06:20    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

ہمارے مسائل

2187 3 0 05

سرفراز صدیقی - 2013-ستمبر-19

بیویوں کی حق تلفی

اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود نہ جانے کیوں انسان اپنے آپ کو حیوان سمجھتے ہوئے معمولی سی طاقت کے زعم میں ہر اُس شخص کے حق کو پا مال کرتا ہے جو کسی بھی وجہ سے اُس سے کمزور ہو۔ کاش انسان یہ سمجھ جائے کہ یہ دنیا جنگل نہیں ہے اور نہ ہم جنگلی جانور! اور جو جانور بن کر حیوانیت کا ثبوت دے گا اللہ تعالیٰ اُس سے پورا پورا حساب لے گا۔ آج ہمارے معاشرے میں جہاں ہر کسی کے حقوق پا مال کیے جا رہے ہیں وہیں بیوی کے حق پر بھی شب وروز ڈاکہ زنی ہو رہی ہے۔ کسی جگہ رات دن کی لعن طعن سے بیوی کی زندگی اجیرن کی جا رہی ہے۔ کہیں اُس کا نان نفقہ بند کیا جاتا ہے تو کہیں اُس کو جبری مشقت اور کمانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کہیں اِس کو ناجائز طلاق دی جارہی ہے اور ساتھ ہی اُس کے معصوم بچے اُس سے چھینے جا رہے ہیں تو کہیں بیوی کو زندہ جلایا جا رہا ہے اور زود وکوب کیا جا رہا ہے۔ کہیں بیوہ کی وراثت غصب کی جا رہی ہے تو کہیں مطلقہ کی جائداد چھینی جا رہی ہے اور در بدر کیا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے یا جاہل ، متمول، متوسط یا مفلس، گاؤں دیہات یا شہربغیر کسی تخصیص کے ہمارے معاشرے میں ہر جگہ کسی نہ کسی حد تک یہ ظلم ڈھایا جا رہا ہے اور اسی لیے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بیوی کا حق ایک مرتبہ سب کو پھر سے یاد دلا دیں۔

ایک مرد پر بہت سی خواتین کا حق ہوتا ہے مگر اُن میں سے تین عورتوں کا حق سب سے قریبی ہے یعنی ماں، بیوی اور بیٹی۔ ماں اور بیٹی سے تو مرد کا خون کا رشتہ ہوتا ہے۔ ایک کی گود میں وہ پل کر جوان ہوتا ہے تو دوسری کو وہ اپنی گود میں پال کر جوان کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اِن دونوں رشتوں سے ایک مردکی محبت فطری ہے اور پھر طویل رفاقت اور قربت کے باعث اس پیدائشی محبت کو مزید پروان چڑھنے کا وافر موقع ملتا ہے۔ یوں ایک مرد ان دونوں خواتین کی عادات و اطوار کو نہ صرف یہ کہ اچھی طرح سمجھتا ہے بلکہ اُن سے کس طرح معاملہ طے کرنا ہے وہ بھی بخوبی جانتا ہے۔ یعنی ایک طرف تو برسوں کی محبت اور پھر ایک دوسرے کی شخصیت سے مکمل آگہی اور دوسری طرف یہ کہ وہ دونوں خواتین بھی اس مرد یعنی اپنے بیٹے یا باپ پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتی ہیں۔ اپنے مُسلّم حق کی وجہ سےیہ دونوں اُس گھر میں اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتی ہیں۔ اور یوں یہ دونوں بغیر کسی مسئلہ کے خوشی خوشی اپنی زندگی کے دن گزارتی ہیں۔

لیکن بیوی کا معاملہ قطعی مختلف ہے۔ چاہے شادی محبت کی ہو یا پھر والدین کی مرضی سے شادی کے بعد بیوی اپنے بابل کا گھر چھوڑ کر بالکل انجان لوگوں کے درمیان زندگی کی نئے سرے سے شروعات کرتی ہے۔ یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ ہمیں اُس لڑکی کی نفسیات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ جو پیدائش کے دن سے لے کر جوانی تک ایک انتہائی شفیق اور مضبوط شخصیت کے زیر سایہ رہی ہو اور اُس کے ارد گرد اُس کے محبت کے رشتوں کی ریل پیل ہو۔ وہ لڑکی جب اچانک اُن سب چاہت کے رشتوں سے دور ہو کر ایک انجانی جگہ انجان لوگوں میں اپنی نئی زندگی کی ابتدا کرتی ہے تو اُس کے دل میں کیسے کیسے اندیشے اور خوف گھر کیے ہوتےہیں مگر وہ صرف اور صرف اپنے شوہر کی محبت میں ان سب اندیشوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ شادی کے فوراً بعد یہ ایک لڑکی کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی قربانی ہوتی ہے۔ اس قربانی کا صحیح ادراک اگر ایک شوہر اور اُس کے گھر والے کر لیں تو بیشتر مسائل خود ہی حل ہو جائیں۔ لیکن افسوس ایسا ہوتا نہیں ہے۔ جب ماں اور بہنیں اپنی محبت میں اور اُس 'کماؤ پوت' کی آمدنی میں کسی نئے کو شریک دیکھتی ہیں تو اُن کے دل میں نا چاہتے ہوئے بھی اندیشے جاگ اُٹھتے ہیں۔ وہ ان اندیشوں کے تحت اپنے کھونٹے کو مضبوط کرنے میں لگ جاتی ہیں۔ اپنا کھونٹا مضبوط کرنا کوئی برائی کی بات نہیں مگر جب کوئی اپنا کھونٹا مضبوط کرنے کے لیے کسی دوسرے کا کھونٹا کمزور کرنا شروع کر دے تو پھر بات غلط ہو جاتی ہے اور یوں مسائل پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ایک مرد کو فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے اپنے ارد گرد کے تمام خائف لوگوں کا ڈر زائل کرنا چاہیے اور اُن کو محبت اور اپنے عمل سے یہ بات بتانی چاہیے کہ وہ سب کے حقوق خوش اسلوبی سے ادا کرے گا۔ لیکن اکثر لوگ یہاں مار کھا جاتے ہیں اور توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ عدم توازن اگر بیوی کے حق میں ہو تو ماں اور بہنیں برا مانتی ہیں اور اگر ماں اور بہن کے حق میں ہو تو بیوی سوچتی ہے کہ اُس کی قسمت پھوٹ گئی۔ بیوی ایسی صورت حال میں اپنی سب سے گہری سہیلی یعنی اپنی ماں سے رجوع کرتی ہے اور پھر دونوں مائیں مل کر اس نو بیاہتا جوڑے کی زندگی میں ایک نمائندہ جنگ (proxy war) شروع کر دیتی ہیں۔ اور اس کے بعد جو کچھ ہوتا ہے وہ آج بدقسمتی سے گھر گھر کی کہانی ہے۔ اسلام ہر اُس شخص کی مذمت کر تا ہے جو میاں بیوی کے درمیان چپقلش پیدا کرتے ہیں چاہے وہ لڑکی یا لڑکے کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے۔“ (ابوداوٴد)

گھریلو نااتفاقی میں قصور وار بیوی بھی ہوتی ہے لیکن ہم اگر اوپر درج کی ہوئی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اُس بیس بائیس سال کی لڑکی کو مورد الزام ٹھہرانا ناانصافی ہو گی۔ جب گھر میں سرد یا گرم جنگ کا ماحول ہو اور ساتھ ہی مرد اگر کان کا کچا ہو یا اُس کو اپنی طاقت کا گھمنڈ ہو توپھر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ناانصافی شروع کردیتا ہے، اُس کی حق تلفی کرتا ہے اور اُس کے ساتھ ناروا سلوک کرنے لگتا ہے۔ اور بات ما ر پیٹ اور بعض مرتبہ تو نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ آج کل اکثر مرد دین اسلام میں ایک بیوی کے حقوق کو مکمل طور پر فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو بیوی پر حاکم بنایا ہے مگر شوہر نہ تو حقیقی اور نہ ہی مجازی خدا ہے۔ بحیثیت حاکم اسلام اُسے اپنی بیوی پر ظلم و ستم کرنے کی اجازت قطعی نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اُس کی تحقیر و تذلیل کر نے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ شوہر جو یا تو اپنے طور پر یا اپنے گھر والوں کے کہنے پر اپنی بیویوں پر زیادتی کرتے ہیں وہ بدترین قسم کے ظالم ہیں۔ ایک شوہر کو ہمیشہ یہ یاد رکھانا چاہیے کے بیوی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کیا ہے اور ہمارے پیارے نبی صلی للہ علیہ وسلم کی تعلیمات بیویوں کے بارے میں کیا ہیں؟

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو ۔ ( سورة النساء : 19 ) اس کے علاوہ اللہ تعالٰی قران میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لبا س کہتا ہے یعنی وہ دونوں کو بتا تا ہے کہ تم ایک دوسرے کی حیا ء اور ستر ہو۔ تم ایک دوسرے کے لیے موسم کے گرم و سرد سے بچانے والے ہو، تم ایک دوسرے کی آرائش اور باعث زینت ہو۔

نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل احادیث بیوی کے حقوق پر اچھی طرح روشنی ڈالتی ہیں:

حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو کھائے تو اسے کھلا ، جب تو لباس پہنے تو اسے بھی پہنا اور اسکے چہرے پر مت مار ، نہ اسے برا بھلا یا بدصورت کہہ اور اس سے بطور تنبیہ علیحدگی اختیار کرنی ہوتو گھر کے اندر ہی کر ۔ (سنن ابن ماجة)
مسلمان مرد، اپنی مسلمان بیوی سے بُعض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بری معلموم ہے، دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم)
تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی)
حجۃ الوداع کے خطبہ میں حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں، نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (ابن ماجہ)
ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : “دو حق مردوں کے اور دو ہی حق بیویوں کے ہیں۔ خبردار تمہارے اوپر ان کے دو حق ہیں ایک یہ کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرو اور دوسرا یہ کہ جو کمائی کرو اس میں ان کو کھلا خرچ دو، اپنی کمائی میں سے کھلا خرچ دینا بیوی کا حق ہے اور شوہر کا فرض ہے‘‘۔
ایک اور جگہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’سب سے بہتر خرچ جس کا سب سے زیادہ اجر ہے وہ جو شوہر اپنے بیوی بچوں پر کرے اور اس کے بعد فرمایا : جو خرچ اللہ کی راہ میں جہاد پر کیا جائے‘‘۔ یعنی بیوی بچوں پر خرچ کرنا ا للہ کی راہ میں جہاد پر خرچ کرنے سے افضل ہے۔

عموماً لوگ بیوی سے زیادہ پیار محبت کرنے والے شوہر کو زن مرید کا نام دیتے ہیں تو اُن لوگوں کو یہ حدیث مبارکہ پڑھ لینی چاہیے جہ جس میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کہ تم جو خرچ اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے لئے کرتے ہو، اس کا اجر ملتا ہے حتی کہ پیار محبت کے طور پر ایک لقمہ اپنے ہاتھ سے اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء میں عورتوں کو ان کا مہر خوشی سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے البتہ اگر وہ باہمی رضا مندی سے معاف کر دیں۔ یہاں باہمی رضامند ی کو لوگوں نے بےوقوف بنانا سمجھ لیا ہے ۔ ہمارے یہاں لوگ بیوی کا حق مہر اُس کو کسی نہ کسی جذباتی بات میں اُلجھا کر معاف کروا لیتے ہیں جو صریحاً دھوکہ دہی اور زیادتی ہے۔

اسلام مردوں کو اپنی بیویوں کے معاملے میں خوش ، قانع اور راضی رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ ساتھ ہی ہر شوہر پر اپنی بیوی کا نفقہ واجب کرتا ہے۔ یعنی ہر شوہر کی بنیادی ذمہ داری ہے کے وہ اپنی بیوی کے لیے خوراک (پکی ہوئی)، پوشاک ، علاج، خادم (اگر حیثیت ہو تو) اور رہائش کا مناسب بندوبست کرے۔ اسلام بیوی پراپنے خاندان یہاں تک کہ خود اپنی کفالت کی ذمہ داری بھی نہیں ڈالتا۔ اس لیے کسی شوہر کے لیے یہ بات جائز نہیں کے وہ اپنی بیوی کو کمانے کے لیے کہے۔ اور اگر کسی وجہ سے عورت کام کرتی ہے تو اُس کی کمائی کے ایک روپیہ پر بھی شوہر یا اُس کے گھروالوں کا کوئی حق ہے۔ اسلام میں تو ایک ماں کے لیے بچوں کو دودھ پلانے کا بھی معاوضہ مقرر کیا گیا ہے۔ اسلام میں ایک بیوی کو پابند نہیں کیا گیا کہ وہ میاں کے رشتہ داروں کے لیے کھانا پکائے اور اُن کی خدمت کرے۔ ہاں اگر وہ خوشدلی سے صلی رحمی کے طور پر ایسا خود چاہے تو کر سکتی ہے۔ اسلام بیوی کو یہ بھی حق دیتا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے شوہر کے گھر والوں سے ہٹ کر اپنے لیے الگ رہائش کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ ہاں ایسی صورت میں بیوی شوہر سےکسی خاص درجہ کی رہائش کا مطالبہ وہ بہرحال نہیں کر سکتی اور اُس کو ایسی صورت میں شوہر کو اپنے دیگر رشتہ داروں کی دیکھ بھال کے لیے وقت بھی دینا ہوگا۔ اگر شوہر کی حیثیت اس قابل نہ ہو کہ وہ بیوی کو الگ گھر لے کر دے سکے تو کم از کم الگ الگ منزل ہی کردے ۔ اسلام ایک بیوی کو ہر ہفتے اپنے ماں باپ سے ملنے کا حق دیتا ہے اور اگر وہ بہت بیمار ہوں تو روزانہ اُن کے پاس جا کر اُن کی تیمار داری کا حق بھی دیتا ہے۔

شادی کا بنیادی مقصد قانونی طریقہ سے ایک مرد اور عورت کی خواہشات کی تکمیل اور ان کے ملاپ سے ایک معاشرے کی تشکیل ہے۔ اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کا ایک ساتھ گزار ممکن نہ ہو تو بغیر کسی مارپیٹ اور تشدد کے دونوں میں مہذب انسانوں کی طرح علیحدگی ہو جانی چائے ۔ لیکن اُس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کام کرنا چاہیے یعنی: "اور اگر تمہیں کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا خطرہ ہو تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں میں موافقت کر دے گا بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔" (سورۃ النساء35) لیکن اس کے باوجود بھی اگر بدقسمتی سے طلاق ہو جائے تو اس صورت میں بیوی ہر اُس چیز کی مالک ہو گی اور اس کو اپنے ساتھ لے جائے گی جس کو وہ اپنے ساتھ جہیز کی صورت میں لائی تھی اور جو شادی کے بعد ازدواجی زندگی کے دوران شوہر یا اُس کے رشتہ داروں نے اُسے بطور تحفہ دیا۔ یا پھر وہ جو اُس عورت نے اپنے لیے خود اپنے پیسے سے خریدی ہو گی۔ عورت کے اُس مال کے بارے میں جو اُس کو دیا جا چکا ہو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے ایمان والو! تمہیں یہ حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو میراث میں لے لو اور ان کو اس واسطے نہ روکے رکھو کہ ان سے کچھ اپنا دیا ہوا مال واپس لے لو ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کا ارتکاب کریں اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیز پسند نہ آئے مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھی ہو۔(19) اور اگر تم ایک عورت کی جگہ دوسری عورت کو بدلنا چاہو اور ایک کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے۔(20) تم اسے کیوں کر لے سکتے ہو جب کہ تم میں سے ہر ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو چکا ہے اور وہ عورتیں تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں (21)"۔ (سورۃ النساء)

شوہر کے انتقال کی صورت میں اوپر دیے ہوئے مال کے علاوہ بیوہ اپنے شوہر کی وارث بھی ہو گی یعنی اُس کا حصہ شرعی طور پر مرحوم کی منقولہ اور غیر منقولہ جائداد میں سے تجہیز و تکفین، ادائے قرضہ جات اور تہائی مال میں نفاذِ وصیت (اگر ہو تو) کے بعد بچ جانے والی جائیداد میں سے آٹھواں حصہ ہے جو ہر صورت بیوہ کو ملنا چاہیے۔ جو لوگ اس حق کو غصب کرتے ہیں وہ مجرمانہ خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور روز قیامت اللہ تعالیٰ اُن سے پورا حساب لے گا۔

آخر میں دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے تا کہ ہم اللہ اور تمام انسانوں کے حقوق ٹھیک طرح سےادا کرپائیں۔ آمین!

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔