جب سے کیبل کی بدولت پاکستان میں ٹی وی چینلز کی بھرمار ہوئی ہے اور لوگوں کی قوت خرید (جس کسی بھی وجہ سے) بڑھی ہے اُس وقت سے اشتہاری کمپنیوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ روزآنہ نت نئے اشتہارات بنتے ہیں اور مختلف ٹی وی چینلز کی زینت بنتے ہیں۔ ہر کمپنی اپنی پروڈکٹ کی اشتہاری مہم پر کروڑوں بلکہ اربوں کے حساب سے پیسہ خرچ کرتی ہے اور پروڈکٹ کو مقبول بنانے کے لیے اشتہاری کمپنی کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ جیسا چاہے اشتہار بنائے بس اُن کی پروڈکٹ مارکیٹ میں سوپر ہٹ ہونی چاہیے۔ جب اس طرح مطالبہ کیا جاتا ہے تو اشہاری کمپنیاں بھی بہت سی حدود پھلانگ جانے کو تیار ہو جاتی ہیں۔ روپے پیسے کی چکا چوند کے اس سارے کھیل میں یہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کے مادر پدر آزاد اشتہاروں سے اُن ننھے ذہنوں پر کیا اثر ہوگا جو ابھی صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ بچے جو ابھی اپنے گھر ، اسکول اور معاشرے سے سیکھ رہے ہیں وہ ان بے تکے، گھٹیا، غیر اخلاقی، بیہودہ اور فحش اشتہاروں سے کیا سیکھیں گے؟ یہ سب غیر اسلامی ہی نہیں غیر اخلاقی بھی ہے اور ہمارے معاشرتی انحطاط کا باعث بھی۔
مثال کے طور پر ہم ایک بچے کو کس طرح یہ بتائیں کہ داغ چاہے پہننے کے کپڑوں پر ہوں، سفید پوشی کی چادر پر ہوں یا انسان کےکردار پر ہوں کسی بھی صورت اچھے نہیں ہوتے۔ یہ بچے تو دن رات کپڑے دھونے والے پاؤڈر کے اشتہار میں یہ سنتے ہیں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں! جب کوئی کپنی اپنے اشتہار میں لڑکی' پٹانے' کی بات کرے گی اور بار بار پٹانے کا لفظ دہرائے گی تو انسان اس گھٹیا لفظ کے بارے میں اپنی اولاد کو کیا بتائے گا؟
اس کے علاوہ اشتہاروں میں بیہودگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ایسا لگتا ہے ناچنے اور جلد دکھائے بغیر کوئی چیز بیچی ہی نہیں جا سکتی۔ پڑوسی ملک کے کلچر سے مرعوب ہو کر ہم یہاں جو اشتہار بنا رہے ہیں اُن میں چائے کے دودھ کی ترنگ ہو یا دیس کا بسکٹ یا موبائل نیٹ ورک ہو آپ کو اشتہار میں ایک انتہائی گھٹیا ناچ نظر آئے گا۔ حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ اِسکول کی بچیوں کو بھی یونیفارم میں ڈانس کروا دیتے ہیں او رپھر کہتے ہیں: لیں ENJOOOOYZZ ۔ اس کے علاوہ وہ اشتہار جو آبادی میں اضافے کے حوالے سے بنتے ہیں اُن کے تو شروع ہوتے ہی انسان سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ ارد گرد کون ہے اور ریموٹ کہاں ہے چینل بدلنے کے لیے۔ او ر ایسے ہی لمحے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ جسے آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ ریموٹ غائب ہے۔ انسان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا کہ صوفہ کس طرح پھٹ جائے اور وہ اُس میں دفن ہو جائے۔
سیلیولر نیٹورک کی کمپنیاں 'رات' کے خصوصی پیکج کس کو اور کس کام کے لیے دے رہی ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو رات بارہ بجے کے بعد فجر تک بات کرنا پسند کرتےہیں؟ کیا یہ لوگ ہماری نئی نسل کو غلط راہ پر نہیں لگا رہے؟ کچھ کریم اور صابن بیچنے والی کمپنیاں اس بات پر اچھا خاصہ یقین رکھتی ہیں کہ جب تک اچھی طرح نسوانی کھال نہ دکھا دی جائے اُس وقت تک لوگ اُن کی پروڈکٹ کی افادیت پر یقین ہی نہیں کریں گے۔ میرے خیال میں seeing is believing’ ‘ پر یہ لوگ زیادہ ہی یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تو آم کے جوس کے اشتہار بھی اشتہا انگیزی سے بھر دیے جاتے ہیں۔ اور 'کیوں' موبائل فون کا کوئی تعلق بنتا ہے ان واہیات اشتہاروں سے؟ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسے اشتہار اب رمضان کے مقدس مہینے میں وہ بھی عین روزوں کے اوقات میں دکھائے جانے لگیں ہیں۔ شرم ہم کو مگر نہیں آتی!
جس قسم کا پیسہ اس کام میں شامل ہے ہمیں نہیں لگتا کے پیمرا (Pakistan Electronic Media Regulatory Authority) کی کبھی بھی ان اشتہاری کمپنیوں یا چینلز پر کوئی اتھارٹی قائم ہو سکے گی۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے بچوں کے اخلاق کو بگڑنے اور ان کے کردار کو داغدار ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہمیں متحد ہو کر ان بیہودہ اور لچر اِشتہاروں کا اور اسی طرح کے فحش ڈراموں اور ٹی وی شوز کابائیکاٹ کرنا ہوگا۔ جب ان چینلز کی ریٹنگ نیچے جائے گی تو جھک مار کے یہ لوگ اپنے آ پ کو بدلیں گے۔ اگر کراچی سے خیبر تک ہم سب مل کر صرف ایک دن کے لئے ٹی وی بند کر دیں تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ویسے بھی ہمارے چینلز پر کتے بلیوں کی لڑائی کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا پروگرام نہیں آتا۔ اس لیے اگر ہم ایک دن کیا ایک مہینہ بھی ٹی وی بند رکھیں تو ہمیں کوئی نقصان نہں ہوگا۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو ٹی وی نہ دیکھنے کی وجہ سے عوام کی سوچ مثبت ہوگی جس کی ہم سب کو اشد ضرورت ہے۔ خبروں کے لیے انٹرنیٹ اور ریڈیو سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔
یاد رکھیے۔۔۔ داغ تو ہر صورت برے ہوتے ہیں!