1995 کے اوائل میں میری پوسٹنگ بحرین سے بیلجیئم ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جس میں میری رہائش کسی یورپی مُلک میں ہوئی۔ میرا آفس برسلز شہر کے مضافات میں واقع ایک خوبصورت بلڈنگ میں تھا جس میں چارو ں سمت بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے اور باہر کا خوشنما منظر بہت صاف نظر آتا تھا۔ سال بھر کام کے دوران یورپ کے بدلتے موسم اپنے آفس کی کھڑکی سے دیکھنے میں بہت اچھا لگتا تھا ۔ خاص طور پر جب خزاں کا موسم شروع ہوتا تو تمام درخت بڑی عجلت میں زرد پتوں کی چادر اوڑھ لیتے اور تب تو یہ منظر بہت ہی دل آویز ہوتا ۔ مگر جلد ہی یہ پتے سوکھ کر درختوں سے جھڑ جاتے ، بادل گہرے ہو جاتے ، روشنی غائب ہوجاتی اور سرد ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ۔ پژمردگی اور افسردگی کا ماحول بن جاتا تھا۔ اس ماحول میں جب کسی دہری کمر والے 70 سال کے بوڑھے یا بڑھیا کو ایک چھوٹے سے کتے کو ٹہلاتا دیکھتا تھا تو میری اُداسی مزید بڑھ جاتی تھی۔ میں سوچتا تھا کہ اس پیرانہ سالی میں اس بے چارےشخص کے پاس سوائے ایک کتے کے اور کوئی نہیں؟ ان ضعیف لوگوں کے لیے اولڈ ہاوس کی پر ہجوم زندگی کتنی تنہا ہوتی ہوگی ؟ ایسے وقت میں مجھے اپنا وطن یاد آتا تھا جہاں بزرگوں کو باعث رحمت اور برکت سمجھا جاتا تھا اور گھروالے کوشش کرتے تھے کہ بڑھاپے میں اُن کی جتنی زیادہ خدمت کر سکیں وہ بہتر ہے۔ اولاد کی کوشش ہوتی تھی کہ ان زمانہ شناس لوگوں کے تجربے سے مستفید ہو سکیں اور ان کی جس قدر دعائیں سمیٹ سکیں وہ سمیٹ لیں۔ جب کبھی مجھے یہ یاد آتا میں یورپ کی اس ترقی یافتہ مگر مادہ پرست قوم کے بیچ میں بیٹھ کر اپنے پاکستانی ہونے پر فخرمحسوس کرتا۔
پھر میری پوسٹنگ کسی اور ملک ہو گئی اور وہاں سے کہیں اور ۔ میں اسی طرح گھومتا گھماتا بالآخر مارچ 2008 میں وطن واپس آگیا۔ دیکھا تو یہاں بہت کچھ بد ل گیا ۔ اگر یہ تبدیلی اچھائی کی طرف ہوتی تو انسان یقیناً خوش ہوتا مگر افسوس کے تقریباً تمام کی تمام چیزیں تنزلی کا شکار تھیں۔ میں اپنی جن روایات کو بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا تھا وہ آہستہ آہستہ سسکتے ہوئے دم توڑ رہیں تھیں۔ اور کچھ ایسی چیزیں وجود میں آ رہی تھیں جو اس سے پہلے ہمارے معاشرے کا حصہ کبھی نہیں تھیں۔ اُن ہی میں سے ایک اولڈ ہاوس کا قیام بھی تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر شدید صدمہ ہوا کہ ہمارے ملک میں یہ بیماری بھی مغرب سے درآمد ہو چکی تھی۔ اگر بات لاولد لوگوں کی ہوتی تو دل کو سمجھا لیتا کے رشتہ داروں نے نہیں رکھا مگر یہاں تو وہ دیکھا جو نہ دیکھتا تو بہتر تھا۔ جوان اولاد کے ہوتے ہوئے بوڑھے والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کو اولڈ ہاوس میں مقیم دیکھا۔
اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ان محروم لوگوں کو دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ کون سی بدبخت اولاد ہو گی کہ جس نے معمولی سے دنیوی آرام کے خاطر اپنے لیے جہنم کی آگ خریدی ہے؟ پتہ چلا کے یہاں تو گھر گھر یہی کہانی ہے۔ جو اپنے والدین سے زیادہ تنگ تھے انہوں نے والدین کو ایدھی سینٹر بھجوا دیا، جو تھوڑے کم تھے انہوں نے گھر میں ہی کوئی کونا بوڑھوں کے نام کر دیا۔ کوئی بیوی کے آگے دُم ہلاتا پھر رہا ہے تو کوئی مال و دولت کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے۔ کسی کو اپنے جاہل ماں باپ سوسائٹی سے ہم آہنگ نہیں لگتے تو کسی کے خیال میں اولڈ فیشنڈ لوگ اُن کے بچوں پر بُرا اثر ڈال رہے ہیں۔ کچھ نے ماں باپ کو آیا گیری کے فرائض تفویض کر دیے ہیں تو کچھ جائداد کی لالچ میں اُن کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ اپنے ملک کے ساتھ ساتھ بوڑھے ماں باپ کو بھی ا پنے بہتر مسقبل کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ گئے۔ الغرض والدین کا جو مقام تھا وہ ہم نے اُن سے چھین لیا اور انہیں بہت پستی میں ڈال دیا وہ بھی اُس عمر میں جب وہ اپنے لیے کچھ کر نے کے قابل نہ رہے۔ جن عاقبت نا اندیش لوگوں نے ایسا کیا ہے میں اُن کو شیخ سعدی ؒ کا یہ قول سناتا ہوں: ہیرا اگر کیچڑ میں بھی گر جائے تو اُس کی قمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور ریت اگرآسمان کی بلندیوں میں بھی اُڑنے لگے تو وہ بے وقت ہی رہتی ہے۔
والدین چاہے بوڑھے ہوں یا وہ ادھیڑعمر ہوں اُن کی عزت و تکریم اور ادب ہر اولا د پر فرض ہے۔ میرے والد مرحوم اپنی ہزار ہا خوبصورت باتوں میں سے ایک بات بار بار دھرایا کرتے تھے: باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔ یہ سچ ہے کہ بڑھاپے میں اکثر انسان چڑچڑا ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی چیزیں بھولنے لگتا ہے، ضدی بھی ہو جا تا ہے، اکثر بیمار بھی رہتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ایک طرح سے بچہ بن جاتا ہے۔ لیکن وہ کم عقل لوگ جو پیرانہ سالی میں اپنے والدین کی عزت نہیں کرتے اور انہیں جھڑکتیں ہیں یا بُرا بھلا کہتے ہیں وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب وہ خود بچے تھے اور بالکل ایسا ہی کیا کرتے تھے تو یہی ماں باپ تو تھے جو اُن کے لیے بیماری میں راتوں کو جاگ جاگ کر ان کا خیال رکھا کرتے تھے۔ ہر مشکل میں اِن کو اپنے کلیجے سے لگا کر رکھتے تھے، ان کو کھانے کو پہلے دیتے تھے اور خود بعد میں کھاتے تھے اور ہر ضد پوری کیا کرتے تھے؟
والدین کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم کی سورۃ الاسراء، ( 17 : 24 – 23) میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کروo اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجزو انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘
اس کے علاوہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اُس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی وہ ذلیل و رسوا ہو)۔ کسی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور نے فرمایا کہ جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔
ہمارے نبی پاکﷺ نے والدین کی خدمت کو اللہ کے لیے جہا د تک پر فضیلت دی: صحیح بخاری سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شریک جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا فَفِيْھَا فَجَاِھد یعنی بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا۔
یہاں تک تو میں نے بات والدین کے بارے میں کی ہے مگردر حقیقت والدین میں اَول مقام ماں کا ہے۔ اور ایک ماں کا صحیح رتبہ کیا ہے میں شاید اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔ میں خود باپ ہوں اور اپنی اولاد کو بہت چاہتا ہوں مگر میری چاہت اور میری بیوی کی اپنے بچوں کے لیے چاہت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اور شاید اسی بے انتہا چاہت کی طاقت کے طفیل اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی جنت اُن کی ماؤں کے قدموں تلے رکھی ہے۔
یوں تو تمام جانوروں کی مادائیں بھی اپنی اولاد سے بے تحاشہ محبت کرتی ہیں۔ معمولی حیثیت کے جانور کی ماں بھی اپنے بچوں کے بچاؤ کے لیے بڑے سے بڑے خونخوار جانور کے سامنے سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ماں اور اُس کے بچے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں ۔ اور پھر جنگل کا قانون لاگو ہو جاتا ہے یعنی ماں اور اولاد میں بھی کھانے پر لڑائی ہو تی ہے اور ہر کھانے پر ہوتی ہے ۔ چاہے وہ بکری جیسا ایک بےضرر جانور ہی کیوں نہ ہو! لیکن یہ وصف تو اللہ نے صرف انسان کی ماں میں رکھا ہے جو اگر 80 سال کی بڑھیا بھی ہو جائے اور اس کی اپنی اولاد خود 55 سال سے تجاوز کر چکی ہوں اور تب بھی اگر کھانے کی میز پر اولاد کی مطلب کی چیز کم پڑ جائے تو ماں کے پیٹ میں یا تو فوری طور پر درد شروع ہوجاتا ہے یہ اُس کی بھوک اچانک مر جاتی ہے۔ سبحان اللہ! یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی اولاد اپنی ماں کا قرض نہیں اُتار سکتی۔
یہ مضمون ایسا ہے کہ جس پر صفحات کے صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں مگر یہاں طوالت کے خوف سے ہم یہاں اِختتام کریں گے اوریہ درخواست کریں گے کہ ہم سب اپنے اپنے والدین کی عزت کریں اور ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔ اُن کا ہر وہ حکم جو دین سے متصادم نہ ہو مانیں تا کہ اللہ ہم سے راضی ہوکر اپنا رحم و کرم ہم پر نازل کرے۔ آمین!