08:23    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

1606 2 1 13

سرفراز صدیقی - 2013-ستمبر-7

حقوق العباد

دور حاضر میں اسلام اور پاکستان کو درپیش مشکلات کے حوالہ سےیہ مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس میں قرآن وحدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حوالے بھی موجود ہیں اور یوں یہ تحریر کسی حد تک طویل ہے۔ اس وجہ سے وہ تمام خواتین و حضرات جن کے پاس 20 منٹ سے کم وقت ہے یا صبر کی اس سے بھی زیادہ کمی ہے اُن سے التماس ہے کہ برائے مہربانی وہ اس تحریر کو مزیدآگے نہ پڑھیں- شکریہ)

آج عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ ہو چکی ہے۔ جس طرف دیکھیے مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے، حق مار رہا ہے۔ اتحاد بین المسلمین کے فقدان کے باعث شہہ پا کر اسلام دشمن قوتیں بھی مسلمانوں کو اپنے قدموں تلے روند رہی ہیں۔ اور ہمارے اپنے وطن پاکستان میں کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں سیاست کے نام پر ، کہیں لسانی بنیادوں پر تو کہیں علاقائی بنیاد پر، کہیں نسل تو کہیں گروہی بنیاد پر، الغرض کہیں نہ کہیں ایک گروہ دوسرے سے دست و گریباں ہے۔ لوٹ مار کا بازار الگ گرم ہے۔ حرام خوری اپنے عروج پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم سب مسلمان ہیں ایک اللہ، آخری رسول ﷺ، قرآن اور یوم آخرت یعنی جزا اور سزا پر یقین رکھنے والے دینی بھائی ہیں تو پھر یہ سب ہنگامہ کیا ہے؟ ایک بھائی دوسرے کے مال کا حریص کیسے ہو گیا اور اُس سے بھی بڑھ کر اُس کے خون کا پیاسا کیسے ہو گیا اور اُس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر وہ اتنا سفاک اور شقیء القلب کیسے ہو گیا کہ اُس نے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو مار کر ان کی لاشوں تک کی بے حرمتی کرنا شروع کردی؟ یہ وحشیانہ عمل کس قسم کی نفرت کے باعث ہے ؟ آیا یہ نفرت ہے یا دیوانہ پن؟ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے نزدیک کم از کم انسانیت نہیں ہے۔

عالم اسلام کی صفوں میں تفرقہ کا بیج جس کسی نے بھی بویا ہو اس معاملے میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ قصور ہمارا اپنا ہی ہے۔ ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا۔ دین میں نا جائز سختی پیدا کر کے لوگوں کو کافر اور یہاں تک کے واجب القتل تک قرار دے دیا۔ کیا یہ معاملہ اللہ اور اُس کے بندے کے درمیان نہ تھا جوہم لوگوں نے خود اس بات کا بیڑا اُٹھا لیا یعنی ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ اگر درست بھی ہو تو اُس کو فروعی نوعیت کی باتوں میں اُلجھا کر ملعون و مطعون کر دیا جائے اور اُس پر کفر کے فتوے لگا دیے جائیں؟ جو کام اللہ نے انسانوں کے کرنے کے لیے کہے ہیں وہ ہم کرتے نہیں ہاں مگر اپنے آپ کو خدائی فوجدار سمجھتے ہوئے اللہ اور اُس کے اُس بندے کے درمیان معاملات میں کودنا ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ جن لوگوں کو یہ بات پوری طرح سمجھ نہیں آتی وہ ایک کام کریں اپنے محلے کے سب سے آوارہ اور بدتمیز بچے کو اُس کی ماں کی آنکھوں کے سامنے پِیٹ کر دیکھیں۔ آپ کو پتا چل جائے گا کہ وہ کمزور اور ناتوں ماں جو خود اپنے بچے کی حرکتوں سے نالاں ہو اور دن رات اپنے بچے کوکوستی ہو وہ اُس شخص کے ساتھ کیا کرتی ہے جو اُس کی اولاد کو اُس کی نگاہ کے سامنے تھوڑی سی بھی تکلیف دے۔ ذرا سوچئے، جب ایک کمزور اور اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں دُکھ اُٹھانے والی ماں اپنی اُسی ناخلف اولاد کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتی اور خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آتی ہے تو وہ رب جو اس پوری کائنات میں حقیقی طاقت کا واحد مظہر ہے وہ اَپنی اُس مخلوق کو جس سے وہ ایک ماں سے بھی 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے اُس پر کسی دوسرے کے ہاتھوں کسی قسم کا بھی ظلم یا نا انصافی برداشت کرےگا؟ کیا اس معاملہ میں کوئی اُس کے غیض و غضب کا اِدراک بھی کر سکتا ہے؟

ہم اگر بغور دیکھیں تو دین کے پانچوں ستونوں میں صرف ایک واحد ستون توحید ہے جو خالصتاً اللہ نے اپنے لیے رکھا ہے باقی تمام ارکان میں اپنے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کے حق کو بھی مقدم کیا ہے۔ اب دیکھے نماز اللہ کے لیے ہے مگر احسن اس بات کو رکھا ہے کے نماز با جماعت پڑھی جائے تا کہ مسلمان ہر روز پانچ بار اللہ کے آگے متحد ہوں، اُس کی عبادت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے مل کر ایک دوسرے کا احوال جانیں تا کہ پڑوسیوں کے حقوق بہتر طور پر ادا ہو سکیں۔ پھر جمعہ کی نماز کو بڑی مسجد میں پڑھنے کا کہا یعنی ہفتہ میں ایک بار اور زیادہ مسلمانوں سے ملنے کی ترغیب دی،عید کی نماز عید گاہ میں یعنی اور بھی بڑے مجمع سے ملنے کا کہا اور آخر میں اگر ایک مسلمان صاحب حیثیت ہو تو اُسے زندگی میں ایک بار حج پر جا کر تمام عالم سے آئے ہوئے مسلمانوں سےکے ساتھ متحد ہو نے کا حکم دیا اور اُن کو جاننے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالٰی نے زکو ٰۃ بھی ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر اُس کے حق کی وجہ سے دلوائی تا کہ معاشرے میں دولت کی تقسیم کے حوالے سے کسی حد تک توازن پیدا ہو سکے۔ اور پھر یہ سمجھانے کے لیے کہ زکو ٰۃ انسان خوشدلی سے ادا کرے یعنی ایک غریب کی مجبوری اور اُس کی بھوک کا احساس کروانے کے لیے ہر سال ایک ماہ کے روزے رکھوائے۔ یعنی ہم یہ دیکھتے ہیں کے وہ پانچ میں سے وہ چار ستون جن پر دین اسلام کی لازوال عمارت کھڑی ہے اُن میں تقویٰ اور نفس کی تطہیر کے ساتھ ساتھ یا تو بلا واسطہ یا بلواسطہ بندوں کے حقوق کا خیال مقدم رکھا ہے۔

افسوس کہ ہم یہ سب دیکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں سمجھتے اور ایک دوسرے انسان کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھتے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں اِس تمام فساد کی جڑ یہ ہے کہ ہم نے اپنی کج فہمی کی وجہ سے حقوق العباد کو اس قدر پس پشت ڈال دیا ہے کہ ہم کو اب اس کی اہمیت کے بارے میں شاید کچھ بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حقوق العباد کی اہمیت کو دہرا لیا جائے۔ آیے ایک نظر دیکھتے ہیں کہ حقوق العباد کا اصل مقام اور درجہ ہے کیا؟

اللہ تعالٰی کے پاس ہر انسان کے لیے 3 کھاتے ہیں: 1. وہ کھاتا کہ جس میں کسی کا نام آ جائے تو اُس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں 2. وہ کھاتا کہ جس کی اُس کو مطلق پرواہ نہیں۔ 3. وہ کھاتا کہ جس کا بدلہ پورا پورا لیا جائے گا۔

پہلا کھاتا ہے شرک کا کہ یہ وہ گناہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کسی صورت نہیں بخشے گا یعنی جو شخص ایک مشرک کی حالت میں اس دنیا سے چلا گیا اُس کا ابدی ٹھکانہ سوائے دوزخ کے کوئی اور نہیں۔ دوسرا کھاتا وہ ہے جو حقوق اللہ کا ہے جس میں کوتاہی پر وہ کڑی گرفت بھی کر سکتا ہے جیسا کہ اُس نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے لیکن اگر وہ چاہے تو اپنی شان کریمی کے صدقے میں اپنے حق میں کسی قسم کی کوتاہی کو معاف بھی کر سکتا۔ تیسرا کھاتا حقوق العباد کا ہے یعنی بندے کے بندے پر حقوق، جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ روز قیامت پورا پورا لے گا۔ اُس دن ہر وہ انسان (صرف مسلمان نہیں) جس کے ساتھ کسی دوسرے نے زیادتی کی ہو گی اُسے اُس زیادتی کا سو فیصد بدلہ چکانا ہو گا۔ شاید یہی وجہ ہے کے بیشتر علماء دین نے حقوق العباد کا درجہ حقوق اللہ سے مقدم فرمایا ہے۔

ایک دوسرے زاویے سے اگر دیکھا جائے تو حقوق العباد در اصل عین حقوق اللہ ہیں کیونکہ اِنکی ادائیگی کا حکم خود اُس ذاتِ بزرگ و برتر نے دیا ہے جو اس وسیع و عریض کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور حسن سلوک سے پیش آؤ والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی، نیز آس پاس کے بیٹھنے والوں اور مسافروں کے ساتھ اور جو (لونڈی غلام یا ملازم) تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ (کیونکہ) اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں”(النساء ۳۶:۴)

ہمیں یہاں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی پر زور دینے اور شرک جیسے گناہ عظیم سے بچنے کی بات کے بالکل ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کی بات کی ہے اور اپنے حقوق سے زیادہ صراحت سے کی ہے۔ کیا صرف یہی ایک بات بندوں کے حقوق کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے کافی نہیں؟

اس بارے میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک بہت ہی واضح حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) ارشاد فرمایا : " کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ " . صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : " ہمارے نزدیک مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس کوئی درہم (پیسہ) اور (دنیا کا) سامان نہ ہو " . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز ، روزہ ، زکوۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہو گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پر تہمت لگائی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا پیٹا ہو گا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی . پھر اگر دوسرے کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہونگے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا " (مسلم، حدیث 258)

ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’یعنی پورا مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سالم ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ، بخاری)۔ اس کے علاوہ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک عورت کا ذکر آیا کہ وہ بہت نیک اور نمازی ہے، روزے رکھتی ہے اور کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتی ہے، لیکن زبان دراز ہے، اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’وہ دوزخی ہے۔‘‘

اس کے علاوہ بھی بہت ساری احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم موجود ہیں جو بار بار حقوق العباد کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ نیز یہ کہ حقوق العباد کی اہمیت مزید سمجھنے کے لیے انسان کو اُس تاریخ ساز دن کے خطبے پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل فرما دی تھی۔ خطبہ حجۃ الوداع جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی 23 سال کی تعلیمات اور تبلیغ کا نچوڑ ہے اس میں اللہ کے حقوق کا ذکر یقیناً ہے مگر جس تفصیل کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حقوق العباد کو بیان کیا ہے وہ ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے حق کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ خطبہ ہمیں ایک صحیح اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد مہیا کرتا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ تمام احباب جنہوں نے خطبہ حجۃ الوداع نہیں پڑھا یا کسی وجہ سے اُن کے ذہن سے یہ محو ہو گیا ہے وہ اُسے ایک بار پھر س پڑھ لیں:

خطبہ حجۃ الوداع کا متن مختلف احادیث کی روشنی میں کچھ اس طرح ہے: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا “سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس سے معافی مانگتے ہیں۔ اسی کے پاس توبہ کرتے ہیں اور ہم اللہ ہی کے ہاں اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔ اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر پر زور طور پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جو بھلائی ہے۔ لوگو! میری باتیں سن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔ ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔ خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔

لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔ جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔ (ربیعہ بن حارث آپ کا چچیرا بھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا)

اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔ لوگو! تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کئے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔

اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اُسی دن سے بارہ ہے جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے تھے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین (ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم) لگا تار ہیں اور رجب تنہا ہے۔

لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ ، اچھی طرح پہناؤ۔

تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔ خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو، زناکار کے لیے پتھر اوران کے حساب خدا کے ذمہ ہے۔ عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ عاریت واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔

مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔ اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔ لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔ خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔ میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اتحادِ امت کے عملی پروگرام کی طرف رہ نمائی فرمائی اور یوں گویا ہوئے: اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ میرے بعد کوئی نئی امت ہے، پس تم سب اللہ کی عبادت کرنا، نماز پنج گانہ کی پابندی کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکوٰة دینا، اللہ کے گھر کا حج کرنا اور اللہ کی جنت میں جگہ حاصل کرنا۔

آخر میں فرمایا: ایک دن اللہ تعالیٰ تم لوگوں سے میرے متعلق گواہی طلب کریں گے، تم اس وقت کیا جواب دوگے؟ اس پر مجمع عام سے پرجوش صدائیں بلند ہوئیں: “ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ نے سب احکام پہنچادئیے، آپ نے فرضِ رسالت ادا کردیا، آپ نے کھرے کھوٹے کو الگ کردیا۔”

اس وقت حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھی، ایک دفعہ آسمان کی طرف انگلی اٹھاتے تھے اور دوسری دفعہ مجمع کی طرف اشارہ کرتے تھے اور کہتے جاتے تھے “ اے اللہ خلق خدا کی گواہی سن لے، اے اللہ خلق خدا کا اعتراف سن لے، اے اللہ گواہ ہوجا۔”

اس کے بعد ارشاد فرمایا “:جو لوگ حاضر ہیں، وہ ان لوگوں تک جو یہاں موجود نہیں ہیں، میری ہدایات پہنچاتے چلے جائیں؛ ممکن ہے کہ آج کے بعض سامعین سے زیادہ پیام تبلیغ کے سننے والے اس کلام کی محافظت کریں“

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہٴ حج سے فارغ ہوئے تو جبرئیل امین وہیں تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا تاج شہنشاہی لے آئے اور یہ آیت نازل ہوئی ﴿اَلْیَومَ أکملتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُم الاسلامَ دِیْنًا﴾ “آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت مکمل کردی اور دین اسلام پر اپنی رضامندی کی مہر لگادی۔”

اگر ہم سب مسلمان اس خطبے کی روح کو سمجھ لیں اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیں تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ پھر نہ کوئی اپنے اپنے ماں باپ سے برا سلوک کرے گا اور نہ کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو مارے گا اور نہ ہی اس کا حق غصب کرے گا۔ بیوی اپنے شوہر کی عزت کرے گی اور اُس کا حکم مانے گی، شوہر اپنی بیوی کا احترم کرے گا اور اُس کے ساتھ احسن سلوک روا رکھے گا۔ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کیا جائے گا۔ کوئی یتیم کا حق نہیں مارے گا۔ کوئی اپنے پڑوسی کو نہیں ستائے گا۔ شاگرد اپنے اُستاد کی عزت کریں گے اور اُستاد اپنے شاگردوں سے شفقت کا سلوک کریں گے۔ مالک نوکر سے حسن سلوک سے پیش آئے گا اور نوکر مالک کے حکم کی تعمیل کرے گا۔ حکمران عوام کی خدمت کریں گے اور ان کی جان و مال کی حفاظت کریں گے، عوام حکمرانوں کی عزت کرے گی اوراُن کے احکامات کی تعمیل کرے گی (گواگر ریاست کا حکم شریعت سے متصادم نہ ہو تو)۔ کوئی کسی کو دھوکہ نہیں دے گا اور امانت میں خیانت نہیں کی جائےگی۔

یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ جب کوئی ملاوٹ کرتا ہے، بجلی چوری کرتا ہے، ٹیکس چوری کرتا ہے یا اس طرح کے دیگر کام کرتا ہے تو وہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری قوم کا مجرم بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بجلی کی چور ی کرتا ہے تو وہ ہر اُس شخص سے کا مجرم ہوتا ہے جو بجلی چوری کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا شکار بنتا ہے۔ پھر چوری شدہ بجلی کا بل بھی گھوم پھر کر کوئی نہ کوئی ایماندار شخص ہی ادا کر رہا ہوتا ہے اور اس طرح بجلی چور اُس شخص کا بھی مجرم بن جاتا ہے۔ روز قیامت ہر بجلی چور کو پوری کی پوری قوم کو بدلہ چکاناہوگا (ریاست اس بارے میں کیا کر رہی ہے یا کیا نہیں کر رہی یہ ایک الگ بحث ہے)۔ اسی طرح سود کھانا بھی بندوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ سود کے ایک سرے پر ایک حریص سرمایہ کار اور دوسرے سرے پر عموماً ایک یا کئی مجبور لوگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح رشوت دے یا لے کربھی کسی نا کسی کا حق مارا جاتا ہے ۔

اتنا سب کچھ بیان کرنے کے باوجود اگر اب بھی انسان کو انسان کے ساتھ معاملے کی اہمیت سمجھ نہیں آتی تو پھر یہ بھی دیکھ لیں کہ اللہ کے ہاں رحم دلی کی کس قدر اہمیت ہے یعنی صحیح احادیث میں ہے کہ ایک انسان نے ایک نجس جانور یعنی ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی شدّت سے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اور ہانپ رہا تھا تو یہ دیکھ کر اُس شخص کو اپنی پیاس یا د آئی اور اُس نے ترس کھایا اور کنویں میں اُتر کر اپنے موزے میں پانی بھر کر لایا اور اُس کتے کی پیاس بجھائی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس کا یہ فعل اتنا پسندیدہ اور مقبول ٹھہر ا کہ اُس کو معاف کر کے جنت بخش دی گئی۔ اور دوسری طرف ایک عورت کو صرف اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلی کو باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بلی بھوک سے مر گئی، یوں اس عورت کو دوزخ میں داخل کیا گیا ۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہےکہ کیا ایک انسان اور خاص کر ایک مسلمان چاہے وہ کتنا بھی بُرا سہی کیا ایک ایسے جانور سے بھی گیا گزرا ہے کہ جس کے گھر میں آجانے سے فرشتے گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں؟ کیا ایک کلمہ گو مسلمان کسی بھی قسم کے رحم کا مستحق نہیں؟ کیا اُس کو قتل کرنے یا اس کو تکلیف دینے سے کوئی جنت کی راہ پا لے گا؟ ہم تو یہاں نباتات اور جمادات کے حقوق بھی لکھتے اگر مزید طوالت کا خوف نہ ہوتا۔

اب جب یہ بات واضح ہوگئی کے حقوق العباد کی ادائیگی کس قدر اہمیت کی حامل ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے والدین ، بیوی/شوہر، بچوں، عزیز وں، رشتہ داروں، پڑوسیوں، اہل محلہ، یتیموں، مسکینوں، اُستادوں اور دیگر تمام جاننے والوں یہاں تک کے اجنبیوں تک کا احترام کریں اور اگر کہیں ہم سے کوتاہی ہوئی ہو تو ہمیں چاہیے کہ اُس کا فوری ازالہ کر کے معافی مانگ لیں، چاہے اس کے لیے ہمیں کسی کے پاؤں ہی کیوں نہ پکڑنے پڑیں۔ یاد رکھیے یہاں کسی کے پاؤں پکڑ کرحق تلفی کی 'سلیٹ' صاف کر لینا کہیں بہتر ہے اُس وقت سے کہ جب انسان اپنے رب کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے ان اعمال پر پچھتائے اور تمام زندگی فرائض کی پوری ادائیگی کے باوجود حقیقت میں مفلس ہو جائے!

اور سب سے آخری بات یہ کہ اگر کسی نے آپ کی حق تلفی کی ہے تو بہتر یہی ہے کہ آپ اُس شخص کو خلوص نیت کے ساتھ معاف کر دیں۔ یہ فعل یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدلہ لینے سے کہیں بہتر ہے اور آپ کے اِس کام سے وہ یقیناً زیادہ خوش ہوگا۔ ایک مسلمان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنت صرف فرائض کی ادائیگی اور نیک اعمال سے حاصل نہیں کی جاسکے گی تا وقت کہ اُس شخص پر اللہ تعالیٰ اپنا رحم و کرم نہ فرما دے۔ اور بے شک رحم اُسی پر کیا جائے گا جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو گی!

3.0 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

...
حقوق العباد 5

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔