11:20    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ہمارے مسائل

1346 1 0 04

سرفراز صدیقی - 2013-جولائی-4

ہوئے ’’ہم‘‘ دوست جس کے۔۔۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آج ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ امریکہ، روس، ا برطانیہ، انڈیا، اسرائیل؟ آپ کے خیال ' میں ان میں سے کسی کے ہاتھ پر میں اپنا ' لہو تلاش کرنا چاہیے؟ انتہائی افسوس ناک ' حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہمارا سب سے بڑا ' دشمن کوئی دوسرا نہیں بلکہ ہم خود ہیں: ' ہوئے ہم دوست جس کے دمن أسا کا آسماں کیوں ہو؟ / ت في رقہ ۔۔ تمام عالم اسلام اور ' پاکستان کو ان 5 حروف نے مل کر بانٹ ' دیا ہے۔ آج ہمارے درمیان پیتا اور تیزی
سے بڑھتا ہوا یہ تفرقہ ہماری تنزلی کی ' اصل وجہ ہے ۔ یہ باہمی اختلافات اور بڑھتا ہوا انتشار میں بڑی عجلت کے ساتھ مکمل تباہی کے دہانے کی طرف لے جا رہا ' ہے۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کے آ بادی | کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب جس کے 1 . 6 ارب پیروکار موجود ہوں جو دنیا کی کل آبادی کا 23 فیصد ہو وہ اس ' قدر برے حال میں ہو گا؟ اور صرف 66 | سال پہلے اسلام ہی کے نام پر معرض وجود میں آنے والا یہ ملک بے مثل آج اس بری طرح مسائل میں گھرا ہو سکتا ہے؟ | اس کی 20 کروڑ عوام ایک مضبوط قوم نہیں ' بلکہ ایک بے ہنگم ہجوم سے زیادہ کوئی ' حیثیت نہیں رھتی۔ ہمارا بال بال قرض کے ساتھ ساتھ مسائل کے انبار میں بھی جکڑا ' ہواہے۔
آج عالم اسلام دو بڑے فرقوں میں بنا ہوا ہے جن کی ذیلی شاخیں لا تعداد ہیں۔ بی سیم در تقسیم ہماری حیثیت اقوام عالم کے سامنے ایک ہی بنا دیتی ہے جیسے جنگل میں گھاس چرتا ہوا چرند کا ایک بہت بڑا ریوڑ ' جو صرف ایک شیر کے آتے ہی جدھر منہ اٹھا ادھر دم دبا کر بھاگ لیتا ہے۔ اس غول کو دن بھر چرنے، آپس میں لڑنے، نسل بڑھانے اور اپنی جان بچانے کے علاوہ کسی اور کام سے کوئی مطلب نہیں۔ اور آخر کار
ان کی زندگی کا انجام پا تو کسی درندے یا پھر اسی مردار خور کی خوراک بنے پر ہوتا ہے۔ اب زرا ایک لینے کو دل پر ہاتھ رکھ کر سوچنے کیا ہم مسلمان اور یہ گھاس چرنے والے جانور آج برابری کی پر نہیں ' پہنچے؟ ہم اس دنیا کے وسیع جنگل میں اتنی کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود ڈرے ڈرے اور سہے ہے نہیں ہیں؟ کیا ہماری '
کوئی عزت باقی نیکی ہے؟ | پاکستان میں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے | نفاق کی تمام سرحدیں عبور کر لی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری پیدائش کا ' اصل مقصد صرف ایک دوسرے کا گلا کاشا
ہے۔ آج ہم مسلمان نہیں بلکہ آج ہم شیعہ، سنی حنفی، مالکی، جعفری، شافعی، حنبلی، بریلوی، امامیہ، دیوبندی، قادری، اسماعیلی، نقشبندی، بوہری، وہابی، پشتی، اہلحدیث، | زبیدی، طالبان اور اللہ جانے کیا کیا ہیں۔ اسلام میں دراڑیں ڈالنے کے بعد میں مزید بٹوارے کی خواہش محسوس ہوئی تو پھر ہم پاکستانی بھی نہ رہے بلکہ سندھی، بلوچی، ' پنجابی، پٹھان، مہاجر، سرائیکی، کشمیری،ہزارے وال، کالاشی، بلتی، ہند کو چترالی | ہو گئے۔ اس پر بھی بس نہیں کیا اور الگ الگ سیاسی پارٹیاں بنالیں اور یوں مزید بٹ
گئے لیکن کوئی شیر بن گیا تو کوئی تیر ، کوئی بلا تو کوئی تنگ، کوئی اونٹ تو کوئی عقاب کوئی موم بتی تو کوئی ترازو کوئی بیا تو کوئی کتاب ۔ الغرض 2013 کے الیکشن میں ڈیڑھ سو کے لگھ بھگ پارٹیاں رجسٹر ہوئی |
تھیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ ہم نے ان سب کے علاوہ ذات اور برادریوں کے حوالے سے بھی فرق قائم کیا ہوا ہے جس کی تعداد ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں میں ہوئی۔ فرق تو دو سگے بھائیوں میں بھی ہو سکتا ہے لیکن سوچنے کی بات بیا
ہے کہ جس ملک میں اتنی بہت ساری | تفریق نفرت کو جلا دے رہی ہو وہ کیونکر فلاح پاسکتا ہے؟ قابل غور بات یہ ہے کہ کیا یہ تفریق نہ ہی پیدا یا چند م ظہور پزیر ہو گئی؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ تفریق 14 سو سال اور اس سے بھی بہت پرانی ہے تو پھر آج اسے اس شدت سے اس کو کیوں ہوا دی جارہی ہے ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے اور کس کے ایما پر ایسا کر رہا ہے؟ اور یوں وہ بڑے فخر سے اپنے بہیمانہ فعل کی وڈیو بنا کر تشہیر کر رہا ہے کہ دیکھو لو گو ! میں نے کیسا زبردست کام کیا
ہے ! تف ہے ایسے کام پر کہ جس پر انسانیت ا بھی آنسو بہائے ! آج ہم وہ کر رہے ہیں ' کے جو بھی کسی وحشی درندے نے بھی '
کسی دوسرے جانور کے ساتھ نہ کیا ہو گا۔
کیا ہم نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچا کے ہم کیوں آپس میں دست و گریباں ' ہیں؟ وہ کیا وجہ ہے کہ آج ہم میں سے رواداری یوں اچانک ختم ہو گئی ہے؟ وہ کیا امر ہے کہ ہم دوسرے کے نقطہ نظر کو نا صرف یہ کے بالکل مسترد کرتے ہیں بلکہ '
کی کھلے عام تبدیل کرتے ہیں تا کہ نفرت کی آگ کو اور ہوا ملے۔ کیا یہی وجہ نہیں ہےکہ آج ہم مسلمان کم اور کافر زیادہ بناتے ہیں؟ جسے چاہتے ہیں اسلام کے دائرے سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہم یہود و ہنود و نصاری
کے ساتھ مل کر گزارا خوشی خوشی کر سکتے ہیں مگر ایک کلمہ گو کے جان که دتمن بن جاتے ہیں۔
خدارا اپنے آپ میں رواداری پیدا کریں۔ ہو سکتا ہے آپ ہی درست ہو اور | آپ کا ہی راستہ سیدھا ہو لیکن کسی دوسرے کی بات حمل سے سن لینے اور اس پر اپنا غصہ برداشت کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر ہم چاہیں تو یہ نفرت ایک بار پھر
سے محبت اور اخوت میں بدل سکتی ہے کہ جس کی آج ہمیں انتہا سے زیادہ ضرورت
ہے ! اور آپ کچھ کریں یا نا کریں میرا آپ سب سے یہ التماس ہے کہ کم از کم سوشل میڈیا پر وہ پیچھے مت شیئر کریں کہ جس سے
کسی مخصوص فرقہ یا گروہ کی دل آزاری ہوتی ہو اور فساد کو ہوا ملتی ہو۔ خدارا اپنی اولاد کے دل میں نفرت کا ش مت بومیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہماری آنے والی نسلیں اس جرم کا خمیازہ م یں گئی جس کے لیے تار میں ہمیں بھی معاف نہیں کرے گی۔

4.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔