میرے بچپن کے دن بھی کیا اچھے دن تھے۔ یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں بلکہ صرف چند دہائیوں پہلے تک زندگی میں سادگی تھی، خلوص تھا، محبت تھی، اخلاق تھا، بھائی چارا تھا، روا داری تھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا جومل جل کرعزت اور آرام سے زندگی گزارنے کےلیے بہت تھا۔ مگر افسوس کہ پچھلی چند دہائیوں میں ان تمام اعلیٰ قدروں کو "بلند معیار زندگی" نامی عفریت سالم نگل گیا ہے! اب تو یوں گماں ہوتا ہے کے معاشرے میں ہر چیز کا حاصل صرف روپیہ پیسہ اور طاقت حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ ہم لوگوں نے غالباً یہ سمجھ لیا ہے کہ ایک انسان کی زندگی صرف اسی دُنیا تک محدود ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قیمت کے فرق سے اب تقریباً سب کچھ ہی بکاؤ ہے۔افسوس کے اس ملک میں جہاں سب کچھ بکا وہاں تعلیم بھی بک گئی۔ ہمارے ہاں تعلیم جب تک انسان کے شعور کی نشونما اور ذہنی بالیدگی کے لیے تھی بڑی سادہ اور زود ہضم تھی اور اس سادہ سی عقلی غذاء پر پل کر اِسی خاک سے نا جانے کتنے دانشوراس ملک کو فیض یاب کرتے رہے۔ مگر جب سے ہمارے تدریسی ادارے نجی ہو کرپیسہ کمانے اور پیسہ کمانے والی مشینیں (طالب علم) تیار کرنے کے کارخانے بن گئے ہیں اُس وقت سے تعلیم انتہائی پیچیدہ اور کافی حد تک بے اثرہو چُکی ہے۔ خوب سے خوب تر کی دوڑ میں آگے نکل جانے کی لگن نے ایسے مسائل پیدا کر دیے ہیں کہ جن سے پیچھا چھڑانا اب ہمارے لیے انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب “مقدار تعلیم” نے “معیار تعلیم” پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔ یعنی اسکول کی سطح پرچند بنیادی نوعیت کے مضامین کی جگہ اب اتنے ڈھیر سارے مضامین بچوں پر لاد دیے گئے ہیں کہ جن کو پڑھ کر بچے صرف سطحی نوعیت کا علم حاصل کر رہے ہیں۔ گہرائی تک بہت کم ہی پہنچ اورسمجھ پاتے ہیں۔ اور اُس پر المیہ یہ ہے کہ جس ملک میں لوگ اپنی قومی زبان بھی ٹھیک سے بول اور سمجھ نہیں پاتے وہاں ہم ابتدا سے ہی انگریزی زبان میں تعلیم دے رہے ہیں۔ یہاں میں واضح کر دوں کے آج کے اس جدید دور میں انگریزی کی اہمیت سے ہم کو رتّی برابر بھی اِنکار نہیں۔ ہر پاکستانی کو انگریزی لازمی طور پر سیکھنی چاہیے لیکن ہمیں اپنے نونہالوں کو ایک ایسی زبان میں تعلیم دینا جو وہ قطعی نہیں جانتے (ما سوائے اُن بچوں کے جن کا تعلق ایک خاص ذہنیت کے حامل مراعت یافتہ طبقہ سے ہے) انتہائی غلط بات ہے اور غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ انگریز تو آزادی کے بعد اس خطہ سے چلا گیا مگر افسوس کے اپنے پیچھے اپنے وہ گندمی غلام چھوڑ گیا جو آج بھی طوق غلامی اپنی اکڑی ہوئی گردن میں سجانا اور لسان فرنگ اپنی زبان پر رواں رکھنا اپنے لیے باعث افتخار اور معاشرے میں ایک طرح کا اسٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں۔ اور کیمبرج سسِٹم کو جن لوگوں نے پاکستان میں گود لیا ہے اُن کو معلوم ہی نہیں کہ اس نصاب کو پڑھانا کس طرح ہے۔ گورا کبھی ٹیوشن کے ذریعے نہیں پڑھاتا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی نے BRAUN کی بہترین الیکٹرک کی استری جرمنی سے منگوائی اور پھر اُسے چولھے کی آنچ پر گرم کر کے کپڑے استری کرنا شروع کر دیے۔ پانی کا اسپرے بھی گلنٹ کی بوتل سے کر لیا۔ کام تو پورا ہو گیا یعنی اِستری تو جیسے تیسے ہو گئی مگر غلط طریقہ کی وجہ سے کپڑوں سمیت بہت سی چیزیں خراب ہو گئیں۔
دوسری جانب جب سے اسکولوں کے نصاب میں موجود مضامین میں گہرائی کم اور مقدار زیادہ ہو گئی ہے یعنی موضوعات کی افراط ہو گئی ہے تب سے طالب علموں کو پڑھائی کے لیے وقت بھی بہت زیادہ درکار ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں سب سے پہلے تو بچوں کو پیدا ہونے کے چند ماہ بعد ہی کسی نرسری یا پلے اسکول میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جس عمر میں ایک بچے کی اپنی ماں سے بونڈنگ (bonding) ہونی تھی یعنی ایک مضبوط جذباتی بندھن پیدا ہونا تھا اور اُس کے بعد اُس بچے کو اپنی ماں سے بنیادی اخلاقی و دینی تربیت حاصل کرنی تھی اُس وقت اُسے پیسہ بنانے کا گُر سکھانے کی ابتدائی فیکٹری میں بھیج دیاجاتاہے۔ دوسری طرف ماں کے پاس بھی جب دن بھر ڈھنگ کاکوئی کام نہ رہا تو وہ بھی اپنے معیار زندگی کی بہتری یا مرد کی برابری کے شوق میں نوکری پر چلی گئی۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اب ایک جوان مرد کی زندگی میں والدین اور بالخصوص ماں کی وہ حیثیت ہی نہیں رہ گئی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔ دوسری طرف تربیت کی کمی نے مذید خرابی پیدا کی یعنی اب ایک بچہ بڑا ہونے کے بعد صلۂ رحمی یعنی رشتوں سے محبت کرنے، اُن سے اخلاق سے پیش آنے اور اُن کی ہر ممکن مدد کرنے کے بجائے صرف ایک ہی بات جانتا ہے کہ اُس کو مادی ترقی کس طرح کرنی ہے او ر 'اپنی' زندگی کیسے بہتر کرنی ہے۔ اُسے ہر وقت یہ خیال پریشان کیے رہتا ہے کہ پاکستان جیسے 'مُلک بیمار' کو چھوڑ کر امریکہ اور یورپ کی جنت نظیر اور سونا اُگلتی سرزمین تک کس طرح پہنچنا ہے۔ پاکستان میں معیار زندگی بلند کرنے کا طریقہ جائز ہو یا ناجائز اس بات سے اب یہاں کسی کو قطعی کوئی سروکار نہیں۔ والدین سے جذباتی لگاؤ نہ ہونے کے باعث شادی کے بعد آج کا نوجوان اکثر اوقات اپنے زندگی کی لگام کلی طور پراپنی بیوی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ اور یوں گھر میں انصاف کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی مغرب کی طرح اولڈہاؤسز وجود میں آنے لگے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ وہی ماں باپ جو اپنے اولاد کو بلند معیار زندگی جیسے سراب کے حصول کی سمت دھکا دیتے ہیں وہ اپنی آخری عمر کس اذیت سے گزارتے ہیں اور دوسری طرف وہ زر و زن پرست ناخلف اولاد جو اپنے ضعیف والدین کا خیال اُن کی آخری عمر میں نہیں رکھتی وہ کس قدر نقصان کا سودا کرتی ہے؟
معیار زندگی کو بلند کرنے کے رجحان نے ہمارے ملک میں کرپشن کو بھی بہت فروغ دیا ہے۔ ظاہر ہے جب ایک انسان کو تربیت اور دینی علم کی کمی کی وجہ سے حلال اور حرام، جائز و ناجائز کی واضح تمیز نہ ہو گی اور پیسہ بنانے کا گر سکھانے والی فیکٹری یعنی اسکول اُسے ڈاکٹر ، انجینئر، بینکار یا ایسا ہی کچھ اور بنا کر معیار زندگی بڑھانے کی دوڑ میں لگا دے گی تو پھر اُس شخص کو غلط راہ پر جانے سے کیا چیز روکے گی، رشتوں کا احترام، مذہب، اخلاقیات، یا پھر کچھ اور؟ اور بالفرض ایسا شخص صریحاً غلط راہ پر نہیں بھی جاتا تو وہ کم ازکم ایک خودغرض انسان ضرور بن جاتا ہے جس کے دل میں پیسہ کی محبت ہر محبت پر اور اپنی ذات ہرذات پر حاوی ہوتی ہے۔ ایسا شخص ایک خاندان اور ایک معاشرے کی تشکیل کے لیے بیکار ہے۔ اور جب انسان کی تخلیق ہی معاشرے کو پروان چڑھانے کے واسطے ہے تو پھر ایسے خود غرض انسان کو ہم کیا کہیں گے؟
ہمارے آج کے تعلیمی نظام میں یہاں تک خرابی کیا کم تھی کےاب والدین نے بچوں کو پرسنٹیج حاصل کرنے کی دوڑ میں بھی لگا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگربچے کے 90 فیصد سے زیادہ مارکس نہ آئے تو نا جانے کون سا آسمانی عذاب نازل ہو جائے گا اور اگر آگئے تو نا جانے کون سی راحت مل جائے گی۔ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں سینکڑوں اُمیدواروں کے انٹرویوز کیے ہیں جن میں دُنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے بڑی بڑی ڈگریوں کے ساتھ فارغ التحصیل کالے، سفید، پیلے اور گندمی الغرض ہر رنگ و نسل کے لوگ شامل ہیں۔ یقین جانیے تعلیمی قابلیت صرف انٹرویو کی میز تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انٹرویؤ کی میز پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کے اُمیدوار نے میٹرک کیا یا او لیول یااُس کی جی سی ایس ای میں کتنی پرسنٹیج آئی تھی یااُس نے کتنےA اسٹارز لیے تھے! یہ صحیح ہے کہ زیادہ نمبر اچھی جامعات میں داخلہ حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہوتے ہیں مگر برائے مہربانی اس بات کو سمجھیں کے زیادہ مارکس حاصل کرنے کے لیے جب اس قدر دباؤ بچوں پر ڈالا جاتا ہے تو بچے کی شخصیت کتابوں میں غرق ہو جاتی ہے یعنی وہ بک وارم (کتابی کیڑا) بن جاتا ہے۔ پھروہ 'گیک' (geek) اور کتابی کیڑا تعلیم کے میدان میں تو بہت چوکے چھکے لگاتا ہے لیکن اکثر و بیشترعملی زندگی میں کوئی کارہائے نمایاں سر انجام نہیں دے پاتا۔ اس طرح کے بچوں میں قائدانہ صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔ چونکہ یہ لوگ اپنی زندگی کے ابتدائی 20 سے 25 سال شب و روز صرف کتابوں کے ساتھ گزار دیتے ہیں اس وجہ سے ان میں قدرتی طورایک طرح کا شرمیلا پن پیدا ہوجا تا ہے اوربعد میں یہ لوگ جب عملی زندگی کی شروعات کرتے ہیں تو دیگر لوگوں سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ اِن کو کمپیوٹر کی اِسکرین کے پیچھے بیٹھ کر کام کرنا زیادہ پسند ہوتا ہے بنسبت کسی انسان یا مجمع کے سامنے کھڑے ہو کر بات کرنے کے۔ اسی وجہ سے نہ تو یہ لوگ اچھے لیڈر بن پاتے ہیں اور نہ ہی کسی ادارے میں لیڈرشپ کی پوزیشن حاصل کر پاتے ہیں۔ ایسے لوگ معاشرے کی بہبود کے لیے کوئی عملی کام بہت عمدگی سے نہیں کر پاتے ہیں۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں مخلص قائدانہ صلاحیت کا فقدان ہے۔ اور دوسری طرف جتنے بھی شاطرقائدین آج پاکستان میں موجود ہیں اُن میں سے زیادہ ترکم پڑھے لکھے ہیں۔
اس کے علاوہ بحیثیت مسلمان ہمیں ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اسکول کی تعلیم کا انسان کے معیار زندگی سے تو تعلق ہے مگر اِس تعلیم کا کوئی تعلق انسان کے رزق سے قطعی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو دُنیا کے تمام ان پڑھ لوگ اور تمام جانور بھوکے مر جاتے۔ اگر آپ اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ سڑک ناپ رہے ہیں یا واجبی سی نوکری کر رہے ہیں اور نہ جانے کتنے ہی ان پڑھ لوگ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بعض لوگ اس کے جواب میں شاید یہ کہیں کہ مغرب میں تو ایسا نہیں ہوتا! تو میں یہ کہوں گا کہ یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ مغرب میں دُنیوی علم کی قیمت ہمارے یہاں سے بہت زیادہ ہے مگر ایک بار اچھی طرح ٹھنڈے دل سے سوچ کر یہ بات تو بتائیے کہ دنیا کی تاریخ میں کتنے ایسے لوگ ہیں جوواقعی عظمت کے مینار بنے ہوں کسی بھی اعلیٰ اسکول/کالج/یونیورسٹی کی تعلیم کی وجہ سے؟ میں آئنسٹائن کے دور کی بات نہیں کر رہا میں تو آج کی بات کر رہا ہوں ۔ آج کی یہ دُنیوی تعلیم صرف اوسط درجے کے خود غرضوں کو جنم دے رہی ہے جن کی ناتو پوری یہ دُنیا اور نا ہی پوری وہ دُنیا۔ اور آج کی دُنیا کی جہا ں تک بات ہے تو آج کے نئے نئے کھرب پتی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دُنیا کے بڑے بڑے کالجوں کی تعلیم کو یہ دیکھ کر خیرباد کہہ دیا کے یہ سب تو وقت کا ضیاع ہے۔ اس لمبی فہرست میں مائکروسوفٹ کے بانی اور دُنیا کے سب سے امیر آدمی بل گیٹس، فیس بک کے شریک بانی مارک زوکربرگ اور گیب نیویل، ہول فوڈز کے بانی جوَن میکی، میڈیا کنگ (ٹائم وارنر، CNN) کے ٹید ٹرنر، رالف لورین، اوریکل کے شریک بانی لیری ایلیسن، ڈیل کے بانی مائکل ڈیل او ر نا جانے کتنے اور شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایپل کو آسمان کی بلندیوں پر لے جانے والے اِسٹیؤ جوبس کو لے لیں، کوکو شینیل نے 18 سال میں اسکول چھوڑ کرفیشن کی دُنیا میں منفرد مقام بنا لیا۔ مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن نے 12 سال میں اسکول چھوڑ کر کھیتی باڑی شروع کر دی تھی۔ اور اسی طرح کی مثالیں میرے پاس بہت ساری موجود ہیں۔
یہ موضوع اتنا وسیع و عریض ہے کہ اس پر صفحات کے صفحات سیاہ کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمارے وہ قارئین برا مان جائیں گے جووقت یا صبر کی کمی کے باعث لمبی چوڑی بات پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ہم اب فوراً ہی اس مسئلہ کے حل کی تجاویز پیش کر دیتے ہیں یعنی ہمارا تدریسی نظام کیسا ہونا چاہیے:
1۔ پورے ملک میں حکومت سے منظور شدہ یکساں اور جدید تعلیمی نظام و نصاب ہو۔
2- ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری تعلیم حکومت کی طرف سے ملک کے تمام بچوں کو مفت دی جائے۔
3۔ ابتدائی تعلیم مادری یا قومی زبان میں دی جائے۔ (جو جتنی جلدی پڑھنا سیکھے گا وہ اُتنی ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑہے گا)۔
4۔ پہلی کلا س میں داخلے کے لیے بچے کی عمر 6 سال ہونی چاہیے اور اس سے پہلے کی تعلیم و تربیت وہ گھر پر حاصل کرے۔
5۔ انگریزی ایک خارجی زبان (فارن لینگویج) کے طور پر پہلی جماعت سے ہرطالب علم کے لیے لازمی ہونی چاہیے۔
6۔ پرائمری تک فارمل اسیسمنٹ (با ضابطہ امتحان) کے بجائے انفارمل اسیسمنٹ یعنی غیر رسمی آزمائش و پیمائش ہونی چاہیے۔
7۔ مڈل اسکول یعنی آٹھویں تک کل مضامین کی تعداد 6: اُردو، انگریزی، ریاضی ،سائنس، معاشرتی علوم اور اسلامیات جس میں عربی زبان، قرآن کا ترجمہ، سیرت النبی ﷺ، اسلاف کے کارنامےہوں) شامل ہو۔
8- سیکنڈری اسکول سے رپورٹ کارڈ میں امتحان کے نتیجہ کے ساتھ ساتھ کوشش یعنی effort کے نمبر الگ ہونے چاہییں کیونکہ ہر طالب علم کی ذہنی نشونما اور قابلیت برابر نہیں ہوتی اس لیے اِن سب کو ایک ہی زاویے سے جانچنا بڑی ناانصافی ہے۔
8- حکومتی اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اسکول صرف مڈل سے ہوں اور اُن کی فیس حکومت ریگولیٹ کرے ۔
9- مڈل سے مخلوط طرزتعلیم ختم کیا جائے۔
8- روزانہ 30 سے 45 منٹ سے زیادہ کا ہوم ورک نہیں ہونا چاہیے تاکہ والدین کو اتنا وقت تو ملے کے وہ اپنی اولاد کی مذہبی اور اخلاقی طور سے پرورش کر سکیں اور اس کے علاوہ اُسے کھیلنے کودنے یعنی صحت مند رہنے کا وقت مل سکے۔
9- اسکول میں تدریس اس معیار کی ہو کےپرائیویٹ ٹیوشن پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔
10۔ ورزش اور کھیل لازمی طور پر نصاب کا حصہ ہونے چاہیئں۔
11۔ تقاریر ، بحث و مباحثے، بیت بازی، مضمون نویسی لازمی ہو مگر مغربی تہوار وں اور مغربی طرز کے ڈراموں کے انعقاد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔
12- مڈل سے باضابطہ امتحان ہوں مگر Scholastic Assessment Test یعنی SATs کی طرز پر ہونا چاہیے۔
13۔ ہائی اسکول(نہم دہم ) کا دورانیہ دو سال سے بڑھا کر چار سال کیا جائے جس میں مضامین کی تعداد بڑھا دی جائے۔ یعنی انٹرمیڈیٹ کو ہائی اسکول کا درجہ دیا جائے
14- گریجویشن اس کے بعد چار سال میں مکمل ہو جس کے آخری دوسال کم ازکم کسی دومضامین میں مہارت حاصل کی جائے۔
ہمیں اُمید ہے اگر ہم خلوص نیت سے اپنی اگلی نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں تو ان شاء اللہ یہ لوگ دُنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوں گے۔
آخر میں اس دُعا کے ساتھ ہم اجازت چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان، پاکستانیوں اور تمام مسلمانوں پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں دور حاضر کے مسائل سے نبرد آزما ہو کر سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
والسلام،
سرفراز صدیقی