پچھلے ہفتے تمام عالم اسلام نے مذہبی جوش اور جذبہ سےعید الاضحی منائی اور ایک بہت بڑی تعداد نے سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کی۔ پاکستان میں بھی لاکھوں کروڑوں لوگوں نے بڑی عقیدت اور مذہبی جذبہ سے قربانی ادا کی۔ یہ بات تو بہت اچھی ہے لیکن آج کل پاکستان میں قربانی کے حوالے سے جس قسم کی روش چل نکلی ہے اور جس طرح دولت نے اس مذہبی فریضہ کو نمود و نمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم ایک نظر پھر اس بات پر ڈال لیں کہ قربانی اصل میں ہے کیا؟
یہ تو تمام مسلمان جانتے ہیں کے عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان اللہ کے حضور جانور کی قربانی دیتے ہیں۔ قربانی کا واقعہ بھی سب ہی مسلمان جانتے ہیں۔ قربانی صدقہ، فطرہ اور خیرات سے ہٹ کر ایک خاص قسم کی مالی عبادت ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لیے ہے اور جس کا ادا کرنا ہر اُس صاحب حیثیت مسلمان پر واجب ہے جو زکوۃ ادا کرنے کے قابل ہے۔ یہاں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ فرض، واجب، سنت وغیرہ وہ اصطلاحات ہیں جو بعد کے فقہاء نے استعمال کی ہیں تا کہ دین میں درجات کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں یہ اصطلاحات نہیں تھیں۔
واجب کی اصطلاح احناف کی ہے باقی فقہاء فرض اور واجب دونوں کو ایک ہی مانتے ہیں۔ یعنی احناف کے نزدیک قربانی فرض ہے جس کو نہ ادا کرنے سے ایک صاحب حیثیت مسلمان گناہگار ہوتا ہے۔ حنفی مسلک کے علاوہ قربانی کو امام شافی،امام حنبل، امام مالک اور امام جعفر کے فقہہ میں سنت (موکدہ) سے تعبیر کیا ہے۔ زیادہ گہرائی میں جائے بغیر ہم یہ جان لیتے ہیں کہ قربانی کی فضیلت پر تمام کا تمام عالم اسلام متفق ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ قربانی کے لیے جانور کیسا ہونا چاہیے؟ قربانی کا جانور تمام عیوب سے بالکل پاک ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں: ١۔ جس جانور کا اندھاپن ظاہر ہو۔٢۔ جس جانور کا مرض ظاہر ہو۔٣۔جس جانور کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔٤۔دبلا جانور جس کو چلنے میں بھی مشکل پیش آتی ہو"۔ (صحیح سنن ابو دائود/2808) سنیوں میں اہل علم کے نزدیک خصی جانور کیونکہ عمدہ گوشت والا ہوتا ہے اس لیے اس کی قربانی افضل ہے۔(الشرح الممتع 7/437)۔ اونٹ ،گائے بکری، یابھیڑ وغیرہ کی قربانی دی جاتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو مینڈھا قربان کیا تھا وہ سینگ والا تھا ، پیٹ سیاہ تھا، ٹانگوں کا نچلا حصہ سیاہ تھا اور آنکھوں کا ارد گرد سیاہ تھا۔(صحیح مسلم/1967)۔
اب دیکھتے ہیں قربانی کے بارے میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے سورۃ حج میں کیا فرماتا ہے: "الله کو نہ ان کا گوشت اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیز گاری اس کے ہاں پہنچتی ہے"۔ (37)
یہاں 3 اہم باتیں ثابت ہو گئیں، یعنی: 1۔ قربانی کی بہت بڑی فضیلت ہے، جس کو ہر صاحب حیثیت مسلمان کو ادا کرنا چاہیے ورنہ وہ گنہگار ہو گا اور بڑی فضیلت سے محروم رہے گا۔ 2۔ قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ قربانی سے مسلمانوں کا تقویٰ چاہتا ہے نہ کہ گوشت اور خون۔
اب اگر قربانی کی تاریخ اور اس کے احکام دیکھیں تو کہیں آپ کو اصراف کی تعلیم نہیں ملے گی یعنی کوئی آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ قربانی کا جانور مہنگے سے مہنگا ہو۔ ہم پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں نے بے عیب جانور اور اچھے جانور کے حکم کو خوبصورت اور پھر خوبصورت جانور کو مہنگے جانور سے تعبیر کر لیا ہےجو کہ قربانی کی اصل روح کے منافی ہے۔ قربانی کا فریضہ خلوصِ نیت اور ایک بے عیب جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے سے پورا پورا ادا ہو جاتا ہے۔ جو لوگ لاکھوں لگا کر بڑے سے بڑا یا ڈھیر سارے جانور قربان کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ کہ نزدیک تقویٰ کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو غریب آدمی تو بہت نقصان میں رہتا۔
اب سوال یہ ہے کہ جو لاکھوں کا بیل یااُونٹ ہمارے پاکستانی بھائی ہر عید پر قربان کرتے ہیں کیا صحیح کرتے ہیں؟ ہمارے خیال میں تو اس کا ایک بد نما پہلو نمود و نمائش ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم غلط ہوں لیکن اگر واقعی ایسا ہے تو پھر تقویٰ تو بلکل نہ ہوا؟ یعنی اللہ کو ان لوگوں کی لاکھوں کی قربانی کے بعد بھی کچھ نہ پہنچا۔ نہ خون، نہ گوشت اور نہ ہی تقویٰ!
ایک اور بات جو اکثر لوگ شاید نہیں جانتے کے یہ پہاڑ سے ڈیل ڈول والا جانور جو اکثر اوقات ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتا یعنی ناقص ہوتا ہے کسی ایسی غذا سے پروان نہیں چڑھتا جو اُس جانور کی اصل غذا ہوتی ہے ۔ مکھن ، دودھ، بادام کی غذا سب بکواس بات ہے۔ اس قدر اونچا قد، گوشت اور چربی صرف مصنوئی طریقے سے حاصل کی جاتی ہے جس میں بعض طریقے شاید حلال بھی نہیں۔ اس طرح کے جانور کی قربانی کرنے سے ایک طرف تو اسلام کا ایک اہم فریضہ بھی شاید پورا نہیں ہوا مگر ساتھ ساتھ جو گوشت غریبوں میں بانٹا گیا یا خود کھایا گیا اور اپنے رشتہ داروں کو بانٹا یا کھلایا گیا وہ بھی ٹھیک نہ تھا۔ یعنی دین اور دنیا دونوں کا صریح نقصان! افسوس کے یہ سب کچھ صرف نمود و نمائش کے لیے۔ اور اونٹ کا گوشت تو سوائے بازار کی نہاری کے کسی اور جگہ ہم نے استعمال ہوتا نہیں دیکھا۔ کبھی آپ گھر پر اونٹ کا گوشت خرید کر پکانے کے لیے لائے ہیں؟ عرب کی بات اور ہے کیونکہ اُن کے یہاں جانور ہی یہی ہوتا ہے۔
دوسری جانب اس طرح کے اصراف کی وجہ سے پچھلی دو دہا یوں میں اور خاص طور پر پچھلے چند سالوں میں دیکھا گیا ہے کہ بکرا منڈی میں جانورں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب آدمی کی دسترس اور قوت خرید سے تمام جانور نکل گئے ہیں اور وہ مجبوراً مسجد یا کسی ادارے میں جانور کی اجتماعی قربانی میں حصہ لینے لگا۔ یہ اجتماعی قربانیاں کس حد تک قربانی کے شرعی احکامات کا خیال رکھتی ہیں اور کس قسم کے مال والا آپ کا حصہ دار بنتا ہے وہ ایک الگ بحث ہے۔ کئی سال پہلے تک یہ دیکھا گیا تھا کہ عید کے آخر دنوںمیں منڈی بالکل گر جاتی تھی کیونکہ جانور بیچنے والوں کو یقین ہوجاتا تھا کہ اب بھی اگر جانور نہیں بک سکا تو قصائی کو وزن کے حساب سے بیچ کر جانا پڑے گا۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیچنے والے اپنے دو جانور بیچ کر ہی اتنا منافع حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ اگراپنے بقایا جانور نہ بھی بیچ پائیں تو انہیں پھر بھی فائدہ ہی ہوتا ہے۔ یعنی اس خرابی کی وجہ سے ایک غریب یا سفید پوش کے لیے آخری دنوں کی قربانی بھی ماری گئی۔ ہم کتنی جگہ دولت کے ذریعے غریبوں کا استحصال کریں گے؟