'وفا' کا لفظ اپنے اندر بہت وسیع معنی و مفہوم رکھتا ہے۔ مثال کے طور پروفا کرنے سے مراد وعدہ پورا کرنا، حکم کی تعمیل وتکمیل اور بجاآوری کرنا، مروّت سے پیش آنا ، کبھی کسی صورت نقصان نہ پہنچانا، خیر خواہی کرنا، اعتماد پر پورا اُترنا، ساتھ دینا یا نباہنا، کبھی دھوکا نہ دینا، نمک حلالی کرنا، ارادت مند ہونا، عقیدت مندہونا، وغیرہ، وغیرہ ۔ لیکن عملی طور پر اگر کوئی شخص وفا کا مفہوم بہت اچھی طرح سمجھنا چاہے تو اُسے ایک کتے اور اُس کے مالک کے درمیان تعلق کا مشاہدہ کرنا چاہیے، وہ بھی ایک ایسے مالک کا جو اپنے کتے کو اکثر دھتکارتا اور مارتا بھی ہو۔ مثال کے طور پرکسی کسان یا مویشی پالنے والا شخص کا کتا۔ اسلام میں کتا نجس ہے (وضاحت: کبھی نہ پاک ہونے والی شراب اور خنزیر کی طرح "نجس العین" نہیں یعنی سوکھے کتے کا جسم اگر انسانی جسم یا کپڑوں سے چھو جائے تو اُس شخص کا جسم یا کپڑا ناپاک نہیں ہوگا)۔ لیکن خالقِ کائنات کا کوئی بھی کام خارج از علِّت نہیں اس لیے چوکیداری اور شکار (جن کے لیے کتا پالنے کی اجازت ہے)کے علاوہ کتّا پیدا کرنے کا مقصد بھی شاید انسان کو وفا کا مطلب سمجھانا ا ور یہ دکھانا ہو کہ ایک نجس قرار دے کر دھتکارا ہوا حیوان بھی ایک ایسے مجازی آقا کا کس درجہ وفادار ہو سکتا ہے جو اُسے محض دو وقت روٹی کھانے کو دیتا ہے وہ بھی اکثر گالیاں دے کر۔ کتا غالباً وہ واحد جانور ہے جس کو اپنے مالک کی طرف سے ملی ہوئی سخت سے سخت سزا کے باوجود اپنے مالک کی خوشی اپنی خوشی سے بڑھ کر پیاری ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ مالک کے اشاروں پر چلتا ہے۔ اُس کا کسی طور بس نہیں چلتا کہ وہ کس طرح اپنے مالک کو مزید خوش کر دے۔ مالک غصے میں آکر پتھر یا لکڑی سے مارے گا تو ٹیاؤں ٹیاؤں کرتا بھاگے کا مگر تھوڑی دیر بعد پھر دم ہلاتا ہوا واپس آجائے گا۔ مالک کھانا کھائے تو چاہے وہ بھوک سے مر بھی رہا ہو تو اُس وقت تک کھانے کی طرف نہ آئے گا جب تک اُس کو مالک اشارہ نہ کرے۔ اور کھانے میں مالک جو بھی دے اور جتنا بھی دے چپ کر کے کھا لے گا۔ چوکیدار کتے کے ہوتے ہوئے مجال نہیں کہ کوئی غیر شخص مالک کی زمین کے حدود میں داخل ہو جائے۔ مرتے مر جائے گا لیکن کسی انجانے کو مالک کا مال چھونے نہیں دے گا۔ مالک رات بھر سوئے گا تو وہ زیادہ وقت جاگے کا اور اگراُسے نیند کا جھونکا آیا بھی تو معمولی آہٹ پر چوکنا ہو جائے گا۔ شکاری کتا شکار کرے گا اور چاہے جتنا بھی بھوکا ہو خود اپنے ہی شکار کیے ہوئے سے ایک بوٹی تک نہیں نوچے گا اور شکار سیدھا لا کر مالک کے قدموں میں ڈال دے گا۔ مالک اندھا ہو تو وہ اس کو راستہ دکھائے گا۔ اور یہ سب کچھ وہ بغیر کسی لالچ کے اپنے مالک سے وفاداری نبھانے کے لیے کرتا ہے۔ کتا وہ جانور ہے جو جب تک ذہنی طور پر مکمل پاگل نہیں ہو جاتا اپنے مالک کو کبھی کاٹتا نہیں ہے چاہے مالک غصے میں مار مار کر اُس کی ہڈی پسلی ایک نہ کر دے۔
یہ مثال دینے سے قطعی یہ مقصد نہیں کہ سب لوگ شوقیہ طور پر کتا پال لیں اور نہ ہی یہ کہ انسان اپنے اوصاف میں کسی جانور سے بھی گیا گزرا ہے۔ دراصل انسان تو اپنے اوصاف حمیدہ کی بدولت اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن آج کے دور میں شاید وہ اپنے مالک کے عطا کردہ منصب سے نیچے ہوتا چلا جا رہا ہے اور بہت تیزی سے رُو بہ زوال ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ہم وفا جیسے اعلیٰ جوہر سے بے وفائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ایک انسان کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے کہ وہ ایک باوفاشخص بنے۔ ایک ایسا انسان جو اپنے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے وفا کرے، اپنی اُمت ، اپنی مٹّی ، اپنی قوم سے باوفا ہو۔ اس کے علاوہ اپنے گھر، اپنے دوستوں، عزیز و اقارب، اپنے ماں باپ، بہن بھائی، اپنے بیوی بچوں سے، الغرض ہر اُس انسان اور اُس شئے سے وفا کرے جس سے اُس کی زندگی کسی نہ کسی طور اللہ تعلیٰ نے جوڑی ہے اور وہ اُس تعلق سے خواہ بہت ادنٰی ہی سہی کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور حاصل کرتا ہے یا کرتا رہا ہو۔ بدقسمتی سے آج کل ہمارے درمیان سے وفا اُٹھتی جا رہی ہے اور ہماری تمام تر سوچ کا محور صرف ہماری اپنی ذات بن رہی ہے ۔ یعنی ہر گئے دن کے ساتھ ہم اپنی ہی ذات کے پندار میں مقید ہوتے جا رہے ہیں اور پرلے درجے کے خود غرض بنتے جا رہے ہیں۔ ہماری سوچ کا تمام تر محور ہمارا اپنا معیار زندگی ہے۔ہم بس یہ سوچتے ہیں کہ ہم اپنا لائف اسٹائل کس طرح بہتر کر سکتے ہیں چاہے اپنی اِس چاہت کے حصول کے لیے ہمیں اپنے کسی پیارے کا کندھایا پھر سر ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے یا پھر کسی سے برسوں کا ناطہ اورتعلق ہی کیوں نہ توڑنا پڑے۔ بعض اوقات تو لوگ اپنی غرض کی خاطر بلاوجہ دشمن تک بن جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی برائیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ اگر ہم یونہی اسباب کی خاطر اجتماعیت سے انفرادیت کی جانب محو سفر رہے تو پھر خاکم بدہن ایک دن اہل مغرب کی طرح ہماری معاشرت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم بھی شاید ان ہی کی طرح دنیا کی ہر آسائش حاصل کر لیں مگر اپنے دوستوں، رشتوں اور آخرت میں عزت کی قیمت پر ۔ ایک وقت آئے گا جب ہم اللہ کو چھوڑ کر مال و دولت کے آگے سربَسجود ہو نگے۔ پھر ایک دن ہم سب پاکستان میں مدرس ڈے، فادرس ڈے پر ایدھی، چھیپا یا کسی اونچے درجے کے اولڈ ہاوس (upper class old house) میں مقیم اپنے ولدین کو پھول اور مٹھائی کے ساتھ "I LOVE YOU" کا ایک خوبصورت سا کارڈ بھی بھیجا کریں گے جس میں اُن بوڑھوں کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی ایک عدد مسکراتی تصویر بھی ہو گی تا کہ وہ اسے دیکھ دیکھ کر اگلے سال تک اپنا دل بہلا سکیں۔ ہم اپنے حاصل کردہ اعلیٰ معیار زندگی کی بدولت اُن دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا چھوڑ دیں گے جن کے ساتھ ہم نے بچپن گزارا مگر معاشی طور پراب وہ ہم سے بہت پیچھے رہ گئے۔ ہم کسی ویلینٹائن ڈے پر جائز محبت اور وفا کے پیکر کو چھوڑ کر کسی ناجائز اور اپنی ہی طرح کسی بے وفا سے تعلق جوڑ رہے ہوں گے۔ یا پھر سب کے سب اپنے ملک پاکستان اور اپنے پیاروں کو چھوڑ کر یورپ، شمالی امریکہ یا آسٹریلیا حجرت کر جائیں گے۔ اور ہر ایسے کو چھوڑ دیں گے جو کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت آپ کا غمگیر تھا، دلگیر تھا، دستگیر تھا اور اللہ کی طرف سے ایک وسیلہ تھا۔
یاد رکھیے! ایک اچھا مسلمان کسی طور بے وفا نہیں ہو سکتا ۔ وہ پیسے کے لیے، اپنا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے یا کسی اور قسم کی ناجائز محبت کے حصول کے لیے اپنی سب سے بڑی صفت یعنی وفا کا سودہ کبھی نہیں کر سکتا:
کی محمد ﷺسے وفا تو نےتو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح قلم تیرے ہیں
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جس خون میں وفا نہیں تو پھر چاہے اُس میں جو کچھ بھی ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مکافات عمل کس چڑیا کا نام ہے؟ ایسے لوگوں کو یہ زندگی خود ہی سکھا دے گی۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس بھیڑ چال میں جب پورا معاشرہ بگڑ جائے گا تونقصان سب ہی کا ہو گا۔ اور پھر ایک دن مال و دولت کے انبار تلے سب تنہا رہ جائیں گے ۔ جسم نحیف ہوگا ، جاں ناتواں ہوگی، سسکتی زندگی پھر بھی رواں ہوگی۔ ہاں! مگر جس طرح مغرب میں ہوتا ہے وہ بھی یقیناً ہوگا؛ یعنی کوئی ساتھ دے یا نہ دے وفا کا پیکر کتا انسانوں کی طرح بے وفائی جیسے جرم کا مرتکب نہیں ہوگا اور اپنی یا اپنے مالک کی موت تک ساتھ ضروردے گا۔
والسلام،
سرفراز صدیقی