04:24    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ہمارے مسائل

1022 2 0 05

سرفراز صدیقی - 2013-دسمبر-10

کرپشن

بدقسمتی سے پاکستان میں پھیلی جہالت کی مہیب تاریکی کے بعد اس وقت ہمارا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ ہے "کرپشن"۔ کرپشن ایک ایسا دیو ہیکل گدھ ہے جس نے اِس ملک کو مردار سمجھ کر اپنے نوکیلے پنجوں میں بری طرح دبوچ رکھا ہے اور اپنی خم دار مگر چھری سے تیز چونچ سے اس کی چیر پھاڑ میں مصروف ہے! پچھلے چند سالوں سے ہمارے ملک میں اس مسئلہ بلکہ اس لفظ کا بڑا شہرہ ہے۔ لوگ "اینٹی کرپشن" نام کی مالا طاقت کے ایوانوں سے لےکر ٹی وی چینلز اور وہاں سے ہر گلی، محلہ اور نکڑ پردن رات جپتے ہیں۔ سیاستدان اسی بنیاد پر سیاست بھی کرتے ہیں اور مقتدرہ تک پہنچنے کے لیے اس نعرے کو ایک مضبوط سیڑھی تصور کرتے ہیں۔لیکن ہمیں افسوس اس بات کا ہے کے لوگ "کرپشن" کو صرف مالی کرپشن کی حد تک ہی خیا ل کرتے ہیں اور اُسی پر سیر حاصل گفتگو یا لا حاصل بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں۔ ہم سمجھےبوجھے بغیر دن رات طوطے کی طرح کرپشن کرپشن کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ ہم مسئلہ کی بنیاد کو سیدھا کیے بغیر عمارت کی ٹیڑھ ختم کرنے کی سعی رائیگاں میں مصروف ہیں اسی لیے کرپشن ہمارے ملک میں ختم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

"کرپشن" لاطینی زبان سے انگریزی میں لیا گیا لفظ ہے جس کے اردو معنی ہیں: خرابی، نقص، بگاڑ، رشوت ستانی، بدکرداری۔ اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کے کرپشن لفظ کا احاطہ بہت وسیع ہے۔ اتنا وسیع کے اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو ہماری قوم میں معدودِچند ہی لوگ ایسے ہونگے جو آج بَبانگ دُہل یہ کہہ سکیں کے وہ کرپٹ نہیں۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ جس نےاپنی شرم و حیا کو خودنمائی کے عوض بیچ ڈالا ہو وہ اس لفظ کے لغوی معنی کے اعتبار سے کرپٹ ہے۔ جس نے اپنی غیرت کو روپے پیسے یا کسی دُنیوی خوف کی وجہ سے فروخت کیا وہ بھی کرپٹ ہے۔ جس نے رعونیت و فرعونیت کے ہاتھ اپنی عجز و انکساری کو بیچا اُس نے بھی کرپشن کی۔ جس نے اخلاقیات کو بدکرداری کی قبر کھود کر زمیں برُد کر دیا وہ بھی کرپٹ ہے۔ جس نے جاہ و حشمت، طاقت اور اقتدار کے حصول کے لیے ناجائز طریقے استعمال کیے اُس نے بھی کرپشن کی اور جس نے اقتدار مالی مفاد اور شان و شوکت کی خاطر حاصل کیا وہ بھی کرپٹ۔ جس نے معصوم عوام کو اپنی منافقت کے ذریعے گمراہ کیا اور جس نے تفرقے کے بدلے وحدت کے دام لگا دیے وہ بھی کرپٹ ہے۔ جس نے جانتے بوجھتے دین کی غلط تشریح کی اور اس کی بنیاد پر ناحق خون کا سودا کیا وہ بھی کرپٹ ہی ہے۔ الغرض جس کسی نے اِس دنیا کے فائدے کے لیے اپنے ایمان کو بیچ ڈالا وہ سب سے بڑا کرپٹ انسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات سے قطعی اختلاف رکھتے ہیں کہ "کرپشن" لفظ کو صرف مالی کرپشن کے مترادف ہی ٹھہرایا جائے اور اسی ایک بات کے پیچھے لٹھ لے کر دیوانہ وار بھاگا جائے۔ ہمیں یہ ڈر ہے کہ اگرعوام کے ذہن میں اس لفظ کے غلط یا جزوی معنی ٰجڑ پکڑ گئے تو اس لفظ کی غلیظ جڑیں ہم اپنے معاشرے سے کبھی اُکھیڑ نہیں سکیں گے۔ برائی کو کلّی طور پر ختم کرنے کے لیے برائی کے بارے میں مکمل اِدراک و آگہی ہونا لازمی ہے۔ پاکستان میں کرپشن اپنے وسیع معنی میں ایک تن آور درخت ہے اور مالی کرپشن اس کی ہزار ہا شاخوں میں سے ایک مضبوط شاخ۔

مالی کرپشن کی لپیٹ میں اس وقت صرف ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹس نہیں بلکہ ہماری عوام کا ایک بڑا حصہ اس میں شامل ہے۔ آج بہت کم لوگ ہیں جو اس مرض سے اپنا دامن بچائے ہوئے ہیں۔ بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ تو اب یہاں تک کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ آج کے دور میں ایماندار فقط وہ ہے جس کا داؤ نہیں لگ رہا۔ عوام بڑے بڑے لوگوں کے بڑے بڑے مالی کرپشن کے بارے میں تو بہت چہ میگوئیاں کرتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنا ہمیں بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہم لوگوں نے اب اپنی مالی کرپشن کو جائز قرار دینے کے لیے مختلف حیلے بہانے تراش لیے ہیں۔ مثال کے طور پر جو کُنڈا لگا کر بجلی چوری کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ چونکہ حکومت نے بجلی کے نرخ میری استطاعت سے زیادہ کر دیے ہیں اس وجہ سے میرے پاس کنڈا لگانے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ لیکن قسم لے لو جو میں اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی استعمال کرتا ہوں! جب پوچھو کے تمہاری ضرورت کیا ہے؟ تو جواب آئے گاایک عدد اے سی، ایک ٹی وی، ایک فریج، ایک واشنگ مشین، ایک پانی لائن سے کھینچنے کی مشین، ایک پانی اوپر ٹنکی میں چڑھانے کی مشین، ایک عدد استری، ایک ڈیک، دو چار فون چارجرز اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی گھریلو استعمال کی اشیاء۔ پھر پوچھو کے اگر بجلی کے دام ادا نہیں کر سکتے تو اتنی ساری تعیش کی اشیاء استعمال کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ جواب آئے گا سامانِ تعیش؟ بھائی میرے! یہ سب تو ضروریات زندگی کی چیزیں ہیں، آج کے دور میں ان کے بغیر گزارا بھی کیا ممکن ہے؟

جب کبھی میں یہ بات سنتا ہوں تو مجھے اپنے بچپن کا دور یاد آجا تا ہے۔ تب زندگی بڑی سادہ تھی۔ گھر میں سوائے ایک ریڈیو کے کوئی اور الیکٹرونک شئے نہیں پائی جاتی تھی۔ نعمت خانہ یا چھینکا وہ الفظ ہیں جنہیں میں نے فریج آنے کے بعد اپنے بچپن میں ہی متروک ہوتے دیکھا۔ نلکے میں پانی نہ آنے کے باعث پانی کی بالٹیاں بھرنے کے عمل کو گھر بیٹھے پڑوسی کے پانی کی چوری یعنی بجلی سے پانی کھینچنے کی مشین سے تبدیل ہوتے دیکھا۔ ہاتھ سے کپڑے دھونے کو بجلی کی مشین کے ذریعے بدلتے دیکھا ۔ کوئلہ کی استری کو بھی بجلی کی استری سے تبدیل ہوتے دیکھا۔ جھلساتی لو میں پنکھے کے نیچے چادر کو پانی میں بھگو کر اپنے اوپر اوڑھ کر راحت پانے کے عمل کو بجلی کی ٹھنڈی مشین سے تبدیل ہوتے دیکھا۔ بجلی سے چلنے والے گرائنڈر کو ہاون دستہ اور سل بٹّے کی جگہ لیتے دیکھا۔ بجلی کے دیگر آلات یعنی ٹی وی، وی سی آر، ڈی وی ڈی پلیرز، موبائل فون اور بجلی کی دیگر اشیاء کو شامل اور پھر لازم ِزندگی ہوتے دیکھا۔ یاد رہے کے یہ سب ہم صرف بجلی سے استعمال کی چیزوں کی بات کر رہے ہیں باقی سامان تعیش کی فہرست الگ ہے۔

سوال یہ ہے کہ 30 یا 35 سال پہلے تک کیا زندگی گزارنا واقعی بہت مشکل تھا؟ کیا دن بھر محنت سے کام کر کے بیماریوں سے دور رہنا بہتر نہ تھا کے سہل پسندی کی وجہ سے اب حالت یہ ہے کہ علاج معالجہ پر آج ہماری آمدنی کا ایک بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے؟ کیا جلدی سونے اور جلدی اُٹھنے یعنی سورج کے طلوع و غروب کےمتوازی زندگی گزارنے میں بجلی کی بچت نہ تھی؟ کیا روکھی دال کھانا مردار کے گوشت کھانے سے بہتر نہ تھا؟ کیا مصالحہ کوٹ کر استعمال کرنا لکڑی کے برادے کو کھانے سے بہترنہ تھا؟ کیا سادگی میں حُسن نہیں تھا؟ مگر افسوس کے ہم نے یہ سب چھوڑ دیا سرمایہ داری فلسفہ یعنی "بہتر معیار زندگی" کےپیچھے بھاگنے اور اپنی زندگی کو مصنوعی طورپر اچھا بنانے کے لیے ۔ اس سلسلے میں ہم کچھ اس قدر عجلت میں رہے کہ ہم نے یہ جاننے بوجھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کے ہمارے پاؤں ہماری سفید پوشی کی چادر سے باہر نکل رہے ہیں۔ اور جب ہم نے اپنے پاؤں کو چادر کے باہر دیکھا تو بجائے پاؤں سمیٹنے کے ہم نے اپنی بے داغ چادر کو کسی داغدار کپڑے کا پیوند لگا کرلمباکر لیا۔ پھر جب سے یہ داغدار چادر ہم نے ہر روز اوڑھنی شروع کی ہے اُس دن سے ہماری زندگی میں صحیح اور غلط کا فرق معدوم ہو تے ہوتے تقریباً مٹ چکا ہے اوراب تو حالت یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں "داغ تو اچھے ہوتے ہیں"۔ جب حرام شاملِ زندگی ہو جاتا ہے تو پھر بتدریج شرم و حیا، غیرت و حمیت ، خوداری، عزت نفس اور اخلاق و ایمان سب کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے ۔ انسان پھر انسان نہیں رہتا ۔ اور جب انسان اپنے منسب سے گر جاتا ہے تو پھراُس میں اور ایک جانور میں بہت کم فرق رہ جاتا ہے۔ پھر اُس کی بود و باش کی جگہ بڑی سرعت سے ایک گھناجنگل اُگ آتا ہے۔ اور جہاں جنگل ہو وہاں قانون بھی جنگل کا ہی نافظ العمل ہوتا ہے۔ یہی وہ جنگلی قانون ہے جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں اور اُس پرکفِ افسوس بھی مل رہے ہیں مگر ہم اس کو بدل نہیں پا رہے۔

مغرب کے عطا کردہ جمہوری نظام سے جو لوگ خیر کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں اُن کو یہ سادہ سی حقیقت معلوم ہونا چاہیے کے جس نظام میں لوگ پیسہ لگا کر آئیں گے وہ اقتدار میں آ کر لازمی طور پر اپنی سرمایہ داری کے عوض منافع حاصل کریں گے اور جو نظام شخصیت کے وزن کے بجائے محض افراد کی گنتی کی بنیاد پر استوار ہوگا اُس میں اکثر نااہل، چرب زبان اور موقع پرست لوگ اعلیٰ مقام پاتے رہیں گے اور ایسی ریاست اور اس کی عوام کبھی بھی فلاح نہیں پا سکے گی۔ ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ہمارے جیسے ہی حکمران مقرر کرتا رہے گا اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم کسی سیاسی مسیحیٰ یا موسیٰ کے انتظار میں اپنی دُنیا اور عاقبت نہ خراب کریں بلکہ سب سے پہلے اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اپنی زندگی میں سادگی لائیں۔ اپنی کمائی اور رزق میں حلال و حرام کا خیال رکھیں۔ خود نفس کے ہاتھوں غلام بننے کے بجائے اپنے نفس پر لگام ڈالیں اور اُسے کھینچ کر رکھیں ۔ اچھے برے میں تمیز پیدا کرنا شروع کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس کی تعلیم دیں۔ یقین جانیے کہ جب ہم حرام و حلال کا خیال کریں گے تو ہمارے اندر غیرت و حمیت ، خودداری و عزت نفس اور وہ دیگر اوصاف حمیدہ پیدا ہونگے جو ہمیں وہ قوت عطا کریں گے کہ جس کی بدولت ایک پورے بگڑے نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سچا نظام صرف اللہ کا ہے جس میں رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ اللہ کے قانون کے مطابق حکومت کرتاہے۔ وہی ایک نظام ہے کہ جس کی بنیاد اسلامی بھائی چارے ، اخوت اور مساوات پر رکھی جاتی ہے، وہی ایک نظام ہے جہاں اللہ کی لگائی حدود کی مکمل پاسداری ہوتی ہے، وہی ایک طرز حکومت ہے کے جہاں ایک عام شخص کو بھی فوری انصاف ملتا ہے، ایک عام انسان کی جان و مال و عزت کی بھی اُتنی ہی اہمیت ہوتی ہے کہ جتنی ایک خلیفہ کی۔ یہی وہ نظام ہے کہ جس میں ایک غریب انسان کی بنیادی ضروریات یعنی پیٹ کے لیے روٹی، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور سر چھپانے کے لیے چھت کا ذمہ حکومت وقت کا ہوتا ہے۔

اسلامی خلافت کا نظام ہے تو بہترین مگر اس نظام کونافذ العمل کرنےکے لیے ہمیں بڑے پاپڑ بیلنے ہونگے۔ سب سے پہلے تو لازمی طور پر ہمیں اپنے اندرسے ہر طرح کی کرپشن ختم کرنی ہوگی جو کے بذات خود ایک کارِ دشوار ہے۔ کرپشن کا خاتمہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں سادگی اور سیدھے راستے کو نہیں اپنائیں گے اور حلال و حرام کے فرق کا خیال نہ رکھیں گے۔ حلال کا اہتمام کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں، خصوصاً آج کے پرآشوب دور میں صراط مستقیم پر چلنا تلوار کی دھار یا دہکتے انگاروں پر چلنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس دار فانی کی سب سے تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ قربانی دیے بغیر نہ تو دُنیا اور نہ ہی آخرت میں کچھ حاصل ہوتا ہے۔ اُصول یہ ہے کہ جتنی بڑی تمنا اُتنی ہی بڑی قربانی۔ اِس دُنیا میں قربانی سے گھبرانے والے لوگ حرام مال کے حصول کو نسبتاً آسان حل سمجھتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ناجائز مال و دولت تو سب سے بڑی قربانی یعنی ایمان کی قربانی دینے سے ملتا ہے۔ ۔۔۔ جس کے آگے ہر قربانی چھوٹی ہے!

آخر میں ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک ہدایت دے، آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمارا خاتمہ ایمان پرہو اور ہمیں دوزخ کی آگ سے نجات دے ۔ آمین!

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔