تم نے دھرتی کے ماتھے پہ افشاں چُنی
خود اندھیری فضاؤں میں پلتے رہے
تم نے دنیا کے خوابوں کی جنت بُنی
خود فلاکت کے دوزخ میں جلتے رہے
تم نے انسان کے دل کی دھڑکن سُنی
اور خود عمر بھر خوں اُگلتے رہے
جنگ کی آگ دنیا میں جب بھی جلی
امن کی لوریاں تم سناتے رہے
جب بھی تخریب کی تُند آندھی چلی
روشنی کے نشاں تم دکھاتے رہے
تم سے انساں کی تہذیب پھولی پھلی
تم مگر ظلم کے تیر کھاتے رہے
تم نے شہکار خونِ جگر سے سجائے
اور اس کے عوض ہاتھ کٹوا دیئے
تم نے دنیا کو امرت کے چشمے دکھائے
اور خود زہرِ قاتل کے پیالے پیے
تم مرے تو زمانے کے ہاتھوں سے وائے
تم جیے تو زمانے کی خاطر جیے
تم پیمبر نہ تھے عرش کے مدعی
تم نے دنیا سے دنیا کی باتیں کہیں
تم نے ذروں کو تاروں کی تنویر دی
تم سے گو اپنی آنکھیں بھی چھینی گئیں
تم نے دُکھتے دلوں کی مسیحائی کی
اور زمانے سے تم کو صلیبیں ملیں
کاخ و دربار سے کوچۂ دار تک
کل جو تھے آج بھی ہیں وہی سلسلے
جیتے جی تو نہ پائی چمن کی مہک
موت کے بعد پھولوں کے مرقد ملے
اے مسیحاؤ! یہ خود کشی کب تلک
ہیں زمیں سے فلک تک بڑے فاصلے
٭٭٭
بہت حسیں سہی تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن، مجھے جمال ترا
مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم
ترے نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری
لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
ہم اس قبیلۂ وحشی کہ دیوتا ہیں کہ جو
پجاریوں کی عقیدت پہ پھول جاتے ہیں
اور ایک رات کے معبود صبح ہوتے ہی
وفا پرست صلیبوں پہ جھول جاتے ہیں
٭٭٭
میں ایک برگِ خزاں کی مانند
کب سے شاخِ نہالِ غم پر
لرز رہا ہوں
مجھے ابھی تک ہے یاد وہ جاں فگار ساعت
کہ جب بہاروں کی آخری شام
مجھ سے کچھ یوں لپٹ کے روئی
کہ جیسے اب عمر بھر نہ دیکھے گا
ہم میں ایک دوسرے کو کوئی
وہ رات کتنی کڑی تھی
جب آندھیوں کے شب خوں سے
بوئے گل بھی لہو لہو تھی
سحر ہوئی جب تو پیڑ یوں خشک و زرد رُو تھے
کہ جیسے مقتل میں میرے بچھڑے ہوئے رفیقو ں کی
زخم خوردہ برہنہ لاشیں
گڑی ہوئی ہیں
میں جانتا تھا
کہ جب یہ بوجھل اشجار
جن کی کہنہ جڑیں زمیں کی عمیق گہرائیں میں برسوں سے جا گزیں تھیں
ہجومِ صرصر میں چند لمحے یہ ایستادہ نہ رہ سکے تو
میں ایک برگِ خزاں بھی
شاخِ نہالِ غم پر رہ سکوں گا
وہ ایک پل تھا کہ ایک رُت تھی
مگر مرے واسطے بہت تھی
مجھے خبر ہے کہ کل بہاروں کی اوّلیں صبح
پھر سے بے برگ و بار شاخوں کو
زندگی کی نئی قبائیں عطا کرے گی
مگر مرا دل دھڑک رہا ہے
مجھے، جسے آندھیوں کی یورش
خزاں کے طوفاں نہ چھُو سکے تھے
کہیں نسیمِ بہار۔۔۔شاخِ نہالِ غم سے
جُدا نہ کر دے
٭٭٭
دیکھے ہی نہیں وہ لب و رخسار و گیسو
بس ایک کھنکتی ہوئی آواز کا جادو
حیران پریشاں لیے پھرتا ہے بہر سُو
پابندِ تصور نہیں وہ جلوۂ بے تاب
ہو دُور تو جگنو ہے قریب آئے تو خوشبو
لہرائے تو شعلہ ہے چھنک جائے تو گھنگرو
باندھے ہیں نگاہوں نے صداؤں کے بھی منظر
وہ قہقہے جیسے بھری برسات میں کُو کُو
جیسے کوئی قمری سر شمشاد لبِ جُو
اے دل تری باتوں میں کہاں تک کوئی جائے
جذبات کی دنیا میں کہاں سوچ کے پہلو
کب آئے ہیں فتراک میں وحشت زدہ آہُو
مانا کہ وہ لب ہوں گے شفق رنگ و شرر خُو
شاید کہ وہ عارض ہوں گُلِ تر سے بھی خوشرو
دل کش ہی سہی حلقۂ زلف و خمِ ابرو
یہ کس کو خبر کس کا مقدر ہے یہ سب کچھ
خوابوں کی گھٹا دُور برس جائے گی اور تُو
لَوٹ آئے گا لے کر فقط آہیں فقط آنسو
٭٭٭
وہ پیمان بھی ٹوٹے جن کو
ہم سمجھے تھے پایندہ
وہ شمعیں بھی داغ ہیں جن کو
برسوں رکھا تابندہ
دونوں وفا کر کے ناخوش ہیں
دونوں کیے پر شرمندہ
پیار سے پیارا جیون پیارے
کیا ماضی کیا آیندہ
ہم دونوں اپنے قاتل ہیں
ہم دونوں اب تک زندہ ہیں
٭٭٭
بارہا مجھ سے کہا دل نے کہ اے شعبدہ گر
تُو کہ الفاظ سے اصنام گری کرتا ہے
کبھی اُس حُسنِ دل آرا کی بھی تصویر بنا
جو تری سوچ کے خاکوں میں لہو بھرتا ہے
بارہا دل نے یہ آواز سنی اور چاہا!
مان لوں مجھ سے جو وجدان مرا کہتا ہے
لیکن اس عجز سے ہارا مرے فن کا جادو
چاند کو چاند سے بڑھ کر کوئی کیا کہتا ہے
٭٭٭
کس بوجھ سے جسم ٹوٹتا ہے
اِتنا تو کڑا سفر نہیں تھا
دو چار قدم کا فاصلہ کیا
پھر راہ سے بے خبر نہیں تھا
لیکن یہ تھکن یہ لڑکھڑاہٹ
یہ حال تو عمر بھر نہیں تھا
آغازِ سفر میں جب چلے تھے
کب ہم نے کوئی دیا جلایا
کب عہدِ وفا کی بات کی تھی
کب ہم نے کوئی فریب کھایا
وہ شام وہ چاندنی وہ خوشبو
منزل کا کسے خیال آیا
تُو محوِ سخن تھی مجھ سے لیکن
میں سوچ کے جال بُن رہا تھا
میرے لئے زندگی تڑپ تھی
تیرے لئے غم بھی قہقہا تھا
اب تجھ سے بچھڑ کے سوچتا ہوں
کچھ تُو نے کہا تھا! کیا کہا تھا
٭٭٭
اے دل ان آنکھوں پر نہ جا
جن میں وفورِ رنج سے
کچھ دیر کو تیرے لئے
آنسو اگر لہرا گئے
یہ چند لمحوں کی چمک
جو تجھ کو پاگل کر گئی!
اِن جگنوؤں کے نُور سے
چمکی ہے کب وہ زندگی
جس کے مقدر میں رہی
صبحِ طلب سے تیرگی
کس سوچ میں گم سم ہے تُو
اے بے خبر! نادان نہ بن
تیری فسردہ روح کو
چاہت کے کانٹوں کی طلب
اور اس کے دامن میں فقط
ہمدردیوں کے پھول ہیں
٭٭٭
وہ چاند جو میرا ہم سفر تھا
دُوری کے اجاڑ جنگلوں میں
اب میری نظر سے چھپ چکا ہے
اِک عمر سے میں ملول و تنہا
ظلمات کی راہگزار میں ہوں
میں آگے بڑھوں کہ لَوٹ جاؤں
کیا سوچ کہ انتظار میں ہوں
کوئی بھی نہیں جو یہ بتائے
میں کون ہوں کس دیار میں ہوں
٭٭٭
اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہیروں کی طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے میں تنہا
مجبور، نڈھال، زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے پہ اجاڑ زندگی کے
لمحات کی اَن گنت خراشیں
آنکھوں کے شکستہ مرقدوں میں
روٹھی ہوئی حسرتوں کی لاشیں
سانسوں کی تھکن بدن کی ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو بولے
ہاتھوں میں کہاں سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پیکروں کو چھُو لے
یہ زخمِ طلب یہ نامرادی
ہر بُت کہ لبوں پہ ہے تبسم
اے تیشہ بدست دیوتاؤ!
تخلیق عظیم ہے کہ خالق
انسان جواب چاہتا ہے
٭٭٭
غریبِ شہر تری دُکھ بھری نوا پہ سلام
تری طلب، تری چاہت تری وفا پہ سلام
ہر ایک حرفِ تمنائے دلربا پہ سلام
حدیثِ درد و سکوتِ سخن ادا پہ سلام
دریدہ دل! ترے آہنگ سازِ غم پہ نثار
گہر فروش! ترے رنگ چشمِ نم پہ نثار
جنوں کا شہر ہے آباد فصلِ دار کی خیر
ہر ایک دل ہے گریباں بھری بہار کی خیر
بجھے ہیں بام مگر شمع رہگزر کی خیر
تمام عمر تو گزرے اس انتظار کی خیر
رخِ نگار و غمِ یار کو نظر نہ لگے
گلہ نہیں ہے اگر آنکھ عمر بھر نہ لگے
دل و نظر کی شکستوں کا کیا شمار کریں
شمارِ زخم عبث ہے نجات سے پہلے
کچھ اور دیدۂ خوں رنگ کو گلاب کریں
صبا کا ذکر قیامت ہے، رات سے پہلے
ابھی لبوں پہ حکایاتِ خوں چکیدہ سہی
بہ سینہ رہ سپرم دست و پا بریدہ سہی
٭٭٭
میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں
اپنے اپنے دکھ کی تاریکی لیے
تم آ گئے کیوں میرے پاس
غم کے انباروں کو کاندھے پر دھرے
بوجھل صلیبوں کی طرح
آشفتہ مو افسردہ رو خونیں لباس
ہونٹ محرومِ تکلم پر سراپا التماس
اس تمنا پر کہ تم کو مل سکے
غم کے انباروں کے بدلے
مسکراہٹ کی کرن---جینے کی آس
میں مگر کرنوں کا سوداگر نہیں
میں نہیں جوہرِ شناس
صورتِ انبوہِ دریوزہ گراں
سب کے دل ہیں قہقہوں سے چُور
لیکن آنکھ سے آنسو رواں
سب کے سینوں میں امیدوں کے چراغ
اور چہروں پر شکستوں کا دھواں
زندگی سب سے گریزاں
سوئے مقتل سب رواں
سب نحیف و ناتواں
سب کے سب اک دوسرے کے ہمسفر
اِک دوسرے سے بدگماں
سب کی آنکھوں میں خیالِ مرگ سے خوف و ہراس
میری باتوں سے میری آواز سے
تم نے یہ جانا کہ میں بھی
لے کے آیا ہوں تمہارے واسطے وہ معجزے
جن سے بھر جائیں گے پل بھر میں تمہارے
اَن گنت صدیوں کے لا تعداد زخم
دم بخود سانسوں کو ٹھہرائے ہوئے بے جان جسم
منتظر ہیں قم باذنی کی صدائے سحر کے
ایشیا پیغمبروں کی سر زمیں
اور تم اس کے زبو ں قسمت مکیں....تیرہ جبیں
من و سلویٰ کے لئے دامن کشا
قحط خوردہ زار و بیمار و حزیں
صرف تقدیر و توکل پر یقیں
تم کو شیرینِ طلب کی چاہ لیکن بے ستونِ غم کی سل کو
چیرے کا حوصلہ، یارا نہیں
تم یدِ بیضا کے قائل، بازوئے فرہاد کی قوت سے بہرہ ور نہیں
تم کہ ہو کہنہ گرفتہ....زندگی سے دُور
مردہ ساحروں کی بے نشا ں قبرو ں کے سجادہ نشیں
خاک داں کی اس گلِ تاریک کا
میں بھی اک پیکر ہوں، پیکر گر نہیں
میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں
ریت کے تپتے ہوئے ٹیلوں پہ استادہ ہو تم
سایۂ ابرِ رواں کو دیکھتے رہنا تمہارا جزوِ دیں
سات قلزم موجزن چاروں طرف
اور تمہارے بخت میں شبنم نہیں
اپنے اپنے دکھ کی بوجھل گٹھریوں کو
تم نے کھولا ہے کبھی؟
اپنے ہم جنسوں کے سینوں کو ٹٹولا ہے کبھی؟
سب کی روحیں گرسنہ....سب کی متاعِ درد میں
دوسروں کا خون پینے ہوس
ایک کا دکھ دوسرو ں سے کم نہیں
ایک کا دکھ تشنگی، بیچارگی
دوسروں کا دکھ مگر افراطِ مے....دیوانگی
پیاس اور نشے کا دکھ
اپنے انباروں سے مل کر چھانٹ لو
پیاس اور نشے کا دکھ اک دوسرے میں بانٹ لو
پھر تمہاری زندگی شاید نہ ہو
شاکیِ عرشِ بریں و رحمت اللعالمین
میں کوئی کرنوں کا سوداگر نہیں
٭٭٭
خدائے برتر
مری محبت
تری محبت کی رفعتوں سے عظیم تر ہے
تری محبت کا در خورِ اعتنا
فقط بیکراں سمندر
کہ جس کی خاطر
سدا تری رحمتوں کے بادل
کبھی کسی آبشار کی نغمگی کے موتی
کبھی کسی آبجو کے آنسو
کبھی کسی جھیل کے ستارے
کہیں سے شبنم کہیں سے چشمے کہیں سے دریا اُڑا کے لائے
کہ تیرے محبوب کو جلال و جمال بخشیں
تری محبت تو اس شہنشاہ کی طرح ہے
جو دوسروں کے ہنر سے، خونِ جگر سے
اپنی وفا کو دوام بخشے
مگر مری بے بساط چاہت
فقط مرے آنسوؤں سے
مرے لہو سے۔۔۔۔ میری ہی آبرو سے
رہی ہے زندہ
اگرچہ اس بے بضاعتی نے
مجھے ہمیشہ شکست دی ہے
مگر یہ ناکامیِ تماشا بھی
اس محبت سے کامراں تر عظیم تر ہے
جو اپنی سطوت کے بل پر
اوروں کی آہ و زاری سے
اپنے جذبِ وفا کی تشہیر چاہتی ہے
مری محبت نے
جو بھی نامِ حبیب سے کر دیا معنون
وہ حرف میرا ہے، میرا اپنا ہے
اے خدائے بزرگ و برتر
٭٭٭
اے دل! اپنے درد کے کارن تو کیا کیا بیتاب رہا
دن کے ہنگاموں میں ڈوبا راتوں کو بے خواب رہا
لیکن تیرے زخم کا مرہم تیرے لئے نایاب رہا
پھر اک انجانی صورت نے تیرے دکھ کے گیت سُنے
اپنی سندرتا کی کرنوں سے چاہت کے خواب بُنے
خود کانٹوں کی باڑھ سے گزری تیری راہ میں پھول چُنے
اے دل جس نے تیری محرومی کے داغ کو دھویا تھا
آج اُس کی آنکھیں پرنم تھیں اور تُو سوچ میں کھویا تھا
دیکھ پرائے دکھ کی خاطر تُو بھی کبھی یوں رویا تھا؟
٭٭٭
آ گئی پھر وہی پہاڑ سی رات
دوش پر ہجر کی صلیب لیے
ہر ستارہ ہلاکِ صبحِ طلب
منزلِ خواہشِ حبیب لیے
اس سے پہلے بھی شامِ وصل کے بعد
کاروانِ دل و نگاہ چلا
اپنی اپنی صلیب اٹھائے ہوئے
ہر کوئی سوئے قتل گاہ چلا
کتنی بانہوں کی ٹہنیاں ٹوٹیں
کتنے ہونٹوں کے پھول چاک ہوئے
کتنی آنکھوں سے چھن گئے موتی
کتنے چہروں کے رنگ خاک ہوئے
پھر بھی ویراں نہیں کوئے مراد
پھر بھی شب زندہ دار ہیں زندہ
پھر بھی روشن ہے بزم رسمِ وفا
پھر بھی ہیں کچھ چراغ تابندہ
وہی قاتل جو اپنے ہاتھوں سے
ہر مسیحا کو دار کرتے ہیں
پھر اسی کی مراجعت کے لیے
حشر تک انتظار کرتے ہیں
٭٭٭
میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے
میں نے کب تیرے سراپا کی حکایات کہیں
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے
جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوے لوگ
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے
میں کہ شاعر تھا مرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں
مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں
میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیاں کی خاطر
ہر حسیں لفظ کو درِ مدحِ رخِ یار کہوں
میرے دل میں بھی کھلے ہیں تری چاہت کے کنول
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے
گر مجھے ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
تو ہے وہ شمع کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے
میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نہ مجھ سا کوئی
ورنہ شوریدگیِ شوق تو دیوانہ کرے
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار
تیرے پیمانِ وفا سے مرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
تیرے غم نے مرے وجدان کو بخشی وہ کسک
مرے دشمن مرے قاتل ، مرے احباب نثار
میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا
تیرے دکھ سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا
میرے پیکر میں تری ذات گھلی ہے اتنی
کہ مرا جسم مری روح نہیں تیرے سوا
میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا
در حقیقت کوئی ممدوح نہیں تیرے سوا
٭٭٭
نگارِ گل تجھے وہ دن بھی یاد ہوں شاید
کہ جن کے ذکر سے اب دل پہ تازیانہ لگے
تری طلب میں وہ دار و رسن کے ہنگامے
کہ جن کی بات کریں بھی تو اب فسانہ لگے
بقدرِ ذوق جلاتے رہے لہو کے چراغ
کہ تُو جب آئے تو یہ گھر نگار خانہ لگے
اِسی خیال سے ہر زخم اپنے دل پہ سہا
کہ تجھ کو گردشِ ایّام کی ہوا نہ لگے
مگر جو گزری ہے ہم پر ترے حصول کے بعد
وہ حالِ غم بھی کہیں ، گر تجھے بُرا نہ لگے
نگارِ گُل وہ ہمیں تھے ترے تمنائی
کہ جن کے خوں سے ترے رنگ تابناک ہوئے
ہمیں ہیں جن سے قبا تیری لالہ رنگ ہوئی
ہمیں ہیں وہ جو تری رہگزر میں خاک ہوئے
خزاں تو خیر ستم کیشیوں کی رُت تھی مگر
بہار میں بھی ہمارے جگر ہی چاک ہوئے
ہمیں منارۂ کسریٰ کو توڑنے والے
ترے حریم میں آ کر ہمیں ہلاک ہوئے
نگارِ گُل یہ تقاضا مگر وفا کا ہے
کہ اب بھی ہم ترے وعدوں کا اعتبار کریں
گزر گئی جو گزرنی تھی سخت جانوں پر
پھر آج تیری جفاؤں کا کیا شمار کریں
الم گزیدہ سہی پیرہن دریدہ سہی
مگر لبوں پہ غمِ دل نہ آشکار کریں
یہی اصول رہا ہے وفا پرستوں کا
ہر ایک حال میں توصیفِ حسنِ یار کریں
جبیں سے دھو کے ہر اک نقش نامرادی کا
نگارِ گُل ترے جلووں کا انتظار کریں
٭٭٭
عمر گزری ہے سجاتے ہوئے بام و در کو
اس تمنا پہ کہ وہ جانِ بہار آئے گی
فرشِ رہ دیدہ و دل تھے کہ وہ آسودہ خرام
درد کی آگ کو گلزار بنا جائے گی
اس توقع پہ خرابے رہے آغوش کشا
کھل کے برسے گی اگر اب کے گھٹا چھائے گی
ایک اک لمحہ قیامت کی طرح گزرا ہے
آخر کار وہ محبوبِ نظر بھی آئی
منتظر آنکھیں تو پتھرا ہی چکی تھیں لیکن
کشتگانِ شبِ فرقت کی سحر بھی آئی
جسم کیوں شل ہیں دھڑکتے ہوئے دل کیوں چپ ہیں
جرسِ گل کی تو آواز ادھر بھی آئی
آج پھر کرتے ہو کس زعم پہ زخموں کا شمار
سر پھرو! وادی پُر خار میں یہ تو ہو گا
کیوں نگاہوں میں ہے افسردہ چراغوں کا دھُواں
آرزوئے لب و رخسار میں یہ تو ہو گا
ایک سے ایک کڑی منزلِ جاں آئے گی
رہگزارِ طلبِ یار میں یہ تو ہو گا
ہونٹ سِل جائیں مگر جراتِ اظہار رہے
دل کی آواز کو مدھم نہ کرو دیوانو!
ڈھل چکی رات تو اب کہر بھی چھٹ جائے گی
اب بھی امید کی لو کم نہ کرو دیوانو!
آندھیاں آیا ہی کرتی ہیں ہر اک حبس کے بعد
گل شدہ شمعوں کا ماتم نہ کرو دیوانو!
٭٭٭
دل سلگ اٹھتا ہے اپنے بام و در کو دیکھ کر
پھیلنے لگتی ہیں جب بھی شام کی پرچھائیاں
اس قدر ویران لمحے، اس قدر سنسان رات
سوچ میں گم ہیں اُفق سے تا اُفق پہنائیاں
کس لیے روشن کروں دیوار و در کوئی تو ہو
گنگ دیواروں میں کیا ہوں انجمن آرائیاں
درد ہر شب جاگ اٹھتے ہیں کئی ماہ و نجوم
آگ بھڑکاتی ہیں سنگ و خشت کی رعنائیاں
راستوں سے خاب گاہوں تک مسلسل موجِ رنگ
جس طرح قوسِ قزح کی ٹوٹتی انگڑائیاں
زخمِ نظارہ لیے آنکھوں میں چپ تکتا رہا
گو مری نیندیں بھی مجھ سے لے اڑیں شہنائیاں
کل ذرا سی دیر چمکے تھے مرے دیوار و در
جھلملا اٹھیں تھیں میری روح کی گہرائیاں
چند لمحوں کے لئے لو دے اٹھا تھا اک چراغ
اور دمک اٹھی تھیں کچھ لمحے مری تنہائیاں!
آج اتنا شور کیوں ہے اے مرے بیدرد شہر
ہر نظر میری طرف ہے اس قدر رسوائیاں؟
٭٭٭
جب تیری اداس انکھڑیوں میں
پل بھر کو چمک اٹھے تھے آنسو
کیا کیا نہ گزر گئی تھی دل پر!
جب میرے لیے ملول تھی تو
کہنے کو وہ زندگی کا لمحہ
پیمانِ وفا سے کم نہیں تھا
ماضی کی طویل تلخیوں کا!
جیسے مجھے کوئی غم نہیں تھا
تو! میرے لیے! اداس اتنی
کیا تھا یہ اگر کرم نہیں تھا
تو آج بھی میرے سامنے
آنکھوں میں اداسیاں نہ آنسو
ایک طنز ہے تیری ہر ادا میں
چبھتی ہے ترے بدن کی خوشبو
یا اب مرے زخم بھر چکے ہیں
یا سب مرا زہر پی چکی تُو
٭٭٭
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو
میں نے مانا کہ وہ بیگانۂ پیمانِ وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب کے لوٹ کے نہ آئے تری محفل میں
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں
میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شمعیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ
پھر بھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتے ہیں
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارا کر لے
تو کہ معصوم بھی ہے زور فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارا کر لے
اور میں، جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں
٭٭٭
دور اک شہر سے جب کوئی بھٹکتا بادل
میری جلتی ہوئی بستی کی طرف آئے گا
کتنی حسرت سے اسے دیکھیں گی پیاسی آنکھیں
اور وہ وقت کی مانند گزر جائے گا
جانے کس سوچ میں کھو جائے گی دل کی دنیا
جانی کیا کیا مجھے بیتا ہُوا یاد آئے گا
اور اس شہر کا بے فیض بھٹکتا بادل
درد کی آگ کو پھیلا کے چلا جائے گا
٭٭٭
میں بھی چپ ہو جاؤں گا بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ
اور کچھ لمحے ٹھہر ! اے زندگی ! اے زندگی!
جب تلک روشن ہیں آنکھوں کے فسردہ طاقچے
نیلگوں ہونٹوں سے پھوٹے گی صدا کی روشنی
جسم کی گرتی ہوئی دیوار کو تھامے ہوئے
موم کے بُت آتشیں چہرے سُلگتی مُورتیں
میری بینائی کی یہ مخلوق زندہ ہے ابھی
اور کچھ لمحے ٹھہر! اے زندگی ! اے زندگی!
ہو تو جانے دے مرے لفظوں کو معنی سے تہی
میری تحریریں ، دھوئیں کی رینگتی پرچھائیاں
جن کے پیکر اپنی آوازوں سے خالی بے لہو
محو ہو جانے تو دے یا دوں سے خوابوں کی طرح
رک تو جائیں آخری سانسوں کی وحشی آندھیاں
پھر ہٹا لینا مرے ماتھے سے تُو بھی اپنا ہاتھ
میں بھی چپ ہو جاؤں گا بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ
اور کچھ لمحے ٹھہر ! اے زندگی ! اے زندگی!
٭٭٭
پھر چلے آئے ہیں ہمدم لے کے ہمدردی کے نام
آہوئے رَم خوردہ کی وحشت بڑھانے کے لیے
میرے دل سے تیری چاہت کو مٹانے کے لیے
چھیڑ کر افسانۂ ناکامیِ اہلِ وفا
تیری مجبوری کے قصے میری بربادی کی بات
اپنی اپنی سرگزشتیں دوسروں کے تجربات
اُن کو کیا معلوم لیکن تیری چاہت کے کرم
میری تنہائی کے دوزخ میری جنت کے بھرم
تیری آنکھوں کا وفا آمیز افسردہ خیال
کاش اتنا سوچ سکتے غم گساروں کے دماغ
یہ تو جب ممکن ہے جب بجھ جائے ہر آنسو ہر چراغ
خود کو اِن میں دفن کر دوں، بھول جاؤں اپنا نام
٭٭٭
تم نے جس دن کے لیے اپنے جگر چاک کیے
سو برس بعد سہی دن تو وہ آیا آخر
تم نے جس دشتِ تمنا کو لہو سے سینچا
ہم نے اُس کو گل و گلزار بنایا آخر
نسل در نسل رہی جہدِ مسلسل کی تڑپ
ایک اک بُوند نے طوفان اٹھایا آخر
تم نے اک ضرب لگائی تھی حصارِ شب پر
ہم نے ہر ظلم کی دیوار کو ڈھایا آخر
وقت تاریک خرابوں کا وہ عفریت ہے جو
ہر گھڑی تازہ چراغوں کا لہو پیتا ہے
زلفِ آزادی کے ہر تار سے دستِ ایّام
حریت کیش جوانوں کے کفن سیتا ہے
تم سے جس دورِ المناک کا آغاز ہُوا
ہم پہ وہ عہدِ ستم ایک صدی بیتا ہے
تم نے جو جنگ لڑی ننگِ وطن کی خاطر
مانا اس جنگ میں تم ہارے عدو جیتا ہے
لیکن اے جذبِ مقدس کے شہیدانِ عظیم
کل کی ہار اپنے لیے جیت کی تمہید بنی
ہم صلیبوں پہ چڑھے زندہ گڑے پھر بھی بڑھے
وادیِ مرگ بھی منزل گہہِ امید بنی
ہاتھ کٹتے رہے پر مشعلیں تابندہ رہیں
رسم جو تم سے چلی باعثِ تقلید بنی
شب کے سفّاک خداؤں کو خبر ہو کہ نہ ہو
جو کرن قتل ہوئی شعلۂ خورشید بنی
٭٭٭
وہ شب کہ جس میں ترا شعلۂ نوا لپکا
ڈھلی تو ماتمِ یک شہرِ آرزو بھی ہُوا
وہ رُت کہ جس میں ترا نغمۂ جنوں گونجا
کئی تو سازِ تمنا لہُو لہُو بھی ہُوا
یہی بہت تھا کوئی منزلِ طلب تَو ملی
کہیں تو مژدۂ قربِ حریمِ یار ملا
ہزار شکر کہ طعنِ برہنگی تو گیا
اگرچہ پیرہنِ شوق تار تار ملا
خیال تھا کہ شکستِ قفس کے بعد بھی ہم
ترے پیام کے روشن چراغ دیکھیں گے
رہے گا پیشِ نظر تیرا آئینہ جس میں
ہم اپنے ماضی و فردا کے داغ دیکھیں گے
مگر جو حال طلوعِ سحر کے بعد ہُوا
جو تیرے درس کی تحقیر ہم نے دیکھی ہے
بیاں کریں بھی تو کس سے،کہیں تو کس سے کہیں
جو تیرے خواب کی تعبیر ہم نے دیکھی ہے
مدبروں نے وفا کے چراغ گُل کر کے
دراز دستیِ جاہ و چشم کو عام کیا
مفکروں نے فقیہوں کی دل دہی کے لیے
خودی کی مے میں تصوف کا زہر گھول دیا
وہ کم نظر تھے کہ نادان تھے کہ شعبدہ گر
جو تجھ کو جن و ملائک کا ترجماں سمجھے
تری نظر میں ہمیشہ زمیں کے زخم رہے
مگر یہ تجھ کو مسیحائے آسماں سمجھے
عروجِ عظمتِ آدم تھا مدّعا تیرا
مگر یہ لوگ نقوشِ فنا اُبھارتے ہیں
کس آسماں پہ ہے تُو اے پیمبرِ مشرق
زمیں کے زخم آج بھی تجھے پکارتے ہیں
٭٭٭
کس تمنا سے یہ چاہا تھا کہ اک روز تجھے
ساتھ اپنے لیے اس شہر کو جاؤں گا جسے
مجھ کو چھوڑے ہوئے بھولے ہوئے اک عمر ہوئی
ہائے وہ شہر کہ جو میرا وطن ہے پھر بھی
اُس کی مانوس فضاؤں سے رہا بیگانہ
میرا دل میرے خیالوں کی طرح دیوانہ
آج حالات کا یہ طنزِ جگر سوز تو دیکھ
تو مرے شہر کے اک حجلۂ زریں میں مکیں
اور میں پردیس میں جاں دادۂ یک نانِ جویں
٭٭٭
سسکیاں لینے سے کیا فائدہ اے زینتِ شب
دیکھ اس ہنستی ہوئی رات کو افسردہ نہ کر
تیرا رونا تجھے تسکین تو دے سکتا ہے
لیکن اس انجمنِ عیش کو آزردہ نہ کر
مجھ پہ روشن ہے ترے سوئے ہوئے درد کی آگ
جبر کی بادہ گساری سے بھڑک اٹھی ہے
تیری کچلی ہوئی غیرت تری روندی ہوئی روح
اک حقارت بھری ٹھوکر سے پھڑک اٹھی ہے
اور یہ توہین ترے جسم کی توہین نہ تھی
ورنہ یہ زہر تو ہنس ہنس کے پیا ہے تُو نے
وقفِ گردش رہی ساغر کی طرح دست بدست
بزم کی بزم کو سرشار کیا ہے تُو نے
تُو نے ہر جلتی ہوئی روح کو گلزار کیا
تُو ہر اک ہاتھ میں غنچے کی طرح چٹکی ہے
تُو نے ہر دوش پہ بکھرائی ہیں اپنی زلفیں
تُو ہر آغوش میں خوشبو کی طرح بھٹکی ہے
مگر امشب ترے احساس پہ وہ چوٹ پڑی
تلخ فاقوں کی اذیت بھی بھلا دی جس نے
تیرے کردار کے صحرا سے وہ آندھی اٹھی
فکر فردا کی بھی دیوار گرا دی جس نے
تجھ کو معلوم نہیں ہے مگر اے دشمنِ جاں
اس تجارت سے عبارت تری شخصیت ہے
جسم سے لے کے تری روح تلک آج کی رات
یا مری یا مرے احباب کی ملکیت ہے
٭٭٭
کتنی صدیوں کے انتظار کے بعد
قربتِ یک نفس نصیب ہوئی
پھر بھی تو چُپ اداس کم آمیز
اے سلگتے ہوئے چراغ بھڑک
درد کی روشنی کو چاند بنا
کہ ابھی آندھیوں کا شور ہے تیز
ایک پل مرگِ جاوداں کا صلہ
اجنبیت کے زہر میں مت گھول
مجھ کو مت دیکھ لیکن آنکھ تو کھول
٭٭٭
سرد پلکوں کی صلیبوں سے اتارے ہوئے خواب
ریزہ ریزہ ہیں مرے سامنے شیشوں کی طرح
جن ٹکڑوں کی چبھن،جن کی خراشوں کی جلن
عمر بھر جاگتے رہنے کی سزا دیتی ہے
شدتِ کرب سے دیوانہ بنا دیتی ہے
آج اِس قرب کے ہنگام وہ احساس کہاں
دل میں وہ درد نہ آنکھوں میں چراغوں کا دھواں
اور صلیبوں سے اتارے ہوئے خوابوں کی مثال
جسم گرتی ہوئی دیوار کی مانند نڈھال
تُو مرے پاس سہی اے مرے آزردہ جمال
٭٭٭
چھوڑ پیمانِ وفا کی بات شرمندہ نہ کر
دوریاں ، مجبوریاں ،رسوائیاں ، تنہائیاں
کوئی قاتل ، کوئی بسمل ، سسکیاں ، شہنائیاں
دیکھ یہ ہنستا ہوا موسم ہے موضوعِ نظر
وقت کی رَو میں ابھی ساحل ابھی موجِ فنا
ایک جھونکا،ایک آندھی،اک کرن،اک جوئے خوں
پھر وہی صحرا کا سناٹا وہی مرگِ جنوں
ہاتھ ہاتھوں کا اثاثہ ، ہاتھ ہاتھوں سے جدا
جب کبھی آئے گا ہم پر بھی جدائی کا سماں
ٹوٹ جائے گا مرے دل میں کسی خواہش کا تیر
بھیگ جائے گی تری آنکھوں میں کاجل کی لکیر
کل کے اندیشوں سے اپنے دل کو آزردہ نہ کر
دیکھ یہ ہنستا ہوا موسم ،یہ خوشبو کا سفر
٭٭٭
اور جب ہو گا ترازو ہجر کے ترکش کا تیر
مختلف ہوں گے تو کتنے دوسرے لوگوں سے ہم
جو چلے تھے کوچۂ جاناں سے مقتل کی طرف
بے نیازِ سنگِ خلقت، بے غمِ تیغِ ستم
اپنے اپنے شوقِ بے پرواہ کی باراتیں لیے
دردِ وارفتہ کی شمعوں کو جلائے ہر قدم
اُن میں ہر اک با وفا ،ثابت قدم،زندہ ضمیر
اُن کی آنکھیں ریزہ ریزہ اُن کی جانیں زخم زخم
اُن کے آنسو کانچ کے تابوت ریشم کے کفن
اُن میں خوابیدہ کسی لیلا کسی شیریں کا خواب
اُن میں آسودہ جنونِ قیس و خونِ کوہکن
اُن کے ماتھوں پر شکستوں کے نشاں ضربِ عدو
اُن کے ہاتھوں کی لکیروں میں جواں مرگوں کا فن
اُن میں ہر اک تھا کسی دامِ تمنّا کا اسیر
اُن پہ جو گزری وہ گزرے گی ہر اہلِ درد پر
اور ہم دونوں بھی اپنے جرم سے غافل نہیں
تری پیشانی کی سج دھج،میری چاہت کا غرور
گو یا وہ زندہ ہیں جو شرمندۂ قاتل نہیں
پھر بھی کس دامن دریدہ کو یہاں بخشش ملی
اس سفر میں راستوں کے زخم ہیں منزل نہیں
اور ہم دونوں ہیں اَن دیکھے دیاروں کے سفیر
٭٭٭
روز جب دھوپ پہاڑوں سے اترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہوا بڑھتا ہوا بیکل سایہ
ایک دیوار سے کہتا کہ مرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گریزاں دیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا اِستادہ
خواہشِ ہمدمِ دیرینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دیوار ہمیشہ مگر اِستادہ رہی
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گل و خشت کے ملبے کے تلے
اُسی دیوار کا پندار ہے ریزہ ریزہ
دھوپ نکلی ہے مگر جانے کہاں ہے سایہ
٭٭٭
جہانِ لوح و قلم کے مسافرانِ جلیل
ہم اہلِ دشتِ پشاور سلام کہتے ہیں
دلوں کا قرب کہیں فاصلوں سے مٹتا ہے
یہ حرفِ شوق بصد احترام کہتے ہیں
ہزار لفظ و بیان و زباں کا فرق سہی
مگر حدیثِ وفا ہم تمام کہتے ہیں
وہ ماؤؔ ہو کہ لوممباؔ ،سکارنوؔ ہو کہ فیضؔ
سبھی کے لوح و قلم عظمتِ بشر کے نقیب
سب ایک درد کے رشتے میں منسلک بسمل
سبھی ہیں دور نظر سے سبھی دلوں کے قریب
جکارتہ و سراندیپ سے پشاور تک
سبھی کا ایک ہی نعرہ سبھی کی ایک صلیب
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ زندگی اپنی
فضائے دہر میں کیوں موت سے بھی سستی ہے
ہم اہلِ شرق ہیں سورج تراشنے والے
مگر ہماری زمیں نور کو ترستی ہے
یہ کیا کہ جو بھی گھٹا دشت سے ہمارے اٹھے
وہ دور پار سمندر پہ جا برستی ہے
فلک سے اب نہیں اترے گا کوئی پیغمبر
جہانِ آدم و حوا سنوارنے کے لیے
یہاں محمدﷺ و گوتم ، مسیح و کنفیوشس
جلا چکے ہیں بہت آگہی فروز دئیے
مگر ہے آج بھی اپنا نصیب تاریکی
مگر ہے آج بھی مشرق شبِ دراز لیے
ہمیں کو توڑنے ہوں گے صنم قدامت کے
ہمیں کو اب نیا انسان ڈھالنا ہو گا
ہمیں کو اپنے قلم کی ستارہ سازی سے
ہر ایک خطۂ تیرہ اُجالنا ہو گا
ہمیں کو امن کے گیتوں سے میٹھے بولوں سے
مہیب جنگ کی آندھی کو ٹالنا ہو گا
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد بلال اعظم
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید