پاکستان کا چپہ چپہ تو میں نے اپنے لڑکپن میں ہی چھان مارا تھا۔ مگر 1991 کے اوائل سے میں نے اپنی زندگی کے تقریباً 18 سال دُنیا جہان کی گرد چھانی اور کیا خوب چھانی! میں دُنیا بھر میں نگری نگری پھرا، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملاقات کی۔ دنیا کے بہتیرے عجائبات دیکھے۔ تقریباً ہر قومیت، نسل اور مذہب کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کیا اور اُن کی عادات و خصائل کا مطالعہ بھی کیا۔ دنیا کےکم و بیش 120 ممالک کا سفر کیا اور قلیل وقفوں سے باربار کیا۔کبھی یوں بھی ہوتا کہ ایک دن میں دسمبر کی شدید سردی میں یورپ کے شمال میں موجود ایسٹونیا کے دارلحکومت ٹیلِن(Tallinn) میں ہوتا تو اس کے 24 گھنٹے بعد دس ہزار کلو میٹر دُور بالکل مخالف سمت یعنی براعظم افریقہ کے انتہائی جنوب میں موجود مُلک "ساؤتھ افریقہ" کے شہر کیپ ٹاؤن(Cape Town) میں کسی دوسری میٹنگ کے لیے پہنچ جاتاجہاں گرمی اپنے عروج پر ہوتی۔ کبھی میں میکسیکو سے سنگاپور تو کبھی ہانگ کانگ سے امریکہ سفر کرتا۔ کبھی میں نائجیریا تو کبھی برازیل تو کبھی فیلیپین میں موجود ہوتا۔ الغرض میرے پاؤں میں ایک ایسا چکر تھا کہ جس نےمجھے ایک طویل عرصے تک گھن چکر بنائے رکھا۔
میں اگر اپنے ان گنت سفر ناموں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرنا شروع کروں تو صفحات کے صفحات سیاہ ہوجائیں اور اگر کئی ماہ بھی لگا دوں تو مجھے یقین ہے کہ پھر بھی تشِنگی رہ جائے گی۔ لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے کے اس جہاں گردی کا کوئی نچوڑ بھی ہے؟ تو میں بلا جھجک کہوں گا کہ یقیناً اور وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اللہ کی بنائی اس وسیع و عریض دُنیا میں ہم جیسے پاکستانیوں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے پاکستان سے اَچھی جگہ اور کوئی نہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کے میری خاک مجھے وہیں گھسیٹ لائی ہے کہ جہاں سے اِس کا خمیر اُٹھا تھا!
ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ یہ کہیں کہ پاکستان میں تو مسائل ہی مسائل ہیں، یہاں بھلا ایسا کیا ہے جو دُنیا میں کہیں اور نہیں؟ تو اس کے جواب میں میں سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی خوبی تو یہ ہے کہ یہ وطن میرا اور آپ کا اپنا ہے! اپنا ہونا کیوں اتنا اہم ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال میں یوں دوں گا کہ جب کبھی ہم کسی خوبصورت بچے کو دیکھتے ہیں تو کچھ دیر کے لیے اُس بچے پر کتنا پیار آتا ہے، دل چاہتا ہے اُسے گود میں اُٹھا کر پیار کریں اور پھر ہم ما شاء اللہ کہہ کر اپنے رب کی صناعی کی داد بھی دیتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ پیار ختم ہو جاتا ہے اور اُس کی جگہ وہی اپنا پُرانا بچہ جو شکل و صورت میں شایدبہت کم بھی ہوتو ہم اُسی کو گلے لگا کر تسکین پاتے ہیں۔ یہاں خوبصورت اور فرمانبردار بچے سے مراد قانون کی پاسداری کرنے والے یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک ہیں جن کے پیار میں ہمارے بیش قیمت ذہن اپنے وطن کو خون آشام چمگادڑوں اور مُردار خور گِدھوں کے حوالے کر بیٹھے ہیں۔ میں اپنی تحریروں میں بار بار سمندر پار پاکستانیوں کا ذکر اس اُمید پر کرتا ہوں کہ شاید کبھی اُن کے دل میں اُتر جائے میری بات۔ میری ناقص رائے میں اگر پچھلی تین دہائیوں میں اگر پاکستان میں اس وسیع پیمانے پر یہ برین ڈرین (brain drain)نہیں ہوتا تو شاید یہاں کے حالات آج مختلف ہوتے۔ اور چوں کہ یہ ہجرت اپنے پورے زور و شور سے آج بھی جاری ہے مجھے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کافی خدشات لاحق ہیں۔ اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں شاید اپنے آج کی قربانی دینی ہوگی۔ راہ فرار کسی مسئلہ کا حل نہیں!
یہ بات تو سچ ہے کہ جو لوگ باہر جا بسے ہیں اگر وہ یہاں واپس لوٹ آئیں تو شاید وہ لوگ کچھ نہ پائیں ما سوائے اپنائیت کے۔ بادی النظر میں یہ ایک گھاٹے کا سودا ہےلیکن یہ بھی سچ ہے کہ اپنی اولاد کو اپنے گلے لگانے سے جو سُرور رَگ و پے میں دوڑتا ہے اُس کو الفاظ میں ڈھالنا نہ صرف کارِدُشوار ہے بلکہ کسی بھی مادی شئے سے اُس کا موازنہ ممکن نہیں۔ اِس ایک لطیف احساس کے آگے سب کا سب ہیچ ہے۔ بالکل اسی طرح جو دلکش حسن میں نے سوات کی وادیوں میں پایا وہ سوئٹزرلینڈ کی خوبصورت وادیوں میں مفقود تھا۔ جوجلوہ مجھے ننگا پربت یا راکا پوشی میں نظر آیا وہ یورپ کی سب سے اونچی چوٹی "موَن بلانک" (Mont Blanc) میں ناپید تھا۔ جو ساحل سمندر کا نظارا میں نے گوادر کے اطراف میں دیکھا وہ یونان اور ترکی کےدلکش ساحلی علاقوں میں نداردتھا۔ جو لق و دق صحرا کا منظرمیں نے تھر میں دیکھا اُس میں کشش مجھے صحاریٰ سے کہیں زیادہ محسوس ہوئی۔ مجھے آج تک سیف الملوک کےملکوتی حسن کے آگے دُنیا کی کوئی اور جھیل کبھی جچی ہی نہیں۔ جب میں نے نایاگرا کا پر شکوہ آبشار دیکھا تو اپنا چھوٹا مگر پر شور بحرین کا نالہ یاد آیا کہ جس کے کنارے چاندنی رات میں لیٹ کر میں نےسوچا تھا کہ اللہ کی کیا شان ہے کہ یہ گھن گرج ہزاروں سال سے جاری و ساری ہے۔ دریائے نیل اور ایمیزون دیکھے تو اپنے دریائے سندھ کی لمبائی اور خوبصورتی یاد آئی۔ ایریزونا کو دیکھ کر اَپنے بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کی ہیبت یاد آئی۔ 300 کلومیٹر پر پھیلے 8 کروڑ ٹن نمک کے زخیرے میں موجود دُنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان یعنی کھیوڑا جہاں سے روزانہ ایک ہزار ٹن نمک نکالا جاتا ہے اُسے دیکھ کر انسان اللہ کی تعریف اور شکر ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ الغرض میں نےدُنیا بھر کی مشہور و معروف جگہوں کا موازنہ اپنے مُلک سے کیا اور ہمیشہ حیران ہی رہا کہ جوکچھ دنیا بھر کے مختلف خطوں میں پھیلا ہے وہ سب اللہ نے سمیٹ کر ایک ملک میں کیسے دے دیا؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستا ن دنیا کا واحد مُلک ہے جہاں کی زمین ساحل سمندرکی سطح یعنی صفر سے بتدریج بلند ہو کر 8611 میٹر کی عزیم الشان اونچائی تک پہنچتی ہے۔ پاکستان کے ان دونوں سِروں کے درمیان ہر طرح کی زمین اور ہر طرح کا موسم موجود ہے؛ دریاؤں نے پنجاب کی مٹی کو سونا اُگلنے کی صلاحیت دی ہے۔ مختلف موسم اور زمین کے طفیل ہر طرح کی فصل، سبزی، پھل اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پیدا کیے ہیں جو ذائقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ملتان کی جھلساتی ہوئی لوُ جب آم کو پکاتی ہے تو پھر دُنیا کا کوئی اور آم اُس کے ذائقے اور مٹھاس کے دور دور تک نہیں پہنچتا۔ ماشاء اللہ یہ ملُک قدرتی وسائل سے بھی مالامال ہے۔ یہاں کی مٹی میں تیل، گیس، کوئلہ، سونا، چاندی، ہیرے،فولاد اور بہت سی مدفون معدنیات اپنی تلاش و دریافت کی منتظر ہیں۔ الغرض زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لیے ایک قوم کو جو کچھ بھی چاہئے وہ سب یہاں موجود ہے، سبحان اللہ!
پاکستان کی دلکش و زرخیز سرزمین اور اس میں موجود قدرتی وسائل کی بہتات کو دیکھ کر میرے ذہن میں اکثر من وسلویٰ کا خیال آتا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا ہم بھی بنی اسرائیل کی طرح اللہ کی اس آسمانی نعمت (پاکستان) سے منہ موڑ کر زمین سے اُگنے والی کم حیثیت چیزوں کی تمنا (یعنی دیار غیر)میں اپنا قیمتی وقت اور زندگیاں برباد تو نہیں کر رہے؟ مجھے ڈر اس بات سے ہے کہ ہمارے ساتھ وہی نہ ہو جو کفران نعمت کی بدولت بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا تھا۔ میں 90 کی دہائی میں خلیجی ممالک میں اپنے قیام کے دوران اپنا وطن کھو دینے والے، بغیر کسی پاسپورٹ کے غیر قانونی طور پر مقیم فلسطینوں کا دُکھ جاننے کے بعدبُرے وقت سے ڈرتا ہوں۔
آئیے اپنے وطن عزیز کی چھیاسٹھویں سالگرہ کے دن ہم اس بات کا عہد کریں کے اِن شاء اللہ ہم اس عرض پاک کی سلامتی اور بقا کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کو خلوص نیت اور ایمانداری کے ساتھ دُنیا کے نقشے پر ایک باوقار مُلک کا مقام دلوائیں گے۔ آمین۔
دُنیا کے طول و عرض میں مقیم تمام پاکستانیوں کو ہماری طرف سے یوم آزادی کی سالگرہ کی پیشگی مبارکباد - پاکستان پائندہ باد!