01:40    , بدھ   ,   08    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

2991 10 0 14.6

سرفراز صدیقی - 2013-اگست-21

اولاد کی تربیت

ہمارے معاشرے میں آج جس قدر بگاڑ نظر آتا ہے اُس کی ایک بڑی وجہ موجودہ دور کے والدین کی طرف سے اپنی اولادکی پرورش میں کوتاہی ہے۔ اس دور میں والدین اپنے بچوں کو اچھےنجی اسکول بھیج کر اور ساتھ ہی ٹیوشن دِلوا کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنا بنیادی فرض ادا کر دیا۔ حالانکہ دور حاضر کی تعلیم صرف اور صرف پیسہ کمانے کی سیڑھی کا ایک پائدان ہے۔ ہمارے یہاں عموماً والدین کی خواہش صرف یہاں تک محدود ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ پڑھ لکھ کر ڈاکڑ، انجینیر ، اکاونٹینٹ یا اسی طرح کا کوئی اور پیشہ اختیار کر لے یا کوئی اعلٰی سرکاری عہدہ حاصل کر لے جس سے اُس کی زندگی میں روپے پیسے کی فراوانی ہو اور زندگی اچھی گزر جائے۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کوگرانی کے اس دور میں پر تعیش نہ سہی ایک اوسط درجہ کی زندگی گزارنے کے لیے بھی اچھی ماہانہ آمدن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے مواقع تعلیم یافتہ لوگوں کو نسبتاً زیادہ میسر ہوتے ہیں ۔ مگر دُنیا کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد ایک بات ہم سو فیصد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم کا رِزق سے قطعی طور پرکوئی تعلق نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دُنیا کے تمام ان پڑھ لوگ، ہمارےبیشتر سیاستدان اور تمام جانور بھوکے مر جاتے۔ دُنیوی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگراس سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان میں اچھا اخلاق، تمیز اور تہذیب ہو تاکہ وہ ایمان کے دائرے میں رہتے ہوئے معاشرے کا ایک اچھا فرد بن سکے۔ ایک اچھے معاشرے سے ہی ایک اچھی قوم کی تشکیل ہوتی ہے۔ اور اچھی قوم ہی اپنے وطن کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔

آج اس بات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ بچوں میں اوصاف حمیدہ پروان چڑھائے جائیں یعنی اُن کا چال چلن ٹھیک کیا جائے ، اُن میں اَدب و تمیز پیدا کی جائے، وہ پاک صاف رہیں، اُن میں شائستگی ہو، قواعد و ضوابط کا احترام کریں اور سب سے بڑی بات یہ کہ اُن میں اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے کہ جس سے وہ اپنے ہر قدم کا خود احتساب کر سکیں کہ آیا یہ فعل درست ہے یا نہیں؟ اِس کام کو سر انجام دینا چاہیے یا نہیں؟ ایک انسان کی تعلیم اچھی ہو تو وہ اپنی اور اپنے کنبہ کی کفالت کر سکتا ہے لیکن اگر اُس کی تربیت اچھی ہو تو اُس کے فیض سے ایک پورے معاشرے کی فلاح اور بہبود کا کام ہو سکتا ہے ۔ اور اِسی طرح اگر بہت سے مہذب، باکردار اور بااخلاق لوگ مل کر معاشرے کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اُٹھائیں تو ہمارا تیزی سے تنزلی کے مدارج طے کرتا ہوا معاشرتی نظام ٹھیک بھی کیا جا سکتا ہے۔

اخلاق ، تہذیب اور دیگر اوصاف حمیدہ کی تعلیم کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں نہیں دی جاتی بلکہ اسے گھر کی چار دیواری میں والدین اور بالخصوص ایک لائق ماں اپنی اولاد میں اپنی زبان ا ور عمل کے ذریعے پروان چڑھاتی ہے۔ ایک اچھی اور پڑھی لکھی ماں کا یہی اوّلین اور سب سے بڑا فریضہ ہے۔ اسلام تو معاشرے میں ماں کے مقام اور کردار کے بارے میں صراحت سے روشنی ڈالتا ہی ہے مگر ہماری پڑھی لکھی اکثریت آج جس معاشرے سے اپنے رہن سہن کا 'اسٹائل' اور 'آزادی نسواں' اور اس سے متصل حقوق کے 'شعور' کی خیرات لیتی ہے وہ معاشرہ خود اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اچھی مائیں ہی اچھی قوم کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ صد افسوس کے ہم اہل مغرب کی ہر برائی تو بڑی تیزی سے اِخیتار کرتے جا رہے ہیں مگر اُن کی ایک بھی اچھائی ہماری زندگیوں میں جگہ حاصل نہیں کر پا رہی۔

ہم مانتے ہیں کہ ہر انسان کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے مگر بعض اوقات تربیت تعلیم پر سبقت لے جاتی ہے کیونکہ اچھی تربیت کے نتیجے میں ہی ایک انسان کو زندگی گزارنے کا صحیح ڈھنگ سمجھ آتا ہے اور وہ اچھا انسان بن پاتا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں حد درجہ سرائیت کرتی ہوئی بے راہ روی کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ اُن کی زندگی میں تربیت کا فقدان ہے۔ اس کام کے لیے آج کے والدین کی مصروف زندگیوں میں وقت ہی میسر نہیں! کتنے افسوس کی بات ہے کہ نئی نسل ادب وآداب اور اخلاق سے بے بہر ہ ہوتی جا رہی ہے اور اس برائی میں پہلے کیبل، پھر انٹرنیٹ اور اب فیس بک نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ گو فیس بک نے انٹرنیٹ کی گود میں آنکھ کھولی مگر اب وہ پورے انٹرنیٹ پر حاوی ہو چکی ہے اور اُس کی اپنی ایک دُنیا ہے جو انتہائی تیزی سے نشونما پا رہی ہے اور دُنیا اس کے شکنجے میں مقید ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہ تمام میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا بالکل آگ کی طرح ہیں کہ اگر آگ کو زیر نگرانی استعمال کیا جائے تو اس سے زندگی فروغ پاتی ہے اور اگر اسے بے قابو چھوڑ دیں تو یہ زندگی کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ گو کہ میرے پاس وقت کی شدید قلت ہے پھر بھی مجھے فیس بک پر اِسی اندیشہ کے تحت آنا پڑا کہ یہ نام نہاد 'سماجی وسیلہ' (
social media) میرے سماج کو بہت سُرعت کے ساتھ برباد کر رہا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس دور کے نوجوانوں کے والدین چونکہ انٹرنیٹ سے آشنا ہی نہیں ہیں اس لیے انہیں اس بات کا قطعی علم نہیں کے اُن کی اولاد ایک چھوٹے سے اسمارٹ فون پرگھر کے کونے میں بیٹھی کیا کر رہی ہے ۔ کس قدر زر مبادلہ ہم موبائل فون پر برباد کر ہے ہیں وہ تو اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ ہے مگراصل افسوس تو اس بات کا ہے کے ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کے ہمارے ہی دلائے ہوئے اُس مہنگے موبائل فون پر ہماری اولاد کچھ اَچھا کر رہی ہے یا بُرا؟ اور اولاد کو جب روکنے، ٹوکنے اور صحیح راہ دکھانے والا کوئی نہیں تو وہ شُتر بے مہار کی مانند جس سمت منہ اُٹھا بھاگی چلی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں اس بات میں بچوں کا اِتنا قصور نہیں ہے اس لیے کے یہ عمر ہوتی ہی ایسی ہے کہ جس میں اس طرح کی چیزیں بہت پرکشش دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ شریف گھرانوں کے لڑکے اور بالخصوص لڑکیاں فیس بک پر وہ کچھ شیئر اور لائک کر رہی ہیں کہ جس کو دیکھ کر آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ آج تربیت کے فقدان کی وجہ سے اِن بچوں کو اتنا بھی خیال نہیں کے اُن کی 'فرینڈز' کی لسٹ میں ماں، باپ ، بہن ، بھائی اور دیگر حرمت کے رشتے اور قابل احترام بزرگ بھی شامل ہیں مگر وہ پھر بھی ذو معنی باتیں، اخلاق سے گری ہوئی زبان،گالیاں ، بے ہودہ اشارے، واہیات تصاویر اور بے حیائی کی پوسٹ شیئر کرنے سے نہیں چوکتے۔ اور بلکہ اس کام پر وہ ایک طرح کا فخر محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ پر 'سوپر کول' ہونے کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ جن باتوں کا میں تذکرہ کر رہا ہوں وہ اس قدر گری ہوئی ہیں کہ میں یہاں ان کی مثال تک نہیں دے سکتا۔

ہو سکتا ہے ہماری یہ باتیں کچھ لوگوں کو گراں گزر یں لیکن ہم پھر بھی ہم تمام والدین سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت پر زیادہ توجہ دیں اور تمام نوجوان اور بچے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کے الحمدُ للہ ہم ایک مسلمان قوم ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہماری ایک بڑی پرانی تہذیب بھی ہے کہ جس میں عورتوں اور بزرگوں کی عزت، بچوں سے پیار، خوش اِخلاقی، شرم و حیا ، غیرت و حمّیت، وغیرہ شامل ہیں۔ ان باتوں کو اَقوام مغرب کی اندھی تقلید میں اس قدر عجلت میں چھوڑ دینا کہیں کی دانشمندی نہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ ہماری اس بات پر ان شاء اللہ لوگ سنجیدگی سے غور بھی کریں گے اور اسی مناسبت سے عمل بھی کریں گے ۔

4.6 "5"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

سلمی ارمغان
B, بھترین تحریر

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔