11:29    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

حکایات سرفراز

2170 4 0 04.7

سرفراز صدیقی - 2014-ستمبر-5

عقلمند اُلّو اور جوان گھوڑا

کسی جگہ ایک بہت وسیع و عریض بلکہ ایک بہت وسیع القلب جنگل موجود تھا جو برسہا برس سے اپنے باسیوں کو اپنی شفقت کی گھنی چھاؤں میں پناہ دیے ہوا تھا۔ اس پاک جنگل میں ابتدائے زمانہ سے 'وحوُشیت' نامی نظامِ حکمرانی نافذ تھا جس کے نقائص کی بدولت غلط طرح کے جانور حکمران بنتے اورپھر اُن کی نالائقی کی وجہ سے پاک جنگل خراب سے خراب تر ہوتا چلا جاتا تھا۔ یہاں تک کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے باسیوں کو بھی اس بات کا احساس نہ رہا کہ وہ سب مل کرمالک کی عطا کردہ کس عظیم نعمت کو برباد کر رہے ہیں۔

اسی پاک جنگل میں دیگر جانوروں کے ساتھ ساتھ ایک بوڑھامگر انتہائی عقلمند اُلّوُ بھی رہتا تھا۔ ایک دن جنگل کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر جنگل کا درد رکھنے والا ایک وفادار اور جوان گھوڑا عقلمند اُلّوُ کے پاس آن پہنچا اور لگا سوال کرنے:

جوان گھوڑا: قبلہ! جب سے میں پیدا ہوا ہوں اس جنگل میں بھوکے بھیڑیوں اور لٹیرے لومڑوں کا راج دیکھتا آ رہا ہوں۔ آپ تو بہت دور اندیش ہیں، یہ فرمایئے اس جنگل کے حالات کب سدھریں گے اور کون اسے ٹھیک کرے گا؟
عقلمند اُلوّ پنچہ اُٹھا کر جوان گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:یہاں کے حالات تم ٹھیک کرو گے اور جب تم چاہو گے تب ہی یہ ٹھیک ہوں گے۔
جوان گھوڑا: مگر میں بھلا یہ کام کیسے کر سکتا ہوں؟
عقلمند اُلوّ: سب سے پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کر و۔ پھر اپنے گھر والوں کو دوست احباب کو درست راہ پر ڈال کر اور اسی طرح بڑھتے بڑھتے ایک دن ان شاء اللہ سب بہتر ہو جائے گا۔ یار رکھو! اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
جوان گھوڑا: لیکن اس کام میں تو بہت وقت لگ جائے گا اور مجھے یہ بھی یقین نہیں کہ میرے اندر اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی خواہش موجود ہے۔ میرے خیال میں اگر میں وجیہ پانڈا کا گروپ جوائن کر لوں تو ہم مل کر بھیڑیوں اور لومڑوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور اس جنگل کے حالات کو بدل سکتے ہیں۔
عقلمند اُلوّ: بیٹا! زندگی میں شارٹ کٹس مت ڈھونڈٖو۔ جو چیزیں کئی دہائیوں میں خراب ہوئی ہیں اُن کوٹھیک کرنے کے لیے بھی بڑا زمانہ درکار ہے۔ محض چہرے بدلنے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلنے کے لیے اس نظام وحوشیت کو بدلنا بڑا ضروری ہے۔
جوان گھوڑا: مگر کیوں؟ اس نظام میں آخر کیا خرابی ہے؟
عقلمند اُلوّ: اےمیرے فرزند: اس نظام وحوشت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں جنگل کے ہر جانور کی رائے کو ایک برابرسمجھا جاتا۔
جوان گھوڑا: مگر یہ تو اچھی بات ہے کے سب کو برابر سمجھا جاتا ہے!
عقلمند اُلوّ: بیٹا: بیشک ہر جانور کے لیے زندگی گزارنے کا حق برابر ہوتا ہے مگر ہر جانور کی عقل ایک برابر نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک عقلمند ہاتھی کسی بیوقوف بھیڑ کے برابر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو بد خصلت ہے وہ کبھی شرفاء میں شامل نہیں ہو سکتا۔ کیا تم نے وہ کہاوت نہیں سنی "پڑھو فارسی بیچو تیل"؟
جوان گھوڑا: عقل اور خصلت والی بات کی ذرا وضاحت فرمایئے؟
عقلمند اُلوّ: دیکھو! وفا کا پیکر سبک رفتار گھوڑا کسی ڈسنے والے سانپ کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں کو برابر سے تمام جانورں کے لیے فیصلہ کرنے کا حق دینا ایک ظلم عظیم ہوگا۔ اور اس سے کبھی فلاح حاصل نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف اگر تم بغور دیکھو تو اس جنگل میں سب سے بڑی تعداد میں بزدل اور بیوقوف بھیڑیں ہیں۔ ان کی کثیر تعداد کے ہوتے ہوئے کیا کبھی کوئی اچھا حکمران اقتدار میں آ سکتا ہے؟ بد قسمتی سے ان بھیڑوں کی مجبوری اور ان کے حالات نے انہیں اس ذہنی طور پر اس درجہ ضعیف بنا دیا ہے کہ وہ ہر بار تمام مظالم بھول کر دوبارہ کسی نئےستمگر کے بہکاوے میں آجاتی ہیں اور یوں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی چلی جاتی ہے۔ بقول شاعر:
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے --------- اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے!
جوان گھوڑا: لیکن اگر اکثریت اپنا بھلا نہیں چاہتی تو آپ اور میں اس نظام کو بُرا کہنے والے کون ہوتے ہیں؟
عقلمند اُلوّ: اگر ہم برے کو برا نہ کہیں تو جو لوگ نہیں جانتے وہ اس خرابی کوپہچانے گے کیسے اور جہاں تک اکثریت کی بات ہے تو تم دیکھ سکتے ہو کہ ہمارے جنگل کی کل آبادی لگ بھگ 20 ہزار ہے مگر بدقسمتی سے نظام وحوُشیت کی بدولت آج جو حریص بھیڑیا اس جنگل کا حکمران ہے اُس نے محض 14 سو بھیڑوں (7 فیصد) کی رائے کے بل پہ جنگل کے 93 فیصد اکثریت پر اپنا اقتدار قائم کر لیا ہے۔ یہ تو صریحاً اقلیت کی حکمرانی ہوئی۔
جوان گھوڑا: اے میرے بزرگ! مگر میں نے تو سنا ہے کے کافرستان نامی جنگل میں یہی نظام وحوشیت نافذ ہے اور وہاں تو راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بھی بہتی ہیں!
عقلمند اُلوّ: بیٹا! تم نے بالکل ٹھیک سُنا ہے وہاں ایسا ہی ہے۔
جوان گھوڑا: تو اس کا مطلب وجیہ پانڈا جو کہتا ہے بالکل ٹھیک ہے۔ ہمیں بھیڑیے سے فالفور جان چھڑانی چاہیے اور نظام وحوُشیت کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔ اور یوں ایک دن ہماری بھی قسمت بدل جائے گی۔
عقلمند اُلوّ: آہ! کاش کے ایسا ہو پاتا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
جوان گھوڑا: مگر کیوں؟
عقلمند اُلوّ: اس لیے کے کافرستان میں نافذ نظام صرف اس لیے کامیاب ہے کہ وہاں تمام کے تمام خنزیر بستے ہیں۔ یعنی اُن کی ضروریات، سوچ، عقلی معیار، پسند نا پسند، رہن سہن، بود و باش سب یکساں ہیں۔ اس لیے نظام وحوشیت اُن کے لیے بہت بہتر ہے اور وہی در اصل ان کی ترقی کا راز ہے۔
جوان گھوڑا: معزز اُلّو! میں سمجھا نہیں۔
عقلمند اُلوّ: میں تمھیں ایک آسان سی مثال دیتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے جنگل میں جتنے بھی جانور ہیں وہ یا تو سبزی کھاتے ہیں یا پھر گوشت اب اگر ہم نظام وحوشیت کے اعتبار سے سب جانورں سے پوچھیں کے اس جنگل میں کل صبح سےصرف ایک ہی طرح کا کھانا کھایا جائے گا۔ اس لیے سب اپنی رائے دیں کے وہ کون سا کھانا ہونا چاہیے۔ تو کیا جواب ہوگا؟
جوان گھوڑا: سادہ سی بات ہے وہی کھانا ہوگا جو اکثریت کہے گی۔ اور میرے خیال میں اس جنگل میں سبزی خوروں کی بہتات ہے اس لیے سبزی ہی وہ کھانا ہو گا جو ہر ایک کےلیے کھانا قانون بن جائے گا۔
عقلمند اُلوّ: تو پھر تو تمام گوشت خور بھوکے مر جائیں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو کیا یہ انصاف ہو گا؟ کیا پیدا کرنے والے نے یہی چاہا ہے؟
جوان گھوڑا: بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر کافرستان میں تو۔۔۔۔
عقلمند اُلوّ: اے میرے فرزند! بنیادی بات یہ ہے کافرستان جنگل کے تمام باسیوں کی مرغوب ترین غذاء مشترک ہے یعنی خود اُن کا اپنا 'فضلہ'۔ اس لیے جب کبھی بھی وہ نظامِ وحوشیت کےحساب سے رائے شماری کریں گے وہ ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے یعنی "ہمیں تو بس فضلہ چاہیے"۔ اُن میں اختلاف ہو گا تو شاید اس بات پر کے فضلہ کتنے بڑے خنزیر کا ہو یا کتنے دن پرانا ہو مگر اُن سب کا اتفاق بغیر کسی جھگڑے کے فضلہ پر ہی ہو گا۔ اس لیے نہ کوئی لڑائی اور نہ کوئی جھگڑا۔ اور آپس میں اتفاق کر لینے کے بعد سب کے سب اونچی اونچی میز کرسیوں پر بیٹھ کرسونے کے چمچوں سے سونے کے برتنوں میں اپنا ہی فضلہ ڈال کر بخوشی کھاتے رہیں گے۔
جوان گھوڑا: لیکن ہم سب تو پلید فضلہ نہیں کھاتے؟
عقلمند اُلوّ: نہیں میرے پسر! ہمارے اس پاک جنگل میں موجود شکل و صورت والے خنزیر تو شاید نہیں ہیں مگر طبعیت کے کچھ خنزیر ضرور موجود ہیں جو بڑے شوق سے ناپاک فضلہ کھاتے ہیں اور پھر دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے ہیں"کھایئے نا"۔ لیکن تم جانتے ہو آج بھی ہم جانورں کی اکثریت پلید کھانے سے بھوکا مرجانا بہتر جانتی ہے وہ اس لیے کے ہمارا مالک یعنی ہمارا رب پاکی کو انتہائی پسند کرتا ہے۔ حرام اور ناپاک کھانا کھانے والوں کے لیے اُس نے سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وہ عذاب ہے کہ جس کی کافرستان کے خنزیروں کو تو بالکل فکر نہیں کیونکہ جب وہ "ہمارے رب کو" ہی نہیں مانتے تو "ہمارے رب کی" کیوں مانیں گے۔ اب بتاؤ وہ خنزیر کیوں اَن دیکھی آخرت کی بہتر ی کے لیے اپنی دُنیا مشکل کریں گے؟
جوان گھوڑا: بات کچھ کچھ سمجھ آ رہی ہے اے زیرک اُلّو! مگر آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کے اگر نظام وحوشیت نہیں تو پھر کیا؟
عقلمند اُلوّ: بڑی سیدھی سے بات ہے۔ جب کوئی موجد کسی چیز کو ایجاد کرتا ہے تو اُسے استعمال کرنے کے لیے ہدایات کا کتابچہ (manual) بھی لکھ دیتا ہے تا کہ تمام جانور اُس ایجاد کو احسن طریقہ سے استعمال کر سکیں۔ اسی طرح ہمارے جنگل سمیت اس کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لیے اس جنگل کو استعمال کرنے کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہونا چاہیے یہ اس جنگل کے خالق سے بہتر کون بتا سکتا ہے؟
جوان گھوڑا: اور اللہ نےبھلا کیا بتایا ہے؟
عقلمند اُلوّ: اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت جس میں کسی قسم کی کوئی شراکت نہیں اور جہاں اُس کے حکم پر فرشتے مختلف امور انجام دیتے ہیں یہ مثال دی ہے کہ عنان اقتدار صرف ایک ہی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور جس کے فیصلہ پر ہر کوئی سرِ تسلیم خم کرے ورنہ نظام میں گڑبڑ ہونا لازمی ہے۔ شوریٰ اس کو محض مشورہ دے مگر وہ خود اللہ کے سوا کسی کا پابند نہ ہو۔ کوئی قانون خود نہ بنائے بلکہ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کا نفاذ کرے۔
جوان گھوڑا: لیکن اگر و ہ 'ایک قائد' ٹھیک نہ ہو تو؟
عقلمند اُلوّ: ایسا بالکل ممکن ہے ۔ لیکن تم اگر کسی ایسے جانور کو ڈھونڈلو جس میں اوصافِ حمیدہ بھی ہوں اور وہ دانشمند بھی ہو اور ساتھ ہی وہ اقتدار بالکل بھی نہ چاہتا ہو ۔ تو پھر سوچو کیا وہ جانور اقتدار کا غلط استعمال کرے گا؟ اگر بالفرض وہ جانور ہاتھی کی نسل سے ہو تو تم خود بتاؤ کہ اُسے گوشت اور خون میں کوئی رغبت ملے گی؟ نہیں کبھی نہیں! چاہے وہ ہاتھی کتنا ہی خراب ہو وہ اپنی فطرت کے خلاف گوشت کھانا شروع نہیں کرسکتا۔ اسی لیے ایک ایسا جانورجسے طاقت اور مال کی ہوس نہ ہو۔ جوخود درندہ نہ ہو مگر قد کاٹھ کا اتنا وزنی ہو کہ تمام جنگلی درندے اپنی تمام تر درندہ صفتی کے باوجود اُس سے خوف کھائیں اور وہ جنگل میں کسی سے نہ ڈرے سوائے اپنے رب کے تو وہی جانور سچا بھی ہو گا اور اپنے جنگل اور اُس کے باسیوں کے لیے سوُد مند بھی۔
جوان گھوڑا:یعنی وجیہہ پانڈا۔۔! سچا تو وجیہہ پانڈا ہی اپنے آپ کو کہتا ہے۔ اور اپنے آپ کو جانوروں کا خیر خواہ بھی کہتا ہے۔
عقلمند اُلوّ: اے میرے فرزند! تم اس بات کو اپنی گراہ میں باندھ لو کہ جو جانور خود اپنے مُنہ سے اپنے آپ کو سچا کہے وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔ جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ ایماندار کہے وہ سب سے زیادہ بے ایمان ہے۔ جو اپنے آپ کو عقلمند کہے وہ دراصل بے وقوف ہے۔ جو اپنے مُنہ سے کہے وہ تمہارا خیر خواہ ہے تو درحقیقت وہ خود اپنا خیر خواہ اور خودغرض ہے۔ کیونکہ تمام اوصاف حمیدہ کردار میں جھلکنے چاہیئیں نہ کہ وہ کسی کی اپنی زبان سے ادا ہوں؟ یاد رکھو ایک جانور کی برسہا برس کی عملی زندگی ہی یہ بتاتی ہے کہ وہ کتنا عقلمند ہے، کتنا سچا ہے، کتنا خیر خواہ ہے، کتنا نڈر ہے اور اپنے ارادوں میں کتنا اٹل ہے۔ جو جانور اپنی خوبیاں خود گنوائے تو سب سے پہلے سوچو کے اُس کو اس بات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جوان گھوڑا: اے دانا اُلّوُ! اب مجھے کافی حد تک یہ باتیں سمجھ آر ہی ہیں۔ لیکن اگر میں آپ سے اس فراست کے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی درخواست کروں تو؟
عقلمند اُلوّ: بیٹا! خنزیروں کے پلید نظام میں چہرے بدلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لیے تم کوشش کرو کے اس پلید نظام کو بدل کرا للہ کا پاک نظام اس جنگل میں نافذ کرو تا کہ دُنیا اور آخرت دونوں میں ان شاءاللہ فلاح پاؤ۔
جوان گھوڑا: بہت خوُب ! لیکن اگر میری اس کوشش کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہ نکلا تو؟
عقلمند اُلوّ: تب بھی تم روز قیامت اپنے رب کے سامنے ادب کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ کہہ سکو گےکہ:" اے میرے رب! اگرچہ میں اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکا میں نے اپنی زندگی میں وہی نظام لانے کی کوشش کی جو تیر ا پسند کردہ ہے۔ یا الٰہی! توُ اپنی رحمت کے صدقے میں میری کوشش پر راضی ہو جا۔" اور مجھے کامل یقین ہے کہ اِن شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔

4.7 "6"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔