تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا
مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا
منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو غور تھا
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا
ق
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا
تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا
آنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھا
کس رات نظر کی ہے سوئے چشمکِ انجم
آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا
آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن
ہونٹوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا
اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ
جو درد و الم تھا سو کہے تُو کہ کہ وہیں تھا
جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں
کُل میرے تصرف میں یہی قطعہ زمیں تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انھوں کا
جن لوگوں کے کل مُلک یہ سب زیرِ نگیں تھا
مسجد میں امام آج ہوا آ کے کہاں سے
کل تک تو یہی میرؔ خرابات نشیں تھا
نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاد وہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا
لطف اگر یہ ہے بتاں صندلِ پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرۂ نورانی کا
کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیحِ سلیمانی کا
درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں
سَیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسفِ زندانی کا
کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی اپنی بھی نادانی کا
وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب
ہم نے سرنامہ کیا کاغذِ افشانی کا
اس کا منھ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا
بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میرؔ ایسی مسلمانی کا
جامۂ مستیِ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
دامنِ تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا
دیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے اب کے بار
راہ سے مے خانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا
بلبلوں نے کیا گُل افشاں میرؔ کا مرقد کیا
دور سے آیا نظر پھولوں کا اک ڈھیر تھا
اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوارِ وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قامت کو کیا ہوا
اس کے گئے پر ایسی گئی دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابرِ کرم کی کیا خجل
اے چشم جوشِ اشک ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بہ کف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تھی صَعت عاشقی کی ہدایت ہی میرؔ پر
کیا جانیے کہ حالِ نہایت کو کیا ہوا
شبِ ہجر میں کم تظلم کیا
کہ ہمسائگاں پر ترحم کیا
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات!
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
زمانے نے مجھ جُرعہ کش کو ندان
کِیا خاک و خشتِ سرِ خم کیا
جگر ہی میں یک قطرۂ خوں سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا
کسو وقت پاتے نہیں گھر اُسے
بہت میرؔ نے آپ کو گم کیا
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جُبہ خرقہ کرتا ٹوپی مستی میں انعام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
بھُولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا
فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
بہ رنگِ سبزۂ نورستہ پائمال کیا
رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اُس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا
بہارِ رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمنِ قدم نے ترے نہال کیا
جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف
کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
دیکھے گا جو تجھ رُو کو سو حیران رہے گا
وابستہ ترے مُو کا پریشان رہے گا
منعم نے بِنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا
پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہے گا
چھوٹوں کہیں ایذا سے لگا ایک ہی جلاد
تا حشر مرے سر پہ یہ احسان رہے گا
چمٹے رہیں گے دشتِ محبت میں سرو تیغ
محشر تئیں خالی نہ یہ میدان رہے گا
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
دل دینے کی ایسی حَرَکت اُن نے نہیں کی
جب تک جیے گا میرؔ پشیمان رہے گا
تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا
بے ہوشِ مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں شام نہ آیا
کس دل سے ترا تیرِ نگہ پار نہ گزرا
کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا
دیکھا نہ اُسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشکِ مہِ عید لبِ بام نہ آیا
سو بار بیاباں میں گیا محملِ لیلیٰ
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا
اب کے جو ترے کوچے سے جاؤں گا توسنیو!
پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا
نَے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ
اپنا تو یہ دل میرؔ کِسو کام نہ آیا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اُس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسمِگل ہم کو تہِ بال ہی گزرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے مرا اشک عقیقِ جگری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا
وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہو گیا
سنبل چمن کا مفت میں پامال ہو گیا
کیا امتدادِ مدتِ ہجراں بیاں کروں
ساعت ہوئی قیامت و مہ سال ہو گیا
دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں
سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہو گیا
قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار
تیرا تو میرؔ غم میں عجب حال ہو گیا
بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا
جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا
پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا
اپنے کیے کا اُن نے ثمرہ شتاب دیکھا
دل کا نہیں ٹھکانا بابت جگر کی گم ہے
تیرے بلا کشوں کا ہم نے حساب دیکھا
آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت
اُس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا
لیتے ہی نام اُس کا سوتے سے چونک اُٹھے ہو
ہے خیر میرؔ صاحب! کچھ تم نے خواب دیکھا!
دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا
آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا
سرکشی ہی ہے جو دکھلاتی ہے اس مجلس میں داغ
ہو سکے تو شمع ساں دیجے رگِ گردن جلا
بدر ساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پر یہ آگ
ورنہ پہلے تھا مرا جوں ماہِ نو دامن جلا
کب تلک دھونی لگائے جوگیوں کی سی رہوں
بیٹھے بیٹھے در پہ تیرے تو مرا آسن جلا
سوکھتے ہی آنسوؤں کے نور آنکھوں سے گیا
بجھ ہی جاتے ہیں دیے جس وقت سب روغن جلا
آگ سی اک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ
دے گی میری ہڈیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا
حالِ دل میرؔ کا رو رو کے سب اے ماہ سنا
شب کو القصہ عجب قصۂ جاں کاہ سنا
کوئی ان طوروں سے گزرے ہے ترے غم میں مری
گاہ تُو نے نہ سنا حال مرا گاہ سنا
خوابِ غفلت میں ہیں یاں سب تُو عبث جاگا میرؔ
بے خبر دیکھا اُنھیں میں جنھیں آگاہ سنا
جب جنوں سے ہمیں توسل تھا
اپنی زنجیر پا ہی کا غُل تھا
بسترا تھا چمن میں جوں بلبل
نالہ سرمایۂ توکل تھا
یک نِگہ کو وفا نہ کی گویا
موسمِ گل صفیرِ بلبل تھا
اُن نے پہچان کر ہمیں مارا
مُنھ نہ کرنا اِدھر تجاہل تھا
اب تو دل کو نہ تاب ہے نہ قرار
یادِ ایام جب تحمل تھا
جا پھنسا دامِ زلف میں آخر
دل نہایت ہی بے تامُّل تھا
یوں گئ قد کے خم ہوئے جیسے
عمر اک رہروِ سرِ پل تھا
خوب دریافت جو کیا ہم نے
وقتِ خوش میرؔ نکہتِ گل تھا
آگے جمالِ یار کے معذور ہو گیا
گُل اک چمن میں دیدۂ بے نور ہو گیا
اک چشمِ منتظر ہے کہ دیکھے ہے کب سے راہ
جوں زخم تیری دوری میں ناسور ہو گیا
پہنچا قریبِ مرگ کے وہ صیدِ نا قبول
جو تیری صید گاہ سے ٹک دور ہو گیا
اُس ماہِ چاردہ کا چھپے عشق کیوں کہ آہ
اب تو تمام شہر میں مشہور ہو گیا
شاید کسو کے دل کو لگی اُس گلی میں چوٹ
میری بغل میں شیشۂ دل چور ہو گیا
دیکھا جو میں نے یار کو وہ میرؔ ہی نہیں
تیرے غمِ فراق میں رنجور ہو گیا
فرہاد ہاتھ تیشے پہ ٹک رہ کے ڈالتا
پتھر تلے کا ہاتھ ہی اپنا نکالتا
بگڑا اگر وہ شوخ تو سنیو کہ رہ گیا
خورشید اپنی تیغ و سپر ہی سنبھالتا
یہ سر تبھی سے گوے ہے میدان عشق کا
پھرتا تھا جن دنوں میں تو گیندیں اچھالتا
بِن سر کے پھوڑے بنتی نہ تھی کوہ کن کے تئیں
خسرو سے سنگِ سینہ کو کس طور ٹالتا
چھاتی سے ایک بار لگاتا جو وہ تو میرؔ
برسوں یہ زخم سینے کا ہم کو نہ سالتا
گل شرم سے بہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
برقعے سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا
گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے
دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعلِ ناب سا
وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا
میں شوق کی افراط سے بے تاب ہوں سیماب سا
دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں
اب عیش روزِ وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا
سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا
ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے
اب سجدے ہی میں گزرے ہے قد جو ہوا محراب سا
تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھتی کبھو
اب دیدۂ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا
رکھ ہاتھ دل پر میرؔ کے دریافت کر کیا حال ہے !
رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دِنوں بے تاب سا
مر رہتے جو گُل بِن تو سارا یہ خلل جاتا
نکلا ہی نہ جی ورنہ کانٹا سا نکل جاتا
میں گریۂ خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ
یک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا
بِن پوچھے کرم سے وہ جو بخش نہ دیتا تو
پُرسش میں ہماری ہی دن حشر کا ڈھل جاتا
اُس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ!
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہوا
مر چلے بے قرار ہو کر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہوا
وہ جو خنجر بکف نظر آیا
میرؔ سو جان سے نثار ہوا
مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا
القصّہ میرؔ کو ہم بے اختیار پایا
احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا
شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اُس کا قرار پایا
اتنا نہ تجھ سے ملتے نَے دل کو کھو کے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا
کیا اعتبار یاں کا پھر اُس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آ کر کچھ اعتبار پایا
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرؔ سے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا
اُس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا
مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا
پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو
اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا
تاچرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا
کرنے سے اب دعا کے میں ہاتھ ہی اُٹھایا
آخر کو مر گئے ہیں اُس کی ہی جستجو میں
جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اُسے نہ پایا
لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں
اک روگ میں بِساہا جی کو کہاں لگایا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
قسم جو کھایئے تو طالعِ زلیخا کی
عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا
خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہِ مست نے ساقی کی انتقام لیا
وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے اُن نے مرا سلام لیا
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
شکوہ کروں میں کب تک اُس اپنے مہرباں کا
القصّہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
گریے پہ رنگ آیا قیدِ قفس سے شاید
خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا
دی آگ رنگِ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صیدِ ناتواں کا
کم فرصتی جہاں کے مجمعے کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلسِ رواں کا
ناحق شناسی سے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا
ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا
(ق)
یا روئے یا رُلایا اپنی تو یوں ہی گزری
کیا ذکر ہم صفیراں یارانِ شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میرؔ سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اُتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تِیر کا
سب کھلا باغِ جہاں اِلّا یہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا
بوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے اے بادِ بہار
ہو گیا ہے چاک دل شاید کسو دل گیر کا
رہ گزر سیلِ حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا
بس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے دردِ سر
کامِ جاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا
جو ترے کوچے میں آیا پھر وہیں گاڑا اُسے
تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاکِ دامن گیر کا
لختِ دل سے جوں چھڑی پھولوں کی گوندھی ہے ولے
فائدہ کچھ اے جگر اس آہِ بے تاثیر کا
کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اُڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا
شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
آیا شبِ فراق تھی یا روزِ جنگ تھا
کثرت میں درد و غم کی نہ نکلی کوئی تپش
کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا
لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذبِ عشق
جس بے وفا کو نام سے بھی میرے ننگ تھا
دل سے مرے لگا نہ ترا دل ہزار حیف
یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاقِ سنگ تھا
مت کر عجب جو میرؔ ترے غم میں مرگیا
جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا!
دل میں بھرا ز بسکہ خیالِ شراب تھا
مانند آئنے کے مرے گھر میں آب تھا
موجیں کرے ہے بحرِ جہاں میں ابھی تو تُو
جانے گا بعدِ مرگ کہ عالم حباب تھا
اگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہم
صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اُس دم کی حسرتیں
جس دم یہ سوجھے گی کہ یہ عالم بھی خواب تھا
دل جو نہ تھا تو رات زخود رفتگی میں میرؔ
گہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا
کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا
یا تو بیگانے ہی رہیے ہو جیے یا آشنا
پائمالِ صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزۂ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا
کون سے یہ بحرِ خوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میرے موجِ دریا آشنا
(ق)
بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاش کے
یک مژہ رنگِ فراری اس چمن کا آشنا
جس کی میں چاہی وساطت اُس نے یہ مجھ سے کہا
ہم تو کہتے گر میاں! ہم سے وہ ہوتا آشنا
داغ ہے تاباں علیہ الرحمۃ کا چھاتی پہ میرؔ
ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
گل کو محبوب ہم قیاس کیا
فرق نکلا بہت جو باس کیا
دل نے ہم کو مثالِ آئینہ
ایک عالم کا روشناس کیا
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن
شوق نے ہم کو بے حواس کیا
عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
قیس کی آبرو کا پاس کیا
صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی
کیا پتنگے نے التماس کیا
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں!
میرؔ کو تم عبث اداس کیا
مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا
اک مغ بچہ اُتار کے عمّامہ لے گیا
داغِ فراق و حسرتِ وصل آرزوئے عشق
میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا
پہنچا نہ پہنچا آہ گیا سو گیا غریب
وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا
اُس راہزن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ
اک مرتبہ جو میرؔ جی کا جامہ لے گیا
اے تو کہ یاں سے عاقبتِ کار جائے گا
غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا
موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں
کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا
چھُوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیوں کے تاسرِدیوار جائے گا
دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا
تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب
اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا
آئے بِن اُس کے حال ہوا جائے ہے تغیر
کیا حال ہو گا پاس سے جب یار جائے گا
کوچے میں اُس کے رہنے سے باز آ وگرنہ میرؔ
اک دن تجھے وہ جان سے بھی مار جائے گا
کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہو گیا
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا
بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا
کچھ خطرناکی طریقِ عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس رہ ہو کر جو گیا
مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا
میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آکر بال اپنے دھو گیا
مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمالِ راہ کا
خاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کا
سیکڑوں طرحیں نکالیں یار کے آنے کی لیک
عذر ہی جا ہے چلا اس کے دلِ بد خواہ کا
گر کوئی پیرِ مغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
مے کدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
کاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میں
ظلم ہے اک خلق پر آشوب اُن کی آہ کا
ایسی گلی اک شہرِ اسلام نہیں رکھتا
جس کُوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا
آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل
آغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا
ناکامیِ صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہ
اب جی سے گزر جانا کچھ کام نہیں لگتا
ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میں
مانند نے ِ نرگس جو جام نہیں رکھتا
یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہے
اک میرؔ ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا
خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہو گیا
گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہو گیا
کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر
میں تو اسی خیال میں بیمار ہو گیا
ہے اس کے حرفِ زیر لبی کا سبھوں میں ذکر
کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہو گیا
تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہو گیا
کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی
دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا
کب زد ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کو میرؔ
ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا
تیر جو اس کمان سے نکلا
جگرِ مرغ جان سے نکلا
نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی
میں ہی اک امتحان سے نکلا
گو کٹے سر کہ سوزِ دل جوں شمع
اب تو میری زبان سے نکلا
مرگیا جو اسیر قیدِ حیات
تنگنائے جہان سے نکلا
دل سے مت جا کہ حیف اُس کا وقت
جو کوئی اُس مکان سے نکلا
نامرادی کی رسم میرؔ سے ہے
طَور یہ اُس جوان سے نکلا
ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج تر
تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا
گرمیِ عشق مانعِ نشوونما ہوئی
میں وہ نہال تھا کہ اُگا اور جل گیا
مستی میں چھوڑ دَیر کو کعبے چلا تھا میں
لغزش بڑی ہوئی تھی و لیکن سنبھل گیا
عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میرؔ
مجنوں کے دشتِ خار کا داماں بھی چل گیا
سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا اُن ستم کے ماروں کا
ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا
ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا
عرق فشانی سے اُس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا ہے تاروں کا
علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروںکا
تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھاویں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا
تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اُسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا
تڑپ کے خرمنِ گل پر کبھی گِر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا
تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہ گاروں کا
یوں نکلے ہے فلک ایدھر سے ناز کناں جو جانے تو
خاک سے سبزہ میری اُگا کر اُن نے مجھ کو نہال کیا
حال نہیں ہے عشق سے مجھ میں کس سے میرؔ اب حال کہوں
آپ ہی چاہ کر اُس ظالم کو یہ اپنا میں حال کیا
گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
خانہ خراب ہوجیو اس دل کی چاہ کا
آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں
مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا
اک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑا
قصّہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا
تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولے
جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا
ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اُٹھا کے چل
ہو گا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا
اے تاجِ شہ نہ سر کو فرو لاؤں تیرے پاس
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا
بیمار تو نہ ہووے جیے جب تلک کہ میرؔ
سونے نہ دے گا شور تری آہ آہ کا
دل سے شوقِ رخِ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
ہر قدم پرتھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا
سب گئے ہوش و صبر و تاب و تواں
لیکن اے داغ دل سے تو نہ گیا
دل میں کتنے مسوّدے تھے ولے
ایک پیش اُس کے روبرو نہ گیا
سبحہ گردن ہی میرؔ ہم تو رہے
دستِ کوتاہ تا سبُو نہ گیا
گل و بلبل بہار میں دیکھا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا
جل گیا دل سفید ہیں آنکھیں
یہ تو کچھ انتظار میں دیکھا
آبلے کا بھی ہونا دامن گیر
تیرے کوچے کے خار میں دیکھا
جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے
اُن کو اس روزگار میں دیکھا
کئی دن سلوک وداع کا مرے در پئے دلِ زار تھا
کبھو درد تھا کبھو داغ تھا کبھو زخم تھا کبھو وار تھا
دمِ صبح بزمِ خوشِ جہاں شب غم سے کم نہ تھے مہرباں
کہ چراغ تھا سو تو دُود تھا جو پتنگ تھا سو غبار تھا
دلِ خستہ جو لہو ہو گیا تو بھلا ہوا کہ کہاں تلک
کبھو سوز سینہ سے داغ تھا کبھو درد و غم سے فگار تھا
دل مضطرب سے گزر گئی شبِ وصل اپنی ہی فکر میں
نہ دماغ تھا نہ فراغ تھا نہ شکیب تھا نہ قرار تھا
جو نگاہ کی بھی پلک اٹھا تو ہمارے دل سے لہو بہا
کہ وہیں وہ ناوکِ بے خطا کسو کے کلیجے کے پار تھا
یہ تمہاری ان دنوں دوستاں مژہ جس کے غم میں ہے خونچکاں
وہی آفتِ دلِ عاشقاں کسو وقت ہم سے بھی یار تھا
نہیں تازہ دل کی شکستگی یہی درد تھا یہی خستگی
اُسے جب سے ذوقِ شکار تھا اِسے زخم سے سروکار تھا
کبھو جائے گی جو اُدھر صبا تو یہ کہیو اُس سے کہ بے وفا
مگر ایک میرؔ شکستہ پا ترے باغِ تازہ میں خار تھا
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشکِ تر قطرۂ خوں لختِ جگر پارۂ دل
ایک سے ایک عدو آنکھ سے بہتر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ
پر ترا نام تو اِک شوق کا دفتر نکلا
رہے خیال تنک ہم بھی رُو سیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا
نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا
گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا
لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا
تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی
تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا
کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال
کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا
حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا
تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی اُدھر
فریب خوردہ ہے تُو میرؔ کن نگاہوں کا
اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا
ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں بہ رنگِ عمر
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اُٹھا کہ پھر
دیوانِ حشر میں اُسے لایا نہ جائے گا
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
ہم بے خودانِ محفلِ تصویر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا
گو بیستُوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن
سنگِ گرانِ عشق اُٹھایا نہ جائے گا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
ایسا ترا رہ گزر نہ ہو گا
ہر گام پہ جس میں سر نہ ہو گا
کیا اُن نے نشے میں مجھ کو مارا
اتنا بھی تو بے خبر نہ ہو گا
دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم
ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہو گا
اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا
محنت زدوں کے جگر نہ ہو گا
(ق)
دنیا کی نہ کر تو خواست گاری
اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہو گا
آ خانہ خرابی اپنی مت کر
قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہو گا
پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں
ماتم زدہ میرؔ اگر نہ ہو گا
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
یا روز اُٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا
اُن نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار
میں نے اُسے ہزار جتایا تو کیا ہوا
مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد
دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا
میں صیدِ ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد
ظالم اک اور تیر لگایا تو کیا ہوا
کیا کیا دعائیں مانگی ہیں خلوت میں شیخ یوں
ظاہر جہاں سے ہاتھ اُٹھایا تو کیا ہوا
وہ فکر کر کہ چاکِ جگر پاوے التیام
ناصح جو تُو نے جامہ سِلایا تو کیا ہوا
جیتے تو میرؔ ان نے مجھ داغ ہی رکھا
پھر گور پر چراغ جلایا تو کیا ہوا
گرچہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا
چھوڑ لذت کے تئیں لے تو فقیری کا مزا
یادِ ایام کہ یاں ترکِ شکیبائی تھا
ہر گلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا
اتنی گزری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب
صبرِ مرحوم عجب مونسِ تنہائی تھا
تیرے جلوے کا مگر رُو تھا سحر گلشن میں
نرگس اک دیدۂ حیران تماشائی تھا
یہی زلفوں کی تری بات تھی یا کاکل کی
میرؔ کو خوب کیا سیر تو سودائی تھا
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا
ٹک گورِ غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا
ہے قاعدۂ کلی یہ کُوئے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا
اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم
اک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہو گا
آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہو گا
جز مرتبۂ کُل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
صد نشترِ مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میرؔ ایسا سودا نہ ہوا ہو گا
عالم میں کوئی دل کا خریدار نہ پایا
اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا
حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ
عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا
تصویر کے مانند لگے در ہی سے گزری
مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا
مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل
اس باغ میں ہم نے گلِ بے خار نہ پایا
آئینہ بھی حیرت سے محبت کی ہوئے ہم
پر سیر ہو اُس شخص کا دیدار نہ پایا
وہ کھینچ کے شمشیر ستم رہ گیا جو میرؔ
خوں ریزی کا یاں کوئی سزاوار نہ پایا
کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا
کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھُور گیا
لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے
آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا
چشمِ خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا
نالۂ میرؔ نہیں رات سے سنتے ہم لوگ
کیا ترے کوچے سے اے شوخ وہ رنجور گیا!
خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل کیا
اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم
گو چمن میں غنچۂ پژمردہ تجھ سے کھِل گیا
دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو
کش مکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چھِل گیا
رشک کی جاگہ ہے مرگ اس کشتۂ حسرت کی میرؔ
نعش کے ہمراہ جس کی گور تک قاتل گیا
تابہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفا کار تجھ سا یار کیا
یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
صد رگِ جاں کو تاب دے باہم
تیری زلفوں کا ایک تار کیا
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
مذہبِ عشق اختیار کیا
شب کو اس کا خیال تھا دل میں
گھر میں مہماں عزیز کوئی تھا
اب تو اُس کی گلی میں خوار ہے لیک
میرؔ بے جاں عزیز کوئی تھا
پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا
مستی میں میری تھی یاں اک شور اور شرابا
وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں
سوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبا
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
نے عِشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
ہر چند ناتواں ہیں پر آگیا جو جی میں
دیں گے ملا زمیں سے تیرا فلک قلابا
اب شہر ہر طرف سے میدان ہو گیا ہے
پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا
دل تفتگی کی اپنی ہجراں میں شرح کیا دوں
چھاتی تو میرؔ میری جل کر ہوئی ہے تابا
سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
پھر ان دنوں میں دیدۂ خوں بار نم ہوا
آئے بہ رنگِ ابر عرق ناک تم اِدھر
حیراں ہوں میں کہ آج کدھر کو کرم ہوا
کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
بیت الحرم تھا جو سو وہ بیت الصنم ہوا
(ق)
آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز
کُوچے پر اُس مزار کے تھا یہ رقم ہوا
کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا ہم نے سر
پایانِ کار مور کی خاکِ قدم ہوا
کیا کیا عزیز و دوست ملے میرؔ خاک میں
ناداں یہاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا
موا میں سجدے میں پر نقش میرا بار رہا
اُس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا
کبھو نہ آنکھوں میں آیا وہ شوخ خواب کی طرح
تمام عمر ہمیں اُس کا انتظار رہا
شرابِ عیش میسّر ہوئی جسے یک شب
پھر اُس کو روزِ قیامت تلک خمار رہا
(ق)
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا
وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا
وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا
وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا
تمام عمر گئی اُس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں
وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا
ستم میں غم میں سرانجام اس کا کیا کہیے
ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا
بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہ نکلا
رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا
سو اُس کو ہم سے فراموش کار یوں لے گئے
کہ اُس سے قطرۂ خوں بھی نہ یادگار رہا
گلی میں اُس کی گیا سو گیا نہ بولا گیا
میں میرؔ میرؔ کر اُس کو بہت پکار گیا
دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا
پھر اس پہ ظلم یہ ہے کچھ کہا نہیں جاتا
ہوئی ہے اتنی ترے عکسِ زلف کی حیراں
کہ موجِ بحر سے مطلق بہا نہیں جاتا
ستم کچھ آج گلی میں تری نہیں مجھ پر
کب آگے خون میں مَیں یاں نہا نہیں جاتا
خراب مجھ کو کیا اضطرابِ دل نے میرؔ
کہ ٹک بھی اس کنے اُس بن رہا نہیں جاتا
دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
جو کوئی دم ہے تو افسوس ہے جوانی کا
اگرچہ عمر کے دس دن یہ لب رہے خاموش
سخن رہے گا سدا میری کم زبانی کا
ہزار جان سے قربان بے پری کے ہیں
خیال بھی کبھو گزرا نہ پر فشانی کا
نمود کر کے وہیں بحرِ غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میرؔ بھی اِک بلبلا تھا پانی کا
جیتے جی کوچۂ دل دار سے جایا نہ گیا
اُس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا
کاو کاوِ مژہِ یار وہ دل زار و نزار
گُتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا
وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا
خاک تک کوچۂ دل دار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دلِ گم شدہ پایا نہ گیا
زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا
جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
دردِ دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا
دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا
دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا
کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ
ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا
دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
اُس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا
شہرِ دل آہ عجب جائے تھی پر اُس کے گئے
ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا
آج رہتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف
حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا
گُل میں اُس کی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا
ہم کو بن دوشِ ہوا باغ سے لایا نہ گیا
سر نشینِ رہِ مے خانہ ہوں میں کیا جانوں
رسمِ مسجد کے تئیں شیخ کہ آیا نہ گیا
حیف وے جن کے وہ اس وقت میں پہنچا جس وقت
اُن کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا
میرؔ مت عذر گریباں کے پھٹے رہنے کا کر
زخمِ دل چاکِ جگر تھا کہ سلایا نہ گیا
ادھر آ کر شکار افگن ہمارا
مشبّک کر گیا ہے تن ہمارا
گریباں سے رہا کوتہ تو پھر ہے
ہمارے ہاتھ میں دامن ہمارا
بلا جس چشم کو کہتے ہیں مردم
وہ ہے عینِ بلا مسکن ہمارا
ہُوا رونے سے رازِ دوستی فاش
ہمارا گریہ تھا دشمن ہمارا
بہت چاہا تھا ابرِ تر نے لیکن
نہ منت کش ہوا گلشن ہمارا
چمن میں ہم بھی زنجیری رہے ہیں
سنا ہو گا کبھو شیون ہمارا
نہ بہکے مے کدے میں میرؔ کیوں کر
گرو سو جا ہے پیراہن ہمارا
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا
مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم
بالفعل اب ارادہ تا گور ہے ہمارا
کیا آرزو تھی جس سے سب چشم ہو گئے ہیں
ہر زخم سو جگہ سے ناسور ہے ہمارا
تیں آہ عشق بازی چوپڑ عجب بچھائی
کچی پڑی ہیں نردیں گھر دُور ہے ہمارا
تا چند پشتِ پا پر شرم و حیا سے آنکھیں
احوال کچھ بھی تم کو منظور ہے ہمارا
بے طاقتی کریں تو تم بھی معاف رکھیو
کیا کیجیے کہ دل بھی مجبور ہے ہمارا
ہیں مشتِ خاک لیکن جو کچھ ہیں میرؔ ہم ہیں
مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا
سحَر کہ عید میں دورِ سبو تھا
پر اپنے جام میں تجھ بن لہو تھا
غلط تھا آپ سے غافل گزرنا
نہ سمجھے ہم کہ اس قالب میں تو تھا
چمن کی وضع نے ہم کو کیا داغ
کہ ہر غنچہ دلِ پُر آرزو تھا
گُل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا
جدھر دیکھا تِدھر تیرا ہی رُو تھا
کرو گے یاد باتیں تو کہو گے
کہ کوئی رفتۂ بسیار گو تھا
جہاں پُر ہے فسانے سے ہمارے
دماغِ عشق ہم کو بھی کبھو تھا
مگر دیوانہ تھا گُل بھی کسو کا
کہ پیراہن میں سو جاگہ رفو تھا
نہ دیکھا میرؔ آوارہ کو لیکن
غبار اک ناتواں سا کُو بہ کُو تھا
راہِ دور عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سر زمیں
تخمِ خواہش دل میں تُو بوتا ہے کیا
یہ نشانِ عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
غیرتِ یوسف ہے یہ وقتِ عزیز
میرؔ اس کو رائگاںکھوتا ہے کیا
پہلو میں اک گرہ سی تہِ خاک ساتھ ہے
شاید کہ مر گئے پہ بھی خاطر میں کچھ رہا
آنکھوں نے راز داری محبت کی خوب کی
آنسو جو آتے آتے رہے تو لہو بہا
آئے تھے اک امید پہ تیری گلی میں ہم
سو آہ اس طرح سے چلے لوہو میں نہا
کس کس طرح سے میرؔ نے کاٹا ہے عمر کو
اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کہا
غمزے نے اُس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اُس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا
نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا
کیا جانوں بزمِ عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبتِ شراب سے آگے سفر کیا
جس دم کہ تیغِ عشق کھنچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا
دل زخمی ہو کے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا
ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مستِ یار
ذوقِ خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا
وہ دشتِ خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا
چاروں طرف ہیں خیمے کھڑے گرد باد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا
لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ
اک حرفِ نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا
بے شرم محض ہے وہ گنہ گار جس نے میرؔ
ابرِ کرم کے سامنے دامان تر کیا
بے کسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
ایک دلِ غم خوار رکھتے تھے سو گلشن میں رہا
پنجۂ گل کی طرح دیوانگی میں ہاتھ کو
گر نکالا میں گریباں سے تو دامن میں رہا
ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ و برہمن میں رہا
کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلۂ پُر پیج و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
ایک ہی چشمک تھی فرصت صحبتِ احباب کی
دیدۂ تر ساتھ لے مجلس سے پیمانہ گیا
گُل کھلے صد رنگ تو کیا بے پری سے اے نسیم
مدتیں گزریں کہ وہ گلزار کا جانا گیا
دور تجھ سے میرؔ نے ایسا تعب کھینچا کہ شوخ
کل جو میں دیکھا اُسے مطلق نہ پہچانا گیا
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
سب کہیں گے یہ کہ کیا اک نیم جاں مارا گیا
یک نگہ سے بیش کچھ نقصاں نہ آیا اُس کے تئیں
اور میں بے چارہ تو اے مہرباں مارا گیا
وصل و ہجراں سی جو دو منزل ہیں راہِ عشق کی
دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا
جن نے سر کھینچا دیار عشق میں اے ابولہوس
وہ سراپا آرزو آخر جواں مارا گیا
کب نیازِ عشق نازِ حسن سے کھینچا ہے ہاتھ
آخر آخر میرؔ سر بر آستاں مارا گیا
محبت کا جب زورِ بازار ہو گا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہِ بسیار ہو گا
یہ منصور کا خونِ ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہو گا
کھنچے عہدِ خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرح دار ہو گا
زمیں گیر ہو عجز سے تُو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہو گا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میرؔ بھی یاں
جو ہو گا تو جیسے گنہ گار ہو گا
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونسِ ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
(ق)
عشق کا حوصلہ ہے شرط ارنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم!
پر سخن تابہ لب نہیں آتا!
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا
تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا
کیا ہے جو اُٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے
قیدِ حیات میں ہے تو میرؔ آ رہے گا
جو یہ دل ہے تو کیا سرانجام ہو گا
تہِ خاک بھی خاک آرام ہو گا
مرا جی تو آنکھوں میں آیا یہ سنتے
کہ دیدار بھی ایک دن عام ہو گا
نہ نکلا کر اتنا بھی بے پردہ گھر سے
بہت اس میں ظالم تو بدنام ہو گا
ہزاروں کی یاں لگ گئیں چھت سے آنکھیں
تُو اے ماہ کس شب لبِ بام ہو گا
جگر چاکی ناکامی دنیا ہے آخر
نہیں آتے جو میرؔ کچھ کام ہو گا
وہ نہانے لگا تو سایۂ زلف
بحر میں تُو کہے کہ جال پڑا
خوبرو اب نہیں ہیں گندم گوں
میرؔ ہندوستاں میں کال پڑا
نہ پوچھ خوابِ زلیخا نے کیا خیال لیا
کہ کاروان کا کنعاں کے جی نکال لیا
رہِ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا
رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو اُن نے
گلے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا
بتاں کی میرؔ ستم وہ نگاہ ہے جس نے
خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا
نقاش دیکھ تو میں کیا نقشِ یار کھینچا
اُس شوخِ کم نما کا نت انتظار کھینچا
رسمِ قلم روِ عشق مت پوچھ کچھ کہ ناحق
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا
تھا بد شراب ساقی کتنا کہ رات مے سے
میں نے جو ہاتھ کھینچا اُن نے کٹار کھینچا
پھرتا ہے میرؔ تو جو پھاڑے ہوئے گریباں
کس کس ستم زدے نے دامانِ یار کھینچا
یہ حسرت ہے مروں اُس میں لیے لبریز پیمانا
مہکتا ہو نپٹ جو پھول سی دارو سے مے خانا
نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ دے جرگے غزالوں کے
مرے دیوانے پن تک ہی رہا معمور ویرانا
مرا سر نزع میں زانو پہ رکھ کر یوں لگا کہنے
کہ اے بیمار میرے تجھ پہ جلد آساں ہو مر جانا
نہ ہو کیوں ریختہ بے شورش و کیفیت و معنی
گیا ہو میرؔ دیوانہ رہا سودا سو مستانا
بارہا گور دل جھکا لایا
اب کے شرطِ وفا بجا لایا
قدر رکھتی نہ تھی متاعِ دل
سارے عالم میں مَیں دکھا لایا
دل کہ اک قطرۂ خوں نہیں ہے بیش
ایک عالم کے سر بَلا لایا
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
دل مجھے اُس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اُس سے جاں کا
ہو جو زخمی کسو برہم زدنِ مژگاں کا
اُٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو
ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا
جلوۂ ماہ تہِ ابرِ تنک بھول گیا
اُن نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا
لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدۂ اشک افشاں کا
اُٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آ بیٹھے ہے
قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاںکا
چارۂ عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میرؔ
اس مرض میں ہے عبث فکر تمہیں درماں کا
سبزانِ تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی
اب دیکھیے تو واں نہیں سایہ درخت کا
جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہو گیا
مذکور کیا ہے اب جگرِ لخت لخت کا
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تاج و تخت کا
خاکِ سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میرؔ
سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا
ہم عشق میں نہ جانا غم ہی سدا رہے گا
دس دن جو ہے یہ مہلت سو یاں دہا رہے گا
برقع اُٹھے پہ اُس کے ہو گا جہان روشن
خورشید کا نکلنا کیوں کر چھپا رہے گا
اک وہم سی رہی ہے اپنی نمود تن میں
آتے ہو اب تو آؤ پھر ہم میں کیا رہے گا
مذکور یار ہم سے مت ہم نشیں کیا کر
دل جو بجا نہیں ہے پھراُس میں جا رہے گا
دانستہ ہے تغافل غم کہنا اس سے حاصل
تم درد دل کہو گے وہ سرجھکا رہے گا
بھلا ہو گا کچھ اک احوال اس سے یا برا ہو گا
مآل اپنا ترے غم میں خدا جانے کہ کیا ہو گا
تفحض فائدہ ناصح تدارک تجھ سے کیا ہو گا
وہی پاوے گا میرا درد دل جس کا لگا ہو گا
کسو کو شوق یا رب بیش اس سے اور کیا ہو گا
قلم ہاتھ آ گئی ہو گی تو سو سو خط لکھا ہو گا
معیشت ہم فقیروں کی سی اخوانِ زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہو گا
خیال اُس بے وفا کا ہم نشیں اتنا نہیں اچھا
گماں رکھتے تھے ہم بھی یہ کہ ہم سا آشنا ہو گا
قیامت کر کے اب تعبیر جس کو کرتی ہے خلقت
وہ اُس کوچے میں اک آشوب سا شاید ہوا ہو گا
نہ ہو کیوں غیرتِ گلزار وہ کوچہ خدا جانے
لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا گرا ہو گا
بہت ہم سائے اس گلشن کے زنجیری رہا ہوں میں
کبھو تم نے بھی میرا شور نالوں کا سنا ہو گا
نہیں جُز عرش جاگہ راہ میں لینے کو دم اُس کے
قفس سے تن کے مرغِ روح میرا جب رہا ہو گا
کہیں ہیں میرؔ کو مارا گیا شب اُس کے کُوچے میں
کہیں وحشت میں شاید بیٹھے بیٹھے اُٹھ گیا ہو گا
یاں نام یار کس کا دردِ زباں نہ پایا
پر مطلقاً کہیں ہم اُس کا نشان پایا
پایا نہ یوں کہ کریے اُس کی طرف اشارت
یوں تو جہاں میں ہم نے اُس کو کہاں نہ پایا
یہ دل کہ خون ہووے بر جا نہ تھا وگرنہ
وہ کون سی جگہ تھی اُس کو جہاں نہ پایا
محرومِ سجدہ آخر جانا پڑا جہاں سے
جوشِ جباہ سے ہم وہ آستاں نہ پایا
ایسی ہے میرؔ کی بھی مدت سے رونی صورت
چہرے پہ اُس کے کس دن آنسو رواں نہ پایا
پھر شب نہ لطف تھا نہ وہ مجلس میں نور تھا
اُس روئے دل فروز ہی کا سب ظہور تھا
کیا کیا عزیز خلعِ بدن ہائے کر گئے
تشریف تم کو یاں تئیں لانا ضرور تھا
ہے حال جائے گریہ جانِ پُر آرزو کا
روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا
جاتی نہیں اُٹھائی اپنے پہ یہ خشونت
اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا
اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کر لوں
تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا
یہ عیش گہ نہیں ہے یاں رنگ اور کچھ ہے
ہر گُل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا
بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
گلیاں بھری پڑی ہیں اے یار زخمیوں سے
مت کھول پیچ ظالم اس زلفِ مشک بُو کا
وے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں
دینا نہ تھا دل اُس کو میں میرؔ آہ چُوکا
میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یک جا
دل کے سو ٹکڑے مرے پر سبھی نالاں یک جا
پند گوؤں نے بہت سینے کی تدبیریں کیں
آہ ثابت بھی نہ نکلا یہ گریباں یک جا
تیرا کوچہ ہے ستم گار و ہ کافر جاگہ
کہ جہاں مارے گئے کتنے مسلماں یک جا
تو بھی رونے کو بَلا دل ہے ہمارا بھی بھرا
ہوجے اے ابر بیابان میں گریاں یک جا
فلک کا منہ نہیں اس فتنے کے اٹھانے کا
ستم شریک ترا یار ہے زمانے کا
بسانِ شمع جو مجلس سے ہم گئے تو گئے
سراغ کیجو نہ پھر تُو نشان پانے کا
چمن میں دیکھ نہیں سکتی ٹک کہ چبھتا ہے
جگر میں برق کے کانٹا مجھ آشیانے کا
سراہا ان نے ترا ہاتھ جن نے دیکھا زخم
شہید ہوں میں تری تیغ کے لگانے کا
شریفِ مکّہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ!
یہ میرؔ اب جو گدا ہے شراب خانے کا
کل شبِ ہجراں تھی لب پر نالہ بیمارانہ تھا
شام سے تا صبح دم بالیں پہ سر یک جا نہ تھا
شہرۂ عالم اُسے یمنِ محبت نے کیا
ورنہ مجنوں ایک خاک افتادۂ ویرانہ تھا
منزل اس مہ کی رہا جو مدتوں اے ہم نشیں
اب وہ دل گویا کہ اک مدت کا ماتم خانہ تھا
اک نگاہِ آشنا کو بھی وفا کرتا نہیں
وا ہوئیں مژگاں کہ سبزہ سبزۂ بیگانہ تھا
روز و شب گزرے ہے پیچ و تاب میں رہتے تجھے
اے دلِ صد چاک کس کی زلف کا تُو شانہ تھا
یاد ایامے کہ اپنے روز و شب کی جائے باش
یا درِ بازِ بیاباں یا درِ مے خانہ تھا
بعد خوں ریزی کے مدت بے حنا رنگیں رہا
ہاتھ اس کا جو مرے لوہو میں گستاخانہ تھا
غیر کے کہنے سے مارا اُن نے ہم کو بے گناہ
یہ نہ سمجھا وہ کہ واقع میں بھی کچھ تھا یا نہ تھا
صبح ہوتے وہ بنا گوش آج یاد آیا مجھے
جو گرا دامن پہ آنسو گوہرِ یک دانہ تھا
شب فروغِ بزم کا باعث ہوا تھاحسنِ دوست
شمع کا جلوہ غبار دیدۂ پروانہ تھا
رات اُس کی چشمِ میگوں خواب میں دیکھی تھی میں
صبح سوتے سے اُٹھا تو سامنے پیمانہ تھا
رحم کچھ پیدا کیا شاید کہ اس بے رحم نے
گوش اُس کا شب ادھر تا آخرِ افسانہ تھا
میرؔ بھی کیا مستِ طافح تھا شرابِ عشق کا
لب پہ عاشق کے ہمیشہ نعرۂ مستانہ تھا
پیغامِ غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا
اس آئنے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اُس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا
جوں نقش پا ہے غربت حیرانِ کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا
لبریزِ شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کارِ شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا
بے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقتِ اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا
یہ بخت سبزہ دیکھو باغِ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا
(ق)
مستوری خوب روئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کے اظہار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تا گُل پھر گُل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
افسوس میرؔ وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام اُن کا اُس کی تلوار تک نہ پہنچا
نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
منھ کی جھلک دے یار کے بے ہوش ہو گئے
شب ہم کو میرؔ پرتوِ مہتاب لے گیا
کب تلک یہ ستم اُٹھائیے گا
ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا
شکلِ تصویر بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا
سب سے مل چل، کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پائیے گا
کہیے گا اُس سے قصۂ مجنوں
یعنی پردے میں غم سنائیے گا
(ق)
شرکتِ شیخ و برہمن سے میرؔ
کعبہ و دَیر سے بھی جایئے گا
اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جُدی مسجد
کسی ویرانے میں بنائیے گا
دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
لے یار مرے سلمہ اللہ تعالا
کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا
معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دَیر
مسجد میں ہے کیا شیخ پیالا نہ نوالا
گزرے ہے لہو واں سرِ ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا
جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش
واں چادرِ مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا
دیکھے ہے مجھے دیدۂ پُر چشم سے وہ میرؔ
میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا
دیر و حرم سے گزرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پرسیر و سفر ہمارا
پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی
ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا
دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کیسے
کیا جانیے کہ اُس بِن دل ہے کدھر ہمارا
ہیں تیرے آئنے کی تمثال ہمنہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا
جوں صبح اب کہاں ہے طولِ سخن کی فرصت
قصّہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا
کوچے میں اُس کے جا کر بنتا نہیں پھر آنا
خون ایک دن کرے گا اس خاک پر ہمارا
نشوونما ہے اپنی جوں گرد باد انوکھی
بالیدہ خاکِ رہ سے ہے یہ شجر ہمارا
اس کارواں سرا میں کیا میرؔ بار کھولیں
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا
حسن تھا تیرا بہت عالم فریب
خط کے آنے پر بھی اک عالم رہا
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا
سنتے ہیں لیلیٰ کے خیمے کو سیاہ
اس میں مجنوں کا مگر ماتم رہا
جامۂ احرامِ زاہد پر نہ جا
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
زلفیں کھولیں تو تُو ٹک آیا نظر
عمر بھر یاں کامِ دل برہم رہا
اُس کے لب سے تلخ ہم سنتے رہے
اپنے حق میں آبِ حیواں سم رہا
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
صبحِ بیتی شام ہونے آئی میرؔ؟
تو نہ جیتا یاں بہت دن کم رہا
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر کر گیا
دہر میں مَیں خاک بسر ہی رہا
عمر کو اس طور بسر کر گیا
دل نہیں ہے منزلِ سینہ میں اب؟
یاں سے وہ بے چارہ سفر کر گیا
کس کو میرے حال سے تھی آگہی
نالۂ شب سب کو خبر کر گیا
مجلسِ آفاق میں پروانہ ساں
میرؔ بھی شام اپنی سحر کر گیا
آیا جو واقعے میں درپیش عالمِ مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روئے خنداں چشمِ پُر آب نکلا
کچھ دیر ہی لگی نا دل کو تو تیر لگتے
اک صیدِ ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا
ہر حرفِ غم نے میرے مجلس کے تئیں رلایا
گویا غبارِ دل کا پڑھتا کتاب نکلا
کس کی نگہ کی گردش تھی میرؔ رُو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا
دامانِ کوہ میں جو میں دھاڑ مار رویا
اک ابر واں سے اُٹھ کر بے اختیار رویا
پڑتا نہ تھا بھروسا عہد وفائے گل پر
مرغِ چمن نہ سمجھا میں تو ہزار رویا
ہر گل زمیں یہاں کی رونے ہی کی جگہ تھی
مانندِ ابر ہر جا میں زار زار رویا
تھی مصلحت کہ رک کر ہجراں میں جان دیجے
دل کھول کر نہ غم میں مَیں ایک بار رویا
اک عجزِ عشق اس کا اسبابِ صد الم تھا
کل میرؔ سے بہت میں ہو کر دوچار رویا
وہ آئنہ رخسار دمِ باز پس آیا
جب حس نہ رہا ہم کو تو دیدار دکھایا
کچھ ماہ میں اس میں نہ تفاوت ہوا ظاہر
سوبار نکالا اسے اوراس کو چھپایا
میں صیدِ رمیدہ ہوں بیابانِ جنوں کا
رہتا ہے مرا موجبِ وحشت مرا سایا
یا قافلہ در قافلہ ان رستوں میں تھے لوگ
یا ایسے گئے یاں سے کہ پھر کھوج نہ پایا
ایسے بُتِ بے مہر سے ملتا ہے کوئی بھی
دل میرؔ کو بھاری تھا جو پتھر سے لگایا
دل جو زیرِ غبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں مکدّر تھا
اُس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا
بعد اک عمر جو ہوا معلوم
دل اُس آئینہ رُو کا پتھر تھا
بارے سجدہ ادا کیا تہِ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا
اب خرابا ہوا جہاں آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
(ق)
بے زری کا نہ کر گلہ غافل!
رہ تسلّی کہ یوں مقدر تھا
اتنے منعم جہان میں گزرے
وقت رحلت کے کس کنے زر تھا
صاحبِ جاہ و شوکت و اقبال
اک اذاں جملہ اب سکندر تھا
تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا
لعل و یاقوتہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر میسر تھا
آخرِ کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
عیبِ طولِ کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میرؔ معلوم ہے قلندر تھا
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا
ہر چند شورِ محشر اب بھی ہے در پہ لیکن
نکلے گا یار گھر سے ہووے گا جب تماشا
طالع جو میرؔ خواری محبوب کو خوش آئی
پر غم یہ ہے مخالف دیکھیں گے سب تماشا
تیرا رخِ مخطّط قرآن ہے ہمارا
بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا
گر ہے یہ بے قراری تو رہ چکا بغل میں
دو روز دل ہمارا مہمان ہے ہمارا
ہیں اس خراب دل سے مشہور شہرِ خوباں
اس ساری بستی میں گھر ویران ہے ہمارا
مشکل بہت ہے ہم سا پھر کوئی ہاتھ آنا
یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا
ہم وے ہیں سن رکھو تم مر جائیں رک کے یک جا؟
کیا کوچہ کوچہ پھرنا عنوان ہے ہمارا
کرتے ہیں باتیں کس کس ہنگامے کی یہ زاہد
دیوانِ حشر گویا دیوان ہے ہمارا
ماہیّتِ دو عالم کھاتی پھرے ہے غوطے
یک قطرہ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا
کیا خانداں کا اپنے تجھ سے کہیں تقدس
روح القدس اک ادنیٰ دربان ہے ہمارا
کرتا ہے کام وہ دل جو عقل میں نہ آوے
گھر کا مشیر کتنا نادان ہے ہمارا
کب مصیبت زدہ دل مائلِ آزار نہ تھا
کون سے درد و ستم کا یہ طرف دار نہ تھا
آدمِ خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئنہ تھا یہ ولے قابلِ دیدار نہ تھا
دھوپ میں جلتی ہیں غربت وطنوں کی لاشیں
تیرے کوچے میں مگر سایۂ دیوار نہ تھا
صد گلستاں تہِ یک بال تھے اُس کے جب تک
طائرِ جاں قفسِ تن کا گرفتار نہ تھا
حیف سمجھا ہی نہ وہ قاتلِ ناداں ورنہ
بے گنہ مارنے قابل یہ گنہ گار نہ تھا
عشق کا جذب ہوا باعثِ سودا ورنہ
یوسفِمصرزلیخا کا خریدار نہ تھا
نرم تر موم سے بھی ہم کو کوئی دیتی قضا
سنگ چھاتی کا تو یہ دل ہمیں درکار نہ تھا
رات حیران ہوں کچھ چپ ہی مجھے لگ گئی میرؔ
درد پنہاں تھے بہت پر لبِ اظہار نہ تھا
جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو دیا
آخر کو جستجو نے تری مجھ کو کھو دیا
پوچھا جو میں نے دردِ محبت سے میرؔ کو
رکھ ہاتھ اُن نے دل پہ ٹک اک اپنے رو دیا
سارے رئیس اعضاء ہیں معرضِ تلف میں
یہ عشقِ بے محابا کس کو امان دے گا
پائے پُر آبلہ سے مَیں گم شدہ گیا ہوں
ہر خار بادیے کا میرا نشان دے گا
نالہ ہمارا ہر شب گزرے ہے آسماں سے
فریاد پر ہماری کس دن تُو کان دے گا
کل چمن میں گُل و سمن دیکھا
آج دیکھا تو باغ بَن دیکھا
کیا ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں
عاشقوں کا جلا وطن دیکھا
ذوقِ پیکانِ تیر میں تیرے
مدتوں تک جگر نے چَھن دیکھا
ایک چشمک دو صد سنانِ مژہ
اُس نکیلے کا بانکپن دیکھا
حسرت اُس کی جگہ تھی خوابیدہ
میرؔ کا کھول کر کفن دیکھا
جدا جو پہلو سے وہ دلبرِ یگانہ ہوا
تپش کی یاں تئیں دل نے کہ دردِ شانہ ہوا
جہاں کو فتنے سے خالی کبھی نہیں پایا
ہمارے وقت میں تو آفتِ زمانہ ہوا
خلش نہیں کسو خواہش کی رات سے شاید
سرشکِ یاس کے پردے میں دل روانہ ہوا
ہم اپنے دل کی چلے دل ہی میں لیے یاں سے
ہزار حیف سرِ حرف اس سے وا نہ ہوا
کھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اُس کی میرؔ
سمند ناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا
کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دلِ آرمیدہ تھا
رُو آشیانِ طائرِ رنگِ پریدہ تھا
قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا
بے چارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا
اک وقت ہم کو تھا سرِ گریہ کہ دشت میں
جو خارِ خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا
جس صید گاہِ عشق میں یاروں کا جی گیا
مرگ اس شکار گہ کا شکارِ رمیدہ تھا
مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی
ہر نالہ میری جان کو تیغِ کشیدہ تھا
حاصل نہ پوچھ گلشنِ مشہد کا بوالہوس
یاں پھل ہر اک درخت کا خلقِ بریدہ تھا
دل بے قرار گریۂ خونیں تھا رات میرؔ
آیا نظر تو بسملِ در خوں تپیدہ تھا
کثرتِ داغ سے دل رشکِ گلستاں نہ ہوا
میرا دل خواہ جو کچھ تھا وہ کبھو یاں نہ ہوا
جی تو ایسے کئی صدقے کیے تجھ پر لیکن
حیف یہ ہے کہ تنک تو بھی پشیماں نہ ہوا
آہ مَیں کب کی کہ سرمایۂ دوزخ نہ ہوئی
کون سا اشک مرا منبعِ طوفاں نہ ہوا
(ق)
گو توجّہ سے زمانے کی جہاں میں مجھ کو
جاہ و ثروت کا میسر سروساماں نہ ہوا
شکر صد شکر کہ میں ذلت و خواری کے سبب
کسی عنوان میں ہم چشمِ عزیزاں نہ ہوا
برق مت خوشے کی اور اپنی بیاں کر صحبت
شکر کر یہ کہ مِرا واں دلِ سوزاں نہ ہوا
دلِ بے رحم گیا شیخ لیے زیرِ زمیں
مرگیا پریہ کہن گیر مسلماں نہ ہوا
کون سی رات زمانے میں گئی جس میں میرؔ
سینۂ چاک سے میں دست و گریباں نہ ہوا
سنگ مجھ بہ جاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا
کس کی ہوا کہاں کا گُل ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا
کن نے بدی سے اتنی دیر موسمِ گُل میں ساقیا
دے بھی مئے دو آتشہ زور ہی سرد ہے ہوا
فصلِ خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہو گیا موسمِ گل میں کیا بلا
بُوئے کبابِ سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم! رات کسی کا دل جلا
برگشتہ بخت دیکھ کہ قاصد سفر سے مَیں
بھیجا تھا اس کے پاس سو میرے وطن گیا
آئی اگر بہار تو اب ہم کو کیا صبا!
ہم سے تو آشیاں بھی گیا اور چمن گیا
سرسبز ملکِ ہند میں ایسا ہوا کہ میرؔ
یہ ریختہ لکھا ہوا تیرا دکن گیا
سرِ دورِ فلک بھی دیکھوں اپنے روبرو ٹوٹا
کہ سنگِ محتسب سے پائے خم دستِ سبو ٹوٹا
کہاں آتے میسّر تجھ سے مجھ کو خود نما اتنے
ہوا یوں اتفاق آئینہ میرے روبرو ٹوٹا
وہ بے کس کیا کرے کہہ تو رہی دل ہی کی دل ہی میں
نپٹ بے جا ترا دل میرؔ سے ہے آرزو ٹوٹا
آنکھوں میں جی مرا ہے اِدھر پار دیکھنا
عاشق کا اپنے آخری دیدار دیکھنا
کیسا چمن کہ ہم سے اسیروں کو منع ہے
چاکِ قفس سے باغ کی دیوار دیکھنا
آنکھیں چرائیو نہ ٹک ابرِ بہار سے
میری طرف بھی دیدۂ خونبار دیکھنا
ہونا نہ چار چشم دل اُس ظلم پیشہ سے
ہشیار زینہار خبردار دیکھنا!
صیادِ دل ہے داغِ جدائی سے رشکِ باغ
تجھ کو بھی ہو نصیب یہ گلزار دیکھنا
گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہم صفیر
اس فصل ہی میں ہم کو گرفتار دیکھنا
اُس خوش نگہ کے عشق سے پرہیز کیجو میرؔ
جاتا ہے لے کے جی ہی یہ آزار دیکھنا
غلط ہے عشق میں اے ابوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا
زمیں اک صفحۂ تصویرِ بے ہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا
جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا
ہنوز آوارۂ لیلیٰ ہے جانِ رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا
حریفِ بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا
نگاہِ یاس بھی اس صیدِ افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا
خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا
نگاہِ مست نے اُس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زُہد و طاعت کا
قدم ٹک دیکھ کر رکھ میرؔ سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحرائے محبت کا
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں
جسے ابر ہر سال روتا رہے گا
مجھے کام رونے سے اکثر ہے ناصح
تُو کب تک میرے منھ کو دھوتا رہے گا
بس اے گریہ آنکھیں تری کیا نہیں ہیں!
کہاں تک جہاں کو ڈبوتا رہے گا
مرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے
جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا
بس اے میرؔ مژگاں سے پونچھ آنسوؤں کو
تُو کب تک یہ موتی پروتا رہے گا
نئی طرزوں سے مے خانے میں رنگِ مے جھلکتا تھا
گلابی روتی تھی واں جام ہنس ہنس کر چھلکتا تھا
گئی تسبیح اس کی نزع میں کب میرؔ کے دل سے
اُسی کے نام کی سمرن تھی جب منکا ڈھلکتا تھا
تجھ سے ہر آن مرے پاس کا آنا ہی گیا
کیا گلہ کیجے غرض اب وہ زمانہ ہی گیا
ہم اسیروں کو بھلا کیا جو بہار آئی نسیم!
عمر گزری کہ وہ گلزار کا جانا ہی گیا
جی گیا میرؔ کا اس لیت و لعل میں لیکن
نہ گیا ظلم ہی تیرا نہ بہانا ہی گیا
دل عشق کا ہمیشہ حریفِ نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا
اک گرد راہ تھا پئے محمل تمام راہ
کس کا غبار تھا کہ یہ دنبالہ گرد تھا
دل کی شکستگی نے ڈرائے رکھا ہمیں
واں چیں جبیں پر آئی کہ یاں رنگ زرد تھا
مانندِ حرف صفحۂ ہستی سے اُٹھ گیا
دل بھی مرا جریدۂ عالم میں فرد تھا
گزری مدام اس کی جوانانِ مست میں
پیرِ مغاں بھی طرفہ کوئی پیر مرد تھا
تھا پُشتہ ریگ باد یہ اک وقتِ کارواں
یہ گرد باد کوئ بیاباں نورد تھا
عاشق ہیں ہم تو میرؔ کے بھی ضبط عشق کے
دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا
برقع اُٹھا تھا رُخ سے مرے بد گمان کا
دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا
(ق)
یاں بلبل اور گُل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول
گلگشت سرسری نہیں اس گلستان کا
گُل یادگارِ چہرۂ خوباں ہے بے خبر
مرغِ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا
تو برسوں میں کہے ہے ملوں گا میں میرؔ سے
یاں کچھ کا کچھ ہے حال ابھی اس جوان کا
مغاں مجھ مست بن پھر خندۂ ساغر نہ ہووے گا
مئے گل گوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے رووے گا
کیا ہے خوں مرا پامال یہ سرخی نہ چھُوٹے گی
اگر قاتل تُو اپنے پاؤں سو پانی سے دھووے گا
کوئی رہتا ہے جیتے جی ترے کُوچے کے آنے سے
تبھی آسودہ ہو گا میرؔ سا جب جی کو کھووے گا
آیا تھا خانقہ میں وہ نور دیدگاں کا
تہ کر گیا مصلیٰ عزلت گزید گاں کا
آخر کو خاک ہونا درپیش ہے سبھوں کو
ٹک دیکھ منھ کدھر ہے قامت خمیدگاں کا
جو خار دشت میں ہے سو چشم آبلہ سے
دیکھا ہوا ہے تیرے محنت کشید گاں کا
تیرِ بَلا کا ہر دم اب میرؔ ہے نشانہ
پتھر جگر ہے اُس کے آفت رسیدگاں کا
ٹک بھی نہ مڑ کے میری طرف تُو نے کی نگاہ
اک عمر تیرے پیچھے میں ظالم لگا پھرا
دیر و حرم میں کیوں کے قدم رکھ سکے گا میرؔ
ایدھر تو اُس سے بُت پھرے اُودھر خدا پھرا
صحرا میں سیلِ اشک مرا جا بہ جا پھرا
مجنوں بھی اُس کی موج میں مدت بہا پھرا
طالع جو خوب تھے نہ ہوا جاہ کچھ نصیب
سر پر مرے کروڑ برس تک ہُما پھرا
آنکھیں بہ رنگِ نقشِ قدم ہو گئیں سفید
نامے کے انتظار میں قاصد بھلا پھرا
کس شام سے اُٹھا تھا مرے دل میں درد سا
سو ہو چلا ہوں پیش تر از صبح سرد سا
بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں
پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا
قصدِ طریقِ عشق کیا سب نے بعد قیس
لیکن ہوا نہ ایک بھی اُس رہ نورد سا
کیا میرؔ ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا
نم ناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا
ترے عشق میں آگے سودا ہوا تھا
پر اتنا بھی ظالم نہ رُسوا ہوا تھا
خزاں التفات اس پہ کرتی بجا تھی
یہ غنچہ چمن میں ابھی وا ہوا تھا
کہاں تھا تُو اس طور آنے سے میرے
گلی میں تری کل تماشا ہوا تھا
زہے طالع اے میرؔ اُن نے یہ پوچھا
کہاں تھا تو اب تک تجھے کیا ہوا تھا
آہ کے تئیں دلِ حیران و خفا کو سونپا
میں نے یہ غنچۂ تصویر صبا کو سونپا
تیرے کوچے میں مری خاک بھی پامال ہوئی
تھا وہ بے درد مجھے جن نے وفا کو سونپا
اب تو جاتا ہی ہے کعبے کو تُو بُت خانے سے
جلد پھر پہنچیو اے میرؔ! خدا کو سونپا
گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
جگر پر زخم ہے اُس کی زباں درازی کا
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
چلو ہو راہِ موافق کہے مخالف کے
طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا
کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ
دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا
بسانِ خاک ہو پامال راہِ خلق اے میرؔ
رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا
کام میرا بھی ترے غم میں کہوں ہو جائے گا
جب یہ کہتا ہوں تو کہتا ہے کہ ہوں ہو جائے گا
خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے
قتل کرتے کرتے تیرے تئیں جنوں ہو جائے گا
بزمِ عشرت میں ملامت ہم نگوں بختوں کے تئیں
جوں حبابِ بادہ ساغر سرنگوں ہو جائے گا
یار عجب طرح نگہ کر گیا
دیکھنا وہ دل میں جگہ کر گیا
تنگ قبائی کا سماں یار کی
پیرہنِ غنچہ کو تہ کر گیا
جانا ہے اِس بزم سے آیا تو کیا
کوئی گھڑی گو کہ تُو رہ کر گیا
وصفِ خط و خال میں خوباں کے میرؔ
نامۂ اعمال سیہ کر گیا
کیا کہیے کہ خوباں نے اب ہم میں ہے کیا رکھا
ان چشم سیاہوں نے بہتوں کو سُلا رکھا
جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے
گل پھول کو ہے اُن نے پردہ سا بنا رکھا
جوں برگِ خزاں دیدہ سب زرد ہوئے ہم تو
گرمی نے ہمیں دل کی آخر کو جلا رکھا
کہیے جو تمیز اس کو کچھ اچھے برے کی ہو
دل جس کسو کا پایا چٹ اُن نے اُڑا رکھا
تھی مسلکِ الفت کی مشہور خطرناکی
میں دیدہ و دانستہ کس راہ میں پا رکھا
خورشید و قمر پیارے رہتے ہیں چھپے کوئی
رخساروں کو گو تُو نے برقعے میں چھپا رکھا
لگنے کے لیے دل کے چھڑکا تھا نمک میں نے
سو چھاتی کے زخموں نے کل دیر مزا رکھا
قطعی ہے دلیل اے میرؔ اس تیغ کی بے آبی
رحم اُن نے مرے حق میں مطلق نہ روا رکھا
سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا
دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا
سب گئے ہوش و صبر و تاب تواں
دل سے اک داغ ہی جدا نہ ہوا
ظلم و جور و جفا ستم بیداد
عشق میں تیرے ہم پہ کیا نہ ہوا
ہم تو ناکام ہی جہاں میں رہے
یاں کبھو اپنا مدعا نہ ہوا
میرؔ افسوس وہ کہ جو کوئی
اس کے دروازے کا گدا نہ ہوا
آہ سحر نے سوزشِ دل کو مٹا دیا
اس باد نے ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ بادِ صبح کہ آ کر اُٹھا دیا
اُس فتنۂ زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ رازِ عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے دل کی وہ پردہ اُٹھا دیا
اس موج خیز دہر میں ہم کو قضا نہ آہ
پانی کے بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اُس کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شورِ ماہ من کے لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگانِ عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشتِ غبار لے کے صبا نے اُڑا دیا
گویا محاسبہ مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل سی چیز کو میں نے لگا دیا
ہم نے تو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوئے کبابِ سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر بھی آتشِ غم نے جلا دیا
تکلیف دردِ دل کی عبث ہم نشیں نے لی
دردِ سخن نے میرے سبھوں کو رُلا دیا
اُن نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
سوجاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب
دھوکے ترے کس دن میں جان دے رہوں گا
کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب
مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا
روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب
مایوسِ وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں
گزرے ہے میرؔ اُن کو امیدوار ہر شب
شب سوزِ دل کہا تھا میں مجلس میں شمع سے
روئی ہے یاں تلک کہ بھرا ہے لگن میں آب
دریا میں قطرہ قطرہ ہے آبِ گہر کہیں
ہے میرؔ موج زن ترے ہر یک سخن میں آب
اب وہ نہیں کہ آنکھیں تھیں پُر آب روز و شب
ٹپکا کرے ہے آنکھوں سے خونناب روز و شب
اس کے لیے نہ پھرتے تھے ہم خاک چھانتے
رہتا تھا پاس وہ درِ نایاب روز و شب
قدرت تو دیکھ عشق کی مجھ سے ضعیف کو
رکھتا ہے شاد بے خور و بے خواب روز و شب
اب رسمِ ربط اُٹھ ہی گئی ورنہ پیش ازیں
بیٹھے ہی رہتے تھے بہم احباب روز و شب
یہ اتصال اشکِ جگر سوز کا کہاں
روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب
(ق)
شکوہ عبث ہے میرؔ کہ کڑھتے ہیں سارے دن
یاں دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب
گزرا کسے جہاں میں خوشی سے تمام روز
کس کی کٹی زمانے میں بے غم تمام شب
کس کی مسجد کیسے بت خانے کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشمِ سیہ کی سب خراب
تو کہاں، اس کی کمر کیدھر، نہ کریو اضطراب
اے رگِ گل دیکھیو کھاتی ہے جو تو پیچ و تاب
موند رکھنا چشم کا ہستی میں عینِ دید ہے
کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب
تُو ہو اور دنیا ہو ساقی میں ہوں مستی ہو مدام
پر بطِ صہبا نکالے اُڑ چلے رنگِ شراب
ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک
ٹک تو رہ پیری چلی آتی ہے اے عہدِ شباب؟
وائے اس جینے پر اے مستی کہ دورِ چرخ میں
جامِ مے پر گردش آوے اور مے خانہ خراب
مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سرشکِ آب دار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب
کچھ نہیں بحرِ جہاں کی موج پر مت بھول میرؔ
دُور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب
دیکھ خورشید تجھ کو اے محبوب!
عرقِ شرم میں گیا ہے ڈوب
آئی کنعاں سے بادِ مصر ولے
نہ گئی تابہ کلبۂ یعقوب
اس لیے عشق میں نے چھوڑا تھا
تو بھی کہنے لگا برا کیا خوب
پی ہو مے تو لہو پیا ہوں میں
محتسب آنکھوں پر ہے کچھ آشوب
میرؔ شاعر بھی زور کوئی تھا
دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب
روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات
نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آ بھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
اک بار تو اس شوخ سے یا رب! ہو ملاقات
جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بہ خود بھی
کچھ لطف اُٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات
وحشت ہے بہت میرؔ کو مل آئیے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات
سب ہوئے نادم پئے تدبیر ہو جاناں سمیت
تیر تو نکلا مرے سینے سے لیکن جاں سمیت
تنگ ہو جاوے گا عرصہ خفتگانِ خاک پر
گر ہمیں زیرِ زمیں سونپا دلِ نالاں سمیت
باغ کر دکھلائیں گے دامانِ دشتِ حشر کو
ہم بھی واں آئے اگر مژگانِ خوں افشاں سمیت
قیس و فرہاد اور وامق عاقبت جی سے گئے
سب کو مارا عشق نے مجھ خانماں ویراں سمیت
اُٹھ گیا پردہ نصیحت گر کے لگ پڑنے سے میرؔ
پھاڑ ڈالا میں گریباں رات کو داماں سمیت
آنکھوں پہ تھے پارۂ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن وفا بھی کرتے وعدہ
گزری ہے اُمیدوار ہر رات
مکھڑے سے اُٹھائیں اُن نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تُو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اُٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گزر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گزری ہمیں ساری بے خبر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شبِ وصل اک ادا پر
اُس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بختِ خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
تھی صبح جو مجھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میرؔ کس قدر رات
جیتا ہی نہیں ہو جسے آزارِ محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمارِ محبت
ہر جنس کی خواہاں ملے بازار جہاں میں
لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت
اس راز کو رکھ جی ہی میں تاجی بچے تیرا
زنہار جو کرتا ہو تُو اظہار محبت
بے کار نہ رہ عشق میں تُو رونے سے ہرگز
یہ گریہ ہی ہے آبِ رُخِ کارِ محبت
کیا کیا لکھا ہے میں نے وہ میرؔ کیا کہے گا
گم ہووے نامہ بر سے یا رب مری کتابت
جی میں ہے یادِ رخ و زلفِ سیہ فام بہت
رونا آتا ہے مجھے ہرسحَر و شام بہت
دستِ صیّاد تلک بھی نہ میں پہنچا جیتا
بے قراری نے لیا مجھ کو تہِ دام بہت
ایک دو چشمک ادھر گردشِ ساغر کہ مدام
سر چڑھی رہتی ہے یہ گردشِ ایام بہت
دل خراشی و جگر چاکی و خون افشانی
ہوں تو ناکام پہ رہتے ہیں مجھے کام بہت
پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ
غالباً زیرِ زمیں میرؔ ہے آرام بہت
کیا کہیں اپنی اُس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات
نکتہ دانانِ رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
کس کا روئے سخن نہیں اُودھر
ہے نظر میںہماری سب کی بات
ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اُس کے زیرِ لب کی بات
کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات
گو کہ آتش زباں تھے آگے میرؔ
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات
آئے ہیں میرؔ منھ کو بنائے خفا سے آج
شاید بگڑ گئی ہے کچھ اُس بے وفا سے آج
ساقی ٹک ایک موسم گُل کی طرف بھی دیکھ
ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج
تھا جی میں اُس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میرؔ
پر کچھ کہا گیا نہ غمِ دل حیا سے آج
کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ
چشم ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منھ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ
عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ
یارو مت اُس کا فریبِ مہر کھاؤ
میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ
فائدہ مصر میں یوسف رہے زنداں کے بیچ
بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعاں کے بیچ
چشمِ بد دور کہ کچھ رنگ ہے اب گریے پر
خون جھمکے ہے پڑا دیدۂ گریاں کے بیچ
حالِ گلزارِ زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق
رنگ کچھ اور ہی ہو جائے ہے اک آن کے بیچ
تاک کی چھاؤں میں جوں مست پڑے سوتے ہیں
اینڈتی ہیں نگہیں سایۂ مژگاں کے بیچ
دعویِ خوش دہنی اُس سے اسی منھ پر گُل
سر تو ٹک ڈال کے دیکھ اپنے گریباں کے بیچ
کان رکھ رکھ کے بہت دردِ دلِ میرؔ کو تم
سنتے تو ہو پہ کہیں درد نہ ہو کان کے بیچ
کر نہ تاخیر تُو اک شب کی ملاقات کے بیچ
دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ
حرف زن مت ہو کسی سے تُو کہ اے آفتِ شہر
جاتے رہتے ہیں ہزاروں کے سر اک بات کے بیچ
میری طاعت کو قبول آہ کہاں تک ہو گا
سبحہ اک ہاتھ میں ہے جام ہے اک ہات کے بیچ
سُرمگیں چشم پہ اُس شوخ کی زنہار نہ جا
ہے سیاہیِ مژہ میں وہ نگہ گھات کے بیچ
زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں
اک دلِ غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ
ہونے لگا گزار غمِ یار بے طرح
رہنے لگا ہے دل کو اب آزار بے طرح
جاں بر تمہارے ہاتھ سے ہو گا نہ اب کوئی
رکھنے لگے ہو ہاتھ میں تلوار بے طرح
لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میرؔ
بپھرا ہے آج دیدۂ خونبار بے طرح
میں اور قیس و کوہ کن اب جو زباں پہ ہیں
مارے گئے ہیں سب یہ گنہ گار ایک طرح
منظور اس کے پردے میں ہیں بے حجابیاں
کس سے ہوا دُچار وہ عیار ایک طرح
سب طرحیں اُس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح
(ق)
نیرنگِ حسنِ دوست سے کر آنکھیں آشنا
ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح
ایک شب پہلو کیا تھا گرم اُن نے تیرے ساتھ
رات کو رہتا ہے اکثر میرؔ کے پہلو میں درد
آوے گی میری قبر سے آواز میرے بعد
اُبھریں گے عشق دل سے ترے راز میرے بعد
بیٹھا ہوں میرؔ مرنے کو اپنے میں مستعد
پیدا نہ ہوں گے مجھ سے بھی جاں باز میرے بعد
ہوں رہ گزر میں تیرے ہر نقشِ پا ہے شاہد
اُڑتی ہے خاک میری بادِ صبا ہے شاہد
طوفِ حرم میں بھی میں بھُولا نہ تجھ کو اے بت
آتا تھا یا تُو ہی میرا خدا ہے شاہد
شرمندۂ اثر کچھ باطن مرا نہیں ہے
وقتِ سحر ہے شاہد دستِ دعا ہے شاہد
نالے میں اپنے پنہاں میں بھی ہوں ساتھ تیرے
شاہد ہے گردِ محمل شورِ درا ہے شاہد
نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد!
آخرِ کار کیا کہا قاصد!
کوئی پہنچا نہ خط مرا اُس تک
میرے طالع ہیں نارسا قاصد
گِر پڑا خط تو تجھ پہ حرف نہیں
یہ بھی میرا ہی تھا لکھا قاصد
اب غرض خامشی ہی بہتر ہے
کیا کہوں تجھ سے ماجرا قاصد
کہنہ قصّہ لکھا کروں تاکے
بھیجا کب تک کروں نیا قاصد
ہے طلسمات اس کا کُوچہ تو
جو گیا سو وہیں رہا قاصد
اے گلِ نو دمیدہ کے مانند
ہے تُو کس آفریدہ کے مانند
ہم اُمید وفا پہ تیرے ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
سر اُٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغِ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتارِ حال ہیں اپنے
طائرِ پر پریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشکِ خونیں میں
صیدِ در خوں تپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیوں کے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند
قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد
چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد
بہت ہیں ہاتھ ہی تیرے نہ کر قفس کی فکر
مرا تو کام اِنہیں میں تمام ہے صیاد
چمن میں مَیں نہیں ایسا پھنسا کہ یوں چھُوٹوں
مجھے تو ہر رگِ گُل تارِ دام ہے صیاد
یہی گُلوں کی تنک دیکھوں اتنی مہلت ہو
چمن میں اور تو کیا مجھ کو کام ہے صیاد
ابھی کہ وحشی ہے اس کش مکش کے بیچ ہے میرؔ
خدا ہی اس کا ہے جو تیرا رام ہے صیاد
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد!
ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد
فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد!
خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد
سنتے ہو ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد
بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد
ہر طرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیاد
ہم کو مرنا یہ ہے کب ہوں کہیں
اپنی قیدِ حیات سے آزاد
نہیں صورت پذیر نقش اُس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد
اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گزر
اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر
ہم تو اسیرِ کنجِ قفس ہو کے مر چلے
اے اشتیاقِ سیرِ چمن تیری کیا خبر!
اے سیل ٹک سنبھل کے قدم بادیے میں رکھ
ہر سمت کو ہے تشنہ لبی کا مری خطر
کرتا ہے کون منع کہ سج اپنی تُو نہ دیکھ
لیکن کبھی تو میرؔ کے کر حال پر نظر
نہ ہو ہرزہ درا اتنا خموشی اے جرس بہتر
نہیں اس قافلے میں اہلِ دل ضبطِ نفس بہتر
غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر
پھر دیکھنا اِدھر کو آنکھیں ملا ملا کر
ہر گام سدِّ رہ تھی بُت خانے کی محبّت
کعبے تلک تو پہنچے لیکن خدا خدا کر
نخچیر گہ میں تجھ سے جو نیم کشتہ چھوٹا
حسرت نے اُس کو مارا آخر لِٹا لِٹا کر
اک لطف کی نگہ بھی ہم نے نہ چاہی اُس سے
رکھا ہمیں تو اُن نے آنکھیں دکھا دکھا کر
ناصح مرے جنوں سے آگہ نہ تھا کہ ناحق
گودڑ کیا گریباں سارا سِلا سِلا کر
جوں شمعِ صبح گاہی اک بار بجھ گئے ہم
اس شعلہ خُو نے ہم کو مارا جلا جلا کر
اس حرفِ ناشنود سے صحبت بگڑ ہی جاہے
ہر چند لاتے ہیں ہم باتیں بنا بنا کر
میں منع میرؔ تجھ کو کرتا نہ تھا ہمیشہ!
کھوئی نہ جان تُو نے دل کو لگا لگا کر!
دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار
اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار
ساقی تو ایک بار تو توبہ مری تُڑا
توبہ کروں جو پھر تو ہے توبہ ہزار بار
کیا زمزمہ کروں ہوں خوشی تجھ سے ہم صغیر
آیا جو میں چمن میں تو جاتی رہی بہار
کس ڈھب سے راہِ عشق چلوں ہے یہ ڈر مجھے
پھوٹیں کہیں نہ آبلے ٹوٹیں کہیں نہ خار
کُوچے کی اُس کے راہ نہ بتلائی بعدِ مرگ
دل میں صبا رکھے تھے مری خاک سے غبار
اے پائے خم کی گردشِ ساغر ہو دست گیر
مرہونِ دردِ سر ہو کہاں تک مرا خمار
وسعت جہاں کی چھوڑ جو آرام چاہے میرؔ
آسودگی رکھے ہے بہت گوشۂ مزار
یہ عشق بے اجل کش ہے بس اے دل اب توکل کر
اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر
سفر ہستی کا مت کر سرسری جوں یاد اے راہرو!
یہ سب خاک آدمی تھے ہر قدم پر ٹک تامّل کر
سن اے بے درد گُل چیں غارتِ گلشن مبارک ہے
پہ ٹک گوشِ مروت جانبِ فریادِ بلبل کر
نہ وعدہ تیرے آنے کا نہ کچھ امید طالع سے
دلِ بے تاب کو کس منھ سے کہیے ٹک تحمُّل کر
تجلی جلوہ ہیں کچھ بام و در غم خانے کا میرے
وہ رشکِ ماہ آیا ہم نشیں بس اب دیا گُل کر
گدازِ عاشقی کا میرؔ کے شب ذکر آیا تھا
جو دیکھا شمعِ مجلس کو تو پانی ہو گئی گھل کر
کر رحم ٹک کب تک ستم مجھ پر جفاکاراس قدر
یک سینہ خنجر سیکڑوں اک جان و آزار اس قدر
بھاگے مری صورت سے وہ عاشق میں اُس کی شکل پر
میں اُس کا خواہاں یاں تلک وہ مجھ سے بیزار اس قدر
منزل پہنچنا یک طرف نَے صبر ہے نَے ہے سکوں
یکسر قدم میں آبلے پھر راہ پُر خار اس قدر
جز کش مکش ہووے تو کیا عالم سے ہم کو فائدہ
یہ بے فضا ہے اک قفس ہم ہیں گرفتار اس قدر
قیامت تھا سماں اس خشمگیں پر
کہ تلواریں چلیں ابرو کی چیں پر
نہ دیکھا آخر اس آئینہ رُو کو
نظر سے بھی نگاہِ واپسیں پر
گئے دن عجز و نالے کے کہ اب ہے
دماغِ نالہ چرخِ ہفتمیں پر
ہوا ہے ہاتھ گُل دستہ ہمارا
کہ داغِ خوں بہت ہے آستیں پر
(ق)
خدا جانے کہ کیا خواہش ہے جی کو
نظر اپنی نہیں ہے مہر و کیں پر
پر افشانی قفس ہی کی بہت ہے
کہ پروازِ چمن قابل نہیں پر
قدم دشتِ محبت میں نہ رکھ میرؔ
کہ سر جاتا ہے گامِ اولیں پر
دل، دماغ و جگر یہ سب اک بار
کام آئے فراق میں اے یار!
کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر
مر گئے ہیں قشون کے سردار
گُلِ پژمردہ کا نہیں ممنون
ہم اسیروں کا گوشۂ دستار
سیکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پر کہاں پایئے لبِ اظہار
بحثِ نالہ بھی کیجیو بلبل!
پہلے پیدا تو کر لبِ گفتار
شکر کر داغِ دل کا اے غافل!
کس کو دیتے ہیں دیدۂ بیدار
گو غزل ہو گئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طولِ حرف شعار
ہر سحر لگ چلی تو ہے تُو نسیم!
اے سیہ مستِ ناز ٹک ہشیار
شاخسانے ہزار نکلیں گے
جو گیا اس کی زلف کا اک تار
(ق)
آ زیارت کو قبرِ عاشق پر
اک طرح کا ہے یاں بھی جوشِ بہار
نکلے ہے میری خاک سے نرگس
یعنی اب تک ہے حسرتِ دیدار
(ق)
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
سہل سی زندگی پہ کام کے تئیں
اپنے اوپر نہ کیجیے دشوار
چار دن کا ہے مجہلہ یہ سب
سب سے رکھیے سلوک ہی ناچار
کوئی ایسا گناہ اور نہیں
یہ کہ کیجے ستم کسی پر یار
(ق)
واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدرِ ہفت آسمانِ ظلم شعار
یہی درخواست پاسِ دل کی ہے
نہیں روزہ نماز کچھ درکار
درِ مسجد پہ حلقہ زن ہو تم
کہ رہو بیٹھ خانۂ خمار
جی میں آوے سو کیجیو پیارے
ایک ہونا نہ درپئے آزار
حاصلِ دو جہان ہے اک حرف
ہو مری جان آگے تم مختار
لبوں پر ہے ہر لحظہ آہِ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھربار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیوںکر
کہ ہے اس تنِ نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہو تو
چپک جائیں باہم وہ لعلِ شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے
نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار
مرے نخلِ ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
جہاں میرؔ رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
غصے سے اُٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر
جاتے رہیں گے ہم بھی گریبان پھاڑ کر
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
بچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اُجاڑ کر
یا رب رہِ طلب میں کوئی کب تلک پھرے
تسکین دے کے بیٹھ رہوں پاؤں گاڑ کر
منظور ہو نہ پاس ہمارا تو حیف ہے
آئے ہیں آج دور سے ہم تجھ کو تاڑ کر
غالب کہ دیوے قوتِ دل اس ضعیف کو
تنکے کو جو دکھا دے ہے پل میں پہاڑ کر
مرتے ہیں تیری نرگسِ بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے
پھر مر گئے ترے تئیں اک بار دیکھ کر
دیکھیں جدھر وہ رشکِ پری پیشِ چشم ہے
حیران رہ گئے ہیں یہ اسرار دیکھ کر
جاتا ہے آسماں لیے کوچے سے یار کے
آتا ہے جی بھرا در و دیوار دیکھ کر
تیرے خرامِ ناز پہ جاتے ہیں جی جلے ؟
رکھ ٹک قدم زمیں پہ ستم گار دیکھ کر
جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میرؔ
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر
دیکھ اس کو ہنستے سب کے دم سے گئے اکھڑ کر
ٹھہری ہے آرسی بھی دانتوں زمیں پکڑ کر
کیا کیا نیاز طینت اے ناز پیشہ تجھ بن
مرتے ہیں خاکِرہ سے گوڑے رگڑ رگڑ کر
وہ سر چڑھا ہے اتنا اپنی فروتنی سے
کھویا ہمیں نے اس کو ہر لحظہ پاؤں پڑ کر
پائے ثبات بھی ہے نام آوری کو لازم
مشہور ہے نگیں جو بیٹھا ہے گھر میں گڑ کر
دیکھو نہ چشمِ کم سے معمورۂ جہاں کو
بنتا ہے ایک گھر یاں سو صورتیں بگڑ کر
اس پشتِ لب کے اوپر دانے عرق کے یوں ہیں
یاقوت سے رکھے ہیں جوں موتیوں کو جڑ کر
اپنے مزاج میں بھی ہے میرؔ ضد نہایت
پھر مر کے ہی اُٹھیں گے بیٹھیں گے ہم جو اَڑ کر
کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر تو وہ کر
پر ہو سکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر
وہ تنگ پوش اک دن دامن کشاں گیا تھا
رکھّی ہیں جانمازیں اہلِ ورع نے تہ کر
کیا قصرِ دل کی تم سے ویرانی نقل کریے
ہو ہو گئے ہیں ٹیلے سارے مکان ڈھہ کر
رنگِ شکستہ اپنا بے لطف بھی نہیں ہے
یاں کی تو صبح دیکھی اک آدھ رات رہ کر
ایکوں کی کھال کھینچی ایکوں کو دار کھینچا
اسرار عاشقی کا پچھتائے یار کہہ کر
طاعت کوئی کرے ہے جب ابر زور جھومے
گر ہو سکے تو زاہد اس وقت میں گنہ کر
کیوں تو نے آخر آخر اس وقت منھ دکھایا
دی جان میرؔ نے جو حسرت سے اک نگہ کر
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
حال ہے اور قال ہے کچھ اور
وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں
دم میں عاشق کا حال ہے کچھ اور
سہل مت بُوجھ یہ طلسمِ جہاں
ہر جگہ یاں خیال ہے کچھ اور
تو رگِ جاں سمجھتی ہو گی نسیم!
اُس کے گیسو کا بال ہے کچھ اور
نہ ملیں گو کہ ہجر میں مر جائیں
عاشقوں کا وصال ہے کچھ اور
کوز پشتی پہ شیخ کی مت جاؤ
اُس پہ بھی احتمال ہے کچھ اور
میرؔ تلوار چلتی ہے تو چلے
خوش خراموں کی چال ہے کچھ اور
دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چُور
ضبطِ گریہ سے پڑ گئے ناسور
ہم ضعیفوں کو پائمال نہ کر
دولتِ حسن پر نہ ہو مغرور
عرش پر بیٹھتا ہے کہتے ہیں
گر اُٹھے ہے غبارِ خاطرِ مُور
شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ!
ہے پیارے ہنوز دلی دُور
غیروں سے مل چلے تم مستِ شراب ہو کر
غیرت سے رہ گئے ہم یک سُو کباب ہو کر
کل رات مُند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش سے
دیکھا کیا نہ کر تُو سرمستِ خواب ہو کر
یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلا ہے چشمِ تر سے وہ خونِ ناب ہو کر
ہو آدمی اے چرخ ترکِ گردشِ ایّام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دورِ جام کر
دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو
نالے کو ذکرِ صبح کر گریے کو وردِ شام کر
جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں
ناموس سے آ درگزر بے ننگ ہو کر نام کر
مر رہ کہیں بھی میرؔ جا سرگشتہ پھرنا تا کجا
ظالم کسو کا سن کہا کوئی گھڑی آرام کر
رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
ہاتھ سے جائے گا سر رشتۂ کار آخرکار
لوحِ تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے
یار دشمن ہو گیا جان سے مار آخر کار
مشتِ خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ جا
سر کو کھینچے گا فلک تا یہ غبار آخرِ کار
چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس
آنکھوں سے جاتی رہے گی یہ بہار آخر کار
اولِ کار محبت تو بہت سہل ہے میرؔ
جی سے جاتا ہے ولے صبر و قرار آخر کار
کوئی ہوتا ہے دل تپش سے بُرا
ایک دم کے لہو نہ پینے پر
دل سے میرے شکستیں الجھی ہیں
سنگ باراں ہے آبگینے پر
جورِ دلبر سے کیا ہوں آزردہ
میرؔ اس چار دن کے جینے پر
سوتا ہے بے خبر تو نشے میں جو رات کو
سو بار میرؔ نے تری اُٹھ اُٹھ کے لی خبر
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر
دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر
دست کش نالہ پیش رو گریہ
آہ چلتی ہے یاں علم لے کر
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک
غم دوری چلے ہیں ہم لے کر
بارہا صید گہ سے اس کی گئے
داغِ یاس آہوئے حرم لے کر
ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر
دل پہ کب اکتفا کرے ہے عشق
جائے گا جان بھی یہ غم لے کر
شوق اگر ہے یہی تو اے قاصد!
ہم بھی آتے ہیں اب رقم لے کر
میرؔ صاحب ہی چُوکے اے بد عہد!
ورنہ دینا تھا دل قسم لے کر
پشتِ پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر
ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر
گرد مے نوش آؤ شیخِ شہر!
ابر جھوما ہی جا ہے صحرا پر
یاں جہاں میں کہ شہر کوراں ہے
سات پردے ہیں چشمِ بینا پر
فرصتِ عیش اپنی یوں گزری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر
میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر
جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
اَن جان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر
وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
جھمکے دکھا کے باعثِ ہنگامہ ہی رہے
پر گھر سے در پہ آئے نہ تم بات مان کر
تا کشتۂ وفا مجھے جانے تمام خلق
تُربت پہ میری خون سے میرے نشان کر
افسانے مامون کے سنیں میرؔ کب تلک
چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر
حاصل بجز کدورت اس خاک داں سے کیا ہے
خوش وہ کہ اُٹھ گئے ہیں داماں جھٹک جھٹک کر
یہ مشتِ خاک یعنی انسان ہی ہے رُو کش
ورنہ اٹھائی کن نے اس آسماں کی ٹکّر
منزل کی میرؔ اس کی کب راہ تجھ سے نکلے
یاں خضر سے ہزاروں مرمر گئے بھٹک کر
زخمِ دروں سے میرے نہ ٹک بے خبر رہو
اب ضبطِ گریہ سے ہے اُدھر ہی کو سب نچوڑ
بلبل کی اور چشمِ مروت سے دیکھ ٹک
بے درد یوں چمن میں کسو پھول کو نہ توڑ
کچھ کوہ کن ہی سے نہیں تازہ ہوا یہ کام
بہتیرے عاشقی میں موئے سر کو پھوڑ پھوڑ
بے طاقتی سے میرؔ لگے چھُوٹنے پران
ظالم خیال دیکھنے کا اس کے اب تو چھوڑ
ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز
غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز
احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اُٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز
توڑا تھا کس کا شیشۂ دل تُو نے سنگ دل
ہے دل خراش کُوچے میں تیرے صدا ہنوز
بے بال و پر اسیر ہوں کنجِ قفس میں میرؔ
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
تر ہیں سب سر کے لہو سے در و دیوار ہنوز
دل بھی پُر داغِ چمن ہے پر اسے کیا کیجیے
جی سے جاتی ہی نہیں حسرتِ دیدار ہنوز
بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب
بہِ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز
بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ!
تُو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز
کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سرِ خار ہنوز
منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی
جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہ گار ہنوز
اُڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کُوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز
مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز
ہو چکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز
اشک کی لغزشِ مستانہ پہ مت کیجو نظر
دامنِ دیدۂ گریاں سے مرا پاک ہنوز
بعد مرنے کے بھی آرام نہیں میرؔ مجھے
اُس کے کوچے میں ہے پامال مری خاک ہنوز
خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز
آتشِ دل نہیں بجھی شاید
قطرۂ اشک ہے شرارہ ہنوز
اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا
چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز
عمر گزری دوائیں کرتے میرؔ
دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز
حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
اک برگِ گل گرا نہ جہاں تھا مرا قفس
مجنوں کا دل ہوں محملِ لیلیٰ سے ہوں جدا
تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس
اے گریہ اُس کے دل میں اثر خوب ہی گیا
روتا ہوں جب میں سامنے اُس کے تودے ہے ہنس
اُس کی زباں کے عہدے سے کیوں کر نکل سکوں
کہتا ہوں ایک میں تو سناتا ہے مجھ کو دس
کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم سے مجھ بیدل کے پاس
آ کے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس
ہے پریشاں دشت میں کس کا غبارِ ناتواں
گرد کچھ گستاخ آتی ہے چلی محمل کے پاس
بوئے خوں آتی ہے بادِ صبح گاہی سے مجھے
نکلی ہے بے درد شاید ہو کسو گھائل کے پاس
آہ نالے مت کیا کر اس قدر بے تاب ہو
اے ستم کش میرؔ ظالم ہے جگر بھی دل کے پاس
مر گیا میں ملا نہ یار افسوس
آہ افسوس صد ہزار افسوس
یوں گنواتا ہے دل کوئی مجھ کو
یہی آتا ہے بار بار افسوس
قتل گر تُو ہمیں کرے گا خوشی
یہ توقع ہے تجھ سے یار افسوس
رخصتِ سیرِ باغ تک نہ ہوئی
یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس
خوب بد عہد تُو نہ مل لیکن
میرے تیرے تھا یہ قرار افسوس
ہر جزر و مد سے دست و بغل اُٹھتے ہیں خروش
کس کا ہے راز بحر میں یا رب کہ یہ ہیں جوش
ابروئے کج ہے موج کوئی چشم ہے حباب
موتی کسی کی بات ہے سیپی کسی کا گوش
ان مغ بچوں کے کُوچے ہی سے میں کیا سلام
کیا مجھ کو طوفِ کعبہ سے میں رندِ دُرد نوش
حیرت سے ہووے پرتوِ مہ نور آئنہ
تو چاندنی میں نکلے اگر ہو سفید پوش
(ق)
کل ہم نے سیرِ باغ میں دل ہاتھ سے دیا
اک سادہ گُل فروش کا آ کر سبد بدوش
جاتا رہا نگاہ سے جوں موسمِ بہار
آج اُس بغیر داغِ جگر ہیں سیاہ پوش
(ق)
شب اس دلِ گرفتہ کو وا کر بہ زورِ مے
بیٹھے تھے شیرہ خانے میں ہم کتنے ہرزہ کوش
آئی صدا کہ یار کرو دورِ رفتہ کو
عبرت بھی ہے ضرور ٹک اے جمع تیز ہوش
جمشید جس نے وضع کیا جام کیا ہوا
وے صحبتیں کہاں گئیں کیدھر وے نا و نوش
جُز لالہ اِس کے جام سے پاتے نہیں نشاں
ہے کوکنار اس کی جگہ اب سبو بدوش
جھومے ہے بید جائے جوانانِ مے گسار
بالائے خم ہے خشت سرِپیرِ مے فروش
میرؔ اس غزل کو خوب کہا تھا ضمیر نے
پر اے زباں دراز بہت ہو چکی خموش!
پان تو لیتا جا فقیروں کے
"برگِ سبزست تحفۂ درویش"
فکر کر زادِ آخرت کا بھی
میرؔ اگر تُو ہے عاقبت اندیش
سب سے آئینہ نمط رکھتے ہیں خوباں اختلاط
ہوتے ہیں یہ لوگ بھی کتنے پریشاں اختلاط
تنگ آگیا ہوں میں رشکِ تنگ پوشی سے تری
اس تنِ نازک سے یہ جامے کو چسپاں اختلاط
ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ
کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ
تم اور ہم سے محبت تمہیں خلاف خلاف
ہم اور اُلفتِ خوبِ دگر دروغ دروغ
غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل
تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ
فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے
شبِ فراق کو کب ہے سَحردروغ دروغ
کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو میرؔ سے تُو
وہ اور اُس کو کسو پر نظر دروغ دروغ
شیخ سچ خوب ہے بہشت کا باغ
جائیں گے گر وفا کرے گا دماغ
آج کل کاہے کو بتلاتے ہو گستاخی معاف
راستی یہ ہے کہ وعدے ہیں تمہارے سب خلاف
شیخ مت رُو کش ہو مستوں کا تو اس جبے اُوپر
لیتے استنجے کا ڈھیلا تیری ٹل جاتی ہے ناف
کن نے لیا ہے تم سے مچلکہ کہ داد دو
ٹک کان ہی رکھا کرو فریاد کی طرف
ہم نے پر افشانی نہ جانی کہ ایک بار
پرواز کی چمن سے سو صیاد کی طرف
حیران کارِ عشق ہے شیریں کا نقش میرؔ
کچھ یوں ہی دیکھتا نہیں فرہاد کی طرف
جو دیکھو مرے شعرِ تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
کوئی دادِ دل آہ کس سے کرے
ہر اک ہے سو اُس فتنہ گر کی طرف
محبت نے شاید کہ دی دل میں آگ
دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف
لگی ہیں ہزاروں ہی آنکھیں اُدھر
اک آشوب ہے اُس کے گھر کی طرف
بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو
ہماری طرف سے سَحر کی طرف
کسے منزلِ دل کشِ دہر میں
نہیں میلِ خاطر سفر کی طرف
درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق
شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق
تو نہ ہووے تو نظمِ کُل اٹھ جائے
سچے ہیں شاعراں خدا ہے عشق
آسودگی جو چاہے تُو مرنے پہ دل کو رکھ
آشفتگیِ طبع بہت کم ہے زیرِ خاک
کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میرؔ آپ کو
جانا جہاں سے سب کو مُسلم ہے زیرِ خاک
اب وہ نہیں کہ شورش رہتی تھی آسماں تک
آشوبِ نالہ اب تو پہنچا ہے لامکاں تک
تصویر کی سی شمعیں خاموش جلتے ہیں ہم
سوزِ دروں ہمارا آتا نہیں زباں تک
روتے پھریں ہیں لوہو اک عمر اس گلی میں
باغ و بہار ہی ہے جاوے نظر جہاں تک
بے لطف تیرے کیوں کر تجھ تک پہنچ سکیں ہم
ہیں سنگِ راہ اپنے کتنے یہاں سے واں تک
مانند طیرِ نو پر اُٹھے جہاں گئے ہم
دشوار ہے ہمارا آنا پھر آشیاں تک
تن کام میں ہمارے دیتا نہیں وہی کچھ
حاضر ہیں میرؔ ہم کو اپنی طرف سے جاں تک
کب سے متحمل ہے جفاؤں کا دلِ راز
زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک
وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ
پر دل نہیں خالی غمِ دیدار سے اب تک
مدت ہوئی گھُٹ گھُٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک
برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک
اک درد سا اُٹھتا ہے چمن زار سے اب تک
کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے
پوچھا نہیں اُن نے تو ہمیں پیار سے اب تک
اب باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو
یوں نالہ کسو مرغِ گرفتار سے اب تک
میرؔ گم کردہ چمن زمزمہ پرواز ہے ایک
جس کی لَے دام سے تا گوش گل آواز ہے ایک
کچھ ہو اے مرغِ فقس لطف نہ جاوے اُس سے
نوحہ یا نالہ ہر اک بات کا اندازہ ہے ایک
ناتوانی سے نہیں بال فشانی کا دماغ
ورنہ تا باغ قفس سے مری پرواز ہے ایک
گوش کو ہوش کے ٹک کھول کے سن شورِ جہاں
سب کی آواز کے پردے میں سخن ساز ہے ایک
چاہے جس شکل سے تمثال صفت اُس میں در آ
عالم آئینے کے مانند درِ باز ہے ایک
بالیں پہ میری آوے گا تُو گھر سے جب تلک
کر جاؤں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک؟
اتنا دن اور دل سے تپش کر لے کاوشیں
یہ مجہلہ تمام ہی ہے آج شب تلک
نقّاش کیوں کے کھینچ چکا تو شبیہِ یار
کھینچوں ہوں ایک ناز ہی اُس کا میں اب تلک
شوق ہے تو ہے اُس کا گھر نزدیک
دوریِ رہ ہے راہبر نزدیک
آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک
دُور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیش تر نزدیک
خبر آتی ہے سو بھی دُور سے یاں
آؤ یک بار بے خبر نزدیک
دُور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک
مر بھی رہ میرؔ شب بہت رویا
ہے مری جان اب سَحر نزدیک
کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا
خَزَف سے لے کے دیکھا دُرِّ تر تک
جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے
اُسے پھر خاک ہی پایا سحَر تک
گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق
کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک
دکھائی دیں گے ہم میّت کے رنگوں
اگر رہ جائیں گے جیتے سَحر تک
کہاں پھر شور و شیون جب گیا میرؔ
یہ ہنگامہ ہے اُس ہی نوحہ گر تک
دست و پا مارے وقتِ بسمل تک
ہاتھ پہنچا نہ پائے قاتل تک
کعبے پہنچا تو کیا ہوا اے شیخ!
سعی کر ٹک پہنچ کے اس دل تک
نہ گیا میرؔ اپنی کشتی سے
ایک بھی تختہ پارہ ساحل تک
شاید کہ دیوے رخصتِ گلشن ہو بے قرار
میرے قفس کو لے تو چلو باغباں تلک
قیدِ قفس سے چھُوٹ کے دیکھا جلا ہوا
پہنچے نہ ہوتے کاش کے ہم آشیاں تلک
میں ترکِ عشق کر کے ہوا گوشہ گیر میرؔ
ہوتا پھروں خراب جہاں میں کہاں تلک
آزردگی یہ چھوڑ قفس ہم سے نہ جاسکے
حسنِ سلوک ضعف سے صحنِ چمن تلک
مارا گیا خرامِ بُتاں پر سفر میں میرؔ
اے کبک کہتا جائیو اُس کے وطن تلک
بن جو کچھ بن سکے جوانی میں
رات تو تھوڑی ہے بہت ہے سانگ
عشق کا شور کوئی چھُپتا ہے
نالۂ عندلیب ہے گُل بانگ
کس طرح اُن سے کوئی گرم ملے
سیم تن پگھلے جاتے ہیں جوں رانگ
نقرہ باطل تھا طور پر اپنے
ورنہ جاتے یہ دوڑ ہم بھی پھلانگ
میرؔ بندوں سے کام کب نکلا
مانگتا ہے جو کچھ خدا سے مانگ
فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل
چھانی چمن کی خاک نہ تھا نقشِ پائے گُل
اللہ رے عندلیب کی آوازِ دل خراش
جی ہی نکل گیا جو کہا اُن نے ہائے گُل
مقدور تک شراب سے رکھ اکھڑیوں میں رنگ
یہ چشمکِ پیالہ ہے ساقی ہوائے گل؟
بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے
اے گُل فروش کروی سمجھ کر بہائے گل
نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رُو کی یہ
قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل
بارے سر شکِ سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پر اپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گُل
آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی
لے اے زباں دراز تو سب کچھ ہوائے گُل
گُل چیں سمجھ کے چنُیو کہ گلشن میں میرؔ کے
لختِ جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گُل
گل کی جفا بھی جانی دیکھی وفائے بلبل
یک مشت پر پڑے ہیں گلشن میں جائے بلبل
کر سیر جذبِ الفت گُل چیں نے کل چمن میں
توڑا تھا شاخ گُل کو نکلی صدائے بلبل
کھٹکے ہیں خار ہو کر ہر شب دلِ چمن میں
اتنے لب و دہن پر یہ نالہ ہائے بلبل
یک رنگیوں کی راہیں طے کر کے مرگیا ہے ؟
گُل میں رگیں نہیں یہ ہیں نقشِ پائے بلبل
آئی بہار گلشن گُل سے بھرا ہے لیکن
ہر گوشۂ چمن میں خالی ہے جائے بلبل
پیغام بے غرض بھی سنتے نہیں ہیں خوباں
پہنچی نہ گوشِ گُل تک آخر دعائے بلبل
یہ دل خراش نالے ہر شب کو میرؔ تیرے
کر دیں گے بے نمک ہی شورِ نوائے بلبل
کیسا چمن اسیری میں کس کو اُدھر خیال
پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال
مشکل ہے مٹ گئے ہوۓ نقشوں کی پھر نمود
جو صورتیں بگڑ گئیں اُن کا نہ کر خیال
کس کو دماغِ شعر و سخن ضعف میں کہ میرؔ
اپنا رہے ہے اب تو ہمیں بیش تر خیال
جانیں ہیں فرشِ رہ تری مت ہال ہال چل
اے رشکِ حور آدمیوں کی سی چال چل
اک آن میں بدلتی ہے صورت جہان کی
جلد اس نگار خانے سے کر انتقال چل
سالک بہر طریق بدن ہے وبالِ جاں
یہ بوجھ تیرے ساتھ جو ہے اس کو ڈال چل
دنیا ہے میرؔ حادثہ گاہِ مقرری
یاں سے تُو اپنا پاؤں شتابی نکال چل
سیر کر عندلیب کا احوال
ہیں پریشاں چمن میں کچھ پر و بال
تپِش غم تو گئی طبیب ولے
پھر نہ آیا کبھو مزاج بحال
سبزہ نورستہ رہ گزار کا ہوں
سر اُٹھایا کہ ہو گیا پامال
کیوں نہ دیکھوں چمن کو حسرت سے
آشیاں تھا مرا بھی یاں پر سال
ہجر کی شب کو یاں تئیں تڑپا
کہ ہوا صبح ہوتے میرا وصال
ہم تو سہہ گزرے کج روی تیری
نہ نبھے گی پر اے فلک یہ چال
دیدۂ تر پہ شب رکھا تھا میرؔ
لکۂ ابر سے مرا رومال
مَندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
اس مہلتِ دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلب گار آج کل
ملنے کی رات داخلِ ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل
گلزار ہو رہی ہے مرے دم سے کُوئے یار
اک رنگ پر ہے دیدۂ خوں بار آج کل
کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانۂ خمار آج کل
حیران میں ہی حال کی تدبیر میں نہیں
ہر ایک شہر میں ہے یہ آزار آج کل
اچھا نہیں ہے میرؔ کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل
وعدۂ وصل رہا ہے شبِ آئندہ پہ میرؔ
بختِ خوابیدہ جو ٹک جاگتے سوویں گے کل
رہتا نہیں ہے کوئی گھڑی اب تو یار دل
آزردہ دل ستم زدہ دل بے قرار دل
کیا کہوں کیا رکھتے تھے تجھ سے ترے بیمار چشم
تجھ کو بالیں پر نہ دیکھا کھولی سو سو بار چشم
روز و شب وا رہنے سے پیدا ہے میرؔ آثارِ شوق
ہے کسو نظارگی کا رخنۂ دیوار چشم
کیا بلبلِ اسیر ہے بے بال و پر کہ ہم
گُل کب رکھے ہے ٹکڑے جگر اس قدر کہ ہم
جیتے ہیں تو دکھاویں گے دعوائے عندلیب
گُل بِن خزاں میں اب کے وہ رہتی ہے مر کہ ہم
یہ تیغ ہے یہ طشت ہے یہ ہم ہیں کشتنی
کھیلے ہے کون ایسی طرح جان پر کہ ہم
تلواریں تم لگاتے ہو ہم ہیں گے دم بہ خود
دنیا میں یہ کرے ہے کوئی درگزر کہ ہم
اس جستجو میں اور خرابی تو کیا کہیں
اتنی نہیں ہوئی ہے صبا دربدر کہ ہم
آئے تو ہو طبیاں تدبیر گر کرو تم
ایسا نہ ہو کہ میرے جی کا ضرر کرو تم
رنگِ شکستہ میرا بے لطف بھی نہیں ہے
اک آدھ رات کو تو یاں بھی سحر کرو تم
اُس بزمِ خوش کے محرم نا آشنا ہیں سارے
کس کو کہوں کہ واں تک میری خبر کرو تم
ہے پیچ دار از بس راہِ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو تم
یہ ظلم ہے تو ہم بھی اس زندگی سے گزرے
سوگند ہے تمہیں اب جو درگزر کرو تم
روئے سخن کہاں تک غیروں کی اور آخر
ہم بھی تو آدمی ہیں ٹک منھ ادھر کرو تم
(ق)
ہو عاشقوں میں اُس کے تو آؤ میرؔ صاحب
گردن کو اپنی مُو سے باریک تر کرو تم
کیا لطف ہے وگرنہ جس دم وہ تیغ کھینچے
سینہ سپر کریں ہم قطعِ نظر کرو تم
جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم
پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم
ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں
پھاٹے میں پاؤں دینے کو آئے کہاں سے تم
اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں
کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم
جاؤ نہ دل سے منظرِ تن میں ہے جا یہی
پچھتاؤ گے اُٹھو گے اگر اس مکاں سے تم
قصّہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند
آرامِ چشم مت رکھو اس داستاں سے تم
کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی
آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم
رہتے نہیں ہو بِن گئے میرؔ اُس گلی میں رات
کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم
کرتے نہیں دُوری سے اب اُس کی باک ہم
نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم
آہستہ اے نسیم کہ اطراف باغ کے
مشتاقِ پر فشانی ہیں اک مشتِ خاک ہم
شمع و چراغ و شعلہ و آتش شرار و برق
رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم
مستی میں ہم کو ہوش نہیں نشاتیں کا
گلشن میں اینڈتے ہیں پڑے زیرِ تاک ہم
جوں برق تیرے کُوچے سے ہنستے نہیں گئے
مانندِ ابر جب اُٹھے تب گریہ ناک ہم
مدت ہوئی کہ چاکِ قفس ہی سے اب تو میرؔ
دکھلا رہے ہیں گُل کو دلِ چاک چاک ہم
نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
گئے گزرے ہیں آخر ایسے کیا ہم
کھنچے گی کب وہ تیغِ ناز یا رب!
رہے ہیں دیر سے سر کو جھکا ہم
نہ جانا یہ کہ کہتے ہیں کسے پیار
رہیں بے لطفیاں ہی یاں تو باہم
بنے کیا خال و زلف و خط سے دیکھیں
ہوئے ہیں کتنے یہ کافر فراہم
مرض ہی عشق کا بے ڈول ہے کچھ
بہت کرتے ہیں اپنی سی دوا ہم
کہیں پیوند ہوں یا رب! زمیں کے
پھریں گے اُس سے یوں کب تک جدا ہم
ہوس تھی عشق کرنے میں ولیکن
بہت نادم ہوئے دل کو لگا ہم
کب آگے کوئی مرتا تھا کسی پر
جہاں میں رکھ گئے رسمِ وفا ہم
تعارف کیا رہا اہلِ چمن سے
ہوئے اک عمر کے پیچھے رِہا ہم
مُوا جس کے لیے اُس کو نہ دیکھا
نہ سمجھے میرؔ کا کچھ مدعا ہم
اگر راہ میں اُس کی رکھا ہے گام
گئے گزرے خضرِ علیہ السلام
دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی
سخن یاں ہوا ختم حاصل کلام
(ق)
قیامت ہی یاں چشم و دل سے رہی
چلے بس تو واں جا کے کریے قیام
نہ دیکھے جہاں کوئی آنکھوں کی اور
نہ لیوے کوئی جس جگہ دل کا نام
جہاں میرؔ زیر و زبر ہو گیا
خراماں ہوا تھا وہ محشر خرام
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
لیک لگ چلنے میں بلا ہیں ہم
کام کیا آتی ہیں گی معلومات
یہ تو سمجھے ہی نا کہ کیا ہیں ہم
اے بتاں! اس قدر جفا ہم پر
عاقبت بندۂ خدا ہیں ہم
سرمہ آلودہ مت رکھا کر چشم
دیکھ اس وضع سے خفا ہیں ہم
ہے نمک سود سب تنِ مجروح
تیرے کشتوں میں میرزا ہیں ہم
کوئی خواہاں نہیں ہمارا میرؔ
گوئیا جنس ناروا ہیں ہم
حذَر کہ آہ جگر تفتگاں بلا ہے گرم
ہمیشہ آگ ہی برسے ہے یاں ہوا ہے گرم
گیا جہان سے خورشید ساں اگرچہ میرؔ
ولیک مجلسِ دنیا میں اُس کی جا ہے گرم
کرتے ہیں گفتگو سحر اُٹھ کر صبا سے ہم
لڑنے لگے ہیں ہجر میں اُس کے ہوا سے ہم
ہوتا نہ دل کا تا یہ سرانجام عشق میں
لگتے ہی جب کے مر گئے ہوتے بَلا سے ہم
چھوٹا نہ اُس کا دیکھنا ہم سے کسو طرح
پایانِ کار مارے گئے اس ادا سے ہم
داغوں ہی سے بھری رہی چھاتی تمام عمر
یہ پھول گُل چُنا کیے باغِ وفا سے ہم
غافل یہ اپنی دیدہ ورائی سے ہم کو جان
سب دیکھتے ہیں پر نہیں کہتے حیا سے ہم
دو چار دن تو اور بھی آ تو کراہتا
اب ہو چکے ہیں روز کی تیری جفا سے ہم
آئینے کی مثال پس از صد شکست میرؔ
کھینچا بغل میں یار کو دستِ دعا سے ہم
***
ٹائپنگ: وہاب اعجاز خان
تدوین اور اضافے : اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید