11:59    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی شاعری

18876 98 4 254.4

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

 

جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

 

کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے

جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے

 

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

 

ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے

 

ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے

 

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

 

اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا

اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا

 

ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا

پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا

 

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

 

تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا

جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا

 

بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا

اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا

 

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

 

یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا

ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا

 

جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟

تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا

 

کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی

 

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے​

4.4 "82"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 25 تبصرے

خان نویدالحق انعام الحق عرف خان بابا، ممبئی، انڈیا
بہترین انتخاب
M Imran
آپکا تبصرہ بہت عمدہ و سبق نصیحت ہے زندگی اچھی جگہ ہوتی تو بچہ روتا ھوا نہ آتا
عبداللہ آفریدی جمرود
خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ ڈپٹی کلکٹر تھے بعد ازاں حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانہ وی (تھانوی) رحمہ اللّٰہ کی صحبت بابرکت میں آگئے اور آخرکار ان کے خلیفہ مجاز بن گئے حضرت حکیم الامت رحمہ اللّٰہ کو ان کا ایک شعر ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی اس قدر اچھا لگا کہ فرمایا اگر میرے پاس لاکھ روپیہ (آج کا ایک کروڑ ) ہوتا تو خواجہ صاحب کی نذر کرتا جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں نامی نظم خواجہ صاحب کا شہرہ آفاق کلام ہے تصوف کے رموز کو پوری حکمت اور توازن کے ساتھ اس قدر بلیغ اور موثر پیرائے میں بیان کردیا ہے کہ خوش قسمت لوگ پڑھ کر ضرور روتے ہیں اور ھماری طرح کٹھور دل لوگوں کے دل نرم ہو جاتے ہیں ۔ یہ نظم ھر سکول اور مدرسے کے نصاب میں لازمی شامل ہونی چاہئے
محمد گلفام
ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
رفیق خلیل
کمال کردیا ۔۔ دل ٹرپ گیا
ریاض احمد
دنیا ھے دھوکہ موت حقیقت ۔ رلا دیا اللہ مجذوب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
عبدالغنی قمر انجینئر سرگودھا پاکستان
بہت ھی اعلیٰ شاعری اور کلام ھے اللہ تعالیٰ خواجہ صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
Md Hayatullah
Mudarris
محمد زید عاجز
بہت عمدہ اور زندگی بدل دینے والا کلام ہے اسمیں عقل والوں کیلۓ بہت کچھ موجود ہے
محمد عم ان خان
بہت ہی اعلی کلام ہے سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں جہاں میں ہے عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سونے اور بہت ہی اعلی شعر ہے یہ ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے اللہ اکبر
محمد مشرف عبدالرقیب
انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے موت کو یاد دلاتے ہوئے دنیا سے محبت نہ کرنے کا درس دیا گیا ہے حقیقت ایسا لگتا ہے کہ اس کو مکمل اخلاص کے ساتھ لکھا گیا ہے کیونکہ اس میں مکمل طریقہ سے دنیاوی طور طریقے انسان کے رہن سہن اور انسان کی فکر کو اجاگر کیا گیا ہے ہمیں خوشی ہے ایسے شاعر اور ایسے قلم کاروں سے جو اس طریقہ کے اشعار لکھ کر دنیا والوں کو اس کی حقیقت یاد دلاتے ہیں
عزیزاللہ عزیزی
عبرت حاصل کرنے والوں کیلے اسمیں بہت کچھ ہے
خلیل الرحمن
اس کلام کو پڑھنے میں انصاف حاجی مشتاق عطاری نے کیا۔
نصیرالدین
کمال
نبیل قیصر
بہت خوب
عبد الولی
بہت ہی اچھا کلام ہے اور دل کو بہلانے والاکلام ہے
سید شہریار داود
بہترین شاعری ہے.
محمد عمران
زبردست کلام ۔۔
ابرار الاحقر
بہت عمدہ اور مسحور کن کلام ہے جو قاری کو روحانی دنیا کی زبرست سیر کرواتا ہے جس کا اثرکئی روز تک رہتا ہے, اللہ پاک کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں! آمین
غلام عباس بلوچ
بہت ہی اعلیٰ
Mohsin
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟ تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟ جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے​
حافظ عمران۔۔۔۔کراچی
ماشاءاللّٰہ بہت خوبصورت اور سبق آموز کلام ہے۔ باری تعالیٰ خواجہ صاحب رحمۃُ اللّٰہ علیہ کی قبر کو نور سے بھر دیں۔ آمین یاربُّ العالمین
جاوید اشاعتی
ما شاء اللہ بہت موثر
محمد عثمان
ماشاءاللہ بہت اعلی کلام ہے
محمد احمد قاسمی
اس نظم کو بار پڑھنے کو دل کرتا ہے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔