہ پوچھا ہوئے خاک یاں ہزاراں
یہ سنا تھا میرؔ ہم نے کہ فسانہ خواب لائے
تری سرگزشت سن کر گئے اور خوابِ یاراں
اس کے کوچے سے جو اُٹھ اہلِ وفا جاتے ہیں
تا نظر کام کرے رُو بہ قفا جاتے ہیں
متصل روتے ہی رہیے تو بجھے آتشِ دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
وقتِ خوش اُن کا جو ہم بزم ہیں تیرے ہم تو
در و دیوار کو احوال سنا جاتے ہیں
جائے گی طاقتِ پا آہ تو کر لے گا کیا
اب تو ہم حال کبھو تم کو دکھا جاتے ہیں
ایک بیمارِ جدائی ہوں میں آپھی تِس پر
پوچھنے والے جدا جان کو کھا جاتے ہیں
میرؔ صاحب بھی ترے کوچے میں شب آتے ہیں لیک
جیسے دریوزہ گری کرنے گدا جاتے ہیں
جنسِ گراں کو تجھ سے جو لوگ چاہتے ہیں
وے روگ اپنے جی کو ناحق بساہتے ہیں
اس مے کدے میں ہم بھی مدت سے ہیں ولیکن
خمیازہ کھینچتے ہیں ہر دم جماہتے ہیں
ناموسِ دوستی سے گردن بندھی ہے اپنی
جیتے ہیں جب تلک ہم تب تک نباہتے ہیں
سہل اس قدر نہیں ہے مشکل پسندی میری
جو تجھ کو دیکھتے ہیں مجھ کو سراہتے ہیں
وے دن گئے کہ راتیں نالوں سے کاٹتے تھے
بے ڈول میرؔ صاحب اب کچھ کراہتے ہیں
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
جان و ایمان و محبت کو دعا کرتے ہیں
عشق آتش بھی جو دیوے تو نہ دم ماریں ہم
شمعِ تصویر ہیں خاموش جلا کرتے ہیں
اس کے کُوچے میں نہ کر شورِ قیامت کا ذکر
شیخ! یاں ایسے تو ہنگامے ہوا کرتے ہیں
بے بسی سے تو تری بزم میں ہم بہرے بنے
نیک و بد کوئی کہے بیٹھے سنا کرتے ہیں
رخصتِ جنبشِ لب عشق کی حیرت سے نہیں
مدتیں گزریں کہ ہم چپ ہی رہا کرتے ہیں
تو پری شیشے سے نازک ہے نہ کر دعویِ مہر
دل ہیں پتھر کے انھوں کے جو وفا کرتے ہیں
فرصتِ خواب نہیں ذکرِ بُتاں میں ہم کو
رات دن رام کہانی سی کہا کرتے ہیں
یہ زمانہ نہیں ایسا کہ کوئی زیست کرے
چاہتے ہیں جو بُرا اپنا بھلا کرتے ہیں
محض ناکارہ بھی مت جان ہمیں تُو کہ کہیں
ایسے ناکام بھی بے کار پھرا کرتے ہیں!
تجھ بن اس جانِ مصیبت زدہ غم دیدہ پہ ہم
کچھ نہیںکرتے تو افسوس کیا کرتے ہیں
کیا کہیں میرؔ جی ہم تم سے معاش اپنی غرض
غم کو کھایا کرے ہیں لوہو پیا کرتے ہیں
مستوجبِ ظلم و ستم و جور و جفا ہوں
ہر چند کہ جلتا ہوں پہ سرگرمِ وفا ہوں
آتے ہیں مجھے خوب سے دونوں ہنرِ عشق
رونے کے تئیں آندھی ہوں کُڑھنے کو بلا ہوں
اس گلشنِ دنیا میں شگفتہ نہ ہوا میں
ہوں غنچۂ افسردہ کہ مردودِ صبا ہوں
ہم چشم ہے ہر آبلۂ پا کا مرا اشک
ازبسکہ تری راہ میں آنکھوں سے چلا ہوں
دامن نہ جھٹک ہاتھ سے میرے کہ ستم گر
ہوں خاک سرِ راہ کوئی دم میں ہَوا ہوں
دل خواہ جلا اب تو مجھے اے شبِ ہجراں
میں سوختہ بھی منتظرِ روزِ جزا ہوں
گو طاقت و آرام خور و خواب گئے سب
بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں
اتنا ہی مجھے علم ہے کچھ میں بھی بہر چند
معلوم نہیں خوب مجھے بھی کہ میں کیا ہوں
تب گرمِ سخن کہنے لگا ہوں میںکہ اک عمر
جوں شمع سرِ شام سے تا صبح جلا ہوں
سینہ تو کیا فضلِ الہی سے سبھی چاک
ہے وقتِ دعا میرؔ کہ اب دل کو لگا ہوں
یہ تُرک ہو کے خشن کج اگر کلاہ کریں
تو بوالہوس نہ کبھو چشم کو سیاہ کریں
تمہیں بھی چاہیے ہے کچھ تو پاس چاہت کا
ہم اپنی اور سے یوں کب تلک نباہ کریں
ہوائے مے کدہ یہ ہے تو فوتِ وقت ہے ظلم
نماز چھوڑ دیں اب کوئی دن گناہ کریں
ہمیشہ کون تکلف ہے خوب رُویوں کا
گزار ناز سے ایدھر بھی گاہ گاہ کریں
اگر انھیں گے اسی حال سے تو کہیو تُو
جو روزِ حشر تجھی کو نہ عذر خواہ کریں
بڑی بلا ہیں ستم کشتہ محبت ہم
جو تیغ برسے تو سر کو نہ کچھ پناہ کریں
اگرچہ سہل ہیں پر دیدنی ہیں ہم بھی میرؔ
اِدھر کو یار تامل سے گر نگاہ کریں
راضی ہوں گو کہ بعد از صد سال و ماہ دیکھوں
اکثر نہیں تو تجھ کو میں گاہ گاہ دیکھوں
جی انتظار کش ہے آنکھوں میں رہ گزر پر
آ جا نظر کہ کب تک میں تیری راہ دیکھوں
آنکھیں جو کھُل رہی ہیں مرنے کے بعد میری
حسرت یہ تھی کہ اُس کو میں اک نگاہ دیکھوں
یہ دل وہ جا ہے جس میں دیکھا تھا تجھ کو بستے
کن آنکھوں سے اب اُجڑا اس گھر کو آہ دیکھوں
چشم و دل و جگر یہ سارے ہوئے پریشاں
کس کس کی تیرے غم میں حالت تباہ دیکھوں
آنکھیں تو تُو نے دی ہیں اے جرم بخشِ عالم
کیا تیری رحمت آگے اپنے گناہ دیکھوں
مشہور ہیں دلوں کی مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دلِ شب کی زاریاں
چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دست کاریاں
سو بار ہم نے گُل کے گئے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آبِ چشم سے راتوں کو کیاریاں
تُربت سے عاشقوں کی نہ اُٹھا کبھو غبار
جی سے گئے ولے نہ گئیں راز داریاں
اب کس کس اپنی خواہشِ مردہ کو روئیے
تھیں ہم کو اُس سے سینکڑوں اُمیدواریاں
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
کیا جانتے تھے ایسے دن آ جائیں گے شتاب
روتے گزرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں
گل نے ہزار رنگِ سخن سر کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں
جاؤ گے بھول عہد کو فر ہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں
بچ جاتا ایک رات جو کٹ جاتی اور میرؔ
کاٹیں تھیں کوہ کن نے بہت راتیں بھاریاں
گر کچھ ہو دردِ آئنہ یوں چرخِ زشت میں
ان صورتوں کو صرف کرے خاک و خشت میں
رکھتا ہے سوز عشق سے دوزخ میں میں روز و شب
لے جائے گا یہ سوختہ دل کیا بہشت میں
آسودہ کیوں کہ ہوں میں کہ مانندِ گرد باد
آوارگی تمام ہے میری سرشت میں
کب تک خرابِ سعیِ طواف حرم رہوں
دل کو اُٹھا کے بیٹھ رہوں گا کُنشت میں
ماتم کے ہوں زمیں پہ خرمن تو کیا عجب
ہوتا ہے نیل چرخ کی اس سبز کشت میں
نامے کو چاک کر کے کرے نامہ بر کو قتل
کیا یہ لکھا تھا میرؔ مری سرنوشت میں!
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
رنگ رُو جس کے کبھی منھ نہ چڑھا میں ہی ہوں
اپنے کوُچے میں فغاں جس کی سنو ہو ہر رات
دو جگر سوختہ و سینہ جلا میں ہی ہوں
خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دکھلایا
اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں
میں یہ کہتا تھا کہ دل جن نے لیا کون ہے وہ
یک بہ یک بول اُٹھا اس طرف آ میں ہی ہوں
جب کہا میں نے کہ تُو ہی ہے ؟ تو پھر کہنے لگا
کیا کرے گا تُو مرا دیکھوں تو جا میں ہی ہوں
میرؔ آوارۂ عالم جو سنا ہے تُو نے
خاک آلودہ وہ اے بادِ صبا میں ہی ہوں
کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے
میرؔ! وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں
نکلے ہے جنسِ حسن کسی کاروان میں
یہ وہ نہیں متاع کہ ہو ہر دکان میں
جاتا ہے اک ہجوم غم عشق جی کے ساتھ
ہنگامہ لے چلے ہیں ہم اُس بھی جہان میں
یا رب کوئی تو واسطہ سرگشتگی کا ہے
یک عمر بھر رہا ہے تمام آسمان میں
ہم اُس سے آہ سوزِ دل اپنا نہ کہہ سکے
تھے آتشِ دروں سے پھپھولے زبان میں
(ق)
غم کھینچنے کو کچھ تو توانائی چاہیے
سو یاں نہ دل میں تاب نہ طاقت ہے جان میں
غافل نہ رہیو ہم سے کہ ہم وے نہیں رہے
ہوتا ہے اب تو حال عجب ایک آن میں
وے دن گئے کہ آتشِ غم دل میں تھی نہاں
سوزش ہی ہے ابھی تو ہر اک استخوان میں
دل نذر و دیدہ پیش کش اے باعثِ حیات
سچ کہہ کہ جی لگے ہے ترا کس مکان میں
پھاڑا ہزار جا سے گریبان۔ صبر میرؔ
کیا کہہ گئی نسیم سحر گُل کے کان میں
زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں
بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں
نہ کھول اے یار! میرا گور میں منھ
کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں
رکھا کر ہاتھ دل پر آہ کرتے
نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں
نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی
مسافر ہی رہے اکثر وطن میں
خرد مندی ہوئی زنجیر ورنہ
گزرتی خوب تھی دیوانے پن میں
کہاں عاجز سخن قادر سخن ہوں
ہمیں ہے شبہہ یاروں کے سخن میں
تُو گلی میں اس کی جا آ ولے اے صبا نہ چنداں
کہ گڑے ہوئے پھر اُکھڑیں دلِ چاک درد منداں
ترے تیرِ ناز کے جو یہ ہدف ہوئے ہیں ظالم
مگر آہنی توے ہیں جگرِ نیاز منداں
میں صفا کیا دل اتنا کہ دکھائی دیوے منھ بھی
ولے مفت اس آئنے کو نہیں لیتے خود پسنداں
کھُلیں آنکھیں میں جو دیکھا سو غم اور چشمِ گریاں
کسے کہتے ہیں نہ جانا دلِ شاد و رُوئے خنداں
تُو زبوں شکار تو تھا ولے میرؔ قتل گہ میں
ترے خوں سے ہیں حنائی کفِ پائے صید بنداں
جن کے لیے اپنے تو یوں جان نکلتے ہیں
اس راہ میں وے جیسے اَن جان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھونا جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
(ق)
جاگہ سے بھی جاتے ہو منھ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ زویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہ گیں نہیں
اس غم کدے میں آہ دلِ خوش کہیں نہیں
ماتھا کیا ہے صرفِ سجودِ درِ بُتاں
مانند ماہِ نو کے مری اب جبیں نہیں
فکرِ بلند سے میں کیا آسماں اسے
ہر اک سے میرؔ خوب ہو یہ وہ زمیں نہیں
دعوے کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
اس ریختے کو ورنہ ہم خوب کر چکے ہیں
مرنے سے تم ہمارے خاطر نچنت رکھیو
اس کام کا بھی ہم کچھ اسلوب کر چکے ہیں
حسنِ کلام کھینچے کیوں کر نہ دامنِ دل
اس کام کو ہم آخر محبوب کر چکے ہیں
ہنگامۂ قیامت تازہ نہیں جو ہو گا
ہم اس طرح کے کتنے آشوب کر چکے ہیں
رنگِ پریدہ قاصد بادِ سحر کبوتر
کس کس کے ہم حوالے مکتوب کر چکے ہیں
کیا جانیے کہ کیا ہے اے میرؔ وجہ ضد کی
سو بار ہم تو اس کو محجوب کر چکے ہیں
تلوار غرقِ خوں ہے آنکھیں گلابیاں ہیں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ بد شرابیاں ہیں
جب لے نقاب منھ پر تب دید کر کہ کیا کیا
درپردہ شوخیاں ہیں پھر بے حجابیاں ہیں
چاہے ہے آج ہوں میں ہفت آسماں کے اوپر
دل کے مزاج میں بھی کتنی شتابیان ہیں
جی بکھرے دل ڈہے ہے سر بھی گرا پڑے ہے
خانہ خراب تجھ بِن کیا کیا خرابیاں ہیں
مہمان میرؔ مت ہو خوانِ فلک پہ ہرگز؟
خالی یہ مہر و مہ کی دونوں رکابیاں ہیں
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں
عجز و نیاز اپنا اپنی طرف ہے سارا
اس مشتِ خاک کو ہم مسجود جانتے ہیں
صورت پذیر ہم بِن ہرگز نہیں وے معنے
اہلِ نظر ہمیں کو معبود جانتے ہیں
عشق اُن کی عقل کو ہے جو ماسوا ہمارے
ناچیز جانتے ہیں نابود جانتے ہیں
اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے
اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں
یا رب کسے ہے نامہ ہر غنچہ اس چمن کا
راہِ وفا کو ہم تو مسدود جانتے ہیں
مر کر بھی ہاتھ آوے تو میرؔ مفت ہی وہ
جی کے زیان کو بھی ہم سود جانتے ہیں
سن گوشِ دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
مذکور کر چکا ہے مرا حال ہر کہیں
اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں!
اطرافِ باغ ہوں گے پڑے مُشتِ پر کہیں
عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
مرنا پڑا ہے ہم کو خدا سے تو ڈر کہیں
(ق)
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں مَیں
آشفتہ طبع میرؔ کو پایا اگر کہیں
سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو
جاتا تھا اضطراب زدہ سا اُدھر کہیں
لگ چل کے میں برنگِ صبا یہ اُسے کہا
کاے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں!
آشفتہ جا بجا جو پھرے ہے تُو دشت میں
جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں
خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر
رکھ ٹک تو اپنے حال کو مدِّ نظر کہیں
آسودگی سے جنس کو کرتا ہے کون سوخت
جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں!
موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف
یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لختِ جگر کہیں
تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی
اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی، مر کہیں
کہنے لگا وہ ہو کے پُر آشفتہ یک بہ یک
مسکن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں!
آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں
مت کہیو ایسی بات تُو بارِ دگر کہیں
تعیینِ جا کو بھول گیا ہوں، پہ یہ ہے یاد
کہتا تھا ایک روز یہ اہلِ نظر کہیں
بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اُٹھا
کرتا ہے جائے باش کوئی رہ گزر کہیں!
کتنے ہی آئے لے کے سرِ پُر خیال پر
ایسے گئے کہ کچھ نہیں اُس کا اثر کہیں
اب کچھ ہمارے حال پہ تم کو نظر نہیں
یعنی تمہاری ہم سے وے آنکھیں نہیں رہیں
اُس بزم کے چراغ بجھے تھے جو یار میرؔ
اُن کے فروغِ باغ ہیں گُل ہو کہیں کہیں
میں پھاڑ گریباں کو درویش ہوا آخر
وے ہاتھ سے دامن کو اب تک بھی جھٹکتے ہیں
تو طرۂ جاناں سے چاہے ہے ابھی مقصد
برسوں سے پڑے ہم تو اے میرؔ! لٹکتے ہیں
سب خوبیاں ہیں شیخ مشیخت پناہ میں
پر ایک حیلہ سازی ہے اُس دستِ گاہ میں
مانند شمع ہم نے حضور اپنے یار کے
کارِ وفا تمام کیا ایک آہ میں
میں صید جو ہوا تو ندامت اُسے ہوئی
اک قطرہ خون بھی نہ گرا صید گاہ میں
پہنچے نہیں کہیں کہ نہیں واں سے اُٹھ چلے
القصّہ ایک عمر سے ہم ہیں گے راہ میں
نکلا تھا آستین سے کل مغبچے کا ہاتھ
بہتوں کے خرقے چاک ہوئے خانقاہ میں
بختِ سیہ تو دیکھو کہ ہم خاک میں ملے
سرمے کی جائے ہو تری چشمِ سیاہ میں
بیٹھے تھے میرؔ یار کے دیدار کو سو ہم
اپنا یہ حال کر کے اُٹھے اک نگاہ میں
کیا جو عرض کہ دل سا شکار لایا ہوں
کہا کہ ایسے تو میں مفت مار لایا ہوں
کہے تو نخلِ صنوبر ہوں اس چمن میں مَیں
کہ سر سے پاؤں تلک دل ہی بار لایا ہوں
نہ تنگ کر اسے اے فکرِ روزگار کہ میں
دل اُس سے دم کے لیے مستعار لایا ہوں
پھر اختیار ہے آگے ترا یہ ہے مجبور
کہ دل کو تجھ تئیں بے اختیار لایا ہوں
چلا نہ اُٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میرؔ
ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں
جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب بُرائیاں دیکھیں
ترے وصال کے ہم شوق میں ہو آوارہ
عزیز دوست سبھوں کی جدائیاں دیکھیں
ہمیشہ مائلِ آئینہ ہی تجھے پایا
جو دیکھیں ہم نے یہی خود نمائیاں دیکھیں
شہاں کہ کحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
اُنھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
بنی نہ اپنی تو اُس جنگ جُو سے ہرگز میرؔ
لڑائیں جب سے ہم آنکھیں لڑائیاں دیکھیں
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
سرو و قمری شکار ہوتے ہیں
تیرے بالوں کے وصف میں میرے
شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں
آؤ یادِ بُتاں پہ بھول نہ جاؤ
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں
صدقے ہو لے ویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں
ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں
اُس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میرؔ جی یوں ہی خوار ہوتے ہیں
کیا میں نے رو کر فشارِ گریباں
رگِ ابر تھا تار تارِ گریباں
نشاں اشکِ خونیں کے اُڑتے چلے ہیں
خزاں ہو چلی ہے بہارِ گریباں
جنوں تیری منت ہے مجھ پر کہ تُو نے
نہ رکھا مرے سر پہ بارِ گریباں
کہیں جائے یہ دورِ دامن بھی جلدی
کہ آخر ہوا روزگارِ گریباں
پھروں میرؔ عریاں نہ دامن کا غم ہو
نہ باقی رہے خار خارِ گریباں
وے جو حسن و جمال رکھتے ہیں
سارے تیرا خیال رکھتے ہیں
گُل ترے روزگارِ خوبی میں
منھ طمانچوں سے لال رکھتے ہیں
دہنِ تنگ کے ترے مشتاق
آرزوئے محال رکھتے ہیں
اہلِ دل چشم سب تری جانب
آئنے کی مثال رکھتے ہیں
خاکِ آدم ہی ہے تمام زمین
پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں
یہ جو سر کھینچے تو قیامت ہے
دل کو ہم پائمال رکھتے ہیں
گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
میرؔ جی بھی کمال رکھتے ہیں
صبر و طاقت کو کڑھوں یا خوش دلی کا غم کروں
اس میں حیراں ہوں بہت کس کس کا میں ماتم کروں
موسمِ حیرت ہے دل بھر کر تو رونا مل چکا
اتنے بھی آنسو بہم پہنچیں کہ مژگاں نم کروں
ہوں سیہ مستِ سرِ زلفِ صنم معذور رکھ
شیخ اگر کعبے سے آوے گفتگو درہم کروں
ریزۂ الماس یا مشتِ نمک ہے کیا بُرا
جو میں اپنے ایسے زخمِ سینہ کو مرہم کروں
گرچہ کس گنتی میں ہوں پر ایک دم مجھ تک تو آ
یا ادھر ہوں یا اُدھر کب تک شمارِ دم کروں
بس بہت رسوا ہوا میں اب نہیں مقدور کچھ
وہ طرح ڈھونڈوں ہوں جس میں ربط تجھ سے کم کروں
گو دھواں اُٹھنے لگا دل سے مرے پُر پیچ و تاب
میرؔ اس پر قطعِ ربطِ زلفِ خم در خم کروں
***
بارہا وعدوں کی راتیں آئیاں
طالعوں نے صبح کر دکھلائیاں
عشق میں ایذائیں سب سے پائیاں
رہ گئے آنسو تو آنکھیں آئیاں
نونہال آگے ترے ہیں جیسی ہوں
ڈالیاں ٹوٹی ہوئیں مرجھائیاں
ایک بھی چشمک نہ اُس مہ کی سی کی
آنکھیں تاروں نے بہت جھمکائیاں
ایک نے صورت نہ پکڑی پیشِ یار
دل میں شکلیں سیکڑوں ٹھہرائیاں
بوسہ لینے کا کیا جس دم سوال
اُن نے باتیں ہی ہمیں بتلائیاں
مضطرب ہو کر کیا سب میں سبک
دل نے آخر خِفّتیں دلوائیاں
روکشی کی اس کو منھ بھی چاہئے
ماہ کے چہرے پہ ہیں سب جھائیاں
چل چمن میں یہ بھی ہے کوئی روش
ناز تاکے ! چند بے پروائیاں
شوقِ قامت میں ترے اے نونہال
گُل کی شاخیں لیتی ہیں انگڑائیاں
پاس مجھ کو بھی نہیں ہے میرؔ اب
دُور پہنچی ہیں مری رسوائیاں
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیاں ہیں
اب ہم نے بھی کسو سے آنکھیں لڑائیاں ہیں
ٹک سن کہ سو برس کی ناموسِ خامشی کھو
دو چار دل کی باتیں اب منھ پہ آئیاں ہیں
ہم وے ہیں خوں گرفتہ ظالم جنھوں نے تیری
ابرو کی جنبش اُوپر تلواریں کھائیاں ہیں
آئینہ ہو کے صورت معنی سے ہے لبالب
رازِ نہانِ حق میں کیا خود نمائیاں ہیں
اب آنکھوں میں خوں دم بہ دم دیکھتے ہیں
نہ پوچھو جو کچھ رنگ ہم دیکھتے ہیں
جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد
ہمیں آ کے اُس کے قدم دیکھتے ہیں
گہے داغ رہتا ہے دل گہ جگر خوں
ان آنکھوں سے کیا کیا ستم دیکھتے ہیں
اگر جان آنکھوں میں اُس بِن ہے تو ہم
ابھی اور بھی کوئی دم دیکھتے ہیں
لکھیں حال کیا اُس کو حیرت سے ہم تو
گہے کاغذ و گہ قلم دیکھتے ہیں
وفا پیشگی قیس تک تھی بھی کچھ کچھ
اب اس طور کے لوگ کم دیکھتے ہیں
کہاں تک بھلا روؤ گے میرؔ صاحب!
اب آنکھوں کے گرد اک ورم دیکھتے ہیں
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں
جلوہ ہے مجھی سے لبِ دریائے سخن پر
صد رنگ مری موج ہے میں طبعِرواں ہوں
پنجہ ہے مرا پنجۂ خورشید میں ہر صبح
میں شانہ صفت سایہ روِ زلفِ بُتاں ہوں
دیکھا ہے مجھے جن نے سو دیوانہ ہے میرا
میں باعثِ آشفتگیِ طبعِ جہاں ہوں
تکلیف نہ کر آہ مجھے جنبشِ لب کی
میں صد سخن آغشتہ بہ خوں زیرِ زباں ہوں
ہوں زرد غمِ تازہ نہالانِ چمن سے
اس باغِ خزاں دیدہ میں مَیں برگِ خزاں ہوں
رکھتی ہے مجھے خواہشِ دل بسکہ پریشاں
درپے نہ ہو اس وقت خدا جانے کہاں ہوں
اک وہم نہیں بیش مری ہستئی موہوم
اس پر بھی تری خاطرِ نازک پہ گراں ہوں
خوش باشی و تنزیہ و تقدس تھی مجھے میرؔ
اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں
بہت ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
وہ کوئی اور ہیں جو اعتبار پاتے ہیں
نہ ہوویں شیفتہ کیوں اضطراب پر عاشق
کہ جی کو کھو کے دلِ بے قرار پاتے ہیں
وگرنہ خاک ہوئے کتنے ہی محبت میں
کسی کا بھی کہیں مشتِ غبار پاتے ہیں؟
عام حکمِ شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں
ٹک تو رہ اے بِنائے ہستی تُو
تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں
سر تلک آبِ تیغ میں ہوں غرق
اب تئیں آب آب کرتا ہوں
جی میں پھرتا ہے میرؔ وہ میرے
جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں
خاک میں لوٹتے تھے کل تجھ بن
آج لوہو میں ہم نہاتے ہیں
اے عدم ہونے والو! تم تو چلو
ہم بھی اب کوئی دم میں آتے ہیں
دیدہ و دل شتاب گم ہوں میرؔ
سر پہ آفت ہمیشہ لاتے ہیں
آتا ہے دل میں حالِ بد اپنا بھلا کہوں
پھر آ بھی آپ سوچ کے کہتا ہوں کیا کہوں
پروانہ پھر نہ شمع کی خاطر جلا کرے
گر بزم میں یہ اپنا ترا ماجرا کہوں
دل اور دیدہ باعثِ ایذا و نورِ عین
کس کے تئیں بُرا کہوں کس کو بھلا کہوں
نظر اے ابر اب مت آ، مبادا
کہیں میری بھی آنکھیں ڈبڈباویں
چلا مقدور سے غم میرؔ آگے
زمیں پھٹ جائے یا رب! ہم سماویں
مثالِ سایہ محبّت میں جال اپنا ہوں
تمھارے ساتھ گرفتارِ حال اپنا ہوٕں
اگرچہ نشّہ ہوں سب میں خمِ جہاں میں لیک
برنگِ مے عرقِ انفعال اپنا ہوں
مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک
میں نقشِ پا کی طرح پائمال اپنا ہوں
ترا ہے وہم کہ یہ ناتواں ہے جامے میں
وگرنہ میں نہیں اب اک خیال اپنا ہوں
بِلا ہوئی ہے مری گو کہ طبعِ روشن میرؔ
ہوں آفتاب و لیکن زوال اپنا ہوں
نہ اک یعقوب رویا اس الَم میں
کنواں اندھا ہوا یوسف کے غم میں
دیا عاشق نے جی تو عیب کیا ہے
یہی میرؔ اک ہنر ہوتا ہے ہم میں
کھو دیں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں
ہم سے تو کینے ہی کی ادائیں چلی گئیں
بے لطفیاں یہی یہی نا مہربانیاں
صحبت رکھا کیا وہ سفیہ و ضلال سے
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں
یہ بے قراریاں نہ کبھو اس نے دیکھیاں
جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں
مارا مجھے بھی سان کے غیروں میں اُن نے میرؔ
کیا خاک میں ملائیں مری جاں فشانیاں
تا پھونکیے نہ خرقۂ طامات کے تئیں؟
حسنِ قبول کیا ہو مناجات کے تئیں
کیفیّتیں اُٹھی ہیں یہ کب خانقاہ میں
بدنام کر رکھا ہے خرابات کے تئیں
ہم جانتے ہیں یا کہ دلِ آشنا زدہ
کہیے سو کس سے عشق کے حالات کے تئیں
اتنی بھی حرفِ ناشنوی غیر کے لیے
رکھ کان ٹک سنا بھی کرو بات کے تئیں
سید ہو یا چمار ہو اس جا وفا ہے شرط
کب عاشقی میں پوچھتے ہیں ذات کے تئیں
آخر کے یہ سلوک ہم اب تیرے دیکھ کر
کرتے ہیں یاد پہلی ملاقات کے تئیں
خوبی کو اس کے ساعدِ سیمیں کی دیکھ کر
صورت گروں نے کھینچ رکھا ہاتھ کے تئیں
انھوں نے میرؔ صاحب و قبلہ وَرَم کیا
حضرت! بُکا کیا نہ کرو رات کے تئیں
چاہتے ہیں یہ بُتاں ہم پہ کہ بیداد کریں
کس کے ہوں کس سے کہیں کس کنے فریاد کریں
ایک دم پر ہے بنا تیری سو آیا کہ نہیں
وہ کچھ اس زندگی میں کر کہ تجھے یاد کریں
کعبہ ہوتا ہے دوانوں کا مری گور سے دشت
مجھ سے دو اور گڑیں یاں تو سب آباد کریں
ہم تو راہب نہیں ہیں واقفِ رسمِ سجدہ
ہیں کدھر شیخِ حرم کچھ ہمیں ارشاد کریں
ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کریں
چاہیے اہلِ سخن میرؔ کو استاد کریں
ہجراں کی کوفت کھینچی بے دم سے ہو چلے ہیں
سر مار مار یعنی اب ہم بھی سو چلے ہیں
لبریزِ اشک آنکھیں ہر بات میں رہا کیں
رو رو کے کام اپنے سب ہم ڈبو چلے ہیں
جوئیں رہیں گی جاری گلشن میں ایک مدّت
سائے میں ہر شجر کے ہم زرد رو چلے ہیں
قطعِ طریق مشکل ہے عشق کا نہایت
وے میرؔ جانتے ہیں اس راہ جو چلے ہیں
جب دردِ دل کا کہنا میں دل میں ٹھانتا ہوں
کہتا ہے بِن سنے ہی میں خوب جانتا ہوں
ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی بندے میں کچھ رہا نہیں
بُوئے گُل اور رنگِ گُل دونوں ہیں دل کش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ دیکھتے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا اتنے غضب نہ ہو بُتاں!
مجھ کو خدانخواستہ تم سے تو کچھ گِلا نہیں
نالے کیا نہ کر سنا نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے میں نے تجھے کہا نہیں
چشمِ سفید و اشکِ سرخ آہ دلِ حزیں ہے یاں
شیشہ نہیں ہے مے نہیں ابر نہیں ہوا نہیں
ایک فقط ہے سادگی تِس پہ بلائے جاں ہے تُو
عشوہ کرشمہ کچھ نہیں آن نہیں ادا نہیں
آب و ہوائے ملکِ عشق تجربہ کی ہے میں بہت
کر کے دوائے دردِ دل کوئی بھی پھر جیا نہیں
نازِ بُتاں اُٹھا چکا دَیر کو میرؔ ترک کر!
کعبے میں جا کے رہ میاں تیرے مگر خدا نہیں
تجھ عشق میں تو مرنے کو تیار بہت ہیں
یہ جرم ہے تو ایسے گنہ گار بہت ہیں
کوئی تو زمرمہ کرے میرؔ آسا دل خراش
یوں تو قفس میں اور گرفتار بہت ہیں
خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں
آرزوئے جہان ہوتے ہیں
کبھو آتے ہیں آپ میں تجھ بن
گھر میں ہم میہمان ہوتے ہیں
دشت کے پھُوٹے مقبروں پہ نہ جا
روضے سب گلستان ہوتے ہیں
(ق)
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب
لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میرؔ و مرزا رفیع و خواجہ میرؔ
کتنے یہ اک جوان ہوتے ہیں
ایسے محروم گئے م تو گرفتارِ چمن
کہ موئے قید میں دیوار بہ دیوارِ چمن
خون ٹپکے ہے پڑا نوک سے ہر یک کی ہنوز
کس ستم دیدہ کی مژگاں ہیں تہِ خارِ چمن
باغباں ہم سے خشونت سے نہ پیش آیا کر
عاقبت نال کشاں بھی تو ہیں درکارِ چمن
کم نہیں ہے دلَ پُر داغ بھی اے مرغِ اسیر
گُل میں کیا ہے جو ہوا ہے تُو طلبگارِ چمن
دامن پہ تیرے گرد کا کیوںکر اثر نہیں
ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں
اتنا رقیب خانہ بر انداز سے سلوک
جب آ نکلتے ہیں تو سنے ہیں کہ گھر نہیں
دامان و جیب و دیدہ و مژگاں و آستین
اب کون سا رہا ہے کہ ان میں سے تر نہیں
ہر نقشِ پا ہے شوخ ترا رنگِ یاسمن
کم گوشۂ چمن سے ترا رہ گزر نہیں
آتا ہی تیرے کوچے میں ہوتا جو میرؔ یاں
کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
نہ چوبِ گُل نے دم مارا نہ چڑھیاں بید کی ہَلیاں
گریباں شورِ محشر کا اُڑایا دھجیاں کر کر
فغاں پر ناز کرتا ہوںکہ بل بے تیری ہتھ بَلیاں
تفاوت کچھ نہیں شیرین و شکّر اور یوسف میں
سبھی معشوق اگر پوچھے کوئی مصری کی ہیں ڈَلیاں
ترے غمزے نے جور و ظلم سے آنکھیں غزالوں کی
بیاباں میں دکھا مجنوں کو پاؤں کے تلے مَلیاں
چمن کو آج مارا ہے یہاں تک رشکِ گُل رُو نے
کہ بلبل سر پٹکتی ہے نہیں منھ کھولتیں کلیاں
صنم کی زلف میں کوچہ ہے سربستہ ہر اک مُو پر
نہ دیکھی ہوں گی تُو نے خضر یہ ظلمات میں گلیاں
دوانا ہو گیا تُو میرؔ آخر ریختہ کہہ کہہ
نہ کہتا تھا میں اے ظالم کہ یہ باتیں نہیں بھلیاں!
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمعِ روشن کے منھ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں لیک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
(ق)
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہِ طُور نہیں
سمجھ کر ذکر کر آسودگی کا مجھ سے اے ناصح!
یہ میں ہی ہوں کہ جس کو عافیت بیزار کہتے ہیں
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی، میں اس فرقے کا عاشق ہوں
کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اسرار کہتے ہیں
ساقی کی باغ پر جو کچھ کم نگاہیاں ہیں
مانندِ جام خالی گُل سب جماہیاں ہیں
تیغِ جفائے خوباں بے آب تھی کہ ہمدم!
زخمِ بدن ہمارے تفسیدہ ماہیاں ہیں
مسجد سے مے کدے پر کاش ابر روز برسے
واں رُو سفیدیاں ہیں یا رُوسیاہیاں ہیں
جس کی نظر پڑی ہے اُن نے مجھے بھی دیکھا
جب سے وہ شوخ آنکھیں میں نے سراہیاں ہیں
غالب تو یہ ہے زاہد رحمت سے دور ہووے
درکار واں گنہ ہیں یاں بے گناہیاں ہیں
شاہد لوں میرؔ کس کو اہلِ محلہ سے میں
محضر پہ خوں کی میرے سب کی گواہیاں ہیں
ایک پرواز کو بھی رخصتِ صیّاد نہیں
ورنہ یہ کنجِ قفَس بیضۂ فولاد نہیں
شیخ عزلت تو تہِ خاک بھی پہنچے گی بہم
مفت ہے سیر کہ یہ عالمِ ایجاد نہیں
داد لے چھوڑوں میں صیاد سے اپنے لیکن
ضعف سے میرے تئیں طاقتِ فریاد نہیں
کیا کہوں میرؔ فراموش کیا اُن نے تجھے
میں تو تقریب بھی کی پر تُو اُسے یاد نہیں
آ جائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں
یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں
ہم رہ روانِ راہِ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسانِ صبح کوئی دم بہت ہے یاں
اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے صورتِ آدم بہت ہے یاں
عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں
ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں
اعجازِ عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جانِ مجسّم بہت ہے یاں
میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو غم بہت ہے یاں
دل مت لگا رُخِ عرق آلودہ یار سے
آئینے کو اُٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں
شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میرؔ
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں
بات میں غیروں کی چپ کر دوں ولیکن کیا کروں
وہ سخن نشنو تنک میرا کہا کرتا نہیں
چھوٹنا ممکن نہیں اپنا قفس کی قید سے
مرغِ سیر آہنگ کو کوئی رہا کرتا نہیں
کیا کہوں پہنچا کہاں تک میرؔ اپنا کارِ شوق
یاں سے کس دن اک نیا قاصد چلا کرتا نہیں
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
اب دل گرفتگی سے آزار کھینچتے ہیں
بے طاقتی نے ہم کو چاروں طرف سے کھویا
تصدیع گھر میں بیٹھے ناچار کھینچتے ہیں
منصور کی حقیقت تم نے سنی ہی ہو گی
حق جو کہے ہے اُس کو یاں دار کھینچتے ہیں
شکوہ کروں تو کس سے کیا شیخ کیا برہمن
ناز اس بلائے جاں کے سب یار کھینچتے ہیں
ناوک سے میرؔ اُس کے دل بستگی تھی مجھ کو
پیکاں جگر کا میرے دشوار کھینچتے ہیں
سمجھا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
مانا کیا خدا کی طرح اِن بُتاں کو میں
گردش فلک کی کیا ہے جو دورِ قدح میں ہے
دیتا رہوں گا چرخِ مدام آسماں کو میں
عاشق ہے یا مریض ہے پوچھو تو میرؔ سے
پاتا ہوں زرد روز بہ روز اس جواں کو میں
کر نالہ کشی کب تئیں اوقات گزاریں
فریاد کریں کس سے کہاں جا کے پکاریں
ہر دم کا بگڑنا تو کچھ اب چھوٹا ہے اُن سے
شاید کسی ناکام کا بھی کام سنواریں
جس جاگہ خس و خار کے اب ڈھیر لگے ہیں
یاں ہم نے انھیں آنکھوں سے دیکھی ہیں بہاریں
وے ہونٹ کہ ہے شور مسیحائی کا جن کی
دم لیویں نہ دوچار کو تا جی سے نہ ماریں
منظور ہے کب سے سرِ شوریدہ کا دینا
چڑھ جائے نظر کوئی تو یہ بوجھ اتاریں
ناچار ہو رخصت جو منگا بھیجی تو بولا
میں کیا کروں جو میرؔ جی جاتے ہیں سدھاریں
یوں ہی حیران و خفا جوں غنچۂ تصویر ہوں
عمر گزری پر نہ جانا میں کہ کیوں دل گیر ہوں
نَے فلک پر راہ مجھ کو نے زمیں پر رو مجھے
ایسے کس محروم کا میں شورِ بے تاثیر ہوں
کھول کر دیوان میرا دیکھ قدرت مُدعی
گرچہ ہوں میں نو جواں پر شاعروں کا پیر ہوں
اتنی باتیں مت بنا مجھ شیفتے سے ناصحا
پند کے لائق نہیں میں قابلِ زنجیر ہوں
سرخ رہتی ہیں مری آنکھیں لہو رونے سے شیخ
مے اگر ثابت ہو مجھ پر، واجب التعزیر ہوں
اس قدر بے ننگ خبطوں کو نصیحت شیخ جی!
باز آؤ ورنہ اپنے نام کا میں میرؔ ہوں
کہے ہے کوہ کن کر فکر میری خستہ حالی میں
الٰہی شکر کرتا ہوں تری درگاہِ عالی میں
میں وہ پژمردہ سبزہ ہوں کہ ہو کر خاک سے سرزد
یکایک آگیا اس آسماں کی پائمالی میں
نگاہِ چشمِ پُر خشمِ بُتاں پر مت نظر رکھنا
ملا ہے زہر اے دل اس شرابِ پُرتگالی میں
شرابِ خون بن تڑپوں سے دل لبریز رہتا ہے
بھرے ہیں سنگ ریزے میں نے اس مینائے خالی میں
خلاف ان اور خوباں کے سدا یہ جی میں رہتا ہے
یہی تو میرؔ اک خوبی ہے معشوقِ خیالی میں
آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
روز برسات کی ہوا ہے یاں
گو کدورت سے وہ نہ دیوے رو
آرسی کی طرح صفا ہے یاں
(ق)
کیسے کیسے مکان ہیں ستھرے
اک ازاں جملہ کربلا ہے یاں
اک سسکتا ہے ایک مرتا ہے
ہر طرف ظلم ہو رہا ہے یاں
صد تمنّا شہید ہیں یک جا
سینہ کوبی ہے تعزیا ہے یاں
جس جگہ ہو زمین تفتہ سمجھ
کہ کوئی دل جلا گڑا ہے یاں
موت مجنوں کو بھی یہیں آئی
کوہ کن کل ہی مرگیا ہے یاں
ہے خبر شرط میرؔ سنتا ہے
تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں
جہاں اب خارزاریں ہو گئی ہیں
یہیں آگے بہاریں ہو گئی ہیں
جنوں میں خشک ہو رگ ہائے گردن
گریباں کی سی تاریں ہو گئیں ہیں
سنا جاتا ہے شہرِ عشق کے گِرد
مزاریں ہی مزاریں ہو گئی ہیں
اُسی دریائے خوبی کا ہے یہ شوق
کہ موجیں سب کناریں ہو گئی ہیں
خوش نہ آئی تمہاری چال ہمیں
یوں نہ کرنا تھا پائمال ہمیں
حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو
کبھو پاتے بھی ہو بحال ہمیں
کب تک اس تنگنا میں کھینچیے رنج
جی سے یا رب تو ہی نکال ہمیں
ترک سبزانِ شہر کریے اب
بس بہت کر چکے نہال ہمیں
وجہ کیا ہے کہ میرؔ منھ پہ ترے
نظر آتا ہے کچھ ملال ہمیں
نہ کیوں کے شیخ توکل کو اختیار کریں
زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں
گیا وہ زمزمۂ صبحِ فصلِ گُل بلبل
دعا نہ پہنچے چمن تک ہم اب ہزار کریں
تمام صید سرِ تیر جمع ہیں لیکن
نصیب اُس کے کہ جس کو ترا شکار کرے
تسلّی تو ہو دلِ بے قرار خوباں سے
یہ کاش ملنے نہ ملنے کا کچھ قرار کریں
ہمیں تو نزع میں شرمندہ آ کے اُن نے کیا
رہا ہے ایک رمق جی سو کیا نثار کریں
رہی سہی بھی گئی عمر تیرے پیچھے یار
یہ کہہ کہ آہ ترا کب تک انتظار کریں
ہوا ہوں خاکِ رہ اس واسطے کہ خوباں میرؔ
گزار گور پہ میری بھی ایک بار کریں
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدحِ شراب تجھ بن
نہ گلے سے میرے اُترے کبھو قطرہ آب تجھ بن
میں لہو پیوں ہوں غم میں عوضِ شراب ساقی
شبِ میغ ہو گئی ہے شبِ ماہ تاب تجھ بن
سبھی آتشیں ہیں نالے سبھی زمہریری آہیں
مری جان پر رہا ہے غرض اک عذاب تجھ بن
نہیں جیتے جی تو ممکن ہمیں تجھ بغیر سونا
مگر آں کہ مر کے کیجے تہِ خاک خواب تجھ بن
بُرے حال ہو کے مرتا جو درنگِ میرؔ کرتا
یہ بھلا ہوا ستم گر کہ مُوا شتاب تجھ بن
تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تئیں
سنّاہٹے میں باغ کے کچھ اُٹھتے ہیں نسیم
مرغِ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تئیں
تُو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب!
رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گُل سو زباں کے تئیں
ہم تو ہوئے تھے میرؔ سے اُس دن ہی نا اُمید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بُتاں کے تئیں
موئے سہتے سہتے جفا کاریاں
کوئی ہم سے سیکھے وفاداریاں
ہماری تو گزری اسی طور عمر
یہی نالہ کرنا یہی زاریاں
فرشتہ جہاں کام کرتا نہ تھا
مری آہ نے برچھیاں ماریاں
گیا جان سے یک جہاں ایک شوخ
نہ تجھ سے گئیں یہ دل آزاریاں
کہاں تک یہ تکلیفِ مالا یطاق
ہوئی مدتوں ناز برداریاں
خط و کاکل و زلف و انداز و ناز
ہوئیں دام رہ صد گرفتاریاں
کیا درد و غم نے مجھے نا اُمید
کہ مجنوں کو یہ ہی تھیں بیماریاں
تری آشنائی سے ہی حد ہوئی
بہت کی تھیں دنیا میں ہم یاریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!
کھنچیں میرؔ تجھ سے ہی یہ خواریاں
دن نہیں رات نہیں صبح نہیں شام نہیں
وقت ملنے کا مگر داخلِ ایام نہیں
مثلِ عنقا مجھے تم دُور سے سن لو ورنہ
ننگِ ہستی ہوں مری جائے بجز نام نہیں
راز پوشیِ محبت کے تئیں چاہیے ضبط
سو تو بے تابیِ دل بِن مجھے آرام نہیں
بے قراری جو کوئی دیکھے ہے سو کہتا ہے
کچھ تو ہے میرؔ کہ اک دم تجھے آرام نہیں
کیا ظلم کیا تعدی کیا جور کیا جفائیں
اس چرخ نے کیاں ہیں ہم سے بہت ادائیں
اک رنگِ گُل نے رہنا یاں یوں نہیںکیا ہے
اس گلشنِ جہاں میں ہیں مختلف ہوائیں
شب نالہ آسماں تک جی سخت کر کے پہنچا
تھیں نیم کشتۂ یاس اکثر مری دعائیں
ہے فرش عرش تک بھی قلبِ حزیں کا اپنے
اس تنگ گھر میں ہم نے دیکھی ہیں کیا فضائیں
رُو کش تو ہو ترا پر آئینے میں کہاں یہ
رعنائیاں، ادائیں، رنگینیاں، صفائیں
نازِ بتانِ سادہ اللہ اللہ اے میرؔ
ہم خط سے مٹ گئے پر اُن کے نہیں ہے بھائیں
آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں
تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں
برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو
دلکِ بے قرار رکھتے ہیں
غیر ہی موردِ عنایت ہے
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
نہ نگہ نے َ پیام، نَے وعدہ
نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں
ہم سے خوش زمزمہ کہاں، یوں تو
لب و لہجہ ہزار رکھتے ہیں
چوٹٹے دل کے ہیں بُتاں مشہور
بس یہی اعتبار رکھتے ہیں
پھر بھی کرتے ہیں میرؔ صاحب عشق
ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں
گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
رہِ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں
ہے اب کام دل جس پہ موقوف تو
وہ نالہ کہ جس میں اثر کچھ نہیں
رہا مائل اس سرو کا دل مرا
بجز جور جس سے ثمر کچھ نہیں
نہ کر اپنے محووں کا ہر گز سراغ
گئے گزرے بس اب خبر کچھ نہیں
کروں کیونکہ انکارِ عشق آہ میں
یہ رونا بھلا کیا ہے گر کچھ نہیں
کسو چشمے پہ دریا کے و یا اوپر نظر رکھیے
ہماری دیدۂ نم دیدہ کیا کچھ کم ہیں یہ دونوں
لبِ جاں بخش اُس کے مار ہی رکھتے ہیں عاشق کو
اگرچہ آب حیواں ہیں ولیکن سم ہیں یہ دونوں
نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر
ہمارے کشت و خوں میں متفّق باہم ہیں یہ دونوں
خدا جانے کہ دنیا میں ملیں اُس سے کہ عقبیٰ میں
مکاں تو میرؔ صاحب شہرۂ عالم ہیں یہ دونوں
لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اُس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مستِ شراب ہیں دونوں
پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمستِ خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کا ہے کہ لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھا دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیرِ بیاباں کو
نکالا سر سے میرے جائے مو خارِ مغیلاں کو
نہیں ہے بیدِ مجنوں گردشِ گردونِ گرداں نے
بنایا ہے شجر کیا جانیے کس مُو پریشاں کو
ہوئے تھے جیسے مر جاتے پر اب تو سخت حسرت ہے
کیا دشوار نادانی سے ہم نے کارِ آساں کو
تجھے گر چشمِ عبرت ہے تو آندھی اور بگولے سے
تماشا کر غبار افشانیِ خاکِ عزیزاں کو
بنے ناواقفِ شادی اگر ہم بزمِ عشرت میں
دہانِ زخمِ دل سمجھے جو دیکھا روئے خنداں کو
نہیں ریگِ رواں، مجنوں کے دل کی بے قراری نے
کیا ہے مضطرب ہر ذرۂ گردِ بیاباں کو
غرورِ ناز قاتل کو لیے جا ہے کوئی پوچھے
چلا تو سونپ کر کس کے تئیں اس صیدِ بے جاں کو
ہوا ہوں غنچۂ پژمردہ آخر فصل کا تجھ بِن
نہ دے برباد حسرت کشتۂ سرور گریباں کو
غم و اندوہ و بیتابی الم بے طاقتی حرماں
کہوں اے ہم نشیں! تا چند غم ہائے فراواں کو
مزاج اس وقت ہے اک مطلعِ تازہ پہ کچھ مائل
کہ بے فکرِ سخن بنتی نہیں ہرگز سخن داں کو
کسی کے واسطے رسوائے عالم ہو، یہ جی میں رکھ
کہ مارا جائے جو ظاہر کرے اس رازِ پنہاں کو
نسیمِ مصر کب آئی سواد شہرِ کنعاں کو
کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہائے حرماں کو
زبانِ نوحہ گر ہوں میں قضا نے کیا ملایا تھا
مری طینت میں یا رب سودۂ دل ہائے نالاں کو
کوئی کانٹا سرِ رہ کا ہماری خاک پر بس ہے
گُلِ گلزار کیا درکار ہے گورِ غریباں کو
یہ کیا جانوں ہوا سینے میں کیا اس دل کو اب ناصح
سحر خوں بستہ تو دیکھا تھا میں نے اپنی مژگاں کو
گُل و سنبل ہیں نیرنگِ قضا مت سرسری گزرے
کہ بگڑی زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو
صدائے آہ جیسی تِیر جی کے پار ہوتی ہے
کسو بے درد نے کھینچا کسو کے دل سے پیکاں کو
کریں بالِ ملک فرشِ رہ اس ساعت کہ محشر میں
لہو ڈوبا کفن لاویں شہیدِ نازِ خوباں کو
کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے
کسو دیوار کے سائے میں منھ پر لے کے داماں کو
تری ہی جستجو میں گم ہوا ہے کہہ کہاں کھویا
جگر خوں گشتہ دل آزردہ میرؔ اُس خانہ ویراں کو
خط لکھ کے کوئی سادہ نہ اس کو ملول ہو
ہم تو ہوں بدگمان جو قاصد رسول ہو
چاہوں تو بھر کے کولی اُٹھا لوں ابھی تمہیں
کیسے ہی بھاری ہو مرے آگے تو پھول ہو
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
ناکام اس لیے ہو کہ چاہو ہو سب کچھ آج
تم بھی تو میرؔ صاحبِ قبلہ عجول ہو
قد کھینچے ہے جس وقت تو ہے طرفہ بلا تُو
کہتا ہے ترا سایہ پری سے کہ ہے کیا تُو
گر اپنی روش راہ چلا یار تو اے کبک
رہ جائے گا دیوارِ گلستاں سے لگا تو
بے گُل نہیں بلبل تجھے بھی چین پہ دیکھیں
مر رہتے ہیں ہم ایک طرف باغ میں یا تُو
خوش رُو ہے بہت اے گلِ تر تُو بھی ولیکن
انصاف ہے منھ تیرے ہی ویسا ہے بھلا تُو
کیا جانیے اے گوہرِ مقصد تُو کہاں ہے
ہم خاک میں بھی مل گئے لیکن نہ ملا تو
اس جینے سے اب دل کو اُٹھا بیٹھیں گے ہم بھی
ہے تجھ کو قسم ظلم سے مت ہاتھ اُٹھا تُو
منظر میں بدن کے بھی یہ اک طرفہ مکاں تھا
افسوس کہ ٹک دل میں ہمارے نہ رہا تُو
تھے چاک گریبان گلستاں میں گُلوں کے
نکلا ہے مگر کھولے ہوئے بندِ قبا تُو
بے ہوشی سی آتی ہے تجھے اُس کی گلی میں
گر ہو سکے اے میرؔ تو اس راہ نہ جا تُو
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اُس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو
خط سے نکلے ہے بے وفائیِ حُسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو
شیخ و پیرِ مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو
سادگی دیکھ عشق میں اُس کی
خواہشِ جان شاد ہے ہم کو
بدگمانی سے جس سے تِس سے آہ
قصدِ شور و فساد ہے ہم کو
دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو
ہنوز طفل ہے وہ ظلم پیشہ کیا جانے
لگاوے تیغ سلیقے سے جو لگائی ہو
خدا کرے کہ نصیب اپنے ہو نہ آزادی
کدھر کے ہو جی جو بے بال و پر رہائی ہو
اُس آفتاب سے تو فیض سب کو پہنچے ہے
یقین ہے کہ کچھ اپنی ہی نارسائی ہو
دیارِ حسن میں غالب کہ خستہ جانوں نے
دوا کے واسطے بھی مہر ٹک نہ پائی ہو
ہزار مرتبہ بہتر ہے بادشاہی سے
اگر نصیب ترے کوچے کی گدائی ہو
جو کوئی دم ہو تو لو ہو سا پی کے رہ جاؤں
غموں کی دل میں بھلا کب تلک سمائی ہو
مغاں سے راہ تو ہو جائے رفتہ رفتہ شیخ
ترا بھی قصد اگر ترکِ پارسائی ہو
کہیں تو ہیں کہ عبث میرؔ نے دیا جی کو
خدا ہی جانے کہ کیا جی میں اُس کے آئی ہو
اے چرخ مت حریفِ اندوہِ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشکِ شوق کیا دم رخسار پر رواں ہو
ہم دُور ماندگاں کی منزل رسا مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گردِ کارواں ہو
تا چند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہِ صبح گاہی آشوبِ آسماں ہو
گر ذوقِ سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانندِ عندلیبِ گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تُو کہ ہے اک آوارہ دست بر دل
خاکِ چمن کے اوپر برگِ خزاں جہاں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اُس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
اُس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہو گر قصدِ امتحاں ہو
ہم سایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک باؤ گُل فشاں ہو
پتھّر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روئے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
میرؔ اُس کو جان کر تُو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مُو بیٹھا کوئی جواں ہو
اچھی لگے ہے تجھ بن گلگشتِ باغ کس کو
صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو
گُل چینِ عیش ہوتے ہم بھی چمن میں جا کر
آہ و فغاں سے اپنی لیکن فراغ کس کو
بے سوز داغِ دل پر گر جی چلے بجا ہے
اچھّا لگے ہے اپنا گھر بے چراغ کس کو
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اُس منھ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراشِ جبیں جراحت ہے
ناخنِ شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمہ آرزو لبِ خنداں
سو عوض اس کی چشمِ تر دیکھو
رنگِ رفتہ بھی دل کو کھنچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میرؔ
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
آرام ہو چکا مرے جسمِ نزار کو
رکھے خدا جہاں میں دلِ بے قرار کو
پانی پہ جیسے غنچۂ لالہ پھرے بہا
دیکھا میں آنسوؤں میں دلِ داغ دار کو
برسا تو میرے دیدۂ خوں بار کے حضور
پر اب تو انفعال ہے ابرِ بہار کو
ہنستا ہی میں پھروں جو مرا کچھ ہو اختیار
پر کیا کروں میں دیدۂ بے اختیار کو
سرگشتگی سوائے نہ دیکھا جہاں میں کچھ
اک عمرِ حضر سیر کیا اِس دیار کو
کس کس کو خاک اب کے ملاتی ہے خاک میں
جاتی ہے پھر نسیم اُسی رہ گزار کو
اے وہ کوئی جو آج پیے ہے شرابِ عیش
خاطر میں رکھیو کل کے بھی رنج و خمار کو
خوباں کا کیا جگر جو کریں مجھ کو اپنا صید
پہچانتا ہے سب کوئی تیرے شکار کو
جیتے جی فکر خوب ہے ورنہ یہ بد بَلا
رکھّے گا حشر تک تہ و بالا مزار کو
گر ساتھ لے گڑا تُو دلِ مضطرب تو میرؔ
آرام ہو چکا ترے مشتِ غبار کو
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تا کیا ہو
رات جاتی ہے اسی غم میں کہ فردا کیا ہو
سب ہیں دیدار کے مشتاق پر اس سے غافل
حشر برپا ہو کہ فتنہ اُٹھے آیا کیا ہو
خاکِ حسرت زدگاں پر تُو گزر بے وسواس
ان ستم کشتوں سے اب عرضِ تمنا کیا ہو
گر بہشت آئے تو آنکھوں میں مری پھیکی لگے
جن نے دیکھا ہو تجھے محوِ تماشا کیا ہو
شوق جاتا ہے ہمیں یار کے کوچے کو لیے
جائے معلوم ہو کیا جانیے اُس جا کیا ہو
ایک رونا ہی نہیں آہ غم و نالہ و درد
ہجر میں زندگی کرنے کے تئیں کیا کیا ہو
خاک میں لوٹوں کہ لوہو میں نہاؤں میں میرؔ
یار مستغنی ہے اُس کو مری پروا کیا ہو
ویسا کہاں ہے ہم سے جیسا کہ آگے تھا تُو
اوروں سے مل کے پیارے کچھ اور ہو گیا تُو
چالیں تمام بے ڈھب باتیں فریب ہیں سب
حاصل کہ اے شکَر لب! اب وہ نہیں رہا تُو
جاتے نہیں اُٹھائے یہ شور ہر سحر کے
یا اب چمن میں بلبل! ہم ہی رہیں گے یا تُو
آ ابر ایک دو دم آپس میں رکھیں صحبت
کُڑھنے کو ہوں میں آندھی رونے کو ہے بَلا تو
عالم ہے شوق کشتہ خلقت ہے تیری رفتہ
جانوں کی آرزو تُو آنکھوں کا مدعا تُو
آتی جو خود نہیں ہے بادِ بہار اب تک
دو گام تھا چمن میں ٹک ناز سے چلا تُو
گفت و شنود اکثر میری تری رہے ہے
ظالم معاف رکھیو میرا کہا سُنا تو
کہہ سانجھ کے موے کو اے میرؔ روئیں کب تک
جیسے چراغ مفلس اک دم میں جل بجھا تُو
خوبی یہی نہیں ہے کہ انداز و ناز ہو
معشوق کا ہے حسن اگر دل نواز ہو
سجدے کا کیا مضائقہ محرابِ تیغ میں
پر یہ تو ہو کہ نعش پہ میری نماز ہو
نزدیک سوزِ سینہ کے رکھ اپنے قلب کو
وہ دل ہی کیمیا ہے جو گرمِ گداز ہو
ہے فرق ہی میں خیر نہ کر آرزوئے وصل
مل بیٹھیے جو اُس سے تو شکوہ دراز ہو
اک دم تو ہم میں تیغ کو تو بے دریغ کھینچ
تا عشق میں ہوس میں تنک امتیاز ہو
جوں توں کے اُس کی چاہ کا پردہ کیا ہے میں
اے چشمِ گریہ ناک نہ افشائے راز ہو
ہم سے بغیر عجز کبھو کچھ بنا نہ میرؔ
خوش حال وہ فقیر کہ جو بے نیاز ہو
نالہ مرا اگر سببِ شور و شر نہ ہو
پھر مر بھی جائیے تو کسو کو خبر نہ ہو
دل پُر ہوا سو آہ کے صدمے سے ہو چکا
ڈرتا ہوں یہ کہ اب کہیں ٹکڑے جگر نہ ہو
سمجھا ہوں تیری آنکھ چھپانے سے خوش نگاہ
مدِّ نظر یہ ہے کہ کسی کی نظر نہ ہو
(ق)
جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک
کافر کا بھی گزار الٰہی! اُدھر نہ ہو
یک جا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ
جس میں بجائے نقشِ قدم چشمِ تر نہ ہو
ہر یک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے
ہاں یاں کسو شہیدِ محبّت کا سر نہ ہو
چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدانِ عشق ہیں
تیرا گزار تاکہ کسو نعش پر نہ ہو
دامن کشاں ہی جا کہ تپش پر تپش ہے دفن
زنہار کوئی صدمے سے زیر و زبر نہ ہو
مضطر ہو اختیار کی وہ شکل دل میں مَیں
اُس راہ ہو کے جاؤں یہ صورت جدھر نہ ہو
لیکن عبث نگاہ جہاں کریے اُس طرف
امکان کیا کہ خون مری تا کمر نہ ہو
حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی
مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو
آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر
ظالم جفا شعار ترا رہ گزر نہ ہو
اُٹھ جائے رسمِ نالہ و آہ و فغان سب
اُس تیرہ روزگار میں تُو میرؔ اگر نہ ہو
ہم سے تم کو ضد سی پڑی ہے خواہِ نخواہ رُلاتے ہو
آنکھ اُٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
جب ملنے کو سوال کروں ہوں زلف و رخ دکھلاتے ہو
برسوں مجھ کو یوں ہی گزرے صبح و شام بتاتے ہو
بکھری رہی ہیں منھ پر زلفیں آنکھ نہیں کھل سکتی ہے
کیوں کہ چھُپے مے خواریِ شب جب ایسے رات کے ماتے ہو
سرو تہ و بالا ہوتا ہے درہم برہم شاخِ گُل
ناز سے قد کش ہو کے چمن میں ایک بَلا تم لاتے ہو
صبح سے یاں پھر جان و دل پر روز قیامت رہتی ہے
رات کبھو آ رہتے ہو تو یہ دن ہم کو دکھلاتے ہو
راحت پہنچی ٹک تم سے تو رنج اُٹھایا برسوں تک
سر سہلاتے ہو جو کبھو تو بھیجا بھی کھا جاتے ہو
ہو کے گدائے کوئے محبت روز صدا یہ نکالی ہے
اب تو میرؔ جی راتوں کو تم ہر در پر چلاتے ہو
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
اور رسوائی کا اندیشہ جُدا رکھتا ہو
کام لے یار سے جو جذبِ رسا رکھتا ہو
یا کوئی آئنہ سا دستِ دعا رکھتا ہو
عشق کو نفع نہ بے تابی کرے ہے نہ شکیب
کریے تدبیر جو یہ درد دوا رکھتا ہو
میں نے آئینہ صفت در نہ کیا بند غرض
اُس کو مشکل ہے جو آنکھوں میں حیا رکھتا ہو
ہائے اس زخمیِ شمشیرِ محبت کا جگر
درد کو اپنے جو ناچار چھپا رکھتا ہو
ایسے تو حال کے کہنے سے بھلی خاموشی
کہیے اُس سے جو کوئی اپنا کہا رکھتا ہو
کیا کرے وصل سے مایوس دل آزردہ جو
زخم ہی یار کا چھاتی سے لگا رکھتا ہو
آوے ہے پہلے قدم سر ہی کا جانا در پیش
دیکھتا ہو جو رہِ عشق میں پا رکھتا ہو
گُل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میرؔ
اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو
مت پوچھو کچھ اپنی باتیں کہیے تو تم کو ندامت ہو
قد قامت یہ کچھ ہے تمہارا لیکن قہر قیامت ہو
ربط اخلاص اے دیدہ و دل بھی دنیا میں اک سے ہوتا ہے
لگ پڑتے ہو جس سے تِس سے تم بھی کوئی علامت ہو
چاہ کا دعویٰ سب کرتے ہیں مانیے کیوں کر بے آثار
اشک کی سرخی زردی مجھ کی عشق کی کچھ تو علامت ہو
سرو گُل اچھے ہیں دونوں رونق ہیں گلزار کی لیک
چاہیے رُو اُس کا سا رو ہو قامت ویسا قامت ہو
ہو جو ارادہ یاں رہنے کا رہ سکیے تو رہیے آپ
ہم تو چلے جاتے ہیں ہر دم کس کو قصدِ اقامت ہو
منھ پر اس کی تیغِ ستم کے سیدھا جانا ٹھہرا ہے
جینا پھر کج دار و مریز اس طور میں ہو ٹک یا مت ہو
آج سحر ہوتے ہی کچھ خورشید ترے منھ آن چڑھا
روک سکے ہے کون اُسے سر جس کے ایسی شامت ہو
شور و شغب کو راتوں کے ہمسائے تمہارے کیا روویں
ایسے فتنے کتنے اٹھیں گے میرؔ جی تم جو سلامت ہو
شیخ جی آؤ مصلے گروِ جام کرو
جنسِ تقویٰ کے تئیں صرفِ مئے جام کرو
فرشِ مستاں کرو سجادۂ بے تہ کے تئیں
مے کی تعظیم کرو شیشے کا اکرام کرو
دامنِ پاک کو آلودہ رکھو بادے سے
آپ کو مغ بچوں کے قابلِ دشنام کرو
نیک نامی و تفاوت کو دعا جلد کہو
دین و دل پیش کشِ سادۂ خود کام کرو
ننگ و ناموس سے اب گزرو جوانوں کی طرح
پر فشانی کرو اور ساقی سے ابرام کرو
خوب اگر جرعۂ مے نوش نہیں کر سکتے
خاطرِ جمع مئے شام سے یہ کام کرو
اُٹھ کھڑے ہو جو جھکے گردنِ مینائے شراب
خدمتِ بادہ گساراں ہی سرانجام کرو
مطرب آ کر جو کرے چنگ نوازی تو تم
پیرہن مستوں کی تقلید سے انعام کرو
خنکی اتنی تھی تو لازم نہیں اس موسم میں
پاسِ جوشِ گُل و دل گرمیِ ایام کرو
سایۂ گُل میں لبِ جُو پہ گلابی رکھو
ہاتھ میں جام کولو آپ کو بدنام کرو
آہ تا چند رہو خانقہ و مسجد میں
ایک تو صبح گلستان میں بھی شام کرو
رات تو ساری گئی سنتے پریشاں گوئی
میرؔ جی کوئی گھڑی تم بھی تو آرام کرو
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو
ہیں کہاں مجھ سے وفا پیشہ نہ بیداد کرو
نہ کرو ایسا کہ پھر میرے تئیں یاد کرو
ایسے ہم پیشہ کہاں ہوتے ہیں اے غم زدگاں!
مرگِ مجنوں پہ کُڑھو ماتم ِ فرہاد کرو
اے اسیرانِ تہِ دام! نہ تڑپو اتنا
تا نہ بدنام کہیں چنگلِ صیاد کرو
گو کہ حیرانیِ دیدار ہے اے آہ و سرشک
کوئی روشن کرو آنکھیں، کوئی دل شاد کرو
اولِ عشق ہی میں میرؔ جی تم رونے لگے
خاک ابھی منھ کو مَلو نالہ و فریاد کرو
کامل ہو اشتیاق تو اتنا نہیں ہے دُور
حشرِ دِگر پہ وعدۂ دیدار کیوں نہ ہو
گُل گشت کا بھی لطف دلِ خوش سے ہے نسیم
پیشِ نظر وگرنہ چمن زار کیوں نہ ہو
مقصود دردِ دل ہے نہ اسلام ہے نہ کفر
پھر ہر گلے میں سحبہ و زنار کیوں نہ ہو
شاید کہ آوے پُرسشِ احوال کو کبھو
عاشق بھلا سا ہووے تو بیمار کیوں نہ ہو
تلوار کے تلے بھی ہیں آنکھیں تیری اُدھر
تُو اس ستم کا میرؔ سزاوار کیوں نہ ہو
دل صاف ہو تو جلوہ گہِ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابلِ دیدار کیوں نہ ہو
عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہی عیّار کیوں نہ ہو
رحمت غضب میں نسبتِ برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہ گار کیوں نہ ہو
دشمن تو اک طرف کا سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو
آیاتِ حق ہیں سارے یہ ذرّاتِ کائنات
انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو
ہر دم کی تازہ مرگِ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو
موئے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلاں
اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو
نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میرؔ اس میں مُردنِ دشوار کیوں نہ ہو
ایسا ہی ماہ گو کہ وہ سب نُور کیوں نہ ہو
ویسا ہی پھول فرض کیا حُور کیوں نہ ہو
کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے نے اُسے
ایسا جو پاوے آپ کو مغرور کیوں نہ ہو
گیسوئے مشک بُو کو اسے ضد ہے کھولنا
پھر زخم دل فگاروں کا ناسُور کیوں نہ ہو
صورت تو تیری صحفۂ خاطر پہ نقش ہے
ظاہر میں اب ہزار تو مستور کیوں نہ ہو
مجنوں جو دشت گرد تھا ہم شہر گرد ہیں
آوارگی ہماری بھی مذکور کیوں نہ ہو
تلوار کھینچتا ہے وہ اکثر نشے کے بیچ
زخمی جو اس کے ہاتھ کا ہو چُور کیوں نہ ہو
خالی نہیں بغل کوئی دیوان سے مرے
افسانہ عشق کا ہے یہ مشہور کیوں نہ ہو
مجھ کو تو یہ قبول ہوا عشق میں کہ میرؔ
پاس اس کے جب گیا تو کہا دُور کیوں نہ ہو
ہر دم شوخ دست بہ شمشیر کیوں نہ ہو؟؟
کچھ ہم نے کی ہے ایسی ہی تقصیر کیوں نہ ہو
اب تو جگر کو ہم نے بلا کا ہدف کیا
انداز اس نگاہ کا پھر تِیر کیوں نہ ہو
جاتا تو ہے کہیں کو تو ے کاروانِ مصر!
کنعاں ہی کی طرف کو یہ شبگیر کیں نہ ہو
جوں گُل کسو شگفتہ طبیعت کا ہے نشاں
غنچہ بھی کوئی خاطرِ دل گیر کیوں نہ ہو
ہووے ہزار وحشت اسے تو بھی یار ہے
اغیار تیرے ساتھ جو ہوں میرؔ کیوں نہ ہو
دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو
لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو
وے جو مستِ بے خودی ہیں عیش کرتے ہیں مدام
مے کدے میں دہر کے مشکل ہے ٹک ہشیار کو
کس قدر الجھیں ہیں میرے تار دامن کے کہ اب
پاؤں میں گڑ کر نہیں چُبھنے کی فرصت خار کو
جو میں نہ ہوں تو کرو ترک ناز کرنے کو
کوئی تو چاہیے جی بھی نیاز کرنے کو
جو بے دماغی یہی ہے تو بن چکی اپنی
دماغ چاہیے ہر اک سے ساز کرنے کو
وہ گرمِ ناز ہو تو خلق پر ترحم کر
پکارے آپ اجل احتزار کرنے کو
جو آنسو آویں تو پی جا کہ تا رہے پردہ
بَلا ہے چشمِ تر افشائے راز کرنے کو
ہنوز لڑکے ہو تم قدر میری کیا جانو
شعور چاہیے ہے امتیاز کرنے کو
اگرچہ گُل بھی نمود اس کے رنگ کرتا ہے
ولیک چاہیے ہے منھ بھی ناز کرنے کو
زیادہ حد سے تھی تابوت میرؔ پر کثرت
ہوا نہ وقتِ مساعد نماز کرنے کو
کیا کیا عزیز دوست ملے میرؔ خاک میں
کچھ اُس گلی مینں ہم ہی نہیں خوار ایک دو
حالِ دل میرؔ کا اے اہل وفا مت پوچھو
اس ستم کشتہ پہ جو گزری جفا مت پوچھو
صبح سے اور بھی پاتا ہوں اُسے شام کو تند
کام کرتی ہے جو کچھ میری دعا مت پوچھو
ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب
اس کے ایک آنے میں کیا کیا نہ گیا مت پوچھو
اشتعالک کی محبت نے کہ دربست پھُنکا
شہر دل کیا کہوں کس طور جلا مت پوچھو
وقتِ قتل آرزوئے دل جو لگے پوچھنے لوگ
میں اشارت کی اُدھر اُن نے کہا مت پوچھو
خواہ مارا انھیں نے میرؔ کو خواہ آپ مُوا
جانے دو یارو! جو ہونا تھا ہوا مت پوچھو
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے جگر مت پوچھو
پوچھتے کیا ہو مرے دل کا تم احوال کہ ہے
جیسے بیمار اجل روز بتر مت پوچھو
مرنے میں بند زباں ہونا اشارت ہے ندیم
یعنی ہے دُور کا درپیش سفر مت پوچھو
کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو گیا
دلِ گم کردہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
دل خراشی و جگر چاکی و سینہ کاوی
اپنے ناحق میں ہیں سب اور ہنر مت پوچھو
جوں توں کر حالِ دل اک بار تو میں عرض کروں
میرؔ صاحب جی بس اب بارِ دگر مت پوچھو
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
جی ہی جانے ہے آہ مت پوچھو
کہیں پہنچو گے بے رہی میں بھی
گمرہاں یوں یہ راہ مت پوچھو
نو گرفتارِ دامِ زلف اُس کا
ہے یہی رُو سیاہ مت پوچھو
(ق)
تھا کرم پر اُسی کے شرب مدام
میرے اعمال آہ مت پوچھو
تم بھی اے مالکانِ روزِ جزا
بخش دو اب گناہ مت پوچھو
میرؔ عاشق کو کچھ کہے ہی بنے
خواہ وہ پوچھو خواہ مت پوچھو
محرماں بے دمی کا میری سبب مت پوچھو
ایک دم چھوڑ دو یوں ہی مجھے اب مت پوچھو
گریۂ شمع کا اے ہم نفساں میں تھا حریف
گزری ہے رات کی صحبت بھی عجب مت پوچھو
لب پہ شیون مژہ پر خون و نگہ میں اک یاس
دن گیا ہجر کا جس ڈھنگ سے شب مت پوچھو
میرؔ صاحب نئی یہ طرز ہو اس کی تو کہوں
موجبِ آزردگی کا وجہِ غضب مت پوچھو
فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
کیا آفت آ گئی مرے اس دل کی تاب کو
گزرے ہے شب خیال میں خوباں کے جاگتے
آنکھیں لگا کے اُن سے میں ترسوں ہوں خواب کو
خط آ گیا پر اُس کا تغافل نہ کم ہوا
قاصد مرا خراب پھرے ہے جواب کو
تیور میں جب سے دیکھے ہیں ساقی خمار کے
پیتا ہوں رکھ کے آنکھوں پہ جامِ شراب کو
میری ہی چشمِ تر کی کرامات ہے یہ سب
پھرتا تھا ورنہ ابر تو محتاج آب کو
اب تو نقاب منھ پہ لا ظالم کہ شب ہوئی
شرمندہ سارے دن تو کیا آفتاب کو
کہنے سے میرؔ اور بھی ہوتا ہے مضطرب
سمجھاؤں کب تک اِس دلِ خانہ خراب کو
لطف کیا آرزو ہو کر آپ سے ملنے کے بیچ
ٹک تری جانب سے جب تک عذر خواہی بھی نہ ہو
چاہتا ہے جی کہ ہم تُو ایک جا تنہا ملیں
ناز بے جا بھی نہ ہووے کم نگاہی بھی نہ ہو
اُجرت میں نامے کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو
اب کارِ شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو
آغشتہ میرے خوں سے اے کاش جا کے پہنچے
کوئی پر شکستہ ٹُک گلستاں تلک تو
واماندگی نے مارا اثنائے رہ میں ہم کو
معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو
افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں
سو جائیو نہ پیارے اس داستاں تلک تو
آوارہ خاک میری ہو کس قدر الٰہی
پہنچوں غبار ہو کر میں آسماں تلک تو
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ
ہم بے گنہ اُس کے ہیں گنہ گار ہمیشہ
اک آن گزر جائے تو کہنے میں کچھ آوے
درپیش ہے یاں مُردنِ دشوار ہمیشہ
یوسف سے کئی آن کے تیرے سرِ بازار
بِک جاتے ہیں باتوں میں خریدار ہمیشہ
ہے دامنِ گُل چینِ چمن جیب ہمارا
دنیا میں رہے دیدۂ خونبار ہمیشہ
جگر لوہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ
دلیل اس کی نمایاں ہے میری آنکھیں ہیں خوں بستہ
چمن میں دل خراش آواز آتی ہے چلی شاید
پسِ دیوارِ گلشن نالہ کش ہے کوئی پر بستہ
ترے کوچے میں یکسر عاشقوں کے خارِ مژگاں ہیں
جو تُو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پاؤں آہستہ
تعجب ہے مجھے یہ سرو کو آزاد کہتے ہیں
سراپا دل کی صورت جس کی ہو وہ کیا ہو وارستہ
تری گُل گشت کی خاطر بنا ہے باغ داغوں سے
پر طاؤس سینہ ہے تمامی دستِ گُل دستہ
بجا ہے گر فلک پر فخر سے پھینکے کلاہ اپنی
کہے جو اُس زمیں میں میرؔ یک مصراعِ برجستہ
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزا ہے یہ
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ
بودِ آدم نمودِ شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ
شکر اُس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلا ہے یہ
شور ہے اپنے حشر ہے پر وہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ
بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ
دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ
ہے رے بیگانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ
تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چُک کہ مدعا ہے یہ
نعشیں اُٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ
میرؔ کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ
دل پُر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
شیخ کیوں مست ہوا ہے تُو کہاں ہے شیشہ
شیشہ بازی تو تنک دیکھنے آ آنکھوں کی
ہر پلک پر مرے اشکوں سے رواں ہے شیشہ
منزل ہستی کو پہنچے ہے اُنھیں سے عالم
نشۂ مے بلد و سنگ نشاں ہے شیشہ
درمیاں حلقۂ مستاں کے شب اُس کی جا تھی
دور ساغر میں مگر پیرِ مغاں ہے شیشہ
(ق)
جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ!
کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
ہر طرح کا جو تُو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
دل ہی سارے تھے پہ اک وقت میں جو کر کے گداز
شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ
جھک گیا دیکھ کے میں میرؔ اُسے مجلس میں
چشمِ بد دور طرح دار جواں ہے شیشہ
جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تُو جدا رہ
پر ہو سکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ
کل بے تکلفی میں لطف اُس بدن کا دیکھا
نکلا نہ کر قبا سے اے گُل بس اب ڈھپا رہ
عاشق غیور جی دے اوراُس طرف نہ دیکھے
وہ آنکھ جو چھپاوے تو تُو بھی ٹک کھنچا رہ
پہنچیں گے آگے دیکھیں کس درجہ کو ابھی تو
اس ماہِ چار دہ کا سِن دس ہے یا کہ بارہ
یہ مشتِ خاک یاں کی چاہے ہے اک تامّل
بن سوچے راہ مت چل ہر گام پر کھڑا رہ
شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گردِ راہ سب کے پاؤں سے تُو لگا رہ
میں تو ہیں وہم دونوں کیا ہے خیال تجھ کو
جھاڑ آستین مجھ سے ہاتھ آپ سے اٹھا رہ
دوڑے بہت ولیکن مطلب کو کون پہنچا
آئندہ تُو بھی ہم سا ہو کر شکستہ پا رہ
جب ہوش میں تُو آیا اُودھر ہی جاتے پایا
اس سے تو میرؔ چندے اُس کوچے ہی میں جا رہ
اب حال اپنا اُس کے ہے دل خواب
کیا پوچھتے ہو الحمد للہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیرِ مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ!استغفر اللہ!
کہتے ہیں اس کے تو منھ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب! جوں ہے یہ افواہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اُس بے وفا سے نَے رسم نَے راہ
اُس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہر گز نہ پہنچا یہ دستِ کوتاہ
(ق)
ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اُس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اُس کے شانیں ہیں اُس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ! اللہ اللہ!
جو ہوشیار ہو سو آج ہو شراب زدہ
زمین مے کدہ یک دست ہے گی آب زدہ
بنے یہ کیوں کے ملے تُو ہی یا ہمیں سمجھیں
ہم اضطراب زدہ اور تُو حجاب زدہ
کرے ہے جس کو سلامت جہاں وہ میں ہی ہوں
اجل رسیدہ جفا دیدہ اضطراب زدہ
جدا ہو رخ سے تری زلف میں نہ کیوں دل جائے
پناہ لیتے ہیں سائے کی آفتاب زدہ
لگا نہ ایک بھی میرؔ اُس کی بیتِ ابرو کو
اگرچہ شعر تھے سب میرے انتخاب زدہ
جز جرمِ عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
ناحق ہماری جان لی اچھے ہو واہ واہ!
اب کیسا چاک چاک ہو دل اس کے ہجر میں
گھٹواں تو لختِ دل سے نکلتی ہے میری آہ
شامِ شبِ وصال ہوئی یاں کہ اُس طرف
ہونے لگا طلوع ہی خورشیدِ رو سیاہ
بے تابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے
اے صبر میں نے آن کے لیے ہے تری پناہ
خوں بستہ بارے رہنے لگی اب تو یہ مژہ
آنسو کی بوند جس سے ٹپکتی تھی گاہ گاہ
ناحق الجھ پڑا ہے یہ مجھ سے طریقِ عشق
جاتا تھا میرؔ میں تو چلا اپنی راہ راہ
کہتے ہیں اُڑ بھی گئے جل کے پرِ پروانہ
کچھ سنی سوختگاں تم خبرِ پروانہ
سعی اتنی یہ ضروری ہے اُٹھے بزم سلگ
اے جگر تفتگیِ بے اثرِ پروانہ
کس گنہ کا ہے پس از مرگ یہ عذرِ جاں سوز
پاؤں پر شمع کے پاتے ہیں سرِ پروانہ
بزمِ دنیا کی تو دل سوزی سنی ہو گی میرؔ
کس طرح شام ہوئی یاں سحرِ پروانہ
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیا کچھ
تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کیا کچھ
کیا کہوں تجھ سے کہ کیا دیکھا ہے تجھ میں مَیں نے
عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کیا کیا کچھ
دل گیا، ہوش گیا، صبر گیا، جی بھی گیا
شغل میں غم کے ترے ہم سے گیا کیا کیا کچھ
آہ مت پوچھ ستم گار کہ تجھ سے تھی ہمیں
چشمِ لطف و کرم و مہر و وفا کیا کیا کچھ
(ق)
نام ہیں خستہ و آوارہ و بدنام مرے
ایک عالم نے غرض مجھ کو کہا کیا کیا کچھ
طرفہ صحبت ہے کہ سنتا نہیں تُو ایک مری
واسطے تیرے سنا میں نے سنا کیا کیا کچھ
حسرتِ وصل و غم ہجر و خیال ِ رخِ دوست
مرگیا میں پہ مرے جی میں رہا کیا کیا کچھ
دردِ دل، زخمِ جگر، کلفتِ غم، داغِ فراق
آہ عالم سے مرے ساتھ چلا کیا کیا کچھ
چشمِ نم ناک و دلِ پُر جگرِ صد پارہ
دولتِ عشق سے ہم پاس بھی تھا کیا کیا کچھ
تجھ کو کیا بننے بگڑنے سے زمانے کے کہ یاں
خاک گن گن کے ہوئی صرف بنا کیا کیا کچھ
(ق)
قبلہ و کعبہ خداوند و ملاذ و مشفق
مضطرب ہو کے اُسے میں نے لکھا کیا کیا کچھ
پر کہوں کیا رقم شوق کی اپنے تاثیر
ہر سر حرف پہ وہ کہنے لگا کیا کیا کچھ
ایک محروم چلے میرؔ ہمیں عالم سے
ورنہ عالم کو زمانے نے دیا کیا کیا کچھ
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
مر گئے پھر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اُس طرح مُوا حسرتِ دیدار کے ساتھ
شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشمِ مشتاق لگی جائے ہے طیار کے ساتھ
ذکرِ گُل کیا ہے صبا! اب کے خزاں ہیں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ
کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدۂ خونبار کے ساتھ
میری اُس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ
دیکھیے کس کو شہادت سے سرافراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اُس شوخ کی تلوار کے ساتھ
بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تُو اے بلبل
دم کشِ میرؔ ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ
دل کو تسکین نہیں اشکِ دمادم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے بَرَکتِ غم سے بھی
ہم نشیں کیا کہوں اُس رشکِ مہ تاباں بن
صبح عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی
کاش اے جانِ الم ناک نکل جاوے تُو
اب تو دیکھا نہیں جاتا پہ ستم ہم سے بھی
آخرِ کار محبت میں نہ نکلا کچھ کام
سینہ چاک و دلِ پژ مردہ مژہ نم سے بھی
آہ ہر غیر سے تاچند کہوں جی کی بات
عشق کا راز تو کہتے نہیں محرم سے بھی
دوریِ کوچہ میں اے غیرتِ فردوس تری
کام گزرا ہے مرا گریۂ آدم سے بھی
ہمت اپنی ہی تھی یہ میرؔ کہ جوں مرغِ خیال
اک پر افشانی میں گزرے سرِ عالم سے بھی
آخر ہماری خاک بھی برباد ہو گئی
اُس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہو گئی
دل کس قدر شکستہ ہوا تھا کہ رات میرؔ
آئی جو بات لب پہ سو فریاد ہو گئی
تابِ دل صرفِ جدائی ہو چکی
یعنی طاقت آزمائی ہو چکی
چھُوٹتا کب ہے اسیرِ خوش زباں
جیتے جی اپنی رہائی ہو چکی
آگے ہو مسجد کے نکلی اُس کی راہ
شیخ سے اب پارسائی ہو چکی
ایک بوسہ مانگتے لڑنے لگے
اتنے ہی میں آشنائی ہو چکی
آج پھر تھا بے حمیت میرؔ واں
کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی
یہ چشم آئنہ دارِ رُو تھی کسو کی
نظر اِس طرف بھی کبھو تھی کسو کی
سحر پائے گُل بے خودی ہم کو آئی
کہ اُس سُست پیماں میں بُو تھی کسو کی
یہ سر گشتہ جب تک رہا اس چمن میں
برنگِ صبا جستجو تھی کسو کی
نہ ٹھہری ٹک اک جان بر لب رمیدہ
ہمیں مدعا گفتگو تھی کسو کی
جلایا شب اک شعلۂ دل نے ہم کو
کہ اُس تند سرکش میں خُو تھی کسو کی
جلایا شب اک شعلۂ دل نے ہم کو
کہ اُس تند سرکش میں خُو تھی کسو کی
دمِ مرگ دشوار دی جان اُن نے
مگر میرؔ کو آرزو تھی کسو کی
ہے غزل میرؔ یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی
اُس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
اسی تقریب اُس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی
کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ
کس بھروسے پہ آشنائی کی
آہ میری زبان پر آئی
یہ بَلا آسمان پر آئی
عالمِ جاں سے تو نہیں آیا
ایک آفت جہان پر آئی
پیری آفت ہے پھر نہ تھا گویا
یہ بَلا جس جوان پر آئی
ہم بھی حاضر ہیں کھینچیے شمشیر
طبع گر امتحان پر آئی
آتشِ رنگِ گُل سے کیا کہیے
برق تھی آشیان پر آئی
طاقتِ دل بہ رنگِ نکہتِ گُل
پھیر اپنے مکان پر آئی
بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی
بلکہ دی جان اور آہ نہ کی
گُل و آئینہ ماہ و خور کن نے
چشم اُس چہرے پر سیاہ نہ کی
کعبے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی
واہ اے عشق! اُس ستم گر نے
جاں فشانی پہ میری واہ نہ کی
جس سے تھی چشم ہم کو کیا کیا میرؔ
اس طرف اُن نے اک نگاہ نہ کی
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بے تابی
آخر کو گرو رکھا سجادۂ محرابی
جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکبِ مے ہو
یہ بات سُجھاتی ہے اُن آنکھوں کی بے خوابی
کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سروپا کو ہو
اب بڑھ گئے ہیں میرے اسبابِ کم اسبابی
دن رات مری چھاتی جلتی ہے محبت میں
کیا اور نہ تھی جاگہ یہ آگ جو یاں دابی
سو ملک پھرا لیکن پائی نہ وفا اک جا
جی کھا گئی ہے میرا اس جنس کی نایابی
جنگل ہی ہرے تنہا رونے سے نہیں میرے
کوہوں کی کمر تک بھی جا پہنچی ہے سیرابی
تھے ماہ وشاں کل جو اُن کوٹھوں پہ جلوے میں
ہے خاک سے آج اُن کی ہر صحن میں مہتابی
کل میرؔ جو یاں آیا طور اُس کا بہت بھایا
وہ خشک لبی تِس پر جامہ گلے میں آبی
ہمیں آمدِ میرؔ کل بھا گئی
طرح اُس میں مجنوں کی سب پا گئی
کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا
مری خاک بدلی سی سب چھا گئی
کیا پاسِ بلبل خزاں نے نہ کچھ
گُل و برگ بے درد پھیلا گئی
ہوئی سامنے یوں تو اک ایک کے
ہمیں سے وہ کچھ آنکھ شرما گئی
کوئی رہنے والی ہے جانِ عزیز
گئی گر نہ اِمروز، فردا گئی
کیے دست و پا گم جو میرؔ آگیا
وفا پیشہ مجلس اُسے پا گئی
سینے سے تیر اُس کا جی کو تو لیتا نکلا
پر ساتھوں ساتھ اُس کے نکلی اک آفریں بھی
ہر شب تری گلی میں عالم کی جان جا ہے
آگے ہوا ہے اب تک ایسی ستم کہیں بھی!
شوخئی جلوہ اس کی تسکین کیوں کے بخشے
آئینوں میں دلوں کے جو ہے بھی پھر نہیں بھی
تکلیفِ نالہ مت کر اے درد دل کہ ہوں گے
رنجیدہ راہ چلتے آزردہ ہم نشیں بھی
گیسو ہی کچھ نہیں ہے سنبل کی آفت اس کا
ہیں برقِ خرمنِ گُل رخسارِ آتشیں بھی
کس کس کا داغ دیکھیں یا رب غمِ بتاں میں
رخصت طلب ہے جاں بھی ایمان اور دیں بھی
زیر فلک جہاں ٹک آسودہ میرؔ ہوتے
ایسا نظر نہ آیا اک قطعۂ زمیں بھی
گئی چھاؤں اُس تیغ کی سر سے جب کی
چلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی
پڑی خرمنِ گُل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی
کوئی بات نکلے ہے دُشوار منھ سے
ٹک اک تُو بھی تو سن کسی جاں بہ لب کی
عجب کچھ ہے گر میرؔ آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی
کیسے قدم سے اس کی گلی میں صبا گئی
یوں پھونک کر کے خاک مری سب اُڑا گئی
کس پاس جاکے بیٹھوں خرابے میں اب میں ہائے
مجنوں کو موت کیسی شتابی میں آ گئی
سودا جو اُس کے سر سے گیا زلفِ یار کا
تو تو بڑی ہی میرؔ کے سر سے بَلا گئی
نخبر نہ تھی تجھے کیا میرے دل کی طاقت کی
نگاہِ خشم اُدھر تُو نے کیا قیامت کی
اُٹھائی ننگ سمجھ تم نے بات کے کہتے
وفا و مہر جو تھی رسم ایک مدت کی
سوال میں نے جو انجامِ زندگی سے کیا
قدِ خمیدہ نے سُوئے زمیں اشارت کی
فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
ہے سزا تجھ پہ یہ گستاخ نظر کرنے کی
کیا جلی جاتی ہے خوبی ہی میں اپنی اے شمع!
کہہ پتنگے کے بھی کچھ شام و سحر کرنے کی
اب کی برسات ہی کے ذمے تھا عالم کا وبال
میں تو کھائی تھی قسم چشم کے تر کرنے کی
ان دنوں نکلے ہے آغشتہ بہ خوں راتوں کو
دھُن ہے نالے کو کسو دل میں اثر کرنے کی
عشق میں تیرے گزرتی نہیں بِن سر پٹکے
صورت اک یہ رہی ہے عمر بسر کرنے کی
نگاہِ مست سے جب چشم نے اُس کی اشارت کی
حلاوت مے کی اور بنیاد مے خانے کی غارت کی
سحر گہ میں نے پوچھا گُل سے حالِ زار بلبل کا
پڑے تھے باغ میں یک مشت پر اُودھر اشارت کی
جلایا جس تجلّی جلوہ گر نے طُور کو ہمدم
اُسی آتش کے پرکالے نے ہم سے بھی شرارت کی
نزاکت کیا کہوں خورشید رو کی، کل شبِ مہ میں
گیا تھا سائے سائباغ تک تِس پر حرارت کی
ترے کوچے کے شوقِ طوف میں جیسے بگولا تھا
بیاباں میں غبارِ میرؔ کی ہم نے زیادت کی
بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا سو
رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی
بلبل کی بے کلی نے شب بے دماغ رکھا
سونے دیا نہ ہم کو ظالم نہ آپ سوئی
اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میرؔ یاد دیوے
اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی
الم سے یاں تئیں میں مشقِ ناتوانی کی
کہ میری جان نے تن پر مرے گرانی کی
چمن کا نام سنا تھا ولے نہ دیکھا ہائے
جہاں میں ہم نے قفس ہی میں زندگانی کی
ملائی خوب مری خون میں خاکِ بسمل گاہ
یہ تھوڑی منتیں ہیں مجھ پہ سخت جانی کی
لا علاجی سے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
کیجیے کیا میرؔ صاحب بندگی بے چارگی
کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یک بارگی
رُوئے گُل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز
رخنۂ دیوار ہے یا دیدۂ نظارگی
اشکِ خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں
محتسب رکھتا ہے مجھ پر تہمتِ مے خوارگی
مت فریبِ سادگی کھا ان سیہ چشموں کا میرؔ
اِن کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے بڑی عیّارگی
جو آنسو پی گیا میں آخر کو میرؔ اُن نے
چھاتی جلا جگر میں اک آگ جا لگائی
دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی
واشد کچھ آگے آہ سے ہوتی تھی دل کے تئیں
اقلیمِ عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی
گرمی نے دل کی ہجر میں اُس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی
باہم سلوک تھا تو اُٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میرؔ کوئی دبے جب بگڑ گئی
کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی
شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
اُس کی تو دل آزاری بے ہیچ ہی تھی یارو
کچھ تم کو ہماری بھی تقصیر نظر آئی!
مغرور بہت تھے ہم آنسو کی سرایت پر
سو صبح کے ہونے کو تاثیر نظر آئی
گُل بار کرے ہے گا اسباب سفر شاید
غنچے کی طرح بُلبل دلگیر نظر آئی
ہو گئی شہر شہر رسوائی
اے مری موت تُو بھلی آئی
یک بیاباں بہ رنگِ صوتِ جرس
مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی
میرؔ جب سے گیا ہے دل تب سے
میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی
اب ضعف سے ڈہتا ہے بے تابی شتابی کی
اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی
بھُنتے ہیں دل اک جانب سِکتے ہیں جگر یک سُو
ہے مجلسِ مشتاقاں دکّان کبابی کی
تلخ اُس لبِ مے گوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر
تہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی
یک بو کشیِ بلبل ہے موجبِ صد مستی
پُر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی
نش مردہ مرے مجھ سے یاں حرف نہیں نکلا
جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی
مجھ سا بے تاب ہووے جب کوئی
بے قراری کو جانے تب کوئی
ہاں خدا مغفرت کرے اُس کو
صبرِ مرحوم تھا عجب کوئی
جان دے گو مسیح پر اس سے
بات کہتے ہیں تیرے لب کوئی
بعد میرے ہی ہو گیا سنسان
سونے پایا تھا ورنہ کب کوئی
اُس کے کوچے میں حشر تھی مجھ تک
آہ و نالہ کرے نہ اب کوئی
(ق)
اور محزوں بھی ہم سُنے تھے ولے
میرؔ سا ہو سکے ہے کب کوئی
کہ تلفظ طرب کا سن کے کہے
شخص ہو گا کہیں طرب کوئی
آگے ہمارے عہد سے وحشت کو جا نہ تھی
دیوانگی کسی کی بھی زنجیرِ پا نہ تھی
بیگانہ سا لگے ہے چمن اب خزاں میں ہائے
ایسی گئی بہار مگر آشنا نہ تھی
کب تھا یہ شورِ نوحہ ترا عشق جب نہ تھا
دل تھا ہمارا آگے تو ماتم سرا نہ تھی
وہ اور کوئی ہو گی سحر جب ہوئی قبول
شرمندۂ اثر تو ہماری دُعا نہ تھی
دیکھے دیارِ حسن کے میں کارواں بہت
لیکن کسو کے پاس متاعِ وفا نہ تھی
آئی پری سی پردۂ مینا سے جام تک
آنکھوں میں تیری دخترِ زر کیا حیا نہ تھی
پژمردہ اس قدر ہیں کہ ہیں شبہ ہم کو میرؔ
تن میں ہمارے جان کبھی تھی بھی یا نہ تھی
حال کہہ چپ رہا جو میں بولا
کس کا قصہ تھا ہاں کہے جا بھی
کب تلک داغ دکھائے گی اسیری مجھ کو
مر گئے ساتھ کے میرے تو گرفتار کئی
گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی
دے ہی چالاکیاں ہاتھوں کی ہیں جو اول تھیں
اب گریباں میں مرے رہ گئے ہیں تار کئی
اپنے کُوچے میں نکلیو تُو سنبھالے دامن
یادگارِ مژہِ میرؔ ہیں واں خار کئی
میری پُرسش پہ تری طبع اگر آوے گی
صورتِ حال تجھے آپھی نظر آوے گی
محو اُس کا نہیں ایسا کہ جو چیتے گا شتاب
اُس کے بے خود کی بہت دیر خبر آوے گی
ابر مت گورِ غریباں پہ برس غافلِ آہ!
ان دل آزردوں کے جی میں بھی لہر آوے گی
کتنے پیغام چمن کو ہیں سو دل میں ہیں گِرہ
کسو دن ہم تئیں بھی بادِ سحر آئے گی
میرؔ میں جیتوں میں آؤں گا اسی دن جس دن
دل نہ تڑپے گا مرا چشم نہ بھر آوے گی
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی
حالِ بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
سب کو جانا ہے یوں تو پر اے صبر
آتی ہے اک تری جوانی کی
تشنہ لب مرگئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بوند پانی کی
بیت بحثی سمجھ کے کر بلبل
دھوم ہے میری خوش زبانی کی
جس س کھوئی تھی نیند میرؔ نے کل
ابتدا پھر وہی کہانی کی
ہے یہ بازارِ جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
یاں دُکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی
کیوں کے کہیے کہ اثر گریۂ مجنوں کو نہ تھا
گرد نم ناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی
خانقہ کا تُو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب!
یہی اک رہ گئی ہے بستی مسلمانوں کی
یہ بگولہ تو نہیں دشتِ محبّت میں سے
جمع ہو خاک اُڑی کتنے پریشانوں کی
سیل اشکوں سے بہے صرصر آہوں سے اُڑے
مجھ سے کیا کیا نہ خرابی ہوئی ویرانوں کی
دل و دیں کیسے کہ اُس رہزنِ دل ہا سے اب
یہ پڑی ہے کہ خدا خیر کرے جانوں کی
کتنے دل سوختہ ہم جمع ہیں اے غیرتِ شمع
کر قدم رنجہ کہ مجلس ہے یہ پروانوں کی
سرگزشتیں نہ مری سن کہ اُچٹتی ہے نیند
خاصیت یہ ہے مری جان ان افسانوں کی
مے کدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میرؔ
ہو نہ لغزش کہیں مجلس ہے یہ بیگانوں کی
ملا غیر سے جا جفا کیا نکالی
اُکت لے کے آخر ادا کیا نکالی
طبیبوں نے تجویز کی مرگِ عاشق
مناسب مرض کے دوا کیا نکالی
نہیں اُس گزر گہ سے آتی اِدھر اب
نئی راہ کوئی صبا کیا نکالی
دلا اُس کے گیسو سے کیوں لگ چلا تُو
یہ اک اپنے جی کی بَلا کیا نکالی
دمِ صبح جوں آفتاب آج ظالم
نکلتے ہی تیغِ جفا کیا نکالی
لگے در بہ در میرؔ چلاتے پھرنے
گدا تو ہوئے پر صدا کیا نکالی
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری
شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری
اُسی سے دور رہا اصلِ مدّعا جوتھا
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری
اب کے بھی سیرِ باغ کی جی میں ہوس رہی
اپنی جگہ بہار میں کنجِ قفس رہی
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
لطفِ قبائے تنگ پہ گُل کا بجا ہے ناز
دیکھی نہیں ہے اُن نے تری چولی چس رہی
خالی شگفتگی سے جراحت نہیں کوئی
ہر زخم یاں ہے جیسے کلی ہو بکس رہی
دن رات میری آنکھوں سے آنسو چلے گئے
برسات اب کے شہر میں سارے برس رہی
جوں صبح اس چمن میں نہ ہم کھُل کے ہنس سکے
فرصت رہی جو میرؔ بھی سو یک نفس رہی
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی
آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں
تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی
منع گریہ نہ کر تُو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی
مدعی کو شراب ہم کو زہر
عاقبت دوستدار ہیں ہم بھی
گرز خود رفتہ ہیں ترے نزدیک
اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی
میرؔ نام اک جواں سنا ہو گا
اُسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی
غفلت میں گئی آہ مری ساری جوانی
اے عمرِ گزشتہ میں تری قدر نہ جانی
مدت سے ہیں اک مشتِ پر آوارہ چمن میں
نکلی ہے یہ کس کی ہوسِ بال فشانی
بھاتی ہے مجھے اک طلبِ بوسہ میں یہ آن
لکنت سے اُلجھ جا کے اُسے بات نہ آنی
دیکھیں تو سہی کب تئیں نبھتی ہے یہ صحبت
ہم جی سے ترے دوست ہیں تُو دشمنِ جانی
(ق)
اک شخص مجھی سا تھا کہ وہ تجھ پہ تھا عاشق
وہ اُس کی وفا پیشگی وہ اُس کی جوانی
یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میرؔ
سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
کل بارے ہم سے اُس سے ملاقات ہو گئی
دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی
ڈر ظلم سے کہ اُس کی جزا بس شتاب ہے
آیا عمل میں یاں کہ مکافات ہو گئی
خورشید سا پیالۂ مے بے طلب دیا
پیرِ مغاں سے رات کرامات ہو گئی
کتنا خلافِ وعدہ ہوا ہو گا وہ کہ یاں
نومیدی و اُمید مساوات ہو گئی
ٹک شہر سے نکل کے مرا گریہ سیر کر
گویا کہ کوہ و دشت پہ برسات ہو گئی
اپنے تو ہونٹ بھی نہ ہلے اُس کے روبرو
رنجش کی وجہ میرؔ وہ کیا بات ہو گئی
کوئی ہو محرمِ شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزمِ عیشِ جہاں کیا سمجھ کے برہم کی
ہمیں تو باغ کی تکلیف سے معاف رکھو
کہ سیر و گشت نہیں رسم اہلِ ماتم کی
گھرے ہیں درد و الم میں فراق کے ایسے
کہ صبحِ عید بھی یاں شام ہے مُحرّم کی
قفس میں میرؔ نہیں جوشِ داغ سینے پر
ہوس نکالی ہے ہم نے بھی گل کے موسم کی
نسبت تو دیتے ہیں ترے لب سے پر ایک دن
ناموس یوں ہی جائے گی آبِ حیات کی
صد حرف زیرِ خاک تہِ دل چلے گئے
مہلت نہ دی اجل نے ہمیں ایک بات کی
ہم تو ہی اس زمانے میں حیرت سے چپ نہیں
اب بات جاچکی ہے سبھی کائنات کی
عرصہ ہے تنگ چال نکلتی نہیں ہے اور
جو چال پڑتی ہے سو وہ بازی کی مات کی
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژ مردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی
کیوں کر بجھاؤں آتشِ سوزانِ عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی
لگ جائے چپ نہ تجھ کو تو تُو کہیو عندلیب
گر بے کلی نے کی ہمیں تکلیف نا لگی
کشتے کا اُس کے زخم نہ ظاہر ہوا کہ میرؔ
کس جائے اُس شہید کے تیغِ جفا لگی
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی
ٹپکتے درد ہیں آنسو کی جاگہ
الہٰی چشم یا زخمِ کہن ہے
شہادت گاہ ہے باغِ زمانہ
کہ ہر گُل اس میں اک خونیں کفن ہے
کروں کیا حسرتِ گُل کو وگرنہ
دلِ پُر داغ بھی اپنا چمن ہے
جو دے آرام ٹک آوارگی میرؔ
تو شامِ غربت اک صبح وطن ہے
دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانۂ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے !
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اُٹھتا ہے
لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز
دُود کچھ آشیاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اُس کو
جو ترے آستاں سے اُٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
گُل گشت کی ہوس تھی سو تو بگیر آئے
آئے جو ہم چمن میں ہو کر اسیر آئے
فرصت میں یک نفس کی کیا دردِ دل سنو گے
آئے تو تم ولیکن وقتِ اخیر آئے
دلی میں اب کے آ کر اُن یاروں کو نہ دیکھا
کچھ وے گئے شتابی کچھ ہم بھی دیر آئے
کیا خوبی اس چمن کی موقوف ہے کسو پر
گُل گر گئے عدم کو مکھڑے نظیر آئے
شکوہ نہیں جو اس کو پروا نہ ہو ہماری
دروازے جس کے ہم سے کتنے فقیر آئے
عمرِ دراز کیوں کر مختارِ خضر ہے یاں
اک آدھ دن میں ہم تو جینے سے سیر آئے
نزدیک تھی قفس میں پروازِ روح اپنی
غنچے ہو گُل بنوں پر جب ہم صفیر آئے
بِن جی دیے نہیں ہے امکان یاں سے جانا
بسمل گہِ جہاں میں اب ہم تو میرؔ آئے
کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے
صورت گرِ اجل کا کیا ہاتھ تھا کہے تو
کھینچی وہ تیغِ ابرو فولاد کے قلم سے
سوزش گئی نہ دل کی رونے سے روز و شب کے
جلتا ہوں اور دریا بہتے ہیں چشمِ نم سے
کُڑھیے نہ رویئے تو اوقات کیوں کے گزرے
رہتا ہے مشغلہ سا بارے غم و الم سے
مشہور ہے سماجت میری کی تیغ برسی
پر میں نہ سر اُٹھایا ہر گر ترے قدم سے
بات احتیاط سے کر ضائع نہ کر نفس کو
بالیدگیِ دل ہے مانندِ شیشہ دم سے
کیا کیا عتاب اُٹھائے کیا کیا عذاب دیکھے
تب دل ہوا ہے اتنا خوگر ترے ستم سے
ہستی میں ہم نے آ کر آسودگی نہ دیکھی
کھُلتیں نہ کاش آنکھیں خوابِ خوشِ عدم سے
پامال کر کے ہم کو پچھتاؤ گے بہت تم
کم یاب ہیں جہاں میں سر دینے والے ہم سے
دل دو ہو میرؔ صاحب اُس بدمعاش کو تم
خاطر کو جمع کر لو ٹک قول سے قسم سے
گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
یہی بات ہم چاہتے تھے خدا سے
وہ اپنی ہی خوبی پہ رہتا ہے نازاں
مرو یا جیو کوئی اُس کی بلا سے
پشیمان توبہ سے ہو گا عدم میں
کہ غافل چلا شیخ لطفِ ہوا سے
اگر چشم ہے تو وہی عین حق ہے
تعصب تجھے ہے عجب ماسوا سے
طبیب سُبک عقل ہرگز نہ سمجھا
ہوا دردِ عشق آہ دونا دوا سے
نہ رکھّی مری خاک بھی اس گلی میں
کدورت مجھے ہے نہایت صبا سے
ٹک اے مدعی چشمِ انصاف وا کر
کہ بیٹھے ہیں یہ قافیے کس ادا سے
نہ شکوہ شکایت نہ حرف و حکایت
کہو میرؔ جی آج کیوں ہو خفا سے
بلا کا شکر کر اے دل کہ اب معلوم ہوتی ہے
حقیقت عافیت کی اُس گلی کے رہنے والوں سے
نہیں اے ہم نفس اب جی میں طاقت دوریِ گُل نہیں
جگر ٹکڑے ہوا جاتا ہے آخر شب کے نالوں سے
تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار و برق و شعلے سے
تسلّی کرتے ہیں ناچار شاعر ان مثالوں سے
نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں
کہ آئینے کو ربطِ خاص ہے صاحب جمالوں سے
کہاں یہ قامتِ دل کش کہاں پاکیزگی ایسی
ملے ہیں ہم بہت گلزار کے نازک نہالوں سے
ہدف اُس کا ہوئے مدت ہوئی سینے کو پر اب تک
گُتھا نکلے ہے لختِ دل مرا تیروں کے بھالوں سے
رگِ گُل کوئی کہتا ہے کوئی اے میرؔ مُو اُس کو
کمر اُس شوخ کی بندھتی نہیں ان خوش خیالوں سے
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے
موند لیں آنکھیں ادھر سے تم نے پیارے دیکھیے
لختِ دل کب تک الہٰی چشم سے ٹپکا کریں
خاک میں تا چند ایسے لعل پارے دیکھیے
ہو چکا روز جزا اب اے شہیدانِ وفا
چونکتے ہیں خونِ خفتہ کب تمہارے دیکھیے
راہِ دورِ عشق میں اب تو رکھا ہم نے قدم
رفتہ رفتہ پیش کیا آتا ہے بارے دیکھیے
سینۂ مجروح بھی قابل ہوا ہے سیر کے
ایک دن تو آن کر یہ زخم سارے دیکھیے
خنجرِ بیداد کو کیا دیکھیے ہو دم بدم
چشم سے انصاف کی سینے ہمارے دیکھیے
شست و شو کا اُس کے پانی جمع ہو کر مہ بنا
اور منھ دھونے کے چھینٹوں سے ستارے دیکھیے
کس طور ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے
آخر میں تری آنکھوں کے ہم دیکھنے والے
سو ظلم اُٹھائے تو کبھو دور سے دیکھا
ہر گز نہ ہوا یہ کہ ہمیں پاس بلا لے
عشق ان کو ہے جو یار کو اپنے دمِ رفتن
کرتے نہیں غیرت سے خدا کے بھی حوالے
وے دن گئے جو ضبط کی طاقت تھی ہمیں بھی
اب دیدۂ خوں بار نہیں جاتے سنبھالے
احوال بہت تنگ ہے اے کاش محبت
اب دستِ تلطف کو مرے سر سے اُٹھا لے
کہتے ہیں حجابِ رخِ دل دار ہے ہستی
دیکھیں گے اگر یوں ہی بھلا جان بھی جالے
میرؔ اس سے نہ مل آہ کہ ڈرتے ہیں مبادا
بے باک ہے وہ شوخ کہیں مار نہ ڈالے
بہ رنگِ بوئے گُل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
کہ ہمراہِ صبا ٹک سیر کرتے پھر ہوا ہوتے
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگرنہ ہم خدا تھے گر دلِ بے مدعا ہوتے
فلک اے کاش ہم کو خاک ہی رکھتا کہ اس میں ہم
غبارِ راہ ہوتے یا کسو کی خاکِ پا ہوتے
الہٰی کیسے ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے
اب ایسے ہیں کہ صانع کے مزاج اوپر بہم پہنچے
جو خاطر خواہ اپنے ہم ہوئے ہوتے تو کیا ہوتے
کہیں جو کچھ ملامت گر بجا ہے میرؔ کیا جانے
اُنھیں معلوم تب ہوتا کہ ویسے سے جدا ہوتے
چمن یار تیرا ہَوا خواہ ہے
گُل اک دل ہے جس میں تری چاہ ہے
سراپا میں اُس کے نظر کر کے تم
جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے
تری آہ کس سے خبر پائیے
وہی بے خبر ہے جو آگاہ ہے
مرے لب پہ رکھ کان آواز سن
کہ اب تک بھی یک ناتواں آہ ہے
گزر سر سے تب عشق کی راہ چل
کہ ہر گام یاں اک خطر گاہ ہے
کبھو وادیِ عشق دکھلایئے
بہت خضر بھی دل میں گمراہ ہے
جہاں سے تُو رختِ اقامت کو باندھ
یہ منزل نہیں بے خبر راہ ہے
یہ وہ کارواں گاہِ دل کش ہے میرؔ
کہ پھر یاں سے حسرت ہی ہمراہ ہے
ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں گُل کے
بُو گئی کچھ دماغ میں گُل کے
جانے روغن دیا کرے ہے عشق
خونِ بلبل چراغ میں گُل کے
دل تسلّی نہیں صبا ورنہ
جلوے سب ہیں گے داغ میں گُل کے
اس حدیقے کے عیش پر مت جا
مے نہیں ہے ایاغ میں گُل کے
سیر کر میرؔ اس چمن کی شتاب
ہے خزاں بھی سراغ میں گُل کے
عشق میں نَے خوف و خطر چاہیے
جان کو دینے کا جگر چاہیے
قابلِ آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے
کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے
عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دلدست بہ سر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میرؔ
ہم کو جیا بارِ دگر چاہیے
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے
بس ہم نہ برا مانیں تو کون بُرا مانے
سرمایۂ صد آفت دیدار کی خواہش ہے
دل کی تو سمجھ لیجیے گر چشم کہا مانے
ٹک حالِ شکستہ کے سننے ہی میں سب کچھ ہے
پر وہ تو سخن رس ہے اس بات کو کیا مانے
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اُس کی لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشمِ دل کھول اُس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
میرؔ اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
بے طاقتیِ دل نے سائل بھی کیا ہم کو
پر میرؔ فقیروں کی یاں کون صدا مانے
کھل گئے رخسار اگر یار کے
شمس و قمر جی سے اتر جائیں گے
اب جو اک حسرتِ جوانی ہے
عمرِ رفتہ کی یہ نشانی ہے
رشکِ یوسف ہے آہ وقتِ عزیز
عمر اک بارِ کاروانی ہے
گریہ ہر وقت کا نہیں ہے ہیچ
دل میں کوئی غمِ نہانی ہے
خاک تھی موج زن جہاں میں اور
ہم کو دھوکا یہ تھا کہ پانی ہے
ہم قفس زاد قیدی ہیں ورنہ
تا چمن ایک پر فشانی ہے
اس کی شمشیرِ تیز سے ہمدم
مر رہیں گے جو زندگانی ہے
یاں ہوئے میرؔ تم برابر خاک
واں وہی ناز و سرگرانی ہے
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
گُلوں میں جن کی خاطر خرقے ڈالے
نہیں اُٹھتا دلِ محزوں کا ماتم
خدا ہی اس مصیبت سے نکالے
کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے
کبھو تو پاس ہم کو بھی بُلا لے
تپش نے دل جگر کی مار ڈالا
بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے
کسے قیدِ قفس میں یاد گُل کی
پڑے ہیں اب تو جینے ہی کے لالے
ستایا میرؔ غم کش کو کنھوں نے
کہ پھر اب عرش تک جاتے ہیں نالے
آنکھوں میں دلبروں کی مطلق نہیں مروت
یہ پاسِ آشنائی منظور کیا رکھیں گے
دیوانِ میرؔ صاحب ہر اک کی ہے بغل میں
دو چار شعر اُن کے ہم بھی لکھا رکھیں گے
دل کے معمورے کی مت کر فکر فرصت چاہیے
ایسے ویرانے کے اب بسنے کو مدت چاہیے
عاقبت فرہاد مر کر کام اپنا کر گیا
آدمی ہووے کسی پیشے میں جرأت چاہیے
ہو طرف مجھ پہلواں شاعر کا کب عاجز سخن
سامنے ہونے کو صاحب فن کی قدرت چاہیے
عشق میں وصل و جدائی سے نہیں کچھ گفتگو
قرب و بُعد اس جا برابر ہے محبت چاہیے
نازکی کو عشق میں کیا دخل ہے اے بوالہوس
یاں صعوبت کھینچنے کی جی میں طاقت چاہیے
تنگ مت ہو ابتدائے عاشقی میں اس قدر
خیریت ہے میرؔ صاحب دل سلامت چاہیے
بہت دور کوئی رہا ہے مگر
کہ فریاد میں ہے جرس شور سے
ترے دل جلے کو رکھا جس گھڑی
دھواں سا اُٹھا کچھ لبِ گور سے
بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے
دکھلائی دے جہاں تک میدان ہو رہا ہے
اس منزلِ جہاں کے باشندے رفتنی ہیں
ہر اک کے ہاں سفر کا سامان ہو رہا ہے
قرباں گہِ محبت وہ جا ہے جس میں ہر سُو
دشوار جان دینا آسان ہو رہا ہے
اچھا لگا ہے شاید آنکھوں میں یار اپنی
آئینہ دیکھ کر کچھ حیران ہو رہا ہے
تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے
ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے
آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کرو گے ہم گریہ سر کریں گے
سر جائے گا ولیکن آنکھیں اُدھر ہی ہوں گی
کیا تیری تیغ سے ہم قطعِ نظر کریں گے
اپنی خبر بھی ہم کو اب دیر پہنچتی ہے
کیا جانے یار اُس کو کب تک خبر کریں گے
گر دل کی تاب و طاقت یہ ہے تو ہم نشیں ہم
شامِ غمِ جدائی کیوں کر سحر کریں گے
یہ ظلم بے نہایت دیکھو تو خوبرو یاں
کہتے ہیں جو ستم ہے ہم تجھ ہی پر کریں گے
اپنے ہی جی میں آخر انصاف کر کہ کب تک
تُو یہ ستم کرے گا ہم درگزر کریں گے
صناع طرفہ ہیں ہم عالم میں ریختے کے
جو میرؔ جی لگے گا تو سب ہنر کریں گے
تجھ سے دُچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے
پھر عمر چاہیے گی اُس کو بحال آتے
گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جو اب ہے
تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے
وے دن گئے کہ اُٹھ کر جاتے تھے اُس گلی میں
اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اُٹھاتے
گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو
کاہے کو خا ک میں ہم اپنے تئیں ملاتے
شاید کہ خون دل کا پہنچا ہے وقت آخر
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو راتوں کو آتے آتے
اس سمت کو پلٹتی تیری نگہ تو ساقی
حالِ خرابِ مجلس ہم شیخ کو دکھاتے
شب کوتہ اور قصہ ان کا دراز ورنہ
احوالِ میرؔ صاحب ہم تجھ کو سب سناتے
مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے
یاں سلیماں کے مقابل مور ہے
مرگئے پر بھی ہے صولت فقر کی
چشمِ شیر اپنا چراغِ گور ہے
دل کھنچے جاتے ہیں سارے اُس طرف
کیوں کہ کہیے حق ہماری اور ہے
تھا بلا ہنگامہ آرا میرؔ بھی
اب تلک گلیوں میں اُس کا شور ہے
یاں سرکشاں جو صاحب تاج و لوا ہوئے
پامال ہو گئے تو نہ جانا کہ کیا ہوئے
دیکھی نہ ایک چشمکِ گُل بھی چمن میں آہ
ہم آخرِ بہار قفس سے رہا ہوئے
پچھتاؤ گے بہت جو گئے ہم جہان سے
آدم کی قدر ہوتی ہے ظاہر جدا ہوئے
تجھ بِن دماغِ صحبتِ اہلِ چمن نہ تھا
گُل وا ہوئے ہزار ولے ہم نہ وا ہوئے
سر دے کے میرؔ ہم نے فراغت کی عشق میں
ذمّے ہمارے بوجھ تھا بارے ادا ہوئے
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
ملتجی ناچار ہوا چاہیے
جس کے تئیں ڈھونڈیں ہیں وہ سب میں ہے
کس کا طلب گار ہوا چاہیے
تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو
اس لیے بیمار ہوا چاہیے
زلف کس کی ہو کہ ہو خال و خط
دل کو گرفتار ہوا چاہیے
مصطبۂ بے خودی ہے یہ جہاں
جلد خبردار ہوا چاہیے
کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی
سایۂ دیوار ہوا چاہیے
اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے
اِک نظر گُل دیکھنے کے بھی ہمیں لالے پڑے
حسن کو بھی عشق نے آخر کیا حلقہ بہ گوش
رفتہ رفتہ دلبروں کے کان میں بالے پڑے
مت نگاہِ مست کو تکلیف کر ساقی زیاد
ہر طرف تو ہیں گلی کوچوں میں متوالے پڑے
کیوں کے طے ہو دشتِ شوق آخر کو مانندِ سرشک
میرے پاؤں میں تو پہلے ہی قدم چھالے پڑے
ہوں بعینہ ویسے جوں پروا کرے ہے عنکبوت
روتے روتے بس کہ میری آنکھوں میں جالے پڑے
خوب ہی اے ابر اک شب آؤ باہم روئیے
پر نہ اتنا بھی کہ ڈوبے شہر کم کم روئیے
وقتِ خوش دیکھا نہ اک دم سے زیادہ دہر میں
خندۂ صبحِ چمن پر مثلِ شبنم روئیے
شادی و غم میں جہاں کی ایک سے دس کا ہے فرق
عید کے دن ہنسیے تو دس دن محرم روئیے
دیکھا ماتم خانۂ عالم کو ہم مانندِ ابر
ہر جگہ پر جی میں یوں آیا دمادم روئیے
عشق میں تقریبِ گریہ گو نہیں درکار میرؔ
ایک مدت صبر ہی کا رکھیے ماتم روئیے
نیلا نہیں سپہر تجھے اشتباہ ہے
درد و جگر سے میرے یہ چھت سب سیاہ ہے
ابر و بہار و بادہ سبھوں میں ہے اتفاق
ساقی جو تُو بھی مل چلے تو واہ واہ ہے
نہیں وہ قیدِ الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
تکلف برطرف بے مہر ہے یاری کو کیا جانے
وہ ہے اک مندرس نالہ مبارک مرغِ گلشن کو
وہ اس ترکیبِ نو کی نالہ و زاری کو کیا جانے
ستم ہے تیری خوئے خشمگیں پر ٹک بھی دل جوئی
دل آزاری کی باتیں کر تُو دل داری کو کیا جانے
گلہ اپنی جفا کا سن کے مت آزردہ ہو ظالم
نہیں تہمت ہے تجھ پر تُو جفا کاری کو کیا جانے
کس نے لی رخصت پرواز پس از مرگِ نسیم
مشتِ پر باغ میں آتے ہیں پریشان ہوئے
سبزہ و لالہ و گُل ابر و ہوا ہے ، مے دے
ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیماں ہوئے
دعویِ خوش دہنی گرچہ اُسے تھا لیکن
دیکھ کر مجھ کو ترے گُل کے تئیں کان ہوئے
اپنے جی ہی نے نہ چاہا کہ پئیں آبِ حیات
یوں تو ہم میرؔ اسی چشمے پہ بے جان ہوئے
یا رب کوئی ہو، عشق کا بیمار نہ ہووے
مر جائے ولے اُس کو یہ آزار نہ ہووے
زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے
پر دامِ محبت میں گرفتار نہ ہووے
اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ باد کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے
صحرائے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میرؔ
یہ سیر سرِ کُوچہ و بازار نہ ہووے
برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے
اے ناقۂ لیلیٰ دو قدم راہ غلط کر
مجنوں ز خودِ رفتہ کبھو راہ پر آوے
(ق)
ممکن نہیں آرام دے بے تابی جگر کی
جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے
مت ممتحنِ باغ ہو اے غیرتِ گلزار
گُل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے
کھلنے میں ترے منھ کے کلی پھاڑے گریباں
ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گُل برگ تر آوے
ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوقِ خبر میں
اے جن بہ لب آمدہ رہتا خبر آوے
کہتے ہیں ترے کُوچے سے میرؔ آنے کہے ہے
جب جانیے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے
لگوائے پتھر اور بُرا بھی کہا کیے
تم نے حقوق دوستی کے سب ادا کیے
بے عیب ذات ہے گی خدا ہی کی اے بُتاں
تم لوگ خوبرو جو کیے بے وفا کیے
کھینچا تھا آہِ شعلہ فشاں نے جگر سے سر
برسوں تئیں پڑے ہوئے جنگل جلا کیے
جب نام ترا لیجے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے
کیا جانیں وے مرغانِ گرفتار چمن کو
جن تک کہ بہ صد ناز نسیمِ سحر آوے
ہر سُو سر تسلیم رکھے صید حرم میں
وہ صید فگن تیغ بہ کف تا کدھر آوے
صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اُس میں جسے کچھ ہنر آوے
(ق)
اے وہ کہ تُو بیٹھا ہے سرِ راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میرؔ بلا کش اِدھر آوے
مت دشتِ محبت میں قدم رکھ کے خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذَر آوے
کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے
سہپرِ نیلی کا یہ سائبان جل جاوے
نہ بول میرؔ سے مظلوم عشق ہے وہ غریب
مبادا آہ کرے سب جہان جل جاوے
گزارِ خوش نگاہاں جس میں ہے میرا بیاباں ہے
سوادِ برِ مجنوں تو چراگاہِ غزالاں ہے
چمن پہ نوحہ و زاری سے کس گُل کا یہ ماتم ہے
جو شبنم ہے تو گریاں ہے جو بلبل ہے تو نالاں ہے
ہر اک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں
تماشا مفتِ خوباں ہے لبِ دریا چراغاں ہے
کیا تھا جا بہ جا رنگیں لہو تجھ ہجر میں رو کر
گریباں میرؔ کا دیکھا مگر گُل چیں کا داماں ہے
اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
پر اُس کے جی میں ہم سے کیا جانیے کہ کیا ہے
بالیں پہ میری آخر ٹک دیکھ شوقِ دیدار
سارے بدن کا جی اب آنکھوں میں آرہا ہے
مت کر زمینِ دل میں تخمِ اُمید ضائع
بُوٹا جو یاں اُگا ہے سو اُگتے ہی جلا ہے
صد سحر و یک رقیمہ خط میرؔ جی کا دیکھا
قاصد نہیں چلا ہے جادو مگر چلا ہے
حرم کو جانیے یا دیر میں بسر کریے
تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے
کٹے ہے دیکھیے یوں عمر کب تلک اپنی
کہ سنیے نام ترا اور چشم تر کریے
ہوا ہے دن تو جدائی کا سو تعب سے شام
شبِ فراق کس اُمید پر سحر کریے
جہاں کا دید بجز ماتمِ نظارہ نہیں
کہ دیدنی ہی نہیں جس پہ یاں نظر کریے
ستم اُٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب اُس کو
جو دل میں آوے تو ٹک رحم میرؔ پر کریے
مشہور چمن میں تری گُل پیرہنی ہے
قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدنی ہے
عریانیِ آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ
کشتہ ہے ترا اور یہی بے کفنی ہے
سمجھے ہے نہ پروانہ نہ تھامے ہے زباں شمع
وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زَدَنی ہے
لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک
آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے
بلبل کی کفِ خاک بھی اب ہو گی پریشاں
جامے کا ترے رنگِ ستم گر چمنی ہے
کچھ تو ابھر اے صورتِ شیریں کہ دکھاؤں
فرہاد کے ذمّے بھی عجب کوہ کنی ہے
ہوں گرمِ سفر شامِ غریباں سے خوشی ہوں
اے صبحِ وطن تُو تو مجھے بے وطنی ہے
(ق)
ہرچند گدا ہوں میں ترے عشق میں لیکن
اِن بوالہوسوں میں کوئی مجھ سا بھی غنی ہے
ہر اشک مرا ہے دُرِ شہوار سے بہتر
ہر لختِ جگر رشکِ عقیق یمنی ہے
پکڑی ہے نپٹ میرؔ تپش اور جگر میں
شاید کہ مرے جی ہی پر اب آن بنی ہے
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
غیروں سے اگر کھینچو گے شمشیر تو خوباں
اک اور مری جان پہ بیداد کرو گے
اس دشت میں اے راہرواں ہر قدم اوپر
مانندِ جرس نالہ و فریاد کرو گے
گر دیکھو گے تم طرزِ کلام اُس کی نظر کر
دے اہلِ سخن میرؔ کو استاد کرو گے
بھلے کو اپنے سب دوڑے ہیں یہ اپنا بُرا چاہے
چلن اس دل کا تم دیکھو تو دنیا سے نرالا ہے
کیا اے سایۂ دیوار تو نے مجھ سے روُ پنہاں
مرے اب دھوپ میں جلنے ہی کا آثار پیدا ہے
خوش سرانجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
ہم تو اے ہم نفساں دیر خبردار ہوئے
جنسِ دل دونوں جہاں جس کی بہا تھی اُس کا
یک نگہ مول ہوا تم نہ خریدار ہوئے
عشق وہ ہے کہ جو تھے خلوتیِ منزلِ قدس
وے بھی رسوائے سرِ کوچہ و بازار ہوئے
سیرِ گلزار مبارک ہو صبا کو ہم تو
ایک پرواز نہ کی تھی کہ گرفتار ہوئے
اُس ستم گار کے کُوچے کے ہواداروں میں
نام فردوس کا ہم لے کے گنہ گار ہوئے
وعدۂ حشر تو موہوم نہ سمجھے ہم آہ
کس توقع پہ ترے طالبِ دیدار ہوئے
میرؔ صاحب سے خدا جانے ہوئی کیا تقصیر
جس سے اس ظلمِ نمایاں کے سزاوار ہوئے
ہوا مذکور نام اُس کا کہ آنسو بہہ چلے منھ پر
ہمارے کام سارے دیدۂ تر ہی ڈبوتا ہے
ہلانا ابروؤں کا لے ہے زیرِ تیغ عاشق کو
پلک کا مارنا برچھی کلیجے میں چبھوتا ہے
کہاں اے رشکِ آبِ زندگی ہے تُو کہ یاں تجھ بن
ہر اک پاکیزہ گوہر جی سے اپنے ہاتھ دھوتا ہے
نہ رکھو کان نظمِ شاعرانِ حال پر اتنے
چلو ٹک میرؔ کو سننے کہ موتی سے پروتا ہے
ہم تو اُس کے ظلم سے ہمدم چلے
رہ سکے ہے تُو تو رہ یاں ہم چلے
دیکھیے بختِ زبوں کیا کیا دکھائے
تم کو خوباں ہم سے ہو برہم چلے
باغ کوتجھ بن اپنے بھائیں آتش دی ہے بہاراں نے
ہر غنچہ اخگر ہے ہم کو ہر گُل ایک انگارا ہے
بال کھلے وہ شب کو شاید بسترِ ناز پہ سوتا تھا
آئی نسیم ِ صبح جو ایدھر پھیلا عنبر سارا ہے
کس دن دامن کھینچ کے اُن نے یار سے اپنا کام لیا
مدت گزری دیکھتے ہم کو میرؔ بھی اک ناکارا ہے
رونا یہی ہے مجھ کو تیری جفا سے ہر دم
یہ دل دماغ دونوں کب تک وفا کریں گے
درویش ہیں ہم آخر وہ یک نگہ کی رخصت
گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دعا کریں گے
دامانِ دشت سُوکھا ابروں کی بے تہی ہے
جنگل میں رونے کو اب ہم بھی چلا کریں گے
لائی تری گلی تک آوارگی ہماری
ذلّت کی اپنی اب ہم عزّت کیا کریں گے
احوال میرؔ کیوں کر آخر ہو ایک شب میں
اک عمر ہم یہ قصّہ تم سے کہا کریں گے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے
آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
ان دنوں تم بہت شریر ہوئے
(ق)
ایسی ہستی عدم میں داخل ہے
نَے جواں ہم نہ طفلِ شیر ہوئے
ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے
یعنی مانندِ صبح دنیا میں
ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے
مت مل اہلِ دوَل کے لڑکوں سے
میرؔ جی ان سے مل فقیر ہوئے
توجہ تیری اے حیرت مری آنکھوں پہ کیا کم ہے
جو میں ہر یک مژہ دیکھوں کہ یہ تر ہے کہ یہ نم ہے
دو رنگی دہر کی پیدا ہے یاں سے دل اُٹھا اپنا
کسو کے گھر میں شادی ہے کہیں ہنگامۂ غم ہے
جب کہ پہلو سے یار اُٹھتا ہے
درد بے اختیار اٹھتا ہے
اب تلک بھی مزارِ مجنوں سے
ناتواں اک غبار اٹھتا ہے
ہے بگولا غبار کس کا میرؔ
کہ جو ہو بے قرار اٹھتا ہے
جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے
اک ایک سخت بات پہ برسوں اَڑے رہے
اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ جی میں تاب
کل اُس گلی میں آٹھ پہر غش پڑے رہے
وہ گُل کو خوب کہتی تھی میں اُس کے رُو تئیں
بلبل سے آج باغ میں جھگڑے بڑے رہے
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمِل گاہ ہے
پا برہنہ خاک سر میں مُو پریشاں سینہ چاک
حال میرا دیکھنے آ تیرے ہی دل خواہ ہے
اس جنوں پر میرؔ کوئی بھی پھرے ہے شہر میں
جادۂ صحرا سے کر سازش جو تجھ سے راہ ہے
مرتا ہے کیوں تُو ناحق یاری برادری پر
دنیا کے سارے ناتے ہیں جیتے جی تلک کے
کہتے ہیں گور میں بھی ہیں تین روز بھاری
جاویں کدھر الٰہی مارے ہوئے فلک کے
لاتے نہیں نظر میں غلطانیِ گہر کو
ہم معتقد ہیں اپنے آنسو ہی کی ڈھلک کے
کل اک مژہ نچوڑے طوفانِ نوح آیا
فکر فشار میں ہوں میرؔ آج ہر پلک کے
تاچند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
اُمیدِ عیادت پر بیمار رہا کیجے
نَے اب ہے جگر کاوی نَے سینہ خراشی ہے
کچھ جی میں یہ آئے ہے بے کار رہا کیجے
دل جاؤ تو اب جاؤ ہو خوں تو جگر ہووے
اک جان ہے کس کس کے غم خوار رہا کیجے
کیفیّتِ چشماں اب معلوم ہوئی اُس کی
یہ مست ہیں دو خونی، ہشیار رہا کیجے
ہے زیست کوئی یہ بھی جو میرؔ کرے ہے تُو
ہر آن میں مرنے کو تیار رہا کیجے
طاقت نہیں ہے جی میں نَے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
مارا ہے کس کو ظالم اِس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے
پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گزرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے
چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میرؔ کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے
قرارِ دل کا یہ کاہے کو ڈھنگ تھا آگے
ہمارے چہرے کے اوپر بھی رنگ تھا آگے
اُٹھائیں تیرے لیے بد زبانیاں اُن کی
جنھوں کی ہم کو خوشامد ہے ننگ تھا آگے
کیا خراب تغافل نے اُس کے ورنہ میرؔ
ہر ایک بات پہ دشنام و سنگ تھا آگے
ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر اے نسیم
اُٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے
کیسے ہیں وے کہ جیتے ہیں صد سال، ہم تو میرؔ
اس چار دن کی زیست میں بیزار ہو گئے
کب تلک گلیوں میں سودائی سے پھرتے رہیے
دل کو اس زلفِ مسلسل سے لگا بیٹھیں گے
دیکھیں وہ غیرتِ خورشید کہاں جاتا ہے
اب سرِ راہ دمِ صبح سے آ بیٹھیں گے
نالہ تا آسمان جاتا ہے
شور سے جیسے بان جاتا ہے
دل عجب جائے ہے ولیکن مفت
ہاتھ سے یہ مکان جاتا ہے
کیا خرابی ہے مے کدے کی سہل
محتسب اِک جہان جاتا ہے
اُس سخن ناشنو سے کیا کہیے
غیر کی بات مان جاتا ہے
گو وہ ہر جائی آئے اپنی اور
سو طرف ہی گمان جاتا ہے
میرؔ گو عمرِ طبعی کو پہنچا
عشق میں جوں جوان جاتا ہے
مر ہی جاویں گے بہت ہجر میں ناشاد رہے
بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمہیں یاد رہے
ہم سے دیوانے رہیں شہر میں سبحان اللہ
دشت میں قیس رہے کوہ میں فرہاد رہے
جب رونے بیٹھتا ہوں تب کیا کسر رہے ہے
رومال دو دو دن تک جوں ابر تر رہے ہے
آگہ تو رہیے اُس کی طرزِ رہ و روش سے
آنے میں اُس کے لیکن کس کو خبر رہے ہے
ان روزوں اتنی غفلت اچھی نہیں ادھر سے
اب اضطراب ہم کو دو دو پہر رہے ہے
در سے کبھو جو آتے دیکھا ہے میں نے اُس کو
تب سے اُدھر ہی اکثر میری نظر رہے ہے
میرؔ اب بہار آئی صحرا میں چل جنوں کی
کوئی بھی فصلِ گُل میں نادان گھر رہے ہے !
اے حبِ جاہ والو! جو آج تاجور ہے
کل اس کو دیکھیو تم نَے تاج ہے نہ سر ہے
اب کے ہوائے گُل میں سیرابی ہے نہایت
جوئے چمن پہ سبزہ مژگانِ چشمِ تر ہے
اے ہم صفیر! بے گُل کس کو دماغِ نالہ
مدت ہوئی ہماری منقار زیرِ پر ہے
شمعِ اخیرِ شب ہوں سن سرگزشت میری
پھر صبح ہوتے تک تو قصّہ ہی مختصر ہے
اب رحم پر اُسی کے موقوف ہے کہ یاں تو
نَے اشک میں سرایت نَے آہ میں اثر ہے
اب پھر ہمارا اُس کا محشر میں ماجرا ہے
آنکھیں تو اُس جگہ کیا انصاف داد گر ہے
تُو ہی زمام اپنی ناقے تُڑا کہ مجنوں
مدّت سے نقشِ پا کے مانند راہ پر ہے
آفت رسیدہ ہم کیا سر کھینچیں اس چمن میں
جوں نخلِ خشک ہم کو نَے سایہ نَے ثمر ہے
کر میرؔ اِس زمیں میں اور اک غزل تُو موزوں
ہے حرف زن قلم بھی اب طبع بھی اِدھر ہے
ڈھونڈھا نہ پائیے جو اس وقت میں سو زر ہے
پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دکانِ شیشہ گر ہے
صید افگنو! ہمارے دل کو جگر کو دیکھو
اک تیر کا ہدف ہے اک تیغ کا سپر ہے
اہلِ زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں
ہر آن مرتبے سے اپنے انھیں سفر ہے
تیری گلی سے بچ کر کیوں مہر و ماہ نکلیں
ہر کوئی جانتا ہے اس راہ میں خطر ہے
وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میرؔ اب تو
آنکھوں میں لختِ دل ہے یا پارۂ جگر ہے
شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے
اُٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانندِ گرد باد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے
اک دم میں تُو نے پھونک دیا دو جہاں کے تئیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے
سودا ہو تپ ہو میرؔ کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے
یاں جو وہ نونہال آتا ہے
جی میں کیا کیا خیال آتا ہے
پر تو گزرا قفس ہی میں دیکھیں
اب کے کیسا یہ سال آتا ہے
شیخ کی تُو نماز پر مت جا
بوجھ سر کا سا ڈال آتا ہے
رخسار اس کے ہائے رے جب دیکھتے ہیں ہم
آتا ہے جی میں آنکھوں کو اُن میں گڑوئیے
اخلاصِ دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے ورنہ جو یوں وقت کھوئیے
اب جان جسمِ خاک سے تنگ آ گئی بہت
کب تک اِس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے
آلودہ اُس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میرؔ
آبِ حیات سے بھی نہ وے پاؤں دھوئیے
اب میرؔ جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
پیشانی پہ دے قشقہ زنّار پہن بیٹھے
پیکانِ خدنگ اس کا یوں سینے کے اُودھر ہے
جو مار سیہ کوئی کاڑھے ہوئے پھن بیٹھے
بس ہو تو اِدھر اُودھر یوں پھرنے نہ دیں تجھ کو
ناچار ترے ہم یہ دیکھیں ہیں چلن بیٹھے
شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے
جان کو اپنی گُلِ مہتاب انگارے ہوئے
گور پر میری پس از مدت قدم رنجہ کیا
خاک میں مجھ کو ملا کر مہرباں بارے ہوئے
آستینیں رکھتے رکھتے دیدۂ خوں بار پر
حلقِ بسمل کی طرح لوہو کے فوّارے ہوئے
پھرتے پھرتے عاقبت آنکھیں ہماری مُند گئیں
سو گئے بے ہوش تھے ہم راہ کے بارے ہوئے
پیار کرنے کو جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں نگاہ
اُن سے بھی تو پوچھیے تم اتنے کیوں پیارے ہوئے
آج میرے خون پر اصرار ہر دم ہے تمہیں
آئے ہو کیا جانیے تم کس کے سنکارے ہوئے
لیتے کروٹ مل گئے جو کان کے موتی ترے
شرم سے سر در گریباں صبح کے تارے ہوئے
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دُور ہے
جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
مگر قافلے سے کوئی دُور ہے
تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے
نہ ہو کس طرح فکرِ انجام کار
بھروسا ہے جس پہ سو مغرور ہے
پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
کسو کا مگر خون منظور ہے
دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
گِرا گر یہ شیشہ تو پھر چُور ہے
کہیں جو تسلّی ہوا ہو یہ دل
وہی بے قراری بدستور ہے
بہت سعی کریے تو مر رہیے میرؔ
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
یہ تنہا داغ تو سینے پہ میرے اک چمن نکلے
ہر اک لختِ جگر کے ساتھ سو زخمِ کُہن نکلے
گماں کب تھا یہ پروانے پر اتنا شمع روئے گی
کہ مجلس میں سے جس کے اشک کے بھر بھر لگن نکلے
کہاں تک ناز برداری کروں شامِ غریباں کی
کہیں گردِ سفر سے جلد بھی صبحِ وطن نکلے
جنوں ان شورشوں پر ہاتھ کی چالاکیاں ایسی
میں ضامن ہوں اگر ثابت بدن سے پیرہن نکلے
حرم میں میرؔ جنتا بُت پرستی پر ہے تو مائل
خدا ہی ہو تو اتنا بت کدے میں برہمن نکلے
قصد گر امتحان ہے پیارے
اب تلک نیم جان ہے پیارے
سجدہ کرنے میں سر کٹے ہیں جہاں
سو ترا آستاں ہے پیارے
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
کام میں قتل کے مرے تن دے
اب تلک مجھ میں جان ہے پیارے
شکلیں کیا کیا کیاں ہیں جن نے خاک
یہ وہی آسمان ہے پیارے
پر تبسم کے کرنے سے تیرے
کنجِ لب پر گمان ہے پیارے
میرؔ عمداً بھی کوئی مرتا ہے
جان ہے تو جہان ہے پیارے
زخموں پہ زخم جھیلے داغوں پہ داغ کھائے
یک قطرہ خونِ دل نے کیا کیا ستم اُٹھائے
اُس کی طرف کو ہم نے جب نامہ بر چلائے
اُن کا نشاں نہ پایا خط راہ میں سے پائے
خوں بستہ جب تلک تھیں دریا رُکے کھڑے تھے
آنسو گرے کروڑوں پلکوں کے ٹک ہلائے
بڑھتیں نہیں پلک سے تا ہم تلک بھی پہنچیں
پھرتی ہیں وے نگاہیں پلکوں کے سائے سائے
پر کی بہار میں جو محبوب جلوہ گر تھے
سوں گردشِ فلک نے سب خاک میں ملائے
ہر قطعۂ چمن پر ٹک گاڑ کر نظر کر
بگڑیں ہزار شکلیں تب پھول یہ بنائے
یک حرف کی بھی مہلت ہم کو نہ دی اجل نے
تھا جی میں آہ کیا کیا پر کچھ نہ کہنے پائے
آگے بھی تجھ سے تھا یاں تصویر کا سا عالم
بے دردیِ فلک نے وے نقش سب مٹائے
مدت ہوئی تھی بیٹھے جوش و خروشِ دل کو
ٹھوکر نے اُس نگہ کی آشوب پھر اُٹھائے
اعجازِ عشق ہی سے جیتے رہے وگرنہ
کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے
دل گرمیاں انھی کی غیروں سے جب نہ تب تھیں
مجلس میں جب گئے ہم غیرت نے جی جلائے
جیتے تو میرؔ ہر شب اس طرز عمر گزری
پھر گور پر ہماری بے شمع گو کہ آئے
غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مرجائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے
یہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گُل برگ
ٹک ہونٹ ہلا تُو بھی کہ اب بات ٹھہر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
قبرِ عاشق پر مقرر روز آنا کیجیے
جو گیا ہو جان سے اُس کو بھی جانا کیجیے
رات دارو پیجیے غیروں میں بے لیت و لعل
یاں سحر سر دُکھنے کا ہم سے بہانا کیجیے
ٹک تمہارے ہونٹ کے ہلنے سے یاں ہوتا ہے کام
اتنی اُتنی بات جو ہووے تو مانا کیجیے
سیکھیے غیروں کے ہاں چھپ چھپ کے علمِ تیر پھر
سارے عالم میں ہمارے تئیں نشانا کیجیے
نکلے ہے آنکھوں سے تو گردِ کدورت جائے اشک
تا کجا تیری گلی میں خاک چھانا کیجیے
آبشار آنے لگی آنسو کی پلکوں سے تو میرؔ
کب تلک یہ آب چادر منھ پہ تانا کیجیے
مہ وشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جائیے
اب کہو! اس شہرِ ناپرساں سے کیدھر جائیے
شوق تھا جو یار کے کُوچے ہمیں لایا تھا میرؔ
پاؤں میں طاقت کہاں اتنی کہ اب گھر جائیے
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے
میں نے اُس قطعۂ صناع سے سر کھینچا
کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنرور کتنے
آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوسِ سیرِ بہار
آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے
دیکھیو پنجۂ مژگاں کی ٹک آتش دستی
ہر سحر خاک میں ملتے ہیں دُرِ تر کتنے
تُو ہے بے چارہ گدا میرؔ ترا کیا مذکور
مل گئے خاک میں یاں صاحبِ افسر کتنے
آہ جس وقت سر اُٹھاتی ہے
عرش پر برچھیاں چلاتی ہے
ناز بردارِ لب ہے جاں جب سے
تیرے خط کی خبر کو پاتی ہے
اے شبِ ہجر راست کہہ تجھ کو
بات کچھ صبح کی بھی آتی ہے
چشمِ بد دُور چشمِ تر اے میرؔ
آنکھیں طوفان کو دکھاتی ہیں
تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
میں کشتہ ہوں اندازِ قاتل کا اپنے
نہ پوچھو کہ احوال ناگفتہ بہ ہے
مصیبت کے مارے ہوئے دل کا اپنے
دلِ زخم خوردہ کے اور اک لگائی
مداوا کیا خوب گھائل کا اپنے
بِنائیں رکھیں میں نے عالم میں کیا کیا
ہوں بندہ خیالاتِ باطل کا اپنے
طاقت نہیں ہے دل میں نَے جی بجا رہا ہے
کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے
جیب اور آستیں سے رونے کا کام گزرا
سارا نچوڑ اب تو دامن پر آ رہا ہے
کاہے کا پاس اب تو رسوائی دُور پہنچی
رازِ محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے
وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب
کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا ہے
گردِ رہ اس کی یا رب، کس اور سے اُٹھے گی
سَو سَو غزال ہر سو آنکھیں لڑا رہا ہے
اب چاہتا نہیں ہے بوسہ جو تیرے لب سے
جینے سے میرؔ شاید کچھ دل اُٹھا رہا ہے
جب تک کہ ترا گزر نہ ہووے
جلوہ مری گور پر نہ ہووے
رونے کی ہے جاگہ آہ کریے
پھر دل میں ترے اثر نہ ہووے
بیمار رہے ہیں اُس کی آنکھیں
دیکھو کسو کی نظر نہ ہووے
کربے خبر اک نگہ سے ساقی
لیکن کسو کو خبر نہ ہووے
رکھ دیکھ کے راہِ عشق میں پا
یاں میرؔ کسو کا سر نہ ہووے
رات گزری ہے مجھے نزع میں روتے روتے
آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے
کھول کر آنکھ اُڑا دید جہاں کا غافل
خواب ہو جائے گا پھر جاگنا سوتے سوتے
جم گیا خوں کفِ قاتل پہ ترا میرؔ زبس
اُن نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
یعقوب کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے
سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے
بارے نسیم ضعف سے کل ہم اسیر بھی
سنّاہٹے میں جی کے گلستاں تلک گئے
کو موسمِ شباب، کہاں گُل، کسے دماغ
بلبل وہ چہچہے اُنھیں یاراں تلک گئے
کچھ آبلے دیے تھے رہ آوردِ عشق نے
سو رفتہ رفتہ خارِ مغیلاں تلک گئے
پھاڑا تھا جیب پی کے مئے شوق میں نے میرؔ
مستانہ چاک لوٹتے داماں تلک گئے
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں
گویا متاعِ دل کے خریدار مر گئے
افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے
تجھ سے دُچار ہونے کی حسرت کے مبتلا
جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے
یوں کانوں کان گُل نے نہ جانا چمن میں آہ
سر کو پٹک کے ہم پسِ دیوار مر گئے
گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر
جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے
تمام اُس کے قد میں سناں کی طرح ہے
رنگیلی نپٹ اُس جواں کی طرح ہے
(ق)
اُڑی خاک گاہے رہی گاہ ویراں
خراب و پریشاں یہاں کی طرح ہے
تعلق کرو میرؔ اس پر جو چاہو
مری جان یہ کچھ جہاں کی طرح ہے
اچنبھا ہے اگر چُپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے
وگر قصّہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے
بغل پروردۂ طوفاں ہوں میں یہ موج ہے میری
بیاباں میں اگر روؤں تو شہروں میں بھی آب آوے
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
الٰہی اس بلائے ناگہاں پر بھی بلا آوے
تر آنا ہی اب مرکوز ہے ہم کو دمِ آخر
یہ جی صدقے کیا تھا پھر نہ آوے تن میں یا آوے
اسیری نے چمن سے میری دل گرمی کو دھو ڈالا
وگرنہ برق جا کر آشیاں میرا جلا آوے
رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج گرمی ہے
بلا سے چاک ہی ہو جاوے سینہ، ٹک ہوا آوے
بہ رنگِ بوئے غنچہ عمر اک ہی رنگ میں گزرے
میسر میرؔ صاحب گر دلِ بے مدعا آوے
صید افگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے
اس دل کے تئیں پیش کشِ تیر کریں گے
فریادِ اسیرانِ محبت نہیں بے ہیچ
یہ نالے کسو دل میں بھی تاثیر کریں گے
دیوانگی کی شورشیں دکھلائیں گے بلبل
آتی ہے بہار اب ہمیں زنجیر کریں گے
رُسوائیِ عاشق سے تسلی نہیں خوباں
مر جاوے گا تو نعش کو تشہیر کریں گے
یا رب وہ بھی دن ہووے گا جو مصر سے چل کر
کنعاں کی طرف قافلے شب گیر کریں گے
غصے میں تو ہووے گی توجہ تری ایدھر
ہر کام میں ہم جان کے تقصیر کریں گے
نکلا نہ مناجاتیوں سے بھی کام کچھ اپنا
اب کوئی خراباتی جواں پیر کریں گے
وا اُس سے سرِ حرف تو ہو، گو کہ یہ سر جائے
ہم حلقِ بریدہ سے ہی تقریر کریں گے
شب دیکھی ہے زُلف اس کی بجُز دامِ اسیری
کیا یار اب اس خواب کی تعبیر کریں گے
بازیچہ نہیں میرؔ کے احوال کا لکھنا
اس قصّے کو ہم کرتے ہی تحریر کریں گے
جہاں میں روز ہے آشوب اُس کی قامت سے
اُٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے
مُوا ہوں ہو کے دل افسردہ رنجِ کلفت سے
اُگے ہے سبزۂ پژ مردہ میری تُربت سے
تسلّی اُن نے نہ کی ایک دو سخن سے کبھو
جو کوئی بات کہی بھی تو آدھی لکنت ہے
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انھیں کی دولت سے
یہ جہل دیکھ کہ اَن سمجھے میں اُٹھا لایا
گراں وہ بار جو تھا بیش اپنی طاقت سے
وہ آنکھیں پھیرے ہی لیتا ہے دیکھیے کیا ہو
معاملت ہے ہمیں دل کی بے مروت سے
جو سوچے ٹک تو وہ مطلوب ہم ہی نکلے میرؔ
خراب پھرتے تھے جس کی طلب میں مدّت سے
رمق ایک جانِ وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
دلِ داغ گشتہ کباب ہے جگرِ گداختہ آب ہے
مرے خلق محوِ کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
مرا حرف رشکِ کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے
جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی مجھ میں تری نہاں
تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جوابِ خط کا جواب ہے
نہیں کھلتیں آنکھیں تمہاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تجھے کرنا ہووے سو کر تُو اب کہ یہ عمر برقِ شتاب ہے
کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا
یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے
تُو جہاں کے بحرِ عمیق میں سرِ پُر ہوا نہ بلند کر
کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے
رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خطِ جام کی
کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے
مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا
جسے میرؔ کہتے ہیں صاحبو! یہ وہی تو خانہ خراب ہے
سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
تِس پہ یہ جان بہ لب آمدہ بھی محزوں ہے
اُس سے آنکھوں کو ملا جی میں رہے کیوں کر تاب
چشم اعجاز، مژہ سحر، نگہ افسوں ہے
کیوں کے بے بادہ لبِ جُو پہ چمن میں یہ رہے
عکسِ گُل آب میں تکلیفِ مئے گُل گُوں ہے
خون ہر ایک رقم شوق سے ٹپکے تھا ولے
وہ نہ سمجھا کہ مرے نامے کا کیا مضموں ہے
میرؔ کی بات پہ ہر وقت یہ جھنجھلایا نہ کر
سڑی ہے ، خبطی ہے وہ شیفتہ ہے مجنوں ہے
اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے
ہر اک سے کہا نیند میں پر کوئی نہ سمجھا
شاید کہ مرے حال کا قصہ عربی ہے
اے چرخ نہ تُو روزِ سیہ میرؔ پہ لانا
بے چارہ وہ اک نعرہ زنِ نیم شبی ہے
دو سونپ دودِ دل کو میرا کوئی نشاں ہے
ہوں میں چراغِ کشتہ بادِ سحر کہاں ہے
روشن ہے جل کے مرنا پروانے کا ولیکن
اے شمع کچھ تو کہہ تُو تیری بھی تو زبان ہے
بھڑکے ہے آتشِ گُل اے ابرِ تر ترحّم
گوشے میں گلستاں کے میرا بھی آشیاں ہے
اُس دور میں اُٹھایا مجھ سینہ سوختہ کو
پیوند ہو زمیں کا جیسا یہ آسماں ہے
پیرِ مغاں سعادت تیری جو ایسا آوے
یہ میرؔ مے کشوں میں اک طرز کا جواں ہے
مژگاں بھی پھر گئیں تری بیمار چشم دیکھ
دکھ درد میں سوائے خدا یار کون ہے
نالے جو آج سنتے ہیں سو ہیں جگر خراش
کیا جانیے قفس میں گرفتار کون ہے
بے کس ہوں مضطرب ہوں مسافر ہوں بے وطن
دوریِ راہ بِن مرے ہمراہ کون ہے
رکھیو قدم سنبھل کے کہ تُو جانتا نہیں
مانندِ نقشِ پا یہ سرِ راہ کون ہے
دیکھا کروں تجھی کو منظور ہے تو یہ ہے
آنکھیں نہ کھولوں تجھ بِن مقدور ہے تو یہ ہے
نزدیک تجھ سے سب ہے کیا قتل کیا جلانا
ہم غم زدوں سے ملنا اک دُور ہے تو یہ ہے
رونے میں دن کٹے ہیں آہ و فغاں سے راتیں
گر شغل ہے تو یہ ہے مذکور ہے تو یہ ہے
وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہووے
دل کی معاملت سے کیا کوئی خوار ہووے
فتراک سے نہ باندھے دیکھے نہ تُو تڑپنا
کس آرزو پہ کوئی تیرا شکار ہووے
ازبس لہو پیا ہے میں تیرے غم میں گُل رُو
تُربت سے میری شاید حشرِ بہار ہووے
میں مست مرگیا ہوں کرنا عجب نہ ساقی
گر سنگِ شیشہ میرا سنگِ مزار ہووے
نہ اُٹھ تو گھر سے اگر چاہتا ہے ہوں مشہور
نگیں جو بیٹھا ہے گڑ کر تو کیسا نامی ہے
ہوئی ہے فکریں پریشان میرؔ یاروں کی
حواسِ خمسہ کرے جمع سو نظامی ہے
کوئی ہوا نہ رُو کش ٹک میری چشمِ تر سے
کیا کیا نہ ابر آ کر یاں زور زور برسے
اب جوں سرشک اُن سے پھرنے کی چشم مت رکھ
جو خاک میں ملے ہیں گِر کر تری نظر سے
دیدار خواہ اُس کے کم ہوں تو شور کم ہو
ہر صبح اک قیامت اُٹھتی ہے اُس کے در سے
داغ ایک ہو جلا بھی خوں ایک ہو بہا بھی
اب بحث کیا ہے دل سے کیا گفتگو جگر سے
دل کس طرح نے کھنچیں اشعار ریختے کے
بہتر کیا ہے میں نے اس عیب کے ہنر سے
انجام کار بلبل دیکھا ہم اپنی آنکھوں
آوارہ تھے چمن میں دو چار ٹوٹے پر سے
بے طاقتی نے دل کی آخر کو مار رکھا
آفت ہمارے جی کی آئی ہمارے گھر سے
دل کش یہ منزل آخر دیکھا جو راہ نکلی
سب یار جا چکے تھے آئے جو ہم سفر سے
آوارہ میرؔ شاید واں خاک ہو گیا ہے
اک گرد اُٹھ چلے ہے گاہ اُس کی راہ گزر سے
انجامِ دلِ غم کش کوئی عشق میں کیا جانے
کیا جانیے کیا ہو گا آخر کو خدا جانے
ناصح کو خبر کیا ہے لذت سے غمِ دل کی
ہے حق بہ طرف اُس کے چکھّے تو مزا جانے
بے طاقتیِ دل نے ہم کو نہ کیا رسوا
ہے عشق سزا اُس کو جو کوئی چھپا جانے
اُس مرتبہ ناسازی نبھتی ہے دِلا کوئی
کچھ خُلق بھی پیدا کر تا خلق بھلا جانے
لے جائے یہ میرؔ اُس کے دروازے کی مٹی بھی
اُس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے
تم جو دل خواہِ خلق ہو ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے
درہمی آ گئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوانِ درہم سے
مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے !
(ق)
کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منھ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے
وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اُس کے کسو جو محرم سے
درپئے خونِ میرؔ ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جُرم آدم ہے
نالۂ عجز نقصِ اُلفت ہے
رنج و محنت کمالِ راحت ہے
تا دمِ مرگ غم خوشی کا نہیں
دلِ آزردہ گر سلامت ہے
دل میں ناسور پھر جدھر چاہے
ہر طرف کوچۂ جراحت ہے
رونا آتا ہے دم بدم شاید
کسو حسرت کی دل سے رخصت ہے
باطل السحر دیکھ باطل تھے
تیری آنکھوں کا سحر آفت ہے
فتنے رہتے ہیں اس کے سائے میں
قد و قامت ترا قیامت ہے
نہ تجھے رحم نَے اُسے ٹک صبر
دل پہ میرے عجب مصیبت ہے
(ق)
تیرا شکوہ مجھے نہ میرا تجھے
چاہیے یوں جو فی الحقیقت ہے
تجھ کو مسجد ہے مجھ کو مے خانہ
واعظا! اپنی اپنی قسمت ہے
کیا ہوا گر غزل قصیدہ ہوئی
عاقبت قصۂ محبت ہے
(ق)
تُربتِ میرؔ پر ہیں اہلِ سخن
ہر طرف حرف ہے حکایت ہے
تُو بھی تقریبِ فاتحہ سے چل
بہ خدا واجب الزیارت ہے
سچ پوچھو تو کب ہے گا اُس کا سا دہن غنچہ
تسکیں کے لیے ہم نے اک بات بنا لی ہے
دیہی کو نہ کچھ پوچھو اک بھرت کا ہے گڑوا
ترکیب سے کیا کہیے سانچے میں کہ ڈھالی ہے
عزت کی کوئی صورت دکھلائی نہیں دیتی
چپ رہیے تو چشمک ہے کچھ کہیے تو گالی ہے
دو گام کے چلنے میں پامال ہوا عالم
کچھ ساری خدائی سے وہ چال نرالی ہے
نازِ چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخِ زعفراں ہے
ہنگامِ جلوہ اُس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا
چتون ہے دل کی آفت چشمک بلائے جاں ہے
ہرچند ضبط کریے چھُپتا ہے عشق کوئی
گزرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
از خویش رفتہ اُس بن رہتا ہے میرؔ اکثر
کرتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے
اُس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے
فانوس کی سی شمع جو پردے میں جل سکے
کہتا ہے کون تجھ کو کہ اے سینہ رک نہ جا
اتنا تو ہو کہ آہ جگر سے نکل سکے
گر دوپہر کو اُس کو نکلنے دے نازکی
حیرت سے آفتاب کی پھر دن نہ ڈھل سکے
کہتا ہے وہ تو ایک کی دس میرؔ کم سخن
اُس کی زباں کے عہدے سے کیوں کر نکل سکے
ہم گرم رو ہیں راہِ فنا کے شرر صفت
ایسے نہ جائیں گے کہ کوئی کھوج پاسکے
میرا جو بس چلے تو منادی کیا کروں
تا اب سے دل نہ کوئی کسو سے لگا سکے
اس کا کمال چرخ پہ سر کھینچنا نہیں
اپنے تئیں جو خاک میں کوئی ملا سکے
(ق)
کیا دل فریب جائے ہے آفاق ہم نشیں
وہ دن کو یاں جو آئے سو برسوں نہ جا سکے
مشعر ہے اُس پہ مردنِ دشوارِ رفتگاں
یعنی جہاں سے دل کو نہ آساں اُٹھا سکے
آتش کے شعلے سر سے ہمارے گزر گئے
بس اے تپِ فراق کہ گرمی میں مر گئے
ناصح نہ روویں کیوں کے محبت کے جی کو ہم
اے خانماں خراب ہمارے تو گھر گئے
(ق)
یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
جانے دے میرؔ صاحب و قبلہ جدھر گئے
روزِ وداع اُس کی گلی تک تھے ہم بھی ساتھ
جب درد مند ہم کو وے معلوم کر گئے
کر یک نگاہ یاس کی ٹپ دے سے رو دیا
پھر ہم اِدھر کو آئے میاں وے اُدھر گئے
دن کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے
مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے
طوفاں بجائے اشک ٹپکتے تھے چشم سے
اے ابرِ تر دماغ تھا رونے کا جب مجھے
دو حرف اُس کے منھ کے تو لکھ بھیجیو شتاب
قاصد چلا ہے چھوڑ کے تُو جاں بہ لب مجھے
پوچھا تھا راہ جاتے کہیں اُن نے میرؔ کو
آتا ہے اُس کی بات کا اب تک عجب مجھے
شب خواب کا لباس ہے عریاں تنی میں یہ
جب سوئیے تو چادرِ مہتاب تانیے
مرے اس رک کے مر جانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
گزرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے
طرف ہونا مرا مشکل ہے میرؔ اس شعر کے فن میں
یونہی سودا کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے
کب تلک جی رکے خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے
جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے
کاہشِ دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے
چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے
بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے
مر گئے ہم تو مر گئے تُو جیے
دل گرفتہ تری بَلا ہووے
عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے
نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میرؔ مر رہا ہووے
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے
رہ گئے گاہ تبسم پہ گہے بات ہی پر
بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے
یاں تو آتی نہیں شطرنجِ زمانہ کی چال
اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے
روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
خرقہ مندیل و رِدا مست لیے جاتے ہیں
شیخ کی ساری کرامات چلی جاتی ہے
ایک ہم ہی سے تفاوت ہے سلوکوں میں میرؔ
یوں تو اوروں کی مدارات چلی جاتی ہے
منصف جو تُو ہے کب تئیں یہ دکھ اُٹھائیے
کیا کیجے میری جان اگر مر نہ جائیے
تم نے جو اپنے دل سے بھلایا ہمیں تو کیا
اپنے تئیں تو دل سے ہمارے بھُلائیے
فکرِ معاش یعنی غمِ زیست تا بہ کے
مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے
جاتے ہیں کیسی کیسی لیے دل میں حسرتیں
ٹک دیکھنے کو جاں بہ لبوں کے بھی آئیے
پہنچا تو ہو گا سمعِ مبارک میں حالِ میرؔ
اُس پر بھی جی میں آوے تو دل کو لگائیے
پہنچا نہیں کیا سمعِ مبارک میں مرا حال
یہ قصّہ تو اِس شہر میں مشہور ہوا ہے
بے خوابی تری آنکھوں پہ دیکھوں ہوں مگر رات
افسانہ مرے حال کا مذکور ہوا ہے
اے رشکِ سحر بزم میں لے منھ پہ نقاب اب
اک شمع کا چہرہ ہے سو بے نور ہوا ہے
نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
میرے تغییرِ حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
دمِ آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے
بس ہیں دو برگِ گُل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
چشمِ نجم سہپر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے
دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمہارے آنے کے
کم فرصتی گُل جو کہیں کوئی نہ مانے
ایسے گئے ایامِ بہاراں کہ نہ جانے
ہمراہِ جوانی گئے ہنگامے اُٹھانے
اب ہم بھی نہیں وے رہے نَے وے ہیں زمانے
ٹک آنکھ بھی کھولی نہ ز خود رفتہ نے ان کے
ہر چند کیا شور قیامت نے سرھانے
لوہے کے توے ہیں جگرِ اہلِ محبت
رہتے ہیں ترے تیرِ ستم ہی کے نشانے
کاہے کو یہ انداز تھا اعراضِ بُتاں کا
ظاہر ہے کہ منھ پھیر لیا ہم سے خدا نے
ان ہی چمنوں میں کہ جنھوں میں نہیں اب چھاؤں
کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوا نے
کب کب مری عزت کے لیے بیٹھے ہو ٹک پاس
آئے بھی جو ہو تو مجھے مجلس سے اُٹھانے
چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے
ہر سرِ حرف پہ فریاد نہایت کیجے
کس کے کہنے کو ہے تاثیر کہ اک میرؔ ہی سے
رمز و ایما و اشارات و کنایت کیجے
دل کو مت بھول جانا میرے بعد
مجھ سے یہ یادگار رہتا ہے
دور میں چشمِ مست کے تیری
فتنہ بھی ہوشیار رہتا ہے
ہر گھڑی رنجش ایسی باتوں میں
کوئی اخلاص و پیار رہتا ہے
تجھ بِن آئے ہیں تنگ جینے سے
مرنے کا انتظار رہتا ہے
کیوں نہ ہووے عزیز دل ہا میرؔ
کس کے کوچے میں خوار رہتا ہے
دہر بھی میرؔ طرفہ مقتل ہے
جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے
چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے
مر گیا کوہ کن اسی غم میں
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے
جاں گداز اتنی کہاں آوازِ عود و چنگ ہے
دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے
بیستوں کھودے سے کیا آخر ہوئے سب کارِ عشق
بعد ازاں اے کوہ کن سر ہے ترا اور سنگ ہے
آہ ان خوش قامتوں کو کیوں کے بر میں لائیے
جن کے ہاتھوں سے قیامت پر بھی عرصہ تنگ ہے
چشمِ کم سے دیکھ مت قُمری تُو اُس خوش قد کو ٹک
آہ بھی سروِ گلستانِ شکستِ رنگ ہے
رو و خال و زلف ہی ہیں سنبل و سبزہ و گُل
آنکھیں ہوں تو یہ چمن آئینۂ نیرنگ ہے
صبر بھی کریے بَلا پر میرؔ صاحب جی کبھو
جب نہ تب رونا ہی کڑھنا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہے
خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
ملک اِن ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے
جس سے اسے لگاؤں روکھا ہی ہو ملے ہے
سینے میں جل کر ازبس دل خاک ہو گیا ہے
کیا جانوں لذّتِ درد اُس کی جراحتوں کی
یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے
زیرِ فلک بھلا تُو رووے ہے آپ کو میرؔ
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے
آج تیری گلی سے ظالم میرؔ
لوہو میں شور بور آیا ہے
بے تابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے
وقتِ شکیب خوش کہ گیا درمیان سے
ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اُس کی بزم میں
نکلا نہ حرفِ خیرکسو کی زبان سے
آبِ خضر سے بھی نہ گئی سوزشِ جگر
کیا جانیے یہ آگ ہے کس دودمان سے
آنے کا اس چمن میں سبب بے کلی ہوئی
جوں برق ہم تڑپ کے گرے آشیان سے
اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ عاشق ہے تو کہیں
القصّہ خوش گزرتی ہے اُس بدگمان سے
داغوں سے ہے چمن جگرِ میرؔ دہر میں
اُن نے بھی گُل چُنے بہت اس گلستان سے
عالم مری تقلید سے خواہش تری کرنے لگا
میں تو پشیماں ہو چکا لوگوں کو اب ارمان ہے
ہر لحظہ خنجر درمیاں ہر دم زباں زیرِ زباں
وہ طور وہ اسلوب ہے یہ عہد یہ پیمان ہے
اس آرزوئے وصل نے مشکل کیا جینا مرا
ورنہ گزرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے
بس بے وقاری ہو چکی گلیوں میں خواری ہو چکی
اب پاس کر ٹک میرؔ کا دو چار دن مہمان ہے
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منھ بھی چھُپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
(ق)
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
(ق)
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بُرا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے !
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے
غم زدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے
دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے
مت تبختر سے گزر قُمری ہماری خاک پر
ہم بھی اک سروِ رواں کے ناز برداروں میں تھے
مر گئے لیکن نہ دیکھا تُو نے اودھر آنکھ اُٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میرؔ دونوں اپنے غم خواروں میں تھے
جس جگہ دورِ جام ہوتا ہے
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے
ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے
تیغ ناکاموں پر نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے
پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش
روز اُن کا بھی شام ہوتا ہے
زخم بِن غم بِن اور غصّے بِن
اپنا کھانا حرام ہوتا ہے
میرؔ صاحب بھی اُن کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اُٹھایا ہم نے
حسرتِ لطفِ عزیزانِ چمن جی میں رہی
سر پہ دیکھا نہ گُل و سرو کا سایا ہم نے
جی میں تھا عرش پہ جا باندھیے تکیہ لیکن
بسترا خاک ہی میں اب تو بچھایا ہم نے
بعد یک عمر کہیں تم کو جو تنہا پایا
ڈرتے ڈرتے ہی کچھ احوال سنایا ہم نے
یاں فقط ریختہ ہی کہنے نہ آئے تھے ہم
چار دن یہ بھی تماشا سا دکھایا ہم نے
تازگی داغ کی ہر شام کو بے ہیچ نہیں
آہ کیا جانے دیا کس کا بجھایا ہم نے
دشت و کہسار میں سر مار کے چندے تجھ بِن
قیس و فرہاد کو پھر یاد دلایا ہم نے
بے کلی سے دلِ بے تاب کی مر گزرے تھے
سو تہِ خاک بھی آرام نہ پایا ہم نے
یہ ستم تازہ ہوا اور کہ پائیز میں میرؔ
دل خس و خار سے ناچار لگایا ہم نے
کافر ہوئے بُتوں کی محبت میں میرؔ جی
مسجد میں آج آئے تھے قشقہ دیے ہوئے
کرو توکّل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے
الم جو یہ ہے تو درد مندو! کہاں تلک تم دوا کرو گے
جگر میں طاقت کہاں ہے اتنی کہ دردِ ہجراں سے مرتے رہیے
ہزاروں وعدے وصال کے تھے کوئی بھی جیتے وفا کرو گے
جہاں کی مسلح تمام حیرت نہیں ہے تِس پر نگہ کی فرصت
نظر پڑے گی بسانِ بسمل کبھو جو مژگاں کو وا کرو گے
اخیر الفت یہی نہیں ہے کہ جل کے آخر ہوئے پتنگے
ہوا جو یاں کی یہ ہے تو یارو! غبار ہو کر اُڑا کر و گے
بَلا ہے ایسا تپیدنِ دل کہ صبر اس پر ہے سخت مشکل
دماغ اتنا کہاں رہے گا کہ دست بر دل رہا کرو گے
عدم میں ہم کو یہ غم رہے گا کہ اوروں پر اب ستم رہے گا
تمہیں تو لت ہے ستانے ہی کی کسو پر آخر جفا کرو گے
اگر چہ اب تو خفا ہو لیکن مرے گئے پر کبھو ہمارے
جو یاد ہم کو کرو گے پیارے تو ہاتھ اپنے مَلا کرو گے
سحر کو محرابِ تیغِ قاتل کبھو جو یارو ادھر ہو مائل
تو ایک سجدہ بسانِ بسمل مری طرف سے ادا کرو گے
غمِ محبت سے میرؔ صاحب بہ تنگ ہوں میں فقیر ہو تم
وہ وقت ہو گا کبھو مساعد تو میرے حق میں دعا کرو گے
ہے جو اندھیر شہر میں خورشید
دن تو لے کر چراغ نکلے ہے
وے ہے جنبش جو واں کی خاک کو باؤ
جگرِ داغ داغ نکلے ہے
ہر سحر حادثہ مری خاطر
بھر کے خوں کا ایاغ نکلے ہے
اُس گلی کی زمینِ تفتہ سے
دل جلوں کا سراغ نکلے ہے
اس شہرِ دل کو تُو بھی جو دیکھے تو اب کہے
کیا جانیے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے
رہ آشنائے لطف حقیقت کے بحر کا
ہے رشکِ زلف و چشم جو موجِ حباب ہے
ہے خاک جیسے ریگِ رواں سب نہ آپ ہے
دریائے موجِ خیز جہاں کا سراب ہے
کیا کیا بیٹھے بگڑ بگڑ تم پر ہم تم سے بنائے گئے
چپکے باتیں اُٹھائے گئے سرگاڑے ووں ہی آئے گئے
کب کب تم نے سچ نہیں مانیں جھوٹی باتیں غیروں کی
تم ہو کو یوں ہی جلائے گئے وے تم کو ووں ہی لگائے گئے
صبح وہ آفت اٹھ بیٹھا تھا تم نے نہ دیکھا صد افسوس
کیا کیا فتنے سر جوڑے پلکوں کے سائے سائے گئے
اللہ رے یہ دیدہ ورائی ہوں نہ مکدر کیوں کے ہم
آنکھیں ہم سے ملائے گئے پھر خاک میں ہم کو ملائے گئے
خضر جو مل جاتا ہے گاہے آپ کو بھُولا خوب نہیں
کھوئے گئے اُس راہ کے ورنہ کاہے کو پھر پائے گئے
مرنے سے کیا میرؔ جی صاحب ہم کو ہوش تھے کیا کر یے
جی سے ہاتھ اُٹھائے گئے پر اُس سے دل نہ اُٹھائے گئے
اِدھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
مقام خانۂ آفاق وہ ہے
کہ جو آیا ہے یاں کچھ کھو گیا ہے
کچھ آؤ زلف کے کوچے میں درپیش
مزاج اپنا ادھر اب تو گیا ہے
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
دن دُوریِ چمن میں جو ہم شام کریں گے
تا صبح دو صد نالہ سرانجام کریں گے
ہو گا ستم و جور سے تیرے ہی کنایہ
وہ شخص جہاں شکوۂ ایام کریں گے
آمیزشِ بے جا ہے تجھے جن سے ہمیشہ
وے لوگ ہی آخر تجھے بدنام کریں گے
نالوں سے مرے رات کے غافل نہ رہا کر
اک روز یہی دل میں ترے کام کریں گے
گر دل ہے یہی مضطرب الحال تو اے میرؔ
ہم زیرِ زمیں بھی بہت آرام کریں گے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے
جی ڈہا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقع اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
***
ٹائپنگ: وہاب اعجاز خان
تدوین اور اضافے : اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید