01:51    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ بادِ صبا کی بات

1542 0 0 00




وہ نہ آئے تو سحر کیوں آئے

وہ نہ آئے تو سحر کیوں آئے

میرا سایہ بھی نظر کیوں آئے

میں تو دریا ہوں ملوں خود جا کر

وہ سمندر ہے ادھر کیوں آئے

زندگی لائی مگر کیوں لائی

ہم یہاں آئے مگر کیوں آئے

میں ترا عکس ہوں اپنا تو نہیں

آئینہ پیشِ نظر کیوں آئے

پہنچے منزل پہ تو آئی آواز

اوڑھ کر گردِ سفر کیوں آئے

آئینہ ٹوٹ گیا ، ٹوٹ گیا

اب کوئی آئینہ گر کیوں آئے

مدتوں بعد ملا تھا وہ حزیں

اس سے کترا کے گزر کیوں آئے

٭٭٭






اب کھلا ہستی کا افسوں ہی فنا پرور بھی تھا

اب کھلا ہستی کا افسوں ہی فنا پرور بھی تھا

خواب ہی میں خواب کی تعبیر کا منظر بھی تھا

میں نے دیکھا ایک نظّارہ پسِ منظر بھی تھا

رنگ کے پردے میں خوشبو کا حسیں پیکر بھی تھا

جس نے تولا وقت کی میزان میں تولا مجھے

کوئی پوچھے میں حصارِ وقت کے اندر بھی تھا

وہ مری دیوانگی کی آخری تصویر تھی

آئینہ بھی روبرو تھا ہاتھ میں پتھر بھی تھا

رہ گئے محروم ، سائے اوڑھ کر جو سو گئے

خانقاہِ شب میں جاری نور کا لنگر بھی تھا

تو نے خود ہی کر دیا ساحل سے مجھ کو ہمکنار

میں تو اے دریا ترے طوفان کا خوگر بھی تھا

یاد سا آتا ہے گردوں پر چراغاں دیکھ کر

ایسی ہی روشن بلندی پر ہمارا گھر بھی تھا

لب سلے تھے آنسوؤں پر تو کوئی قدغن نہ تھی

عرضِ غم کے باب میں کچھ فرضِ چشمِ تر بھی تھا

٭٭٭






کیا ملا ذات سے جدا ہو کر

کیا ملا ذات سے جدا ہو کر

کھو گیا ہوں ترا پتہ ہو کر

قفسِ رنگ سے رہا ہو کر

رہ گئی بوئے گل ہوا ہو کر

نقشِ حیرت بنا دیا مجھ کو

ایک پتھر نے آئینہ ہو کر

آسماں تھا اور اب زمیں بھی نہیں

رہ گیا ہائے کیا سے کیا ہو کر

زندگی خواب ہے نہ افسانہ

یہ حقیقت کھلی فنا ہو کر

تیرگی سے لرز رہا ہے جنوں

مشعلِ جادۂ وفا ہو کر

پھر وہی شام سر پہ آ پہنچی

مطمئن تھا سحر نما ہو کر

٭٭٭






در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں

در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں

مایوس ہو کے رہ گئی میری صدا کہیں

کیونکر کسی کو چہرۂ خوشبو دکھائی دے

رنگوں کا ٹوٹتا ہی نہیں سلسلہ کہیں

لغزش کا ہر قدم پہ ہے امکاں سنبھل کے چل

زنجیر بن نہ جائے ترا نقشِ پا کہیں

دل جھومنے لگا ہے بگولوں کے رقص پر

راس آ نہ جائے دشت کی آب و ہوا کہیں

خورشیدِ پر جلال ہے یوں میرے ساتھ ساتھ

جیسے میں اپنے سائے میں چھپ جاؤں گا کہیں

گھبرا کے حبسِ شب سے ہوا کی دعا نہ مانگ

پھر شہر میں رہے گا نہ روشن دیا کہیں

مچلے ہزار دل میں تمنائے دل کہیں

ہوتی ہے اپنے پھول سے خوشبو جدا کہیں

٭٭٭






شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں

شہروں میں ایسے منظر بھی نظروں سے ٹکراتے ہیں

آنکھوں والے آتے جاتے اندھوں سے ٹکراتے ہیں

سورج تو پیاسا ہے ازل کا تاروں کو پی جاتا ہے

شبنم کے پاگل قطرے کیوں کرنوں سے ٹکراتے ہیں

تو نے یہ کیا قید لگا دی ، تیرے جیسے رنگ بھروں

کون سے میرے خاکے تیرے خاکوں سے ٹکراتے ہیں

ایک سحر کی آس میں دل کب سے انگارے پیتا ہے

ہر شب جانے کتنے سورج آنکھوں سے ٹکراتے ہیں

دہراتی ہے شب بیداری دن بھر کے سب ہنگامے

تنہائی کے سنّاٹے بھی کانوں سے ٹکراتے ہیں

وقت کے دریا کی موجوں میں روز تصادم ہوتا ہے

جاتے لمحے آنے والے لمحوں سے ٹکراتے ہیں

اب جو صبا آتی ہے چمن میں گل ہی اور کھلاتی ہے

سوکھے پتے اڑ کر ویراں شاخوں سے ٹکراتے ہیں

٭٭٭






پرکھا نہ تمام پتھروں کو

پرکھا نہ تمام پتھروں کو

چنتے رہے خام پتھروں کو

بخشا ہے نگاہِ جوہری نے

ہیرے کا مقام پتھروں کو

شیشے کا ہے کاروبار جن کا

کرتے ہیں سلام پتھروں کو

کھَلتا ہے مقامِ سنگِ اسود

سب آئینہ فام پتھروں کو

نسبت ہے بس ایک سنگِ در سے

پوجا نہیں عام پتھروں کو

آذر کا نشان تک نہیں ہے

حاصل ہے دوام پتھروں کو

معلوم تو ہو دلوں میں کیا ہے

دو اذنِ کلام پتھروں کو

وہ آنچ بھی دے کہ موم کر دوں

دنیا کے تمام پتھروں کو

٭٭٭






پسِ آئینہ بھی میں ہوں کہیں ایسا تو نہیں

پسِ آئینہ بھی میں ہوں کہیں ایسا تو نہیں

یہ مرا وہم ہو شاید کبھی دیکھا تو نہیں

تیرے کس کام کا دھنکے ہوئے خوابوں کا غبار

سرمۂ زر تو نہیں حسن کا غازہ تو نہیں

جادۂ دل میں سرابوں کا گزر کیا معنیٰ

دشتِ پر خار سہی، ریت کا دریا تو نہیں

اپنا آئینہ بنا کر مجھے حیران کیا

آنکھ اٹھا کر مری جانب کبھی دیکھا تو نہیں

کبھی موتی بھی کوئی موج بہا لاتی ہے

کفِ دریا ہی متاعِ لبِ دریا تو نہیں

ایک اندازہ بلندی پہ لئے پھرتا ہے

ذہن میں جنتِ گم گشتہ کا نقشہ تو نہیں

گنگناتے ہوئے لمحے بھی یقیناً ہوں گے

زندگی ایک شب و روز کا نوحہ تو نہیں

صبح ہوتی ہے نمودار کہاں سے جانے

گنبدِ شب میں کہیں کوئی دریچہ تو نہیں

عکس ہے اپنے خیالوں کا مرے خوابوں میں

کچھ ترے آئنہ خانے سے چرایا تو نہیں

میری آواز بنا کر نہ پکارو خود کو

خود فریبی ہے جدائی کا مداوا تو نہیں

خیر خاموشیِ پیہم کا گنہ گار سہی

کم سے کم مجرمِ اظہارِ تمنا تو نہیں

آئنے میں بھی ترا عکس نظر آتا ہے

حیرتِ چشمِ تماشا ہوں تماشا تو نہیں

پھول ہی گریۂ شبنم پہ ہنسا کرتے ہیں

میرے اشکوں پہ تبسم ترا بے جا تو نہیں

ہو گئی تیز ستاروں کے دھڑکنے کی صدا

شبِ مہتاب کا یہ آخری لمحہ تو نہیں

کیا عجب اپنی شبِ غم بھی گزر جائے حزیں

وقت کہتے ہیں کسی کے لئے رکتا تو نہیں

٭٭٭






با وصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال

با وصفِ مہر و ماہ اجالا ہے خال خال

اپنا تمام عکس رخِ زندگی پہ ڈال

دو گام ہی چلے تھے سرِ جادۂ جمال

گھبرا کے زندگی نے پکارا مجھے سنبھال

سب مرحلے تمام ہوئے حال ہے نہ قال

اب عشقِ لازوال ہے اور حسنِ بے مثال

تہذیبِ آرزو کی جھلک ہے کہیں کہیں

تقدیسِ جستجو کا تصور ہے خال خال

کب سے حصارِ دشتِ فنا میں اسیر ہوں

اے روحِ کائنات یہاں سے مجھے نکال

کانٹوں میں پھول تلتے رہیں گے حزیں یہاں

دامن سمیٹ ایسے گلستاں پہ خاک ڈال

٭٭٭






بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ

بجھ بجھ کے دائرے سے بناتے رہے چراغ

آخر اسی حصار میں گم ہو گئے چراغ

جس گھر سے تو خفا ہو وہاں روشنی کہاں

کب سے بجھے پڑے ہیں شب و روز کے چراغ

یاروں کی انجمن میں یہ کیسی ہوا چلی

اک دوسرے کی لوَ پہ لپکنے لگے چراغ

شاید بہار نام ہے اک جشنِ رنگ کا

آنچل اڑے ، گلاب کھِلے، ہنس پڑے چراغ

جب آگیا خیال کسی مہ جمال کا

آنکھوں کی چلمنوں سے جھلکنے لگے چراغ

یہ کیا ہوا فضا کو، وہ نغمے نہ روشنی

کس نے بجھا دیئے تری آواز کے چراغ

سمجھے تھے جن کو پھول وہ شاخوں کے زخم تھے

شبنم کے اشک تھے جو دکھائی دیئے چراغ

خونِ دل و جگر سے چراغاں تو کر لیا

ہر چند چشمِ تر کو یہ مہنگے پڑے چراغ

منزل کے قمقموں کی صدا سن رہا ہوں میں

لیکن یہ ٹمٹماتے ہوئے راہ کے چراغ؟

ہر چند اپنی ذات میں اک انجمن ہوں میں

لیکن مثالِ قریۂ ویراں ہوں بے چراغ

بے سوزِ دل تجلّیِ تکمیلِ فن کہاں

ذہنِ رسا ہزار جلاتا رہے چراغ

یارانِ کم سواد کو ہر راہ سے گلہ !

ہم تو حزیں جہاں بھی گئے جل اٹھے چراغ

٭٭٭






کتنے باطل کے پرستار ہیں ، حق پر کتنے

کتنے باطل کے پرستار ہیں ، حق پر کتنے

بات اتنی تھی کہ برپا ہوئے محشر کتنے

یہ تو ہم ہیں نہ سلگتے نہ دھواں دیتے ہیں

ہو گئے خاک تری آگ میں جل کر کتنے

پہلو پہلو سے پرکھ لیجئے کھل جائے گا

کون آئینہ ہے اور کس میں ہیں جوہر کتنے

جس کو مقدورِ چراغاں ہے اسے کیا معلوم

اک دئے کو بھی ترستے ہیں یہاں گھر کتنے

جھانک ماضی کے دریچے سے کہ تجھ پر وا ہو

تو نے تعمیر کئے گنبدِ بے در کتنے

سیپیاں تیرتی پھرتی ہیں کنارے پہ بہت

ہاتھ آئے کسی غوّاص کے گوہر کتنے

بحر کی موجِ غلط بخش پہ مغرور نہ ہو

ڈوبتے دیکھے ہیں ساحل پہ شناور کتنے

زندگی جاگتے خوابوں کے سہارے گزری

اس کے با وصف کہ تھے ذات میں جوہر کتنے

ہاتھ ٹوٹیں جو کبھی پھول کوئی توڑا ہو

پھر بھی الزامِ چمن آئے مرے سر کتنے

گِن لئے آپ نے گردوں کے ستارے تسلیم

یہ تو فرمائیے ذرّے ہیں زمیں پر کتنے

ایک لمحے میں گزر جاتی ہیں صدیاں کتنی

ایک لحظے میں بدل جاتے ہیں منظر کتنے

جذب ہو جائیں گے اِس خاک میں اک دن ہم بھی

پی گئی ہے یہ زمیں یونہی سمندر کتنے

٭٭٭






جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے

جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے

اس خرابے کو الٰہی کوئی معمار ملے

اہلِ دل حق سے بغاوت تو نہیں کر سکتے

جانے کیا جرم تھا ان کا جو سرِ دار ملے

میں ترے سوزِ محبت کا امیں ہوں ورنہ

کتنے سورج مرے اشکوں کے خریدار ملے

نیند آتی ہے کہاں زیست کے ہنگاموں کو

حادثے خواب کے عالم میں بھی بیدار ملے

میں ہوں پتھر تو کسی راہ کا پتھر نہ بنا

آئینہ ہوں تو مجھے آئنہ بردار ملے

وہم کے نقش تھے یا ذوقِ نظر کے شہکار

کچھ خد و خال سرِ پردۂ دیوار ملے

تھے وہ مہتاب کے آنسو کہ سحر کی کرنیں

کچھ رگِ جاں میں اترتے ہوئے انوار ملے

کاش آ جائے مری سمت بھی اُس کا جھونکا

وہ ہَوا جس کو تری سانس کی مہکار ملے

شکریہ اے غمِ دل تیری بدولت ہی سہی

رات جاگے تو نئی صبح کے آثار ملے

تیرے آنگن کی ہَوا سے یہ توقع تو نہ تھی

ہر گلی میں تری پازیب کی جھنکار ملے

رات احساس کے در پر کوئی دستک نہ ہوئی

دل کی دہلیز پہ بکھرے ہوئے کچھ ہار ملے

پسِ خاموشی، دریا کئی طوفاں ہیں بپا

کیا عجب ہے جو ہمیں بھی لبِ گفتار ملے

کل تھا وہ رنگِ بہاراں کہ نظر جل اٹھی

شاخ در شاخ دہکتے رخسار ملے

جب بھی احساس کے زینے سے گزرنا چاہوں

کوئی وجدان کے جلووں کا نگہدار ملے

اے حزیں شہرِ نگاراں میں گئے تھے ہم بھی

بیشتر سنگ ملے آئنے دو چار ملے

٭٭٭






وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز

وہ صبح کا آہنگ نہ وہ شام کی آواز

کچھ دن سے ہے کچھ اور در و بام کی آواز

کس کام کی سازِ دلِ ناکام کی آواز

جب تک نہ بنے دوست کے پیغام کی آواز

ہے سرخیِ گلبانگِ سحر، خونِ تمناّ

موجِ طرب آہنگ ہے آلام کی آواز

اب شب کو ابھرتے نہیں دیوار پہ چہرے

اب دل کو ڈراتی نہیں اوہام کی آواز

کرتی ہے سماعت کی لطافت کا جگر چاک،

سازوں پہ تھرکتے ہوئے اجسام کی آواز

ہے نغمہ سرا، سازِ رگِ جاں پہ تری یاد

یا دل کے تراشے ہوئے اصنام کی آواز

ہم بنتے رہے سنگِ ملامت کا نشانہ

احباب اٹھاتے رہے الزام کی آواز

آغاز کی آواز تھی جاں بخش و فضا تاب

اک شور قیامت کا ہے انجام کی آواز

کانوں سے گزرتی ہے اترتی ہے دلوں میں

جب دل سے ابھرتی ہے ترے نام کی آواز

کام آئے گی تنہائی کی خاموش فضا میں

سن جاؤ شکستِ دلِ ناکام کی آواز

٭٭٭






پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی

پردہ بہ پردہ جلوہ بہ جلوہ جانِ حیا کی بات چلی

خلوتِ دل سے بزمِ نظر تک ایک فضا کی بات چلی

دونوں طرف سے اپنے اپنے حسن و ادا کی بات چلی

ہم سے وفا نام چلا ہے تم سے جفا کی بات چلی

رنگ فشاں ہے بات وہ دل کی آج بھی جس کے پردے میں

سرخیِ لب کی، غازۂ رخ کی ، رنگِ حنا کی بات چلی

بھول گئے پیمانِ وفا ہم آپ کا یہ الزام بجا

لیکن پہلے کس کی طرف سے ترکِ وفا کی بات چلی

دونوں میں کچھ ربط نہیں ہے لیکن اس کو کیا کہئے

رہزن ہی کے ساتھ چلی جب راہ نما کی بات چلی

سینے میں پتھر تو نہیں تھا ، دل تھا آخر ٹوٹ گیا

ہم نے چلائی جب تک ہم سے ضبطِ جفا کی بات چلی

آج جسے گلبانگِ سحر کا نام دیا ہے دنیا نے

سچ تو یہ ہے آواز وہی تھی جس سے فضا کی بات چلی

شب بھر شبنم نے رو رو کر گلشن کو شاداب کیا

صبح ہوئی تو خندۂ گل کی بادِ صبا کی بات چلی

٭٭٭






اس وہم کا شکار کئی آئینے ہوئے

اس وہم کا شکار کئی آئینے ہوئے

ڈرتا ہوں اپنے آپ کو پہچانتے ہوئے

بنجر زمیں کو بارشِ رحمت کا آسرا

سرسبز وادیوں پہ ہیں بادل جھکے ہوئے

چہروں کی آب و تاب پہ بھرپور طنز ہیں

شیشوں میں رنگ رنگ کے پتھر سجے ہوئے

منزل کے سنگِ میل سمجھتے ہیں راہرو

اس فصل سے ہیں راہ میں کتبے لگے ہوئے

اے حسنِ دوست آج تو آئینہ دیکھ لوں

اک عمر ہو گئی مجھے خود سے ملے ہوئے

٭٭٭






غم جو رعنائیِ احساس میں ڈھل جاتے ہیں

غم جو رعنائیِ احساس میں ڈھل جاتے ہیں

گیت بن کر لبِ شاعر پہ مچل جاتے ہیں

دوستو نیّتِ صیّاد پہ تم شک نہ کرو

بس یونہی تیر کمانوں سے نکل جاتے ہیں

محو رہتا ہوں تو ہے شورِ قیامت سر پر

چونکتا ہوں تو یہ خوابوں کے محل جاتے ہیں

وضع کرنے لگے تعمیرِ نشیمن کے اصول

وہ جو بجلی کے تصور سے دہل جاتے ہیں

زندگی بچ کے نکلتی ہے کدھر سے دیکھیں

جتنے رستے ہیں سبھی سوئے اجل جاتے ہیں

دیدہ و دل کو سلگتے ہوئے اشکوں سے بچا

یہ وہ شیشے ہیں جو پانی سے پگھل جاتے ہیں

راحتِ گریہء غم قلبِ حزیں سے پوچھو

اشک بہتے ہیں تو کانٹے سے نکل جاتے ہیں

٭٭٭






کب ، کہاں ، کیسے لُٹے یاد نہیں

کب ، کہاں ، کیسے لُٹے یاد نہیں

حادثے اتنے ہوئے یاد نہیں

مجھ سے دنیا کی حقیقت سن لو

کوئی افسانہ مجھے یاد نہیں

حشر کیا تیری تمنا کا ہوا

تجھے معلوم ، مجھے یاد نہیں

دل تو احسان اٹھاتا ہی رہا

زخم کس کس نے دئیے یاد نہیں

ہر روش پھول کھلے تھے لیکن

ہم نے کیوں خار چنے یاد نہیں

گُم کہاں ہوں وہ بتائے سب کو

میں جو پوچھوں تو کہے یاد نہیں

خیر دنیا سے تو ہم خود ہی کھنچے

آپ کیوں ہم سے کھنچے یاد نہیں

زندگی موت کے سائے میں کٹی

کس خرابے میں رہے یاد نہیں

مدتوں پاؤں زمیں پر نہ ٹکے

کن ہواؤں میں اڑے یاد نہیں

٭٭٭






عجب خود آگہی کے مرحلے ہیں

عجب خود آگہی کے مرحلے ہیں

ہم اپنے سائے میں حیراں کھڑے ہیں

مِری آنکھیں تو پیاسی ہیں سحر کی

ستارے کیوں اترتے آرہے ہیں

نہیں یہ خواب کا عالم نہیں ہے

یہ سب منظر تو جیتے جاگتے ہیں

دیارِ شب کے سنّاٹے میں ہم نے

نگارِ صبح کے نغمے سنے ہیں

ابھی کچھ رنگ ہیں دل بستگی کے

ابھی کچھ خواب آنکھوں میں سجے ہیں

اُلجھتی جا رہی ہے ذہن کی رَو

کہانی میں کئی موڑ آ چکے ہیں

یہ سورج کس لئے جلتا ہے دن بھر

ستارے رات بھر کیوں جاگتے ہیں

یہ چھوٹا سا جزیرہ رہ گیا ہے

اِسے بھی ہم ڈبونے پر تُلے ہیں

٭٭٭

ٹائپنگ اور ترتیب: مہ جبین (رکن اردو محفل)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔