کچھ مشرقی مما لک کے دریاؤں کے آخری سرِوں پر موجودکھارے پانیوں میں آرچر (Archer) نامی ایک چھوٹی سی مچھلی پائی جاتی ہے جو ایک خاص طریقے سے اپنے لیے شکار کرتی ہے۔ یہ پانی سے باہرکسی درخت کی ڈھلی ہوئی شاخ کے پتہ پر بیٹھے ہوئے شکار کے نیچے پہنچ کر پانی کے اندر ہی رہتے ہوئے زوردار طریقے سےتھوک پھینک کر 3 میٹر دور تک موجود اپنے شکار کو ضرب لگا کر پانی میں گرا لیتی ہے اور پھر اُسے باآسانی نگل جاتی ہے۔ ہمارے یہاں گو یہ مچھلی تو نہیں پائی جاتی مگر اس نسل سے تعلق رکھنے والے انسان اکثر و بیشتر دیکھے جاتے ہیں جوبلاوجہ کسی بھی شریف انسان کو اپنا شکار سمجھ کر اس پر تھوک پھینک کر اُسے نیچے اپنی سطح پر گرانے کے بعد اُس کی عزت نفس کو کھا جانے کے در پے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کی نسل کو ہم نے "آرچر" کا نام دیا ہے۔
ان سماجی آرچروں میں تھوک پھینکنے کی یہ بری عادت آخر آتی کہاں سے ہے؟ اگر غور کیا جائے تو انسان کی اولاد میں یوں تو تقریباً تمام ہی گود کے بچوں میں پھرُ پھرُ کر کے تھوک اُڑانے کی عادت ہوتی جس سے والدین لطف بھی اُٹھاتے ہیں مگر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اکثر بچے یہ عادت ترک کر دیتے ہیں اور تھوکنا چھوڑ کر چلنا سیکھ لیتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ان میں سے کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو پنگھوڑے میں پروان چڑھی اس عادت کو عمر کے کسی بھی دور میں ترک نہیں کر پاتے ۔ تاحیات یہ لوگ پھرُ پھرُ اور پچِ پچِ کرتے گزار دیتے ہیں مگر تہذیب اور شائستگی کے ساتھ اس دُنیا میں چلنا نہیں سیکھ پاتے۔
کچھ لوگوں کو پان کھا کر بھی جابجاتھوکنے کی عادت ہو تی ہے جسے ہم پیک پھینکنا کہتے ہیں اور جو بذات خود ایک غلیظ عادت ہے لیکن یہاں موضوع گفتگوُ وہ مجبور لوگ ہیں جن کو کچھ کھائے پیئے بغیر ہی وقت بے وقت اپنے اطراف میں تھوکنے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ بے چارے لوگ اپنی اس عادت کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہوتے ہیں کہ راستہ چلتے پنواڑیوں کی طرح اپنے ارد گرد غلاظت بکھیرتے رہتے ہیں۔ ویسے تو اگر ہوا مخالف نہ ہو تو نیچے منہ کر کے تھوکنے میں کسی حد تک اپنے کپڑوں کی بچت ہو جاتی ہے مگر یہ لوگ تو کشش ثقل کے قانون سے واقفیت رکھنے کے باوجود منہ اُونچا کر کے بھی تھوکنے سے باز نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ان کا اپنا تھوکا ہوا اُن کے اپنے منہ پر ہی آن گرتا ہے جسے وہ شاید آسمان سے برستا ہوا ابر رحمت سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔
فیس بُک کا المیہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود یہ "آرچرز" فیس بک کو سائبر اِسپِٹّوُن (cyber spittoon)یا برقی دُنیا کا اُ گال دان سمجھتے ہیں۔ بات یہاں تک ہوتی تو شاید غنیمت تھا لیکن جب تک یہ حضرات اپنی بات میں ایک آدھ مادر زاد برہنہ گالی کا تڑکہ نہ لگا لیں یعنی تھوک میں اُلٹی کی آمیزش نہ کر لیں اُن کے خیال میں اُن کی بات میں وزن نہیں پیدا ہوتا۔ ایسے لوگ باعث تغافل اس بات کا چنداں احساس نہیں کرتے کے اُن کی بات کا قاری کون ہے یا کون ہوسکتا ہے؟ کوئی بچہ ہے کہ بزرگ ہے، عورت ہے کہ مرد ہے، معاشرے کا باعزت فرد ہےیا کوئی اعلیٰ مقام شخص ہے، بہن ہے کہ ماں ہے ان سب باتوں سے غافل اِن "آرچروں" کوتو فقط اپنے جذبات کی رو میں بہنا آتا ہے۔
چونکہ فیس بک پر اکثر لوگ کسی نہ کسی سیاسی، سماجی، مذہبی، علاقائی اور اسی قسم کی دیگر تنظیموں سے یا تو منسلک ہیں یا اُن سے والہانہ لگاؤ اور ہمدردی رکھتے ہیں اس لیے اگر آپ ان کے سامنے کوئی ایسی بات کر دیں جو ان لوگوں کی سوچ سے مختلف ہو یا پھر شومئی قسمت اگر آپ ان کے چاہنے والوں پر تنقید کر دیں تو پھر دیکھیے آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ غیر یا کم پڑھے لکھے لوگوں کی تو خیر بات ہی الگ ہے یہاں تو پکے سن کے با شعور اور تعلیم یافتہ لوگ جوش خطابت میں آ کر آناً فاناً اپنے آپ کو کسی جاہل کے مقام سے بھی پست کر لیتے ہیں۔ شا ید یہ لوگ دُنیا کو اس طرح کا رویہ دکھا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کے اِن میں غرور نہیں کیونکہ انہیں کبھی بھی انسانیت کی نچلی سطح تک چلے جانے میں کو ئی عار نہیں ہوتا!
یہ سب دیکھ کر درحقیقت ہماری جان تو بہت جلتی ہے مگریہاں ایک بات ہم کو ضرور ماننی پڑے گی وہ یہ کہ ہمارے اندر بچپن سے برداشت کے مادّے کی جو کمی تھی اُس کا کچھ علاج تو شادی کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا اور باقی ماندا علاج اب سوشل میڈیا کی بدولت ہونا شروع ہو گیا ہے۔ پہلے پہل ہم سوشل میڈیا پر لوگوں کی ببانگ دُہل دشنام طرازیاں دیکھ کر کافی سر پیٹا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب صرف دانت پیسنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اگرکچھ عرصہ اسی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا توگمان غالب ہے کہ ہماری یہ بیماری جڑ سے ہی ختم ہو جائے گی۔
ویسے تھوک ہمیشہ خراب نہیں ہوتا۔ ریشم کا کیڑا اپنے تھوک سے بیش قیمت ریشم بناتا ہے اور شہد کی مکھی اپنے تھوک سے شہد پیدا کرتی ہے مگر انسان نہ تو مکھی ہے اور نہ ہی کیڑا۔ ہاں مگر دوسرے انسانوں پر تھوک پھینک کر وہ اپنا مقام سامنے والے کی نظر میں ایک" آرچر" جتنا حقیر ضرور کر لیتا ہے!
والسلام،
سرفراز صدیقی