سب کہے دیتی ہے اشکوں کی روانی افسوس
راز دل میں ہے کہ چھلنی میں ہے پانی افسوس
پیشِ آئینہ لُبھاتا ہے بُڑھاپے کا وقار
ہم نہیں کہتے کہ افسوس جوانی افسوس
قیدِ تنہائی ہے یکتائی میں زندہ رہنا
دل پہ افسوس کہ رکھتا نہیں ثانی افسوس
جس طرح تند ہواؤں سے اُلجھتے ہیں چراغ
عُمر بھر فکرِ بقا میں رہے فانی افسوس
تُم نے اے اہلِ خرد چھان لئے ہفت افلاک
خاک ویرانۂ جاں کی نہیں چھانی افسوس
صبح ہوتے ہمیں دیکھا تو بھلا کیا دیکھا
اب کہاں آخرِ شب کی وہ روانی افسوس