02:11    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ انتخاب آتش

2536 0 0 00




ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے

ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے

خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے

گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے

بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے

شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی

ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے

عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں

نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے

طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط

کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے

طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن

ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے

جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی

شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے

سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش

عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے

نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے

فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے

نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی

بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے

تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ

ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے

جنوں میں خاک اڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے

شریکِ حال ہمارا غبار راہ میں ہے

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے

کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا

ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے

مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے

خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے

بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا

بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے

پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد

بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے

پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل

اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے

چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک

خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے

تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش

گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے

٭٭٭






تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات

تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات

نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات

اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی

شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات

کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار

سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات

کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا

پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات

راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟

بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات






مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں

مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں

وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں

نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے

انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں

کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں

کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما نہیں

عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں

وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں

یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی

کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں

مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو

کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں

مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا

نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں

مرے آگے اس کو فروغ ہو ، یہ مجال کیا ہے رقیب کی

یہ ہجومِ جلوۂ یار ہے ، کہ چراغِ خانہ کو جا نہیں

چلیں گو کہ سینکڑوں آندھیاں ، جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک

بھڑک اٹھے آتشِ طور پھر، کوئی اس طرح کی دوا نہیں

٭٭٭






آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست

آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست

بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست

حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا

نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست

رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں

رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست

جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو

اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست

آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے

بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست

آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ

شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست

کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،

مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست

آتش! وہی بہار کا عالم ہے باغ میں

تا حال ہے دماغِ ہوائے چمن درست

٭٭٭

آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست

بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست

حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا

نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست

رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں

رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست

جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو

اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست

آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے

بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست

آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ

شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست

کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،

مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست

آتش! وہی بہار کا عالم ہے باغ میں

تا حال ہے دماغِ ہوائے چمن درست






طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا

طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا

یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا

نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو

ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا

شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر

اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا

پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں دکھلائے

حجاب دور ہو، ٹوٹے طلسم گھونگھٹ کا

شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے

پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا

چمن کی سیر میں سنبل سے پہلوانی کی

چڑھا کے پیچ پہ اُن گیسوؤں نے دے پٹکا

کبھی تو ہو گا ہمارے بھی یار پہلو میں

کبھی تو قصد کرے گا زمانہ کروٹ کا

بس اپنی مستی کو گردش ہے چشم ساقی کی

ہمارا پیٹ نہیں‌ہے شراب کا مٹکا

نہ پھول، بیٹھ کے بالائے سرو، اے قمری

چڑھے جو بانس کے اوپر یہ کام ہے نٹ کا

عجب نہیں ہے جو سودا ہو شعر گوئی سے

خراب کرتا ہے آتش زبان کا چٹکا

٭٭٭






فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا

فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا

خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا

امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک

نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا

لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

بناوٹ کیفِ مے سے کھُل گئی اُس شوخ کی آتش

لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا

٭٭٭






حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا

حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا

دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا

دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ

روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا

چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ

ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا

کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل

بند آنکھیں ہو گئیں، آئینہ حیراں رہ گیا

کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل

شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا

شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل

سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا

٭٭٭






ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا

ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا

کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا

صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے

کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا

دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں

حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا

جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے

خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا

نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت

کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا

اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو

دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا

اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے

زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا

حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی

شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا

اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال

روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا

مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا

موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا

انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے

دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا

الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو

طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا

معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن

مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا

پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام

چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا

آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے

یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟

٭٭٭






سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا

کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے

بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟

زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف

قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟

چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر

دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال

ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

صّیاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ

بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے

آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

٭٭٭






یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا

خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا

دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح

شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا

ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب

پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا

جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا

نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا

دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا

صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا

رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے

رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا

سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی

فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا

باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں

گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا

سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے

تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا

تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش

غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا

٭٭٭






یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے

ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ

کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے

سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم

طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا

تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم

اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم

ستارۂ سحری تکمۂ گُلو کرتے

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار

یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

سکھاتے نالۂ شب گیر کو در اندازی

غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی

دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش

برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

٭٭٭






محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو

محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو

جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو

نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے

رخ روشن چھپا کر سب کیا ہے روز روشن کو

اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں

طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو

قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے

ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو

تصور لالہ و گل کا رہا کرتا ہے آنکھوں میں

قفس میں بھی سلام شوق کر لیتے ہیں گلشن کو

سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے

ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو

کمی ہو گی نہ بعد مرگ بھی بے تابیِ دل میں

قیامت تک رہے گا زلزلہ سا میرے مدفن کو

تبسّم میں نظر آنا ترے دنداں کا آفت ہے

چمکنے سے لگاتی ہے یہ بجلی آگ خرمن کو

یہ قصر یار کو پیغام دینا اے صبا میرا

نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری دیواروں کے روزن کو

٭٭٭






خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں‌ آرزو تیری

خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری

پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال

تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری

شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا

خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری

دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے

صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری

مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے

نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری

شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح

چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری

جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں

کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری

کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن

فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری

زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں

رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری

٭٭٭






کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا

کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا

کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا

بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر

کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا

ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا

کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا

پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و تر

قدِ یار سا سروِ موزوں نہ نکلا

رہا سال ہا سال جنگل میں آتِش

مرے سامنے بیدِ مجنوں نہ نکلا

٭٭٭






دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں

گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں

مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے

نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا

تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے

نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے

تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں

دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے

کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے

مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے

٭٭٭






چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتاب آیا

ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا

سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا

اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو

جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا

کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی

حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا

شبِ فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا

جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا

٭٭٭






بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا

بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا

بیچارہ منہ چھپا کے کفن سے نکل گیا

دیکھا جو مجھ غریب کو بولے عدم کے لوگ

مدت سے تھا یہ اپنے وطن سے نکل گیا

عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا

کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟

زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں

دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا

رتبے کو ترے سن کر سبک ہو کے ہر غزال

دیوانہ ہو کے دشت ختن سے نکل گیا

پھر طفل حیلہ کو کا بہانہ نہ مانیو

آتش وہ اب کی بار تو فن سے نکل گیا

٭٭٭






ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کر دل تمام

ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کر دل تمام

کرتی ہے روح مرحلہ آب و گل تمام

درد فراق یار سے کہنا ہے بندنہ

اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام

ہوتا ہے پردھ فاش کلام دروغ کا

وعدے کا دن سمجھ لے وہ پیماں گسل تمام

خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں

ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام

٭٭٭






شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی

شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی

جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی

گزر ہو جو کبھی مرقد غربیاں پر

گھٹائیں پھوٹ بہیں، برق بے قرار ہوئی

پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا

ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی

زمیں کو زلزلہ آئے گا چرغ کو چکر

ہماری روح لحد میں جو بے قرار ہوئی

وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا

نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی

سنا ہے قصۂ مجنوں و وامق و فرہاد

کسی کو عاشق آتش نہ سزا وار ہوئی

٭٭٭






غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا

غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا

زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا

زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں

کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا

خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے

جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا

نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے

پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا

مجھے وہ روشنی خانہ یاد آتا ہے

کسی کے گھر میں ہوں دوست مہماں سنتا

نہال قد کے ہو سودے مین جب سے زرد آتش

تمہارا نام ہوں میں شاخ زعفران سنتا

٭٭٭






گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے

گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے

موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے

اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے

کیا کیا نہیں ہونے کا کیا کیا نہ ہوا ہے

نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد

کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے

یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی

آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے

٭٭٭






معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ

معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ

مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ

صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے

حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ

آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا

خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ

بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر

شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ

کہتا ہے وہ شوخ آئینے میں عکس سے آتش

تم ہم سے زیادہ ہو تو ہم تم سے زیادہ

٭٭٭






تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا

ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا

رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا

گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا

چلے گا کبک کیا رفتار تیری

یہ انداز قدم پایا تو ہوتا

نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو

قیامت قد ترا لایا تو ہوتا

بجا لاتے اسے آنکھوں سے اے دوست

کبھی کچھ ہم سے فرمایا تو ہوتا

سمجھتا یا نہ اے آتش سمجھتا

دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا

٭٭٭






چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا

چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا

رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا

قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا

چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا

شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے

صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا

کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں

کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا

یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے

قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا

بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر

شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا

٭٭٭






پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا

پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا

خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا

جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں

اب کی بہار میں اسے نذر ِ جنوں کیا

فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا

شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا

جوہر وہ کون سا ہے جو انسان میں نہیں

دے کر خدا نے عقل اسے، ذوفنوں کیا

آنکھوں سے جائے اشک ٹپکنے لگا لہو

آتش جگر کو دل کی مصیبت نے خوں کیا

٭٭٭






وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا

وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا

سینکڑوں کوس نہیں صورت ِ انساں پیدا

دل کے آئینے میں کر جوہر ِ پنہاں پیدا

در و دیوار سے ہو صورت ِ جاناں پیدا

باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد

بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا

اب قدم سے ہے مرے خانہ ِ زنجیر آباد

مجھ کو وحدت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا

روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے

جسم ِ خاک سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا

بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم ِ عدم

دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا

اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار

کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا

موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش

ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شب ِ ہجراں پیدا

٭٭٭






روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا

روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا

لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا

شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر

کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا

چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ

غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا

دوست ہی دشمن ِ جاں ہو گیا اپنا آتش

نوش وارو نے کیا یا اثر ِ سم پیدا

٭٭٭






شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا

شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا

بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا

مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی

سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا

وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی

زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا

نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل

وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا

عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل

فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا

بیان خواب کی طرح جو کر رہا ہے

یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا

ٹائپنگ: فرخ منظور، کاشفی (بیشتر کلام) اور دوسرے

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔