11:24    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ہمارے مسائل

2298 7 0 03.6

سرفراز صدیقی - 2013-اکتوبر-3

اسلامی معاشرے میں مرد اور عورت کا مقام کیا اہل مغرب کی طرح برابر ہے؟

فلسفہِ مساواتِ مرد و زن پر بات کرنے سے پہلے ہم سرسری طور پر یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اسلام سے ہٹ کر دیگر ادیان اور اَقوام میں عورت کا مقام قدیم زمانے سے کیا رہاہے۔ اگر اختصار سے بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کے یونانیوں نے عورت کو سانپ سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا۔ سقراط نے کہا تھا کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ و فساد کی نہیں ہے۔ دوسری طرف یوحنا کا قول ہے کہ عورت شر کی بیٹی ہے اور اَمن و سلامتی کی دشمن ہے۔ایک زمانہ وہ تھا جب اُس وقت کے عیسائیوں کی سب سے بڑی سلطنت یعنی روم میں عورتوں کی حالت لونڈیوں سے بھی بدتر تھی جن سے جانور کی طرح کام لیا جاتا تھا اور اُن کے لیے ہر قسم کی آسائش ممنوع تھی۔ معمولی سے قصور پر عورت کو قتل کردیا جاتا تھا۔ رومن کیتھولک فرقے کی تعلیمات کی رو سے عورت بائبل کو ہاتھ تک نہیں لگا سکتی اور اسے گرجا گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ دور جاہلیت میں عورت جائیداد کی مانند ورثا میں منتقل ہوتی تھی۔ مگر خود وہ کسی کی جائداد کی وارث نہیں ہوتی تھی۔ ہندوؤں میں عورت کو خاوند کے مرنے پر اس کے ساتھ جلنا پڑتا تھا۔ خود عربوں میں زمانہ جاہلیت میں لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زمین میں زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔ اور پرانی باتیں تو چھوڑیے ابھی 1971 تک دنیا میں اَمن اور مساوات کے چیمپئن اور مغرب کی ترقی یافتہ ریاست یعنی سوئٹزرلینڈ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ (گو کہ ہم ایسی جمہوریت کے بالکل بھی حامی نہیں ہیں کہ جس میں گنا تو جاتا ہے مگر تولا نہیں جاتا)۔ اس کے برعکس اسلام نے پہلے دن سے ہی عورت کو نہ صرف یہ کہ عزت دی بلکہ معاشرے میں اُسے اُس کا جائز مقام بھی دیا۔

آئیے اب اس تناظر میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ مساوات مردو زن کیسے وجود میں آیا؟

دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں مردوں کی بڑی تعداد میں مارے جانے کے بعد قحط رجّال کی بدولت وہاں کی عورتوں نے میدان میں آ کر معاش کی تلاش شروع کر دی۔ اور چونکہ وہاں کےقانون میں ایک سے زیادہ شادی کی گنجائش نہیں ہے اس لیے ایک طرف رشتوں کی کمی اور دوسری طرف عورتوں کی آزاد انہ زندگی اور مردوں سے اختلاط نے جنسی بے راہ روی کو بہت تیزی سے فروغ دیا۔ مردوں نے اس مسئلہ کا بھر پور طریقے سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور عورت کا جی بھر کے استحصال کیا۔ ظاہر ہے اخلاقی گراوٹ کی بدولت لوگوں میں مذہب سے دوری پیدا ہوئی اور جب مرد اور عورت دونوں نے ایک ہی طرح کے کام کرنے شروع کر دیے تو پھر عورت نے اپنے حقوق مردوں کے مساوی مانگنے شروع کر دیے۔ جب یہ آواز اُٹھنی شروع ہوئی تو ساتھ ہی فلسفہ مساوات نے جنم لیا ۔ اور دیکھا جائے تو بات تو ٹھیک ہی تھی کہ جب عورت مردوں کی طرح ہر کام کر رہی ہے تو پھر اُس کے ساتھ مردوں ہی کی طرح کا سلوک ہونا چاہیے۔ اور پھر اہل مغرب نے اس مسئلہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔

لیکن مغرب میں لوگوں کا اس فسلفہ پر عمل پیرا ہونے کی بدولت معاشرتی انحطاط کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس نے بڑی سرُعت سے اُن کے پورے معاشرتی نظام کو چوپٹ کر کے رکھ دیا ۔ آج وہاں عورت ایک مرد کی طرح معاش کی ذمہ دار بھی ہے اور مرد عورتوں کی طرح بچوں کی دیکھ بھال اور گھر گھرستی کے دیگر امور بھی سر انجام دیتا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ رشتوں میں بیزاری آگئی اور خود غرضی کو فروغ حاصل ہوا! آج معاشی ترقی کے باعث مغرب میں بظاہر ہر شخص زندگی کے مزے اُڑا رہا ہے لیکن دراصل وہاں کاغذ کے خوشنما پھولوں میں پرفیوم کی خوشبو چھڑک کر اُسے مصنوعی حیات دینے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے ۔ مغرب میں ہر فرد دوسرے شخص سے بیزار ہے۔ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں ہے چاہے وہ سگی اولاد ہویا والدین۔ وہاں ہر چیز' میں' سے شروع ہو کر' میں' پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ وہاں تواب ممکنہ طلاق کی صورت میں اپنا پیسہ بچانے کے لیے شادی تک نہیں کی جاتی۔ دو دوست ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے ہیں تو اپنے اپنے پیسے دے کر۔ ایثار اور قربانی کسے کہتے ہیں اور اپنی کسی چیز کو اپنے کسی پیارے کے لیے قربان کر دینے میں جو قلبی راحت ہے وہ حقیقت مغرب کے 'اہل علم ' کی سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ بچوں کی محبت کے ساتھ پرورش ایک ماں کے لیے فطری عمل ہے مگر جب اُسے غیر فطری طور پر مرد کے حوالے کیا گیا یا پھر نام نہاد معیار زندگی بہتری بنانے کے لیے جب میاں بیوی دونوں نے کام شروع کیا تو پھر 'ڈے کیر سینٹرز' اور نرسریاں وجود میں آئیں اور بچوں کی جیسے تیسے پرورش شرو ع ہو گئی۔ ہر دو صور ت میں اولاد نہ صرف یہ کہ والدین سے دُور بلکہ کافی حد تک متنفر ہو گئی اور ساتھ ہی اُن میں سے والدین کا ادب و احترام بھی رخصت ہو گیا۔ اور جو کچھ اِن بچوں نے اپنے بچپن میں کھو دیا ظاہر ہے وہ یہ بچے بڑے ہوکر اپنی اولاد کو بھی نہ دے پائے اوریوں دو سے تین نسلوں میں گھر یا خاندان اور اجتماعی طور پر مغربی معاشرے کا شیرازہ بکھر گیا۔

گھوڑا گھاس کھاتا ہے اور کتا گوشت۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ گھوڑا کم حیثیت چیز کھاتا ہے اس لیے اللہ نے اس کی حیثیت کم رکھی ہے مگر کتا چونکہ گوشت کھاتا ہے اس لیے اس کی حیثیت زیادہ ہے تو کیا یہ بات صحیح مان لی جائے گی؟ سب جانتے ہیں کے گھوڑے کی فضیلت تمام جانوروں میں سب سے زیادہ ہے لیکن اگر یہ کہا جائے گھوڑے اور کتے کے مابین مساوات تو تب ہی قائم ہو گی جب گھوڑے کو گوشت بھی کھلایا جائے اور کتے کو گھا س تو پھر اسے فطرت سے اختلاف کرنا کہیں گے۔ اگر گھوڑے کو آپ چارے کے بجائے گوشت کھلانے لگیں تو کیا ہو گا؟ گھوڑے کے دانت سے لے کر آنت تک نظام ہاضمہ میں کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے گوشت چبانے یا ہضم کرنے کے لیے نہیں بنایا۔ اس لیے جب یہ غیر فطری عمل کیا جائے گا تو اُس کا آغاز زبردستی اور تکلیف سے شروع ہو کر چند دنوں میں ہی موت پرختم ہو گا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے جسمانی ساخت اور نفسیات کے حساب سے مرد اور عورت دونوں کے لیے الگ الگ فرائض رکھے ہیں۔ مرد کو نسبتاً جسمانی طاقت دی ہے تو ساتھ ہی اُس کو اپنے بیوی بچوں کے لیے معاش کی تگ و دو یعنی روٹی، کپڑا اور چھت مہیا کرنے کا پابند بنایا ہے۔ اور ساتھ ہی اُس پر الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر (جس میں جہاد فی سبیل اللہ بھی شامل ہے) کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی ایک کام میں اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے تمام عمر صبح سے لے کر شام تک ہر روز کی جسمانی مشقت اور دوسرے عمل میں ممکنہ موت بھی رکھی ہے! لیکن اللہ نے ایسی کوئی ذمہ داری عورت کے جسمانی طور پر ناتواں وجود پر نہیں ڈالی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے عورت کو تمام فکروں سے آزاد کر کے معاشرے کی بنیاد ڈالنے کا اہم ترین فریضہ سونپا ہے یعنی اولاد کی اچھی نشونما، دیکھ بھال اور پرورش۔ مجھے کوئی ایک سول انجینئر بتا دیجیے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ بغیر مضبوط اور سیدھی بنیاد کے کوئی بھی پائدار عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے؟ کسی خاص انجینئرِنگ تکنیک کو استعمال کیے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہےکشش ثقل اُس عمارت کو زمیں بوس ہونے سے بخش دے۔ آج ہمارے معاشرے کا گرتا ہوا وجود شاید اِسی وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی بنیاد اچھی نہیں ڈالی۔ ان بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے؟ اسلام در اصل ہے کیا؟ بچیوں کی تعلیم بھی ٹھیک سے نہیں کی گئی اس لیے انہوں نے بھی ماں بن کر اپنی اولاد کو اُس زیور سے آراستہ نہیں کیا کہ جس سے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوتی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بلکہ چھوٹے بچوں کوکچھ سکھانا بڑے صبر والا اور دقت طلب کام ہے ۔ اور یہ کام فطری طور پر صرف ایک پڑھی لکھی ماں ہی اپنی بے تحاشہ محبت کے صدقہ خوش اصلوبی سے ادا کر سکتی ہے۔ عمومی طور پر ایک ایسا باپ جو کسب حلال کے لیے دن بھر گھر سے باہر رہتا ہو اور محنت مشقت کرتا ہو وہ یہ فریضہ احسن طریقہ سے ادا نہیں کر سکتا۔

معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لیے اسلام عورت اور مرد کے درمیان آزادانہ اِختلاط کی اجازت قطعئی نہیں دیتا۔ مگر جب اہل مغرب نے نعرہ مساوات پر عمل پیرا ہوکر عورت کو گھر کی مضبوط چار دیواری اور اُس کے باعزت مقام سے اُٹھا کر ا سے باہر بازار میں دھکیل دیا تو پھر دُنیا نے دیکھ لیا کے برائی نے کس طرح جنم لیا۔ غور سے دیکھا جائے تو اہل مغرب نے عورت کو معاش، کھیل اور دیگر تفریحات کے نام پرگھر سے باہر نکال کر ا ُس کو محض ایک خوش نما شو پیس کی حیثیت دی ہے ۔ اور سب جانتے ہیں کے ایک شو پیس کی قدر بس اُس گھڑی تک رہتی ہے جب تک کہ وہ خوشنما ہو اور دل کو لبھاتا ہو۔ اسی طرح مغرب میں ایک عورت کی خوشنمائی جیسے ہی ڈھلتی ہے وہ بے وقت ہو کر معاشرے کے نچلے ترین درجہ میں پہنچ جاتی ہے۔ اُس بے چاری کی تو اولاد تک اس بُرے وقت میں اُس کا ساتھ نہیں دیتی۔ لیکن اس کے برعکس اسلام میں عورت کا مقام دیکھیے کے بچپن میں وہ ایک باپ کو پابند بناتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو شفقت سے پالے اور اُس کی حفاظت کرے تا وقت کہ اُس کی شادی ہو جائے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کو اپنے باپ کے لیے باعث رحمت اور اُس کی تربیت کرنے کے عوض دوزخ کی آگ سے بچانے والی کہا ہے۔ اسلام شادی کے بعد شوہر کو اُس لڑکی سے محبت کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور اُس کا تمام نان نفقہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور اُسے معاشرے میں ایک باعزت مقام دینے کی تلقین کرتا ہے اور ساتھ ہی عورت کو اپنے شوہر کی ہر جائز بات پر اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ عمر کے آخری دور میں عورت کی خوبصورتی ختم ہوجانے پر اور اُس کی جوانی ڈھل جانے پر یہاں تک کے اکثر اوقات چلنے پھرنے سے معزور ہو جانے کی حالت تک پہنچ جانے کے باوجود اسلام ایک عورت کو معاشرے میں عزت کی بلند ترین سطح پر لے جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں وہ نحیف و لاغر عورت براجمان ہو کر اپنے ساتھ کیے گئے سلوک کی بنیاد پر ایک طرح سے یہ فیصلہ کرتی ہے کہ اُس کی اولاد جنت میں جانے کی اہل ہےبھی یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ایک ایسے جوان، قوی اور منہ زور مرد کو جو اپنی جوانی کے زعم میں دنیا مُسخّر کرنے کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے یہ باور کروایا ہے کہ اُس کی قسمت کی کُنجی اُس کی بوڑھی ، کمزور اور ناتواں ماں کے لرزتے ہاتھوں میں بلکہ قدموں کے نیچے ہے۔ سبحان اللہ! کیا کوئی عورت کے اپنے اس منصب کا صحیح ادراک کر سکتا ہے؟ کیا کوئی شخص اس حدیث کا مطلب صحیح معنی میں سمجھ سکتا ہے کہ جب اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا سب سے زیادہ بہتر سلوک کا حق دار کون ہے؟ تو آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیری ماں، دوسری دفعہ بھی آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیری ماں اور تیسری دفعہ بھی فرمایا تیری ماں۔ جب چوتھی دفعہ پوچھا گیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ۔

چاہے کوئی یہ بات سمجھے یا نہ سمجھے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام میں عورت کو بہت ہی بلند و بالا مقام دیا گیا ہے جو اُس گھٹیا مقام سے کہیں زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے جو آج اہل مغرب نے اپنی عورت کو گھر کی باعزت چار دیواری سے باہر نکال کردیا ہے۔ اسلام میں عورت اور مرد کے مقام کو ہر بات میں مساوات کی کسوٹی پر نہیں پرکھنا چاہیے۔ کیونکہ اگر کہیں بحیثیت شوہر مرد کو اللہ تعالٰی نے عورت پر فضیلت دی ہے تو کہیں برابری بھی دی ہے۔ مثال کے طور پر سورہ نساء کی آیت نمبر 124 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی" اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کہیں بحیثیت ماں عورت کا درجہ باپ یعنی مر د پر مقدم بھی فرماتا ہے یہاں تک کے اسلام نے ماں کی نافرمانی کو حرام کیا ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مساوات کے بیہودہ فلسفہ سے ہٹ کر جو کام شریعت نے فطرت یعنی جسمانی ساخت اور نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مرد کے ذمہ ڈالے ہیں وہ مرد کو کرنے چاہیے اور جو کام عورت کے ہیں اُسے عورت کو ہی سرانجام دینا چاہیے۔

آخری بات یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ آج کے دور میں پاکستانی معاشرے میں عورتوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں اور اُن کو اُن کا جائز حق نہیں دیا جارہا جس کے لیے وہ تمام مرد قصور وار ہیں جو ایسا کر رہے ہیں اور بے شک اِس کی سزا انہیں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ضرور ملے گی مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی نا جائز ہوگا کے عورت بلا ضرورت اپنی بنیادی ذمہ داری چھوڑ کر مردوں کے کام کرنا شروع کر دے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اپنےمعاشرے میں اسلامی احکامات پر مکمل طور پر عمل پیراہوں تو ان شاء اللہ ہمارا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا اور یہ ملک خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

3.6 "5"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔