نظر بروج و کواکب پہ کر کے دے نسخہ
کہ ہیں دوا پہ موثر نجوم کے آثار
ہر ایک علم و عمل میں پڑی ہے یہ پٹکی
ہر ایک طرز و روش پر پڑی ہے یہ پھٹکار
امام و حافظ د واعظ موذن و مفتی
نہ کوئی دین میں پورا نہ ٹھیک دنیا دار
زبس کہ دعوت نذر و نیاز پر ہے معاش
ہوئے ہیں قوم میں پیدا بہت سے پنشن خوار
جو اینڈتے ہیں پڑے کھا کے لقمۂ خیرات
گئی حمیت و غیرت دلوں سے ان کے سدھار
وہ پھولتے ہیں اپھرتے ہیں فخر کرتے ہیں
فقط اسی پہ کہ ہم ہیں بڑے نماز گزار
نہ خلق نیک۔نہ ہمت بجا۔نہ عزم درست
نہ حب قوم۔نہ حب وطن۔نہ حب تبار
لکھیں گے ٹھیک وہی ان کا دفتر اعمال
یہ دو فرشتے مقرر جو ہیں یمین و یسار
تھے پہلے صاحب تقویٰ تو خلق کی تصویر
نہ آج کل کے سے ملائے خشک دل آزار
کہاں ہیں دین و دیانت طہارت و تقویٰ
کہاں ہیں اگلے زمانہ کے با صفا ابرار
مدار دین ہے اس پر کہ جھٹ کتر ڈالیں
جو پائیں ٹخنے سے نیچی ذرا کسی کی ازار
فقط مسائل غسل و وضو و استنجا
یہی ہیں وحی الٰہی کے آج کل اسرار
کہیں تو ضاد کی قرأت پہ غل غپاڑہ ہے
کہیں ہے جہر پہ آمیں کے جوتی اور پیزار
کسی گروہ میں ہے ختم فاتحہ پر جنگ
کہیں ہے مجلس میلاد موجب تکرار
کہیں تو کفر کے فتووں کا چل رہا ہے گراپ
کہیں ہے طعن و ملامت کی ہو رہی بھرمار
یہ مولوی ہیں کہ بغض و نفاق کے جرنیل!
کہ جاہلوں کو لڑاتے ہیں یہ سپہ سالار!
بلا سے ان کی اگر مضحکہ کریں ملحد
ہلا سے ان کی اگر دین پر ہنسیں کفار
مناظرہ کی تصانیف قابل نفرت
مباحثہ کی کتابیں سزائے استحقار
جبیں پہ ان کی تو ہم کا ہے کبھی قشقہ
کمر پہ ان کی تعصب کا ہے سدھا زنار
ہیں سنتوں میں یہی سنتیں انھیں مرغوب
نکاح و دعوت و قیلولہ عجلت افطار
گھٹی جو دور میں ان کے تو راستی کی قدر
بڑھی جو عہد میں ان کے تو ریش کی مقدار
ملے ٹکا تو کریں ثبت مہر فتوے پر
غضب ہے نقد علیہ السلام کی جھنکار
بنائیں حیلہ گری سے حلال رشوت کو
یہاں تو مات ہیں ان سے وکیل اور مختار
سنائیں دوزخ و جنت کا حال۔لے کر فیس
ہے اس زمانہ میں چلتا ہوا یہی اوزار
یہی ہے وعظ و نصیحت کی علت رعنائی
کہ بعد کھانے کے مل جائیں نقد بھی دوچار
نہیں ہے جن کو میسر جو وعظ کا لاسہ
تو کرتے پھرتے ہیں وہ اور ہتھکنڈوں سے شکار
وہ دکھ کے فضل قناعت جتا کے صبر جمیل
وہ بھیک مانگتے ہیں بن کے حاجی و زوار
مصافحہ کے لئے ہے یہ پیش دستی کب؟
اسی میں حسن طلب ہے دیا جو ہاتھ پسار
بہت سے راہزنی کر رہے ہیں بن کر پیر
غریب قوم کو ہیں مارتے یہ شاہ مدار!
لیا ہے متعصدو کی نجات کا ٹھیکہ
کہ گویا ہیں یہی باغ جناں کے ٹھیکہ دار
ہزار دانہ کی تسبیح گیروا کپڑے
یہی ہیں ان میں علامات اولیائے کبار
کسی نے نقد۔کہیں جنس اور کہیں دعوت
جو بس چلے تو نہ چھوڑیں مرید کا گھربار
یہ مومنوں سے بھی جزیہ وصول کرتے ہیں
فتوح غیب رکھیں اس کا نام یا اورار
کریں جو ذکر تو پھر ایسی بولیاں بولیں
کہ شب کو چونک پڑیں ساکنان قرب و جوار
جو دعوت ان کی کریں معتقد تو ہے واجب
کہ ان کے کھانے کو ہوشربا بھی چھلہ دار
اگر ہیں باد تصوف کی اصطلاحیں چند
تو پہونچا عرش معلی پہ گوشۂ دستار
یہی ہیں آج ابو الوقت اور قطب زماں
یہی ہیں شیخ شیوخ اور زہدۂ احرار
ملا جو گانٹھ کا پورا کوئی ارادتمند
تو نقد وقت ہیں شغل و وظیفہ و اذکار
کبھی جو خواب پریشاں میں وہ لگے اڑنے
تو اپنے زعم میں ہیں مثل جعفر طیار
کبھی جو عالم رویا میں دیکھ لی بیری
مقام سدرہ کو طے کر چکے زہے پندار!!
بنائیں پہلے تو شیطاں کی جھونپڑی دل میں
کریں خیال کا ٹوکا لگا کے پھر فی النار
اگر ہیں شرع پہ قائم تو ہیں جنید زماں
جو بنگ نوش ہے کوئی تو ہے قلندر وار
رجوع خلق کی خاطر ہوئے ہیں گوشہ گزیں
کہ جیسے جھیل پہ بیٹھے سکڑ کے بوتیمار
بنے جو شیخ تو پھر وجد و حال بھی ہے ضرور
دکھائیں رقص جمل وہ کہ دنگ ہوں حضار
یہ ناز ہے کہ بزرگوں کے نام لیوا ہیں
اگرچہ ننگ بزرگاں ہوں آپ کے اطوار
عوام کی ہے یہ صورت کہ بس خدا کی پناہ
ہر ایک پیشۂ بے غیرتی میں کارگزار
ہر ایک لہو میں شامل ہر ایک لعب میں شریک
کہیں کا سانگ تماشا کسی کا ہو تہوار
دغا فریب ہو چوری ہو یا اچکا پن
نہیں ہے بے باک کسی کام سے انھیں زنہار
اب ان کے واسطے ہیں یہ مدارج اعلیٰ
پریس مین قلی۔کوچوان۔ خدمت گار
رہا وہ جرگہ۔جسے چرگنی ہے انگریزی
سوواں خدا کی ضرورت !نہ انبیا درکار!!
وہ آنکھ ہیچ کے بر خود غلط بنے ایسے
کہ ایشیا کی ہر اک چیز پر پڑی دھنکار
جو پوششوں میں ہے پوشش۔تو پس درپردہ کوٹ
سواریوں میں سواری تو دم کٹا رہوار
جو اردلی میں ہے کتا تو ہاتھ میں اک بید
بجاتے جاتے ہیں سیٹی لگ رہا ہے سگار
وہ اپنے آپ کو سمجھے ہوئے ہیں جنٹلمین
اور اپنی قوم کے لوگوں کو جانتے ہیں گنوار
نہ کچھ ادب ہے نہ اخلاق ۔نے خدا ترسی
گئے ہیں ان کے خیالات سب سمندر پار
وہ اپنے زعم ہیں لبرل ہیں یا رڈیکل ہیں
مگر ہیں قوم کے حق میں بصورت اغیار
نہ انڈین میں رہے وہ بنے انگلش
نہ ان کو چرچ ہیں آنر نہ سجدوں میں بار
ہے استفادہ مکالی سے جن کو انشا میں
قلم کے زور سے بنتے ہیں قوم کے غم خوار
جوہے بھی کوئی۔تو لاکھوں میں ایک آدھا بسا
کہ نبر درد ہوا ہے جگر میں جس کے دو سار
دگر نہ کس کو یہ غم ہے؟ کہ میری پیاری قوم
ہوا ہے زرد ہ کیوں تیرا چہرۂ گلنار
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے میل کچیل؟
یہ تیرے پھول سے پنڈے پہ کیوں ہے گرد و غبار؟
کدھر ہے تیری طبیعت؟ کہاں ہے تیرا دل؟
خموش کیوں ہیں؟یہ تیرے لب شکر گفتار
اٹا ہے خاک سے کیوںَ؟ تیرا یہ دامن دولت
چھبے ہیں کیوں تیرے تلوے میں مفلسی کے خار؟
کہاں ہے وہ تیری عزت کا گوہر رخشاں؟
کہاں ہے وہ تری حشمت کا خلعت زرتار
تری معاش کی کشتی ہوئی ہے طوفانی
نہ بادباں ہے۔نہ لنگر۔نہ ڈانڈ نے پتوار
ہوا ہے یہ گلشن اخلاق جل کے خاکستر
چلی ہے کب سے یہ ایسی سموم آتشبار
بجائے سنبل و ریحاں کے اٹھ رہا ہے دھواں
بجائے پھول کے شعلۂ عوض کلی کے شرار
یہ تیرے علم کا دار الجلال کیوں ہے خراب؟
چھتوں پہ گھاس تو ٹوٹے ہوئے در و دیوار
ترے مرض کی یہاں تک پہنچ گئی نوبت
کہ تیرے حال پہ روتے ہیں بار اور اغیار
رسوم بدلے ترے ہاتھ پاؤں جکڑے ہیں
فضولیوں نے تیرا کر دیا ہے سینہ فگار
تری مڑک نے پنپنے دیا نہ تجھ کو حیف
تری اٹک سے تری ناؤ جا پڑی منجدھار
وہ اہل فضل کہ تھے افتخار ہندوستاں
اب ان کی نسل کو دیکھو تو ہے وہ ٹھیٹ گنوار
وہ جن کے نام سے نامی تھے شہر اور قصبات
گداگری میں ہے مصروف ان کا خیل تبار
وہ دودمان امارت کے تھے جو چشم و چراغ
اب ان کے ہاتھ مین ڈھولک ہے یا بغل میں س
جو منتخب تھے نجابت میں اور شرافت میں
اب ان کی آل کو دیکھو تو سخت بدکردار
یہ ہانکتے ہیں جو گاڑی کسی مہاجن کی
انھیں کے مورث اعلی تھے صوبہ دار بہار
ہے آج ٹکڑے کو محتاج ان کی ذریت
کہ جن کی دھاک تھی سلہٹ سے لے کے تا قندھار
امارت اپنی امیروں نے قرض میں کھو دی
عوض میں دس کے دئے سو، تو سو کے ایک ہزار
بہت سے بن گئے عیاش ہو گئے برباد
بہت سے بن گئے اوباش کھیلتے ہیں قمار
قمار میں بھی نہ سیدھا پڑے کبھی پانسہ
یہاں بھی خوبی قسمت سے جائیں بازی ہار
میں کیا کہوں کہ وہ بھرتے ہیں کس کی چلمیں آج
یہ کل جو پھرتے تھے چھیلا بنے سرے بازار
وہ آج کرتے ہیں فاقے جو تھے بڑے ملکی
نہ گھر میں گیہوں کے دانے نہ باجرا نہ جوار
ہے ٹھیکرا وہی روٹی کا پیر زادوں کی
جو گانوں ہے کوئی باقی بطور وقف مزار
ہوئی تمام بتدریج منتقل جاگیر
کہ جیسے روم کے قبضہ سے صوبہ بلغار
نہ کوئی علم نہ صنعت نہ کچھ ہنر نہ کمال
تمام قوم کے سر پر سوار ہے ادبار
اگرچہ نشوونما پا رہی ہے آزادی
کھلا ہے امن و حفاظت کا قیصری دربار
اگرچہ ملک میں علم و ہنر کا ہے چرچہ
حصول عزت و دولت کا گرم ہے بازار
ہر ایک قوم میں گھوڑ دوڑ ہے ترقی کی
درست ساز ویراق اور دیدباں تیار
لگا کے شوق کا ہنٹر۔امنگ کی مہمیز
سمند جہد کو سرپٹ اڑا رہے ہیں سوار
ہے ان کا رخش طلب دوڑ دھوپ میں آندھی
بہت فراخ ہے میداں زمین ہے ہموار
دوران کے ناقہ اہمیت کی ہیں ڈگیں لمبی
اب ان کو طے مراحل نہیں ہے کچھ دشوار
پلٹ گیا ہے زمانہ بدل گئی ہے رت
نمو کا وقت ہے اور ابتدائے فصل بہار
نہیں بعید کہ ہو جائیں ایک سب جل تھل
برس رہا ہے ترقی کا ابر گوہر بار
ہر ایک زاغ نے سیکھا ترانۂ بلبل
بھنیریوں نے اڑائی نوائے موسیقار
غرض کہ سب ہیں صلاح و فلاح کے جویا
دیا ہے ولولۂ شوق نے دلوں کو ابھار
زمانہ چونک پڑا ہے پر اے مسلمانو!
جھنجھوڑنے سے بھی ہوتے نہیں ہو تم بیدار
نہیں ہو فہم و درایت میں تم کسی سے کم
مگر چہ کار کند شیر شر زہ در بن غار
اور ایسا غار کہ بالکل جہاں اندھیرا گپ
پھر اس میں شیر مرے یا جئے بدون شکار
کروں گا اب میں قصیدہ کو اک دعا پر ختم
کہ جس کے طرز بیاں میں ہوں تازہ نقش و نگار
رہے زمانہ میں جب تک زمین کو گردش
جنائیں زاد یہ تا محور اور سطح مدار
زہے زمین پہ تا ایک سال کے اندر
برابری میں سدا امتداد لیل و نہار
رہے زمین میں تا فوت کشش باقی
اور اس کشش سے گریں ٹوٹ ٹوٹ کر اثمار
یہ ایک چاند ہے تا زمین کا خادم
جلو میں تا زحل و مشتری کے ہوں اقمار
رہے نجوم میں جب تک زمین سیارہ
اور آفتاب رہے مثل نقطۂ پرکار
خدا ہر ایک مسلمان کو کرے روزی
معاش نیک و دل پاک و خوبی کردار
حصول علم درہ مستقیم و فہم سلیم
جمال صورت و معنی کمال عز و وقار
ہے خداوند کو سزاوار سپاس
جان نے تن میں کیا حکم سے جس کے اجلاس
پارلیمینٹ کھلی کشور دل کے اندر
عقل بے محنت کی اسبیچ پڑھی پیش حواس
ایسے دربار مقدس میں اسے بار ملا
جس کا دانش کی لونڈر سے معطر تھا لباس
تہنیت نامہ سنانے کو تعظیم و ادب
حاضر بزم ہوئے ذہن و ذکا فکر و قیاس
مالک الملک ہے تو اور عزیز و جبار
تو ہی خلاق ہے رزاق ہے اور رب الناس
صحن عالم میں کیا خیمۂ اطلس برپا
جس میں قدرت نے جڑے گوہر و لعل و الماس
دشت و کہسار کودی سبزۂ و گل سے زینت
سامنے جن کے لگیں لعل و زمرد بھی اداس
شاخ اشجار میں لٹکائے ثمر رنگارنگ
جس میں حکمت نے کیا جمع مٹھاس اور کٹھاس
تاکہ دامان زمیں تازہ و شاداب رہے
تو نے رکھا کمر کوہ پہ چشموں کا نکاس
تو جو مٹی سے اگاتا ہے چنے اور گیہوں
خاک سے کرتا مہیا جو نہ سن اور کپاس
کون کر سکتا یہ پر ذائقہ کھانے طیار
کون بن سکتا یہ پر زیب روا اور لباس
تیری رحمت کے طلبگار ہیں سب شاہ و گدا
تیری حکمت نے حریر اس کو دیا اس کو پلاس
تیری قدرت ہے قوی حکم ہے تیرا ناطق
ہے بھلا نقد بقا تیرے سوا کس کے پاس
آج اورنگ سلیماں ہے نہ تخت بلقیس
کشتی نوح کا تختہ نہ گلیم الیاس
ذکر خیر ان کا زبانوں پہ رہے گا جاری
ہاں مگر عزت و دولت کا یہی ہے مقیاس
بہرہ ور تاجوری سے دہی ذی ہوش ہوا
تیری خلقت کا کیا جس نے کیا دل و جان سے پاس
نیک نامی کی نہ پائی کبھی اس نے خوشبو
چڑھ گیا مغز میں جس شاہ کے غفلت کا ہلاس
سن کے اس نامۂ پر مغز کا میں نے مضمون
اور بھی اس کے تممہ میں لکھے شعر پچاس
ہند پر قیصر عادل کو تسلط بخشا
کس زباں سے ہو تری حمد و ثنا شکر و سپاس
ملک کو تو نے نئے سر سے کیا پھر سرسبز
تیری رحمت سے نہ غمزدہ کوئی بے آس
دور ازیں حال تباہی کی گھٹا چھائی تھی
سیل کی طرح سے طغیان پہ تھے خوف و ہراس
بن گیا تھا چمنستان سے چٹیل میدان
بیل بوٹے تھے نہ پھل پھول نہ ہر یال نہ گھاس
شاہ گلشن تھے مغیلاں تو ولی عہد تھے خار
لالۂ و سوسن و نسریں کو ملا تھا بن باس
باغ شاہنشی ہند میں آئی تھی خزاں
چیل کوے تھے مگن بلبل و طوطی تھے اداس
آل تیمور کے خورشید کا تھا وقت غروب
شام ادبار کی ظلمت سے دلوں میں تھی یاس
ضعف پیری سے حکومت کا لبوں پر دم تھا
نہ تو اوسان ٹھکانے تھے نہ قائم تھے حواس
تھے جدا سلطنت ہند کے ریزے ریزے
جیسے چینٹوں کی جماعت میں تقسیم مٹھاس
مرزبانوں کے سروں پر نہ تھا کوئی سرتاج
جان اور مال کا تھا حفظ نہ ناموس کا پاس
مغربی گھاٹ سے اٹھتے تھے جو موجے پیہم
دامن کوہ ہمالیہ سے وہ کرتے تھے تماس
غوری و خلجی و تغلق کے مٹے تھے دستور
شیر شاہی کی روش تھی نہ حصار رہتاس
نام تھا نظم و نسق کا نہ سیاست کا نشاں
اکبری دور کی باقی نہ رہی تھی بو باس
جاٹ گردی تھی کبھی گاہ مرہٹہ گردی
کبھی پنڈاروں کا تھا ڈر کبھی سکھوں سے ہراس
پرتگیز اور ولندیز و فرانسیس بھی تھے
ملک گیری کی جنہیں بھوک تھی اور مال کی پیاس
جب کلایو نے پڑھی سیف و قلم کی سیفی
کچھ گھٹے ہند کے دل سے خفقان و وسواس
فرش و دولت کی لگی ہونے نئی قطع و برید
پھٹ چلا جنگ پلاسی سے وہ پارینہ پلاس
ہیسٹنگز اور ولزلی نے عجیب کام کئے
نبض دولت کے یہی لوگ تھے رفتار شناس
چارہ فرما ہوئے ڈلہوزی و ولیم مینٹنگ
اکی طبع ممالک کو دوا ان کی راس
ہند میں کوکب انگلش نے کیا خوب عروج!
جس کے مشرق تھے یہ کلکتہ و بمبئی مدراس
واں پڑا سایۂ پرچم کہ جہاں بہتے تھے
سلج و راوی و چناب۔اٹک اور بیاس
اس صدی کے گئے جس وقت کہ سینتیس برس
فورتھ ولیم کی ہوئی ختم شمار انفاس
ہر مجسٹی دی کوئن وارث تاج ودیہم
تخت برٹش پہ ہوئی زیب فرائے وسواس
عذر کے بعد ہوا دورۂ شاہی آغاز
نیر دولت و اقبال چڑھا سمت الراس
پھر نئے سر سے ہوا کاخ حکومت ترمیم
قیصری قصر کی ہونے لگی مضبوط اساس
اے ترے تاج میں انصاف و عدالت گوہر
اے ترے تخت میں احسان و محبت الماس
عفو تقصیر کا جاری کیا تو نے منشور
بن گئے جان تن ہند کو تیرے انفاس
تیری دولت کے مدبر تھے فلاطون زمن
کھو دیا سب جگر ملک سے درد و آماس
کھل گیا سطح حکومت کا نشیب اور فراز
حسن تدبیر کی جس وقت لگائی کمپاس
کر دیا ہند کے اجزائے پریشان بہم
جڑ گیا ٹوٹ کے پھر نظم و سیاست کا گلاس
امن و انصاف کا پڑھنے لگے سب مل کے سبق
حاضر اسکول اطاعت میں ہوئی جملہ کلاس
سندھ ہے ایک طرف دوسری جانب برھما
قاعدہ کوہ ہمالہ تو کماری ہے راس
کس دیا ملک کو قانون کی زنجیروں میں
تا شرارت پہ ابھارے نہ کسی کو خناس
عہد دولت سے ترے پائی دلوں نے تسکین
سکہ زر کی طرح چل گیا تیرا قرطاس
میں ہنر تیرے زمانہ کے بغاوت روشن
روغن و موم کی جا جلنے لگی برق و گاس
تار کے سامنے یکساں ہے نہ کچھ دیر نہ جلدی
ریل کے آگے برابر ہے نہ کچھ دور نہ پاس
گاؤں در گاؤں ہوئیں علم کی نہریں جاری
اوکھ سے پینے لگے جن کو لگی زور کی پیاس
فیض تعلیم سے عالم ہوئے جاہل ہندی
کوئی عالم کوئی منشی تو کوئی حرف شناس
دم بدم ابر ترقی ہوا گوہر افشاں
کوئی ایف اے کوئی بی کوئی ایم اے ہی پاس
دور شاہی نے ترے ان کو بنایا انسان
ان میں کھانے کا سلیقہ تھا نہ تمئیز لباس
آدمیت کا پڑا ان کے دلوں پر سایہ
بعض قوتیں کہ جو خصلت میں تھیں مثل شناس
اکثر اضلاع میں کھلتی ہیں نمائش گاہیں
جمع ہوتی ہیں جہاں ملک کی صنعی اجناس
گائے بکری کی نہ ہوتی تھی جہاں پر بکری
اب وہاں تازی و ترکی کے ہیں لگنے نخاس
بحر و بر میں سے ترے زیر نگیں جتنا ملک
شاید اس وقت نہیں اور کسی شاہ کے پاس
بحر اعظم میں مہابت ہے ترے بیڑے کی
براعظم میں تری فوج سے دشمن کو ہراس
مملکت میں تری چھپا نہیں سورج زنہار
ہے یہ جغرافیہ کی رو سے بہت ٹھیک قیاس
جشن جوبلی کا ہوا غلغلہ برپا گھر گھر
خیر سے تخت نشینی کو ہوئے سال پچاس
تیری دولت کی دعا یوں ہے دلوں سے جاری
جیسے گنگوتری کے چشمے سے گنگا کا نکاس
فضل سے اپنے کرے تجھ کو عطا عمر دراز
جس کی قدرت کی کچہری میں مہ و خور چپراس
ایک دن جاڑے نے گرمی سے کہا
میں بھی ہوں کیا خوب موسم واہ وا!
ہے بجا گر کیجئے میری صنعت
ہے روا اگر کیجئے میری ثنا
میں جہاں میں ہوں زبس ہر دل عزیز
مانگتے ہیں میرے آنے کی دعا
میرے آنے سے نہ کہو کیوں خررمی
کیا خنک پانی ہے! کیا ٹھنڈی ہوا
چاندنی ہے بے کدورت بے غبار
آسماں ہے صاف نیلا خوشنما
رات گرمی کی تو کچھ ہوتی نہ تھی
دن کی محنت سب کو دیتی تھی تھکا
میری آمد نے کیا شب کو دراز
میرے آنے نے دیا دن کو گھٹا
لو مسافر کا جھلس دیتی تھی منہ
اور زمیں تلووں کو دیتی تھی جلا
اب ہوا بھی اور زمیں بھی سرد ہے
کھو دیا میں نے حرارت کا پتا
مل گئی کتنے بکھیڑوں سے نجات
ٹٹیاں موقوف پنکھا چھٹ گیا
دھوپ کا ڈر ہے نہ لوکا خوف ہے
ان دنوں کی دھوپ ہے گویا غذا
سورج اب کترا کے جاتا ہے نکل
فصل تاکستاں میں تھا سرپر چڑھا
ہے خضر میں برج کل عیش و نشاط
ہے سفر بھی ان دنوں راحت فزا
میرے دم سے تندوری بڑھ گئی
پائی مدت کے مریضوں نے شفا
ڈاکٹر صاحب کو فرصت مل گئی
اب شفا خانہ میں کم جمگھٹا
ضعف معدے کی شکایت مٹ گئی
بے دوا خود بڑھ گئی ہے اشتہا
مکھیاں بھی رہ گئی ہیں خال خال
بے تکلف اب ہے کھانے کا مزہ
گرم پوشاکوں نے اب پایا رواج
میں نے بخشا آن کر خلعت نیا
سل گئے تو شک لبادے اور لحاف
درزیوں نے پایا محنت کا صلہ
میرے ہوتے کون پوچھے برف کو
باسی پانی برف کا بھی ہے چچا
ندی نالوں کا گیا پانی نتھر
جھیل اور تالاب نے پائی صفا
طالب علم اب کریں گے کوشش
کوششوں سے ہو گا پورا مدعا
ٹھیک وقت ان ورزشوں کا ہے یہی
تندرستی کا ہے جن سے فائدہ
کرکٹ اور فٹ بال اور جمناسٹک
کرتے ہیں مضبوط جسمانی قوا
حاکموں نے کر دیا دورہ شروع
تا کریں در در رعایا کی دوا
جا بجا فوجیں ہوئی ہیں مجتمع
تاکہ میداں میں کریں مشق دغا
سیب۔نارنگی۔بہی۔لیمو۔انار
ذائقہ ہے جن کی صورت پہ فدا
پستۂ و بادام انگور و مویز
میوہ ہر اک قسم کا بکنے لگا
تخم ریزی جنس اعلیٰ کی ہوئی
کھیت میں بویا گیا گیہوں چنا
عید کی سی دھوم ہے دیہات میں
پک گئی ایکھ اور کولھو چل پڑا
ہے مٹھائی کی نہایت ریل پیل
چل رہی ہے آج کل میٹھی ہوا
انس ہے محنت مشقت سے مجھے
کاہلی کو میں نہیں رکھتا روا
محنتی ہیں مجھ سے خوش میں ان سے خوش
کاہلوں کا میں نہیں ہوں آشنا
سن کے یہ باتیں ہوئی گرمی بھی تیز
اور جل کر یوں جواب اس کو دیا
آپ اپنے منہ میاں مٹھو نہ بن
خود ستائی عیب ہے او خود ستا
اس کو ہوتا ہی نہیں حاصل کمال
جو کہ اپنے آپ کو سمجھے بڑا
یا سبز تو سرکشی کرتے نہیں
بلکہ سرکو اور دیتے ہیں جھکا
تیری خود بینی ہوئی تجھ کو حجاب
خوبیوں کو میری سمجھا بدنما
تجھ سے عالم میں خزاں کا ہے ظہور
مجھ سے ہے فصل بہاری کی بنا
تو نے شاخوں کے لئے پتے کھسوٹ
تو نے پیڑوں کو برہنہ کر دیا
میرے آنے سے پھلے پھولے شجر
سبز پوشاک ان کو میں نے عطا کی
میں نے شاخوں میں لگائے برگ و بار
ورنہ تھا کیا ان میں ایندھن کے سوا؟
کھیت جاڑے بھر تو کچے ہی رہے
ہاں مگر میں نے دیا ان کو پکا
تو نے رکھے تھے بخیلوں کی طرح
برف کے تودے پہاڑوں میں چھپا
میں پگھلا کر کیا تقسیم اسے
تاکہ پہنچے سب کو فیض و فائدہ
خشک چشمے بھر گئے دریا چڑھے
دیکھ لے میرا کرم میری سخا
تجھ سے تھی مخلوق میں افسردگی
کون خوش تھا؟ جز گروہ اغنیا
میری آمد نے مساوی کر دئے
راحت و آرام میں شاہ و گدا
کر دیا میں رگوں میں خوں روا
ٹھنڈ سے شل ہو گئے تھے دست و پا
رستے کو راستی کے نہ زنہار چھوڑنا
ہوتا ہے راستی ہی سے انسان رستگار
جو بات تھی صلاح کی وہ ہم نے دی بتا
آئندہ اپنے فعل کا ہے تم کو اختیار
اری بخیلی! اور اے فضولی! تمھارا دونوں کا مُنہ ہو کالا
گناہ گاری کے تم ہو چشمے۔ تمھیں سے نکلیں خراب رسمیں
تمھیں نے دم بھر میں سب گنوایا تمھیں نے سب خاک میں ملایا
کمانے والوں نے جو کمایا بصد مشقت کئی برس میں
نہ مال و دولت کے فائدوں ہی سے کر کے محروم تم نے چھوڑا
بنایا بد عہد اور بے دیں۔ کھلائیں جھوٹی ہزار قسمیں
لگا کے حرص و طمع کا پھندا۔ سکھایا خود مطلبی کا دھندا
بنایا حق تلفیوں کا بندہ۔ پھنسا کے تم نے ہوا ہوس میں
ہوئی بخیلوں کی کیا بُری گت نہ پاِس عزت نہ کچھ حمیّت
نہ حوصلہ ہی رہا نہ ہمّت۔ نہیں ہے فرق اُن میں اور مگس میں
لُٹا کے دولت کو اپنی مُسرِف۔ ہوئے ہیں کیا کیا ذلیل احمق
کہ جیسے بے بال و پر کی چڑیا اسیر ہو گوشۂ قفس میں
گنجِ زر خاک سے اُگلوایا
کیمیا شغلِ کاشتکاری ہے
کر چُکا جب کسان اپنا کام
پھر خدا سے امیدواری ہے
آفتِ ارضی و سماوی سے
ہے نگہباں۔ تو فضلِ باری ہے
نہیں حاصل پہ دسترس نہ سہی
بیج بونا تو اختیاری ہے
وقت ضائع نہ کر۔ اگیتی بو
سینچ لے کھیت نہر جاری ہے
جوت۔ بو۔ سینچ۔ پھر توکّل کر
نہ کیا کُچھ تو شرمساری ہے
سرسری ساگ پات کو مت جان
اِس پہ تو زندگی ہماری ہے
جڑ۔ تنہ۔ ڈال۔ پات۔ پھل اور پھول
دستِ قدرت کی نقش کاری ہے
اپنی قُوت سے قُوت حاصل کر
مُفت خواری حرام خواری ہے
کاہلی سے گھٹا نہ پیداوار
یہ تو بَڑھیا گناہگاری ہے
اپنے اوپر ستم روا مت رکھ
واجب اپنی بھی حق گُزاری ہے
بیل سے پڑھ جفا کشی کا سبق
کُچھ اگر تجھ میں ہوشیاری ہے
کام میں کَھپ رہا ہے بیچارہ
ناشتا ہے نہ کچھ نہاری ہے
رات کاٹی جہاں سمائے سینگ
عیش و عشرت پہ لات ماری ہے
تھک گیا تو زمین پہ بیٹھ گیا
کس قدر مشقِ خاکساری ہے
بیل ہے پر نہیں کسی کا دبیل
کرتا اوروں کی غم گُساری ہے
صبر و محنت کی یہ کڑی منزل
اُس کو ہلکی ہے تجھ کو بھاری ہے
دیکھ چوپایہ سے نہ بازی ہار
تیری ہمت اگر کراری ہے
کُچھ نہ کُچھ کام کر۔ اگر تجھ کو
آدمیّت کی پاسداری ہے
جو تُو نے غفلت میں وقت کھویا۔ نہ کھیت جوتا۔ نہ بیج بویا
تو ایسی ڈوبی ہوئی اسامی سے کوئی حاصل بٹائے گا کیا؟
رہے گا یہ کھیت ہاتھ اُس کے۔ جو ہَل سے کُشتی لڑے گا دن بھر
جو ہار بیٹھے گا اپنی ہمت۔ تو وہ زمیں کو اُٹھائے گا کیا؟
خوراک و پوشاک کے ذخیرے دبے پڑے ہیں زمیں کے اندر
جو کر کے محنت نہ کھود لے گا۔ تو خاک پہنے گا۔ کھائے گا کیا؟
دامِ بلا ہے قرض پھنسے اور ہوئے شکار
ہے پاِس آبرو۔ تو رہو ہوشیار تم
کنیاتے ہی رہو گے سدا قرض خواہ کو
اِس ننگ و عار کو نہ کرو اِختیار تم
دیکھو! یہ قرضِ وعدہ خلافی نہ دے سکھا
ہو جاؤ گے جہان میں بے اعتبار تم
جب تک وبالِ جان نہ جانو گے قرض کو
ہر گز نہ بن سکو گے کفایت شعار تم
گر دُرِّ شاہوار ملے کوڑیوں کے مول
زنہار بھول کر بھی نہ لینا اُدھار تم
مقروض ہو گئے تو پیادہ سے ہو بتر
مانا کہ رکھتے ہو فرسِ راہوار تم
غالب کہ ریل پر بھی ہو قطع سفر محال
جو قرض کے ٹکٹ سے ہوئے ہو سوار تم
کشتیِ نوح پر بھی چڑھے گر بطورِ قرض
مُجھ کو یہ خوف ہے کہ نہ پہونچو گے پار تم
مقروض کی نہیں ہے زمانہ میں آبرو
یوں اپنے دل میں بات بناؤ ہزار تم
تم جانتے ہو گرچہ بُرا سود خوار کو
ہے اصل یہ۔ کہ بن گئے بے سود۔ خوار تم
وہ بندۂ درم سہی اُس کا غلام کون؟
اپنے ہی دل میں سوچ لو اپنا وقار تم
پھر ہو سکے گا کوئی بھی افسوں نہ کارگر
لقمہ کو قرض کے نہ کرو زہر مار تم
اُس سے دنیا میں نہیں کوئی زیادہ بدبخت
جو نہ دانا ہو۔ نہ داناؤں کا مانے کہنا
آج آفت سے بچی جان۔ تو کل خیر نہیں
ایسے نادان کا مشکل ہے سلامت رہنا
گھوڑ دوڑ میں کودائی کی بازی تھی ایک دن
تازی پے کوئی۔ ترکی پے اپنے سوار تھا
جو ہِچکچا کے رہ گیا۔ سو رہ گیا ادھر
جس نے لگائی ایڑ وہ خندق پار تھا
پیش آئے جو مصیبت پڑتی ہے سو بھگتنی
رہتی ہے یوں تسلی۔ مرضی یہی تھی رب کی
پر اپنے گوتکوں سے آتی ہے جو مصیبت
ہوتی ہے ساتھ اُس کے شرمندگی غضب کی
نادموں کی خطا معاف کرو
ہے معافی میں لذّت اور سرور
اپنے دل میں ذرا کرو انصاف
کون ہے جو ہے بے خطا و قصور
جو انتقام نہ لینے سے ہو خطا افزوں
تو یہ تمہاری خطا ہے جو انتقام نہ لو
وہ کام جس سے کہ اوروں کو فائدہ پہنچے
تم اس کے کرنے سے زنہار ہاتھ تھام نہ لو
جو انتقام سے منظور ہو خوشی اپنی
تو ایسے کام کا تم بھول کے بھی نام نہ لو
ہے بیمار تو ۔ لیک بچنے کے قابل
گر اپنی خطا کو خطا جانتا ہے
مگر ایسے نادان کا کیا ٹھکانا
جو درد ہی کو دوا جانتا ہے
برا مانتا ہے جو سمجھائے کوئی
برائی کو اپنی بھلا جانتا ہے
وہ انجام کو روئے گا سر پکڑ کر
نہیں اس میں دھوکا خدا جانتا ہے
کوئی پیشہ ہو زراعت یا تجارت یا کہ علم
چاہیئے انسان کو پیدا کرے اس میں کمال
کاہلوں کی عمر بڑھ جاتی ہے خود کر لو حساب
با ہنر کا ایک دن اور بے ہنر کا ایک سال
جنھیں دی ہے خدا نے عقل دانا
ہے ان کو آج ہی سے فکر کل کی
مسافر چل پڑا جو آخر شب
تو ہو جاتی ہے منزل اس کی ہلکی
ہر ایک جانور کا یہی خاصہ ہے
بدی کے عوض میں بدی کی تو کیا کی
ہے البتہ وہ شخص انسان کامل
جفا کے مقابل میں جس نے وفا کی
دیرینہ رسم و راہ سے قطع نظر کرو
برتاؤ آج کل کے زمانہ کے اور ہیں
دل شرق میں پڑا ہے پہ کہتے ہیں غرب کی
کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ہیں
اگر دل گرفتار ہے مخمصوں میں
تو خلوت بھی بازار سے کم نہیں ہے
مگر جس کے دل کو ہے یک سوئی حاصل
تو وہ انجمن میں بھی خلوت نشیں ہے
کیسی زمیں بنائی ، کیا آسماں بنایا
پانوں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بو نٹے کیا خوش نما اگائے ،
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہان بنایا
سورج سے ہم نے پائی گرمی بھی روشنی بھی
کیا خوب چشمہ تو نے اے مہرباں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینھ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینھ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدر داں بنایا
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائے گاں بنایا
اولعزم تجھ سا نہ آئے نہ آیا
علیک السلام اے امیں الہی
کہا جو خدا نے وہ تو نے سنایا
علیک السلام اے رفیع المدارج
کسی نے نہیں تیرے رتبے کو پایا
علیک السلام اے ستودہ خصائل
فدا خلق پر تیرے اپنا پرایا
علیک السلام اے جمیل الشمائل
جواد و رؤف و کریم السجایا
علیک السلام اے امان دو عالم
ترا دامن لطف ہے سب پہ چھایا
علیک السلام اے جمال معنی
نہ تھا تیرے جسم مطہر کا سایا
علیک السلام اے محب غریباں
ترے حلم نے بار امت اٹھایا
علیک السلام اے ترا نور اقدس
ہے سلطان اور جملہ عالم رعایا
علیک السلام اے تجھے ذات حق نے
جو اول بنایا ۔ تو آخر دکھایا
علیک السلام اے شہنشاہ وحدت
کہ توحید کا تو نے سکہ بٹھایا
علیک السلام اے طبیب نہانی
دلوں میں جو تھے روگ سب کو مٹایا
علیک السلام اے شفائے مجسم
عجب تو نے صحت کا نسخہ پلایا
علیک السلام اے سوار سبک رو
کسی نے تری گرد رہ کو نہ پایا
علیک السلام اے رسالت پناہی
خدا کا ہمیں تو نے رستہ بتایا
علیک السلام اے ہدایت کے مرکز
تجھے حق نے انسان کامل بنایا
درود و سلام و صلوۃ و تحیت
یہ لایا ہے حامد تحف اور ہدایا
ہر ایک دل کا ہے نقشہ مرے جگر کا سا
رقیب سر بھی پٹکتے تو میں نہ ہلتا کاش
ملا نہ بخت مجھے تیرے سنگ در کا سا
فروغ رخ یہ نظر میں سما گیا یک بار
کہ شام ہی سے مرا حال ہے سحر کا سا
سر اس غبار کا دامان شہسوار پہ ہے
ملا فرشتہ کو رتبہ کہاں بشر کا سا
پیام مرگ سے لیتا ہوں میں شگون وصال
گماں ہے تیر پہ بھی مرغ نامہ بر کا سا
کسی کی برق تبسم جو دل میں کوند گئی
تو چشم تر کا ہوا حال ابر تر کا سا
بے خودی آئینہ ہے ہنگامہ تکبیر کا
بیٹھ ہی جاتی ہے دل میں گود مجھ میں کچھ نہ آئے
میں تو دیوانہ ہوں اس کی دل ربا تقریر کا
ہے مسلم ناز یکتائی اسے ہر رنگ میں
ضلوہ نقش آفریں خاکہ ہو جس تصویر کا
توڑ اصنام ہوا اور دل کو ویرانہ بنا
ہے یہی سنگ بنا اس کعبہ کی تعمیر کا
حیف وہ سائل کہ کچھ دے کر جسے رخصت کیا
وائے وہ نالہ صلہ جس کو ملا تاثیر کا
عیب پوشی کو ہمیشہ کام فرمایا کئے
کشتہ الطاف ہوں یاران بے تدبیر کا
(١) یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنف کی فرمائش سے لکھا گیا تھا ۔
گلشنِ عالم میں چلنا صرصرِ تغیر کا
اُس کے آنے کی توقع کر رہی ہے نفخِ روح
صورِ اسرافیل ہے کھٹکا مجھے زنجیر کا
غایتِ ترکیبِ اعضا ہے یہی کچھ کام کر
کاہلی اے بے خبر منشا نہیں تقدیر کا
جرم بھی اور خیرگی! یہ سیرتِ ابلیس ہے
ابنِ آدم کو ہے شایاں عذر ہی تقصیر کا
ہے اشارہ پر قلم کے لشکروں کی صلح و جنگ
دو گروہ کی چوب سے دم بند ہے شمشیر کا
آہ کھانا ہی پڑا داغِ فراقِ دائمی
قہر تھا ہونا کبھی اک لمحہ کی تاخیر کا
کہ تیرے پاؤں کی مانند گریباں نکلا
مر گئے دیکھ کے آثارِ سحر شامِ وصال
دشمنِ جانِ ستم کش رُخِ جاناں نکلا
دیکھ بے ہوش مجھے اشک فشاں ہیں احباب
جذبۂ شوق تو بد خواہِ عزیزاں نکلا
چارۂ جوشِ جنوں خانہ خرابی نہ ہوئی
گھر سمجھتے تھے جسے ہم سو بیاباں نکلا
کس قدر دل میں مرے جوشِ شکستِ دل ہے
کوئی سالم نہ ترے تیر کا پیکاں نکلا
بس کہ ہے نقشِ قدم دامِ گرفتاری جاں
اُن کے ہر گام پہ اک گنجِ شہیداں نکلا
پھر گئے دل ہی بیک گردشِ چشمِ کافر
دور میں کوئی بھی تیرے نہ مسلماں نکلا
آخری وقت کے وعدہ نے کیا شادی مرگ
ہمرہِ جاں دلِ مایوس کا ارماں نکلا
نکلے تم غیر کے گھر سے کہ مری جاں نکلی
جس کو دشوار سمجھتے تھے وہ آساں نکلا
دل پارہ پارہ جب نہ ہوا تھا تو اب ہوا
ڈر کر ہلاک بو الہوسِ بے ادب ہوا
اُن کو بھی میری جان شکنی سے عجب ہوا
لبریز شکوہ ہائے تغافل تھا میں ولے
لو شکر کا سبب گلۂ بے سبب ہوا
لیتے ہیں ترکِ عشق سکھانے کے واسطے
دل نذر جاں فزائی حُسنِ طلب ہوا
کیا آگے اُس کے ولولہ شوق سر اٹھائے
سجدہ کیا تو ملزمِ ترکِ ادب ہوا
میرے سوا حریف ستم کوئی بھی نہ تھا
اب مہرباں ہو گئے یہ کیا غضب ہوا
ان کا نہ آستانہ سے باہر قدم بڑھا
سو بار انتظار میں میں جاں بلب ہوا
محرم نہیں ہے گوش مگر اِس پیام کا
خوش ہے ملامت اہلِ خرابات کے لئے
اس سلسلہ میں نام نہیں ننگ و نام کا
نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفلِ رنداں میں جام کا
جاگیرِ دَرد پر ہمیں سرکارِ عشق نے
تحریر کر دیا ہے وثیقہ دوام کا
وادی عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہ سلام کا
آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مُستعار برق سے وقفہ قیام کا
کھولا ہے مُجھ پہ سرِّ حقیقت مجاز نے
یہ پُختگی صِلہ ہے خیالاتِ خام کا
کھاتا نہیں فریب تمنّائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسنِ ہمّت لگام کا
مت رکھ طمع سے چشمِ تمتّع۔ کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مردمکِ دیدہ دام کا
پہونچا دیا حدودِ عالم سے بھی پرے
مُطرب نے راگ چھیڑ دیا کس مقام کا
ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کُچھ حساب نہیں صبح و شام کا
جس کی نظر ہے صنعتِ ابرو نگار پر
ہے وہ قتیلِ تیغ۔ نہ کشتہ نیام کا
کھانے کو اے حریص غمِ عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و دام کا
میں بے قرارِ منزلِ مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا
گر دیکھئے تو خاطرِ ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دلِ ناکام کام کا
اُٹھے تِری نقاب تو اُٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح شام کا
جب ہو گئے سبک تو یہ بارِ گراں اُٹھا
معنی میں کر تلاشِ معاشِ دماغ و دل
حیواں صفت نہ لذّتِ کام و دہاں اُٹھا
یا آنکھ اُٹھا کے چشمِ فسوں ساز کو نہ دیکھ
یا عمر بھر مصائبِ دورِ زماں اُٹھا
بے یادِ دوست عمرِ گرامی نہ صرف کر
اِس گنجِ شائگاں کو نہ یوں رائگاں اُٹھا
وصل و فراق و وہم سہی دل لگی تو ہے
پھر کہاں جو پردۂ رازِ نہاں اُٹھا
پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں
کیا کہہ دیا ۔ کہ شمع کے سر سے دھواں اُٹھا
دشمن کا بھی نقشِ کفِ پا ہو نہیں سکتا
باقی نہ رہی غیر کا اب جائے شکایت
شکرِ سِتم یار ادا ہو نہیں سکتا
سب کُچھ تو کیا ہم نے پہ کُچھ بھی نہ کیا ہائے
حیراں ہے کیا جانئے کیا ہو نہیں سکتا
اُس کوچے میں کیوں شب و روز ہیں پھرتے
گر چرخ سے جز جور و جفا ہو نہیں سکتا
اعدا سے ہوئے وہ مُقرہ وعدہ خلافی
میں منکرِ تاثیرِ دعا ہو نہیں سکتا
پامال کیا بے سرو پائی نے صدا افسوس
دل ہم قدمِ رنگِ حنا ہو نہیں سکتا
جس دل سے کدورت نہ گئے خاک ہے وہ دل
کیا آئینہ جو اہل صفا ہو نہیں سکتا
عجب کہ بندہ نہ دعوے کَرے خدائی کا
ملے جو رتبہ ترے در کی جبیں سائی کا
تو ایک سلسلہ ہو شاہی و گدائی کا
نہیں ہے فیض میں خِسّت و لیک پیدا ہے
تفاوتِ آئینہ و سنگ میں صفائی کا
یہاں جو عشق ہے بے تابِ جلوۂ دیدار
وہاں بھی حُسن محرَّک ہے خود نمائی کا
بتوں کے سامنے بُت گر گھِسے جبینِ نیاز
میں شیفتہ ہوں تری شانِ کبریائی کا
نہ کر کسی کی بُرائی نہ بن بھلے سے بُرا
بھلا بھلا ہے بُرا کام ہے بُرائی کا
بنائیں بگڑی ہوئی کو تو ایک بات بھی یے
بگاڑنا نہیں مشکل بنی بنائی کا
اُٹھا حجاب تو بس دین و دل دئے ہی بنی
جناب شیخ کو دعوے تھا پارسائی کا
تمھارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں
کھُلا ہے شہر میں اِک محکمہ صفائی کا
ہوس ہے گر سر و ساماں کے جمع کرنے کی
تلاش کر سر و ساماں بے نوائی کا
سوائے عشق نہیں کوئی رہبرِ چالاک
خِرد کو نہیں حوصلہ رسائی کا
اُسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے
اُسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا
نہیں ہے اب کے زمانہ کی یہ روش زنہار
میں یادگار ہوں خاقانی و سنائی کا
ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا
تم روز و شب جو دست بدستِ عدو پھرے
میں پائمالِ گردشِ ایّام ہو گیا
میرا نشاں مٹا تو مٹا پر یہ رشک ہے
وردِ زبانِ خلق ترا نام ہو گیا
دل چاک چاک نغمۂ ناقوس نے کیا
سب پارہ پارہ جامۂ احرام ہو گیا
اب اور ڈھونڈے کوئی جولاں گہِ جنوں
صحرا بقدرِ وسعتِ یک گام ہو گیا
دل پیچ سے نہ طُرّۂ پُر خم کے چھُٹ سکا
بالا روی سے مرغِ تہ دام ہو گیا
اور اپنے حق میں طعن تغافل غضب ہوا
غیروں سے ملتفت بتِ خود کام ہو گیا
تاثیرِ جذبہ کیا ہو کہ دلِ اضطراب میں
تسکیں پذیرِ بوسہ بہ پیغام ہو گیا
کیا اب بھی مُجھ پے فرض نہیں دوستیِ کفر
وہ ضد سے میری دشمنِ اسلام ہو گیا
اللہ رے بوسۂ لبِ مے گوں کی آرزو
میں خاک ہو کے دردِ تہِ جام ہو گیا
اب تک بھی ہے نظر طرفِ بامِ ماہ وش
میں گرچہ آفتابِ لبِ بام ہو گیا
اب حرفِ نا سزا میں بھی اُن کو دریغ ہے
کیوں مجھ کو ذوقِ لذّتِ دشنام ہو گیا
ہیہات ! دوستوں کو دشمن خیال کرنا
روزِ جزا میں آخر ۔ پوچھا نہ جائے گا ؟
تیرا یہ چپ لگانا - میرا سوال کرنا
او شہسوار اتنی اچھی نہیں ہے عُجلت
ہیں چند پا شکستہ - اِن کا خیال کرنا
ناقص بھی کاملوں سے ۔ کُچھ کم نہیں کہ اِن سے
سیکھا ہے کاملوں نے کسبِ کمال کرنا
تیرا چاہا ہوا بُرا نہ ہوا
خاک اڑتی جو ہم خدا ہوتے
بندگی کا بھی حق ادا نہ ہوا
سب جتایا کئے نیازِ قدیم
وہ کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
رخشِ ایّام کو قرار کہاں
اِدھر آیا اُدھر روانہ ہوا
کیا کھُلے ؟ جو کبھی نہ تھا پنہاں
کیوں ملے؟ جو کبھی جدا نہ ہوا
سخت فتنہ جہاں میں اُٹھتا
کوئی تجھ سا تِرے سوا نہ ہوا
جو گدھا خوئے بد کی دلدل میں
جا پھنسا پھر کبھی رہا نہ ہوا
تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا
میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا
رہ روِ مسلکِ توکّل ہے
وہ جو محتاج غیر کا نہ ہوا
نہیں بویا ہے تخم اچّھا تو کب پاؤ گے پھل اچّھا
کرو مت آج کل حضرت ! بُرائی کو ابھی چھوڑو
نہیں جو کام اچّھا ۔ وہ نہ آج اچّھا نہ کل اچّھا
بُرے کو تگ بھی کرنے اور توقع نیک نامی کی
دماغ اپنا سنوارو تم ! نہیں ہے یہ خلل اچّھا
جو ہو جائے خطا کوئی ۔ کہ آخر آدمی ہو تم
تو جتنا جلد ممکن ہو کرو اُس کا بدل اچّھا
کرے جو پاؤں بد راہی تو سونا اُس کا بہتر ہے
نہ ہو جس ہاتھ سے نیکی تو ایسا ہاتھ شل اچّھا
کریں ناز تو ناز بردار رہنا
فراخی و عُسرت میں ۔ شادی و غم میں
بہر حال یاروں کے تم یار رہنا
سمجھ نردباں اپنی ناکامیوں کو
کہ ہے شرطِ ہمّت طلب گار رہنا
کرو شکر ہے عنایت خدا کی
بلاؤں میں اکثر گرفتار رہنا
اگر آدمی کو نہ ہو مشغلہ کُچھ
بہشتِ بریں میں ہو دشوار رہنا
خبر ہے آدم سے جنّت چھُٹی کیوں
خلافِ جبلّت تھا بے کار رہنا
سمجھتے ہیں شیروں کو بھی نرم چارہ
غزالانِ شہری سے بھی ہشیار رہنا
ورنہ ہم کیا ؟ اور ہماری یاد کیا؟
صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے
آگرہ کیا اور الہ آباد کیا
مبداء فیّاض کے شاگرد کو
حاجتِ آموزشِ اُستاد کیا
اک کسوٹی ہے ترے کردار کی
مرتبہ کیا مال کیا اولاد کیا
وہ میرے حال پر مُجھ سے بھی زیادہ مہرباں نکلا
نہ تھا بزمِ احبّا ہی میں تیرا ذکر دشمن بھی
بیاں کرتا سِر بازار تیری داستاں نکلا
حجابِ شاہدِ مطلق نہ اُٹّھا ہے نہ اُٹھے گا
جسے ہم لا مکاں سمجھے تھے وہ بھی اک مکاں نکلا
نہ جزائے خیر پاتا ۔ نہ گناہگار ہوتا
مئے بیخودی کا ساقی ! مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اُترتا ۔ نہ کبھی خمار ہوتا
میں کبھی کا مر بھی رہتا - نہ غمِ فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مُجھے اختیار ہوتا
یہ جو عشق جانستاں ہے ۔ یہ وہ بحرِ بیکراں ہے
نہ سُنا کوئی سفینہ کبھی اِس سے پار ہوتا
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو تم سے کوئی کرتا تمھیں نا گوار ہوتا
ہے اِس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہ ہی کاروبار ہوتا
کہا کرتے ہیں افسانوں میں کیا کیا؟
نہیں تشویشِ آیندہ کہ ہو کب ؟
گزشتہ کا تحیّرُ ہے کہ تھا کیا
نہ کر تفتیش ہے خلوت نشیں کون؟
تامّل کر کہ ہے یہ برملا کیا؟
ہے اِک آئینہ خانہ بزمِ کثرت
بتاؤں غیر کس کو ؟ ماسوا کیا؟
جو نکلا ہی نہ ہو قصرِ عدم سے
بگاڑے گی اُسے موجِ فنا کیا؟
فقط مذکور ہے اِک نسبتِ خاص
مقدّر ہے خبر کیا ؟ مبتدا کیا؟
جہاں نقشِ قدم ہو روحِ قدسی
وہاں پہنچے گی عقلِ نا رسا کیا؟
لگاؤں ’’شیئاللہ‘‘ کی صدا کیوں ؟
بھُلا دوں ’’ یفعل اللہ مَایشاء ‘‘ کیا؟
محرّم کا چاند آسماں پر جو چمکا
تو یاد آگیا واقعہ رنج و غم کا
مصیبت کا بیداد کا بے کسی کا
غضب کا جفا کا بلا کا ستم کا
وطن سے جدا دشتِ غربت میں جا کر
ہوا قتل کنبہ شفیع الامم کا
یہ شیرانِ حق ۔ اور وہ دنیا کے کتّے
لئیموں نے کاٹا سر اہلِ کرم کا
کیا ظلم بے وجہ سلطانِ دیں پر
یہ لالچ تھا دُنیا کے جاہ و حشم کا
شہیدوں کی ہے تشنگی یاد آتی
نہ ہو چشمہ لبریز کیوں چشمِ نم کا
رضا اور تسلیم صبر و توکّل
مصیبت میں شیوہ تھا اہلِ کرم کا
یہ وہ دن ہے جس دن میں ڈھایا گیا ہے
جو کعبہ عرب کا ۔ تو قبیلہ عجم کا
برستی ہے دیوار و در سے اُداسی
ہے چھایا ہوا ابر رنج و الم کا
تڑپتی ہے بجلی تو روتے ہیں بادل
کہ ہے آج کا دن شہیدوں کے غم کا
کرے کوئی تحریر و تقریر کیونکر
نہ جراءت زباں کی نہ یارا قلم کا
سب جھوٹ ہے کوئی کیا کرے گا
ہو گا وہی جو خدا کرے گا
کرنے دو بدی کرے جو کوئی
اُس کا بھی خدا بھلا کرے گا
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحرِ بیکراں ہوتا
کوئی بھی آرزو نہ بَر آئی تمام شب
دل سوز کب ہوئے ہیں کہ جب خاک ہو گیا
تربت پہ میری شمع جلائی تمام شب
اے وائے تلخ کامیِ روز بد فراق
ناصح نے جانِ غم زدہ کھائی تمام شب
از بس یقینِ وعدۂ دیدارِ خواب تھا
کیا خوش ہوئے کہ نیند نہ آئی تمام شب
اِک آہِ دل نشیں میں وہ بُت منفعل ہوا
واللہ کیا ندامت اُٹھائی تمام شب
لگتے ہی آنکھ دیکھ لیا جلوۂ نہاں
پیشِ نظر تھی شانِ خدائی تمام شب
نہیں معلوم کیا واجب ہے کیا فرض
مَرے مذہب میں ہے تیری رضا فرض
شعورِ ہستیِ موہوم ہے کفر
فنا بعدِ فنا بعدِ فنا فرض
نہیں آگاہ مستِ بادۂ شوق
کہاں سنّت کدھر واجب کُجا فرض
رہِ تسلیم میں از روئے فتویٰ
دعا واجب پہ ترکِ مدّعا فرض
نہ چھوٹے کفر میں بھی وضعِ ایماں
کہ ہر حالت میں ہے یادِ خدا فرض
نہیں دیکھا کسی نے حُسنِ مستور
بقدرِ فہم لیکن کر لیا فرض
نہ مانوں گا نہ مانوں گا کبھی میں
مُجھے کرتے ہیں کیوں اُس سے جدا فرض
نہ کھولوں گا نہ کھولوں گا زباں کو
کہ ہے اخفائے رازِ دلربا فرض
بلا سے کوئی مانے یا نہ مانے
چلو ہم کر چُکے اپنا ادا فرض
السلام اے شاہِ شاہاں السلام
السلام اے نورِ امکاں السلام
اے تہی دستوں کے حامی مرحبا
اے شفیعِ اہلِ عصیاں السلام
السلام اے سجدہ گاہِ قدسیاں
اے رسولِ خاصِ یزداں السلام
السلام اے رحمۃ للعالمین
رہنمائے حق پر وہاں السلام
السلام اے بادشاہِ جن و انس
وارثِ ملکِ سلیماں السلام
اے تری باتیں کلامِ کردگار
اے ترا دل عاشِ رحماں السلام
افتخارِ آدم و نوح و خلیل
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام
بُت پرستی ترے آنے سے مٹی
قبلہ گاہِ حق پرستاں السلام
تھا جو کوہستان و ریگستاں عرب
کر دیا تو نے گلستاں السلام
فتح کر ڈالے تِرے خدّام نے
مصر و شام و یوناں السلام
ہو گئے سب تیری دعوت میں شریک
تُرک و ایران و خراساں السلام
یا نبی السیف یا نور الہدیٰ
مسلکِ حق کے نگہباں السلام
شاہدِ انجیل و توریت و زبور
موردِ آیاتِ قرآں السلام
کشتیِ دوراں کو ہے تجھ سے قیام
لنگرِ کشتیِ دوراں السلام
جان و ایماں کو ملی تجھ سے شفا
اے طبیبِ جان و ایماں السلام
عرضِ حامد*(۱) ہے یہی با صد نیاز
اے عرب کے مہرِ تاباں السلام
*(۱)۔ یہ سلام محمد حامد جوان مرگ فرزند مصنّف کی فرمائش سے لکھا گیا تھا۔
ظاہر تو ہے، تو میں نہ نہاں ہوں
باطن تو ہے ، تو میں عیاں ہوں
تو ہی ظاہر ہے ۔ تو ہی باطن
تو ہی تو ہے تو میں کہاں ہوں
تیرے ہوتے کہیں نہیں میں
اوّل ۔ آخر۔ نہ درمیاں ہوں میں
تو تو میں میں نے مار ڈالا
دم بند ہے کیجئے نہ ہاں ہوں
میں ہی لیلیٰ ہوں میں ہی محمل
ناقہ بھی ہوں۔ میں ہی سارباں ہوں
ہوں کُنجِ قفس میں بند لیکن
بیرونِ زمیں و آسماں ہوں
دریا کی طرح رواں ہوں لیکن
اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں
جز نام نہیں نشاں میرا
سچ مچ میں بہرِ بیکراں ہوں
۱وہ پیرہنِ جان میں جاں حجلۂ تن میں
ہوں وہمِ جدائی سے عجب رنج و محن میں
مقصود زیارت ہے اگر کعبۂ دل کی
ہو گرم سفر ناحیۂ ملکِ وطن میں
وہ قامتِ دلکش ہے عجب فتنۂ عالم
چھُپتا ہی نہیں پیرہنِ نو و کہن میں
اے شمعٰ بہا اشک چھُپا رازِ محبّت
خاکسترِ پروانہ ہے بیتاب لگن میں
شورش مری بے جا ہے نہ فریاد نکمّی
رونق ہے ذرا نالۂ بلبل سے چمن میں
تاثیر ہو کیا خاک جو باتوں میں گھڑت ہو
کُچھ بات نکلتی ہے تو بے ساختہ پن میں
کمتر ہے ود و دام سے انساں بمراتب
ہر دم جو ترقی نہ کرے چال چلن میں
ہوں میں تو وہی معتکفِ گوشۂ عُزلت
حالانکہ مرا ریختہ پہنچا ہے دکن میں
یہ سچ ہے کہ سودا بھی تھا استادِ زمانہ
میری تو۔ مگر میر ہی تھا شعر کے فن میں
آخر یہ حُسن چھُپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤ گے تمھیں نہ کرو ضد حجاب میں
پامال شوخیوں میں کرو تم زمیں کو
ڈالو فلک پے زلزلہ میں اضطراب میں
روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں
دل کی گرہ نہ وا ہوئ دردا شبِ وصال
گزری تمام بست و کشادِ نقاب میں
رنجِ عتاب زاہدِ مسکیں کو مفت ہے
یہاں اتقا میں سعی وہاں اجتناب میں
جاں میں نے نامہ بر قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں
ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجئے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں
واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیبِ محفلِ مے و چنگ و رباب میں
ساقی اِدھر تو دیکھ کہ ہم دیر مست میں
کُچھ مستیِ نگہ بھی ملا دے شراب میں
داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مدّ فضول ہوں میں تمھارے حساب میں
کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھئے
دشمن ہے چرخِ پیرِ زمانِ شباب میں
پیغامبر اشارۂ ابرو سے مرگیا
پھر جی اُٹھے گا لب بھی ہلا دو جواب میں
جہاں تیغِ ہمّت علم دیکھتے ہیں
محلات کا سر قلم دیکھتے ہیں
جو بیٹھے تھے یاں پا بدامانِ ہستی
اُنھیں سر بجیبِ عدم دیکھتے ہیں
کمالاتِ صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبیِ مصنوع کم دیکھتے ہیں
نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
اُنھیں دم بدم تازہ دم دیکھتے ہیں
نہیں جن کو جاہ و حشم کا تکبّر
وہی لطفِ جاہ و حشم دیکھتے ہیں
شکم پروری جن کا شیوہ ہے اُن کو
اسیرِ جفائے شکم دیکھتے ہیں
بس! اے رنگ و بو تو نہ کر ناز بیجا
خدا جانے کیا بات ہم دیکھتے ہیں
اُڑے ہیں جو رخشِ ہمّت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیرِ قدم دیکھتے ہیں
سلامت ہے سر تو سرہانے بہت ہیں
مُجھے دل لگی کے ٹھکانے بہت ہیں
جو تشریف لاؤ تو ہے کون مانع
مگر خوئے بد کو بہانے بہت ہیں
اثر کر گئی نفسِ رہزن کی دھمکی
کہ یاں مرد کم اور زنانے بہت ہیں
مُعطّل نہیں بیٹھتے شغل والے
شکار افگنوں کو نشانے بہت ہیں
کرو دل کے ویرانہ کی کنج کادی
دبے اس کھنڈر میں خزانے بہت ہیں
نہ اے شمع رو رو مر شام ہی سے
ابھی تجھ کو آنسو بہانے بہت ہیں
ہوا میری روداد پر حکمِ آخر
کہ مشہور ایسے فسانے بہت ہیں
نہیں ریل یا تار برقی پے موقوف
چھپے قدرتی کارخانے بہت ہیں
بچے کیوں بیچارہ مُرغ گرسنہ
بکثرت ہیں دام اور دانے بہت ہیں
بس ایک آستانہ ہے سجدے کے قابل
زمانہ میں گو آستانے بہت ہیں
اتنا تو جانتے ہیں کہ بندے خدا کے ہیں
آگے حواس گم خردِ نارسا کے ہیں
ممنون برگِ گل ہیں نہ شرمندۂ صبا
ہم بلبل اور ہی چمنِ دلکشا کے ہیں
کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنونِ قیس
وادیِ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں
بنیان عمر سست ہے اور منعمانِ دہر
مغرور اپنے شکِ عالی بنا کے ہیں
اپنے وجود کا ابھی عقدہ نہیں کھُلا
مصروف حل و عقد میں ارض و سما کے ہیں
شیخ و برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو
دونو شکار غمزہ اُسی دلربا کے ہیں
جن کو عنایتِ ازلی سے ہے چشم داشت
وہ معتقد دعا کے نہ قائل دوا کے ہیں
لایا نہیں ہنوز نویدِ وصالِ دوست
ہم شکوہ سنج سُستیِ پیکِ سبا کے ہیں
سمجھو اگر ۔ تو ہیں وہی سب سے حریص تر
طالب خدا سے جو دل بے مدعا کے ہیں
اِن بد دلوں نے عشق کو بدنام کر دیا
جو مرتکب شکایتِ جور و جفا کے ہیں
ہمّت ہمائے اوجِ سعادت ہے مرد کو
اُلوّ ہیں وہ جو شیفتہ ظلِّ ہما کے ہیں
ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو
یعنی پلے ہوئے اِسی آب و ہوا کے ہیں
جو باندھتے ہیں طرّہ طرّار کا خیال
نادان امّیدوار نزولِ بلا کے ہیں
کھٹکا ہوا نہیں اور دل اُڑا لیا
یہ سارے ہتکنڈے تری زلفِ دوتا کے ہیں
صید کر شمہ اِس لئے ہوتے نہیں کہ ہم
پہلے سے زخم خوردہ فریبِ وفا کے ہیں
مارا بھی اور مار کے زندہ بھی کر دیا
یہ شعبدے تو شوخی ناز و ادا کے ہیں
خلوت میں بھی روا نہیں گستاخیِ نگاہ
پردے پڑے ہوئے ابھی شرم و حیا کے ہیں
یوں کہہ رہی ہے نرگسِ بیمار کی ادا
نسخے تو مجھ کو یاد ہزاروں شفا کے ہیں
اب تک ہے سجدہ گاہ عزیزانِ رازگار
جس خاک پر نشان تری کفشِ پا کے ہیں
اندیشہ ہے کے دے نہ اِدھر کی اُدھر لگا
مجھ کو تو ناپسند وتیرے صبا کے ہیں
سیرِ ورددِ قافلۂ نو بہار دیکھ
برپا خیام اوجِ ہوا میں گھٹا کے ہیں
جاتا ہے خاک پاک دکن کو یہ ریختہ
واں قدردان اِس گُہرِ بے بہا کے ہیں
احباب کا کرم ہے اگر نکتہ چیں نہ ہو
ورنہ ہم معترف اپنی خطا کے ہیں
زمانہ اُن سے کراتا ہے آج خار کشی
جو محو سرو و صنوبر تھے خانہ باغوں میں
اُنہیں پہ گردشِ ایّام کا گرا نزلہ
سمائی ہوئی گُل و مل تھی جن دماغوں میں
وہ عطر فتنہ سے بستا تھا جن کا پیراہن
مُیسّر اب اُنہیں روغن نہیں چراغوں میں
وہ مانگ تانگ سے پیتے تھے اوک سے پانی
بری تھی جن کی کے مئے مشکبو باغوں میں
منزل داز و دار ہے اور ہم میں دم نہیں
ہوں ریل پہ سوار تو دام و درم نہیں
میدان زدگی میں کریں دوڑ دھوپ کیا
ہم ایسے ناتواں ہیں کہ اٹھتا قدم نہیں
کیا خوب ہات پاؤں خدا نے عطا کئے
چلتے رہیں تو حاجتِ خیل و خدم نہیں
اغیار کیوں دخیل ہیں بزمِ سرور میں
مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں
جب تک ہے عشق و عاشق و معشوق میں تمیز
کھُلتا کسی پہ رازِ حدوث و قدم نہیں
آدم پہ معترض ہوں تو فرشتے تو کیا عجب
چکّھی ہنوز چاشنی زہرِ غم نہیں
اظہارِ حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا
دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
تو ہی نہیں ہے رمزِ محبّت سے آشنا
ورنہ دیارِ حسن میں رسمِ ستم نہیں
ارشاد طبع کی نہ اگر پیروی کرے
نقاشی خیال مجالِ قلم نہیں
سر ہی کے بل گئے ہیں سدا رہروانِ عشق
حیرت زدہ نہ بن کہ نشانِ قدم نہیں
کیسی طلب کہاں کی طلب کس لئے طلب
ہم ہیں تو وہ نہیں ہے جو وہ ہے تو ہم نہیں
کبھی تقصیر جس نے کی ہی نہیں
ہم سے پوچھو تو آدمی ہی نہیں
مر چکے جیتے جی خوشا قسمت !
اِس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں
دوستی اور کسی غرض کے لئے!
وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں
یا وفا ہی نہ تھی زمانے میں
یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں
کُچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی
ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں
جس خوشی کو ہو نہ قیام و دوام
غم سے بدتر ہے وہ خوشی ہی نہیں
بندگی کا شعور ہے جب تک
بندہ پرور وہ زندگی ہی نہیں
ایک دو گھونٹ جامِ وحدت کے
جو نہ پی لے وہ متّقی ہی نہیں
کی ہے زاہد نے آپ دنیا ترک
یا مقدّر میں اُس کے تھی ہی نہیں
عارضِ روشن پہ جب زلفیں پریشاں ہو گئیں
کفر کی گمراہیاں ہمرنگِ ایماں ہو گئیں
زُلف دیکھی اُس کی جن قوموں نے وہ کافر بنیں
رُخ نظر آیا جنھیں وہ سب مسلماں ہو گئیں
خود فروشی حُسن کو جب سے ہوئی مدِ نظر
نِرخ دل بھی گھٹ گیا جانیں بھی ارزاں ہو گئیں
جو بنائیں تھیں کبھی ایوانِ کسریٰ کا جواب
گردشِ افلاک سے گردِ بیاباں ہو گئیں
خوفِ ناکامی ہے جب تک کامیابی ہے محال
مُشکلیں جب بندھ گئی ہمّت سب آساں ہو گئیں
ہائے کس کو روئیے اور کس کی خاطر پیٹئے
کیسی کیسی صورتیں نظروں سے پنہاں ہو گئیں
کیا اِنھیں اندوہِ ہنگامِ سحر یاد آگیا
شام ہی سے بزم میں شمعیں جو گریاں ہو گئیں
اِک فرشتے بھی تو ہیں جن کو نہ محنت نہ رنج
خواہشیں دل کی بلائے جانِ انساں ہو گئیں
کیا ہے وہ جانِ مجسّم جس کے شوقِ دید میں
جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں
تھی تو وہ توفیق الٰہی میں نے سمجھا اپنا فعل
طاعتیں بھی میرے حق میں عصیاں ہو گئیں
خاک سے افلاک تک ہے دور تیرے نام کا
کون سی محفل ہے وہ جس میں ترا چرچا نہیں
اوّل و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو
تو ہی تو ہے پر کہیں ۔ تیرا پتا لگتا نہیں
سب سمائے تجھ میں ہیں یا تو سمایا سب میں ہے
اِس پہیلی کو کس نے آج تک بوجھا نہیں
حامد(*۱) کہاں ! کہ دوڑ کے جاؤں خبر کو میں
کس آرزو پہ قطع کروں اِس سفر کو میں
مانا بُری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے
صبر و قرار نذر کروں نامہ بر کو میں
یہ سنگ و خشت آہ دلاتے ہیں تیری یاد
روتا ہوں دیکھ دیکھ کے دیوار و در کو میں
ہے تیری شکل یا تیری آواز کا خیال
کرتا ہوں التفات یکایک جدھر کو میں
افسوس ! ہائے ہائے کی آتی نہیں صدا
پوچھے تو کیا بتاؤں ؟ ترے چارہ گر کو میں
کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں
اچھا جو تو نے گوشۂ مرقد کیا پسند
اب اپنے حق میں گور بناؤں گا گھر کو میں
تیرے سِر عزیز کی بالش ہو خاک سے
بالیِنِ غم سے اب نہ اٹھاؤں گا سر کو میں
دیکھی نہ تھی بہار تیرے شباب کی
بھولا نہ تھا ابھی تیرے عہدِ صِغر کو میں
تقدیر ہی نے ہائے ! کُچھ مساعدت
کیا روؤ اب دعا و دوا کہ اثر کو میں
حکمِ خدا یہی تھا کہ بیٹھا کیا کروں
ماتم میں تیرے اشک فشاں چشمِ تر کو میں
جز درد و داغ تو نے نہ چھوڑا نشان حیف!!
رکھوں گا میہمان انِھیں عمر بھر کو میں
کرنے دو آہ و نالہ کہ آخر رہوں گا بیٹھ
تسلیم کر کے حکمِ قضا و قدر کو میں
کیا فکر آب و نان ! کہ غم کہہ رہا ہے اب
موجود ہوں ضیافتِ دل اور جگر کو میں
تجھ کو جوارِ رحمتِ حق میں جگہ ملے
مانگا کروں گا اب یہ دعا ہر سحر کو میں
حبسِ دوام تو نہیں دنیا۔ کہ مر رہوں
کاہے کو گھر خیال کروں رہ گزر کو میں
خود ہم سے بھی زیادہ ہو جو ہم پے مہرباں
وہ جام زہر دے ۔ تو نہ چکّھوں شکر کو میں
وہ جانے اور اُس کی رضا جو پسند ہو
سب کام سونپتا ہوں اُسی داد گر کو میں
ہوتا نہ دل میں درد۔ تو کرتا نہ ہائے ہائے
دیتا نہ طول یوں سخنِ مختصر کو میں
(۱*)محمد حامد فرزند مصنّف نے ۱۲ اکتوبر سنہ۱۸۹۵ کو انتقال کیا تھا ۔ اس جوان مرگ کے ماتم میں یہ مرثیہ بمقام آگرہ لکھا گیا۔
بزمِ ایجاد میں بے پردہ کوئی ساز نہیں
ہے یہ تری ہی صدا غیر کی آواز نہیں
کہہ سکے کون وہ کیا ہے ؟ مگر از روئے یقین
گُل نہیں شمع نہیں ۔ سرو سرافراز نہیں
دل ہو بے لوث تو کیا وجہ تسلّی ہو دروغ
طائرِ مُردہ مگر طُمعۂ شہباز نہیں
بُلبلوں کا تھا جہاں صحنِ چمن میں انبوہ
آج چڑیا بھی وہاں زمزمہ پرداز نہیں
بھاگ ویرانۂ دُنیا سے کہ اِس میں
نُزلِ مہمان بجُز مائدۂ آز نہیں
دلبری جذبِ مُحبّت کا کرشمہ ہے فقط
کُچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دل کی تسخیر ہے شیریں سُخنیِ پر موقوف
کُچھ کرامات نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں
دستِ قدرت نے مجھے آپ بنایا ہے تو پھر
کونسا کام ہے میرا کہ خدا ساز نہیں؟
قدسیوں کے بھی ہوش اڑتے ہیں
سُن کے مشتِ خاک کی باتیں
دل کا احوال تو خدا جانے
ظاہرا ہیں تپاک کی باتیں
جس سے نہ انتفاع ہوا بنائے جنس کو
فروردی ہے لیل و نہار میں
وہی کارواں وہی قافلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی منزلیں اور وہی مرحلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اسے وزن کہتے ہیں شعر کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی شکر ہے جو سپاس ہے وہ ملول ہے جو اُداس ہے
جسے شکوہ کہتے ہو گلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی نقص ہے وہی کھوٹ ہے وہی ضرب ہے وہی چوٹ ہے
وہی سو ہے وہی فائدہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ہے ندی وہی نہر ہے وہی موج ہے وہی لہر ہے
یہ حباب ہے وہی بُلبلہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی کذب ہے وہی جھوٹ ہے وہی جرعہ ہے وہی گھونٹ ہے
وہی جوش ہے وہی ولولہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی ساتھی ہے جو رفیق ہے وہی یار ہے جو صَدِیق ہے
وہی مہر ہے وہی مامتا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے بھید کہتے ہو راز ہے جسے باجا کہتے ہو ساز ہے
جسے تان کہتے ہو ہے نوا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو مراد ہے وہی مدعا وہی متّقی وہی پارسا
جو پھنسے بلا میں وہ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو کہا ہے میں نے مقول ہے جو نمونہ ہے وہ مثال ہے
مری سرگزشت ہے ماجرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔
جو چنانچہ ہے وہی جیسا ہے جو چگونہ ہے وہی کیسا ہے
جو چناں چیں ہے سو ہکذا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی خوار ہے جو ذلیل ہے وہی دوست ہے جو خلیل ہے
بدو نیک کیا ہے برا بھلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
(۱*) یہ نصابیہ غزل سنہ۱۸۸۰ میں مصنّف نے اپنے بچّوں کے لئے لکھی تھی ۔
ٹوٹ جائے نہ سنگِ در دیکھو
ایک عالم پڑا ہے چکّر میں
گردشِ چشمِ فتنہ گر دیکھو
میں نظر بند غیر مدِّ نظر
اپنا دل اور مرا جگر دیکھو
چشم پُر نم ہے تن غبار آلود
آن کر سیرِ بحر و بر دیکھو
فکرِ افشائے راز کیوں نہ کروں
کیا حیا خیز ہے نظر دیکھو
ہے دگرگوں مریضِ غم کا حال
ہو سکے تو دوا ابھی کر دیکھو
کم نمائی و خویشتن بینی
کتنے بے دید ہو اِدھر دیکھو
اے کاش ! کہ اس ایک کی ہو جائیں دوا دو
تھا خرِ جگر ہجر میں تنہا غمِ دوری
ہیں آفتِ جاں وصل میں اب شرم و حیا دو
مستانہ روش کیوں نہ چلے وہ نگہِ ناز
آنکھیں ہیں کہ جامِ مے ہوش ربا دو
جی تنگ ہے کیا کیجئے اور جوشِ بلا یہ
دل ایک ہے کیا دیجئے اور زلفِ دوتا دو
ہے عینِ عنایت جو نشاں پوچھئے میرا
یہ بھی نہیں منظور تو اپنا ہی پتا دو
کیا دامِ فریب اُس نے بچھایا ہے دلاویز
دو آن پھنسیں اور جو ہو جائیں رہا دو
گر نازِ خود آرا کو ہے یکتائی کا دعویٰ
کیوں آئنہ دیکھا کہ ہوئے جلوہ نما دو
بے باکی و شوخی بھی ہے اور شرم و حیا بھی
دو محرمِ اسرار ہیں تو پردہ کشا دو
دو گیسو و زلف بلا خیز ہیں چاروں
ہاں کاکلِ خم دار بھی ہیں ان کے سوا دو
وہ طرز و روش ہائے ! وہ انداز و ادا حیف
کیا بچتے دل و جان ۔ کجا چار ۔ کجا دو
سیرئ نظری بھی نہ ہوئی ہائے مُیسّر
آنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیرِ قضا دو
ثابت خلوصِ عاشق خلافِ عدو نہ ہو
وہاں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
وہ جنّتِ وصال جہاں تو ہو میں نہ ہوں
وہ دوزخِ فراق جہاں میں ہوں تو نہ ہو
خمخانہ ہے کرامتِ پیرِ مغاں سے پُر
زنہار منکِر می و جام و سبو نہ ہو
بلبل کے دل میں داغِ وداعِ بہار ہے
یارب! کوئی فریفتۂ رنگ و بو نہ ہو
شرم گناہ نے تو ڈبویا ہی تھا مُجھے
گر دست گیر مژدۂ لا تقنطو نہ ہو
افسانہائے شوق سناتا ہوں میں اُسے
جو عالمِ خیال میں بھی رو برو نہ ہو
حُسنِ غیور ہے شکوہِ یگانگی
ہو دید محض اور کوئی روبرو نہ ہو
دل میں کسک نہ ہو تو سمجھے اُسے مریض
زنہار درد دل کے لئے چارہ جو نہ ہو
ہے کائنات گرد رہِ کاروانِ عشق
وہ دل ہی کیا جس میں تری جستجو نہ ہو(۲*)
کیا مانگتے جس کا کبھی چسکا نہ لگا ہو
دی راہِ خدا ہم کو بھی ساقی کا بھلا ہو
کر پیرِ خرابات سے دریوزۂ ہمّت
جا خاکِ درِ میکدہ پر ناصیہ ساہو
بے حوصلگی ہے گلۂ تلخی دوراں
کو دیں اُسے پی جائے گو زہر ملا ہو
آنے کو ہے اب شاہدِ گُل پردہ سے باہر
آمادۂ مشاطگی ای بادِ صبا ہو
جب ہم سے ملے رسمِ ملاقات تو جانیں
تسلیم کیا ۔ تم ہمہ تن مہر و وفا ہو
سر رشتۂ آ مالِ دو عالم ہے ترے ہاتھ
پھر کاہے کا الجھاؤ۔ جو تُو عقد کشا ہو
تنگی سے نہ دل تنگ ہو ۔ جا شکرِ خدا کر
اے خوش دہ دلِ تنگ ۔ کہ راضی برضا ہو
گاہک ہی نہ ہو کوئی تو اے عرضِ ہنر بیچ
اس وائی گُلِ تازہ جو صحرا میں کھلا ہو
اُس غنچۂ دلگیر کی تقدیر کہ زنہار
تحریکِ نسیمِ سحری سے بھی نہ وا ہو
ہمّت کے لئے عار ہے احسان اُٹھانا
وہ درد بھی اچھا جو نہ محتاجِ دوا ہو
(۱*)مرتبہ ۸جون سنہ۱۸۷۳ ع
(۲*) مرتبہ ۱۰ نومبر سنہ۱۸۹۷ع
بچ گنہ سے ورنہ توبہ اور استغفار کر
سنگریزہ تھا فقط گر لعل میں ہوتا نہ رنگ
کوئلے سے تھا بتر گر مشک میں ہوتی نہ بو
تائب اور معصوم ہیں دونو بری پر فرق ہے
ایک مادر زاد طاہر ۔ ایک بعد از شست و شو
گر نہ ہو نیکی ، دماغی قوتیں برباد ہیں
بوستاں سرسبز ہوتا ہی نہیں بے آبِ جو
میں پٹکتا ہی رہ گیا سر کو
چل دئے وہ پیادہ پا گھر کو
دو جگہ خفتگانِ خاک مُجھے
تھوڑے تھوڑے ذرا پرے سر کو
ان غفلتوں سے داغ ہوں لیکن خدا کرے
تاخیر کا سبب کوئی اس کے سوا نہ ہو
ناصح جو ملامت میں محابا نہیں کرتے
انصاف کریں دل میں ۔ کہ وہ کیا نہیں کرتے
اظہارِ مشیخت ہے نشاں بے ہنری کا
جو اہلِ ہنر ہیں کبھی دعوےٰ نہیں کرتے
کہتے بھی ہیں پھر صاف مکر جاتے ہیں کہہ کر
کیا شخص ہیں کُچھ خوف خدا کا نہیں کرتے
دردِ دِل آزردہ سے ہے جن کو خبر کچھ
آزار کسی کا بھی گوارا نہیں کرتے
جاں کاہیوں کے بعد جنہیں ملتی ہے دولت
وہ مفت میں دولت کو لٹایا نہیں کرتے
کیا یہ ہی جس پہ ہم دیتے ہیں جاں
یا کوئی دنیائے فانی اور ہے
یوں تو ہر انسان گویا ہے مگر
شیوۂ شیوا بیانی اور ہے
چل رہی ہے جس سے جسمانی مشین
کوئی پوشیدہ کمانی اور ہے
دل نے پیدا کی کہاں سے یہ ترنگ
کوئی تحریکِ نہانی اور ہے
غیر سمجھا ہے کسے اے ہمنشیں؟
میرے دل میں بد گمانی اور ہے
تم نے کب دیکھا ہے بے رنگی کا رنگ
بے نشانی کی نشانی اور ہے
دھوکے میں نہ آ جائیو افسونِ زباں کے
ہر چند کہ بڑ اپنی فصاحت کی یہ ہانکے
کُچھ لمِ ہے جو کرتے ہیں کرم حضرتِ ناصح
تھے ورنہ مرے ایسے ہوا خواہ کہاں کے
وہ اُڑنے لگے مثل پری ۔ دوشِ ہوا پر
بیٹھے ہیں بھروسے پہ یہاں طبع رواں کے
ہے وادیِ وحدت میں اگر نیّتِ پرواز
پَر نوچ کے دے پھینک یقین اور گماں کے
پھر کُچھ کُچھ اُن کے وعدہ پہ اب اعتبار ہے
مایوس مرگ پھر دلِ امّیدوار ہے
گِن گن کے ایک ایک گھڑی کاٹنی پڑی
ہے یہ شبِ فراق کہ روزِ شمار ہے
سروِ رواں کو دیکھ کے خجلت پا بِ گُل
گویا ہر ایک سرو لبِ جوئبار ہے
چل مئے کدے کو ۔ بیٹھ نہ گوشہ میں تنگ دل
زاہد! وسیع رحمتِ پروردگار ہے
گر نشے میں کوئی بے فکر و تامل باندھے
چشمِ مے گوں کو تری جام پر ازُل باندھے
ذکرِ قامت میں اگر فکر ترقّی نہ کرے
رشکِ طوبی تو لکھے گو بہ تنزّل باندھے
طبع کی سلسلہ جنباں جو پریشانی ہو
گیسوئے غالیہ سا کو ترے سنبل باندھے
نالہ تو وہ ہے کہ گھبرا کے اُٹھا دے پردہ
لیک نظارہ کی ہمّت بھی تحمل باندھے
کُچھ نہ بن آئے گی جب لوٹ مچائے گی خزاں
غنچہ ہر چند گرہ کس کے زرِ گُل باندھے
روبرو اُس کے لب عَرضِ تمنّا نہ ہلے
زور افسونِ نظر سے گئے بالکل باندھے
ہیں ترے بندِ قبا عقدۂ دشوار مرے
کہ جو کھولے نہ کھُلے اور جو گئے کھُل باندھے
صفحہ ۔ ۲۷۹نہ بچے پر نہ بچے سیلِ فنا سے نہ بچے
گر کوئی کنگرۂ چرخ پہ بھی پُل باندھے
آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اُس نے فوراً
بند برقع کے اندازِ تغافل باندھے
ہائے وہ صید کہ صیاد کے پیچھے لپکے
سر کو فتراک پہ ہر دم بہ تفاول باندھے
نکہتِ طرّۂ مشکیں جو صبا لائی ہے
کوئی آوارہ ہوا ہے کوئی سودائی ہے
بے خودی سے ہے یہاں بے خبری کا عالم
خود نمائی کو وہاں شغلِ خود آرائی ہے
اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں
غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے
ہے مجھے کشمکشِ سعی و طلب سے نفرت
دِل مرا ترکِ تمنا کا تمنّائی ہے
جز دلِ پاک نہ پایا حرمِ خاص کہیں
دیر و کعبہ میں عبث ناصیہ فرسائی ہے
ناز کی جلوہ گری کے لئے منظر ہے نیاز
ناتوانی مری ہم رنگِ توانائی ہے
جب طبیعت ہی نہ حاضر ہو تو بے سود ہے فکر
شعر گوئی تو کہاں قافیہ پیمائی ہے
مُنہ پہ لاؤں تو یہ کم ظرف بہک جائیں ابھی
بات جو پیرِ خرابات نے سمجھائی ہے
خود منادی و مُنادیٰ ہوں نہ غیبت نہ حضور
عالمِ غیب سے یوں دِل میں ندا آئی ہے
دل یہ کہتا ہے کہ حاصل ہے تحصیل عبث
نہ تمنا کوئی شے ہے نہ تمنّائی ہے
بیخودی سی بے خودی ہے جلوۂ دیدار سے
نیند آئی مجھ کو فیض دولتِ بیدار سے
ہے جو لطف آمیز اشارہ ابروئے خمدار سے
وہ فسونگر کاٹتا ہے دردِ سر تلوار سے
صفحہ ۔ ۲۸۰ہم نے اندازِ جنوں سیکھا ہے اِک ہشیار سے
دو گھڑی کا شغل ہے اطفالِ کوئی یار سے
ابتدا سے حشر کا سُنتے چلے آتے تھے نام
ہو گیا حاصل یقیں بارے تری رفتار سے
اُس کی گنجائش ہے آغوشِ تصوّر میں محال
جس کا سایہ شوخ تر ہو انجمِ سیّار سے
ہے تہی دستی جہنم اہل حرص و آز کو
رات دن جلتے ہیں داغِ درہم و دینار سے
شوخی و غمزہ کرشمہ عشوہ انداز و ادا
ہے دلِ تنہا مقابل لشکرِ جرّار سے
رہ گئی تیرے سوا شاید تمنّا اور بھی
کُچھ کھٹکتے ہیں ابھی پہلوئے دل میں خار سے
یار نازک طبع ہے اور داستانِ غم دراز
دوستو گھبرا نہ جائے وہ مرے طومار سے
عشق بےتاب و وصال اور حسن استغنا پسند
کس طرح تسکینِ دل ہو وعدۂ دیدار سے
ہیں زمیں و آسماں ہنگامۂ وحدت سے پُر
مجھ کو آتی ہے یہ میری ہی صدا کُہسار سے
وہ حسن لازوال ہماری نظر میں ہے
شانِ کمال صورتِ ہر خیر و شر میں ہے
ہے سنگ میں شرار تو برق ابر تر میں ہے
شوخی وہی ہے شان نئی بحر و بر میں ہے
بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے
بتلا دیا ہے راہ نما نے مُجھے پتا
دنیا بھی اِک مقام ترے رہگزر میں ہے
اسرارِ عشق بھی کہیں دیکھے ہیں واعظو!
دخل آپ کو بہت کتبِ معتبر میں ہے
باطن کو بھی نہ صورتِ ظاہر پہ کر قیاس
انگور میں شراب شکر نیشکر میں ہے
البتہ اُس کے فضل پہ موقوف ہے نجات
کُچھ زہدِ خشک میں ہے نہ داماں تر میں ہے
بیرانِ عرش و فرش ہے پرواز مرغ دل
از بس ہوائے شوق بھری بال و پر میں ہے
بے رغبتی سے شب کو سحر بھی کیا تو کیا
تاثیر نالۂ شب و آہِ سحر میں ہے
چل راہ دل میں اور توسنِ طلب
وحشت کا جوش چاہے صحرا بھی گھر میں ہے
یہ وہ مرض ہے جس سے معالج نہ بچ سکے
مُجھ سے زیادہ درد دلِ چارہ گر میں ہے
پُر حُسن خود نما سے زمان و زمیں ہے
زاہد ہنوز منتظرِ حورِ عین ہے
صحرائے عشق کی بھی عجب سرزمین ہے
ہمدم نہ ہم سفر نہ کوئی ہم نشین ہے
سر گشتگانِ شوق سے راہِ وصال پوچھ
نے شرق و غرب ہے نہ یسار و یمن ہے
ہے توسنِ خیال تک و تاز و زمیں سدا
اِس رخش پر بندھا ہوا ہر وقت زین ہے
ہے قیدِ آب و خاک سے باہر مقامِ دل
مانا خمیر مایہ مرا ماؤطین ہے
تیرے سوا اُسے نظر آتا نہیں کوئی
حاصل جہاں میں جسے عین الیقین ہے
احباب پھر بھی کرتے ہیں مُجھ سے مطالبہ
ہر چند لا خراج غزل کی زمین ہے
کجا(۱*) ہستی بتا دے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے
ہمارا گھر ہے یعنی خانۂ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے
چچا عم ہے پسر بیٹا پدر باپ
تو کنبا خاندان ودود ہاں ہے
سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آبِ رواں ہے
بتاؤ آگ کیا ہے نار و آتش
دھواں کیا چیز ہے دود و دخاں ہے
جسے کہتے ہو گردوں گرداں
فلک چرخ و سپہر و آسماں ہے
وہی جنت کہ جس کی آرزو ہے
نعیم و خلد و فردوس و جناں ہے
سنا کیجے حکایت ہے کہانی
کہا کیجے فسانہ داستاں ہے
مرا سر راس ہے ماتھا جبیں ہے
مرے منہ میں زباں ہے جو لساں ہے
کہو تم جو ترازو ہے سو میزاں
سنو تم آزمائش امتحاں ہے
حجر پتھر ہے اور قِرطاس کاغذ
سبک ہلکا ہے اور بھاری گراں ہے
عصا لاٹھی ۔ عَلم نیزہ۔ سناں بھال
جسے ہم قوس کہتے ہیں کماں ہے
نہاں و مستتر پوشیدہ مخفی
جو بارز ہے تو ظاہر ہے عیاں ہے
اگر جانو ہو تم ریوڑ کو گلّہ
تو چرواہا بھی راعی اور شباں ہے
کہا کرتے ہیں شاعر کو سخنداں
جو بھیدی ہے تو محرم راز داں ہے
ہمانجا آمدم جائے کہ ہستی
وہیں آیا ہوں میں بھی تو جہاں ہے
یہ ہی کون و مکاں دنیا ہے عالم
یہ ہی گیتی ہی گیہاں ہے جہاں ہے
(۱*)غزل نصابیہ
نذرانہ پیر جی غلام محمد صاحب لُدھیانوی بروز پنجشنبہ ۲۹ جولائی سنہ۱۸۸۰ ع
اُلٹی ہر ایک اسم جہانِ شعور ہے
سیدھی سی اِک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے
وحدت میں اعتبارِ حدوث و قدم نہیں
تھا جو بطون میں یہ وہی تو ظہور ہے
تارک وہی ہے جس نے کیا کل کو اختیار
یعنی حریص تر ہے وہی جو صبور ہے
مطلق یگانگی ہے تو نزدیک و دور کیا
پہنچا ہے جو قریب وہی دور دور ہے
اصلِ حیات ہے یہی کہتے ہیں جس کو موت
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ضرور ہے
اقرارِ بندگی ہے خدائی کا ادِّعا
عجز و نیاز کیا ہے ؟ کمالِ غرور ہے
اُمّید کیجئے اگر امّید کچھ نہیں
غم کھائیے بہت جو خیالِ سرور ہے
زلفِ سیاہ سے رُخِ تاباں کا حُسن ہے
کہتے ہو جس کو دیو حقیقت میں حور ہے
بے معصیت خزانۂ رحمت ہے رائیگاں
سچ پوچھئے تو جرم نہ کرنا قصور ہے
اظہارِ جانِ پاک ہے جسمِ کثیف سے
بے پردگی حجاب ہے ظلمت ہی نور ہے
بالاتفاق ہستیِ وہمی ہے نیستی
ہشیار ہے جو نشۂ غفلت میں چور ہے
اعلی تھا جسکا رتبہ وہ اسفل میں ہے اسیر
صفّ لغال موقفِ صدر الصدور ہے
ہے راہ کی تلاش تو گمرہی طلب
عاقل وہی ہے ۔ عقل میں جس کی فتور ہے
بیداری وجود ہے خوابِ عدم میں غرق
لب بند ہو گئے یہی شورِ نشور ہے
ہر چند شغلِ شعر نہیں آج کل مگر
نذرانہ پیر جی کے لئے کچھ ضرور ہے
ہے وصف تیرا محیطِ اعظم
یاں تاب کسے شناوری کی
دے زندگی اور اُس کا ساماں
کیا شان ہے بندہ پروری کی
شاہنشہِ وقت ہے وہ جس نے
تیرے در کی گداگری کی
بدتر ہوں ولے کرم سے تیرے
اُمید قوی ہے بہتری کی
کیا آنکھ کو تل دیا کہ جس میں
وسعت ہے چرخِ چنبری کی
دیکھا تو وہی ہے راہ و رہرو
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی
کیا بات ہے گر کیا ترحّم
ہیہات جو تو نے داوری کی
کی بعدِ خزاں بہار پیدا
سوکھی ٹہنی ہری بھری کی
جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزّت کھودی سخنوری کی
لکھی تھی یہ غزل آگرہ میں
پہلی تاریخ جنوری کی
کُچھ ایسے دلفریب شگوفے کھِلا کئے
مشقِ خیال سے نہ بنی دل جدا کئے
دریا تو ہے وہی جو ہوا داخلِ محیط
وادی میں ورنہ سیکڑوں نالے بہا کئے
ابنائے روزگار میں ایسا بھی کوئی ہے
جس نے حقوقِ صحبتِ یاراں ادا کئے
ذاتِ بشر میں کوئی کرامت ضرور ہے
کیوں بات بات اُس کی فرشتے لکھا کئے
انسان کی زمام ہے خصلت کے ہاتھ میں
اہلِ جفا کو چین کہاں بے جفا کئے
بدقسمتی سے تو ہی نہ دوڑا وگرنہ یاں
دن رات خوانِ نعمتِ الواں لٹا کئے
زار و زبوں ہے آج زمانے کے ہاتھ سے
غافل جو بزم ناز کو بیٹھے سجا کئے
شاید کوئی لطیفۂ غیبی ہو آشکار
بیٹھے ہوئے ہیں تکیہ بفضلِ خدا کئے
شکرِ خدا کہ وجہ شکایت نہیں رہی
مدّت ہوئی ہے ترکِ امیدِ وفا کئے
بخشا ہے اہتزاز تجھے کس نے ؟ اے نسیم
بندِ قبائے غنچہ اگر تو نے وا کئے
جو دل ہو تنگ تو جا شکر کر گلوں کو دیکھ
شگفتگی نے چمن کی ہوا نہ کھانے دی
کیا جو کر تو شیطان کے ہاتھ کیا آیا
وہی عزیز ہے عزّت جسے خدا نے دی
تری عطا ہے مری احتیاج سے سابق
کبھی سوال کی نوبت نہ تو نے آنے دی
اُمید نے تو بہت دھوم دھام کی لیکن
وفورِ یاس نے قسمت نہ آزمانے دی
کشود و کار سے تسکینِ دل کبھی نہ ہوئی
عجب نشاط تھی جو ترکِ مدّعا نے دی
گدا و شاہ سے یکساں معاملہ ہے وہاں
کوئی بتائے کہ مہلت کسے قضا نے دی
غم مونسِ تنہائی تھا آتے ہی تمہارے
کہتا تھا پھر آ جاؤں گا جب یاد کرو گے
دلداریِ سرکار کے بج جائیں گے ڈنکے
دل سے رہِ ویراں کو جو یاد کرو گے
احسان کے پھندے سے چھُڑائے گا مُجھے کون
مانا کہ غلامی سے تم آزاد کرو گے
عالم کے صحیفہ میں یہ قدرت کی نگارش
دیکھو گے تو ہر نکتہ پے تم صاد کرو گے
واعظ کی بکواس سمجھ میں نہیں آتی
یا حضرتِ دل تم بھی کچھ ارشاد کرو گے
کس لئے پروانہ خاکستر ہوا
شمع کیوں اپنی جلن میں گھُل گئی
منتشر کیوں ہو گئے اوراقِ گُل
چیختی گلشن سے کیوں بلبل گئی
آبدیدہ ہو کے کیوں شبنم چلی
دم کہ دم کانٹوں میں آ کر تُل گئی
سبزۂ طرفِ خیاباں کیا ہوا
آہ کیوں شادابیِ سنبل گئی
کُچھ نہ تھا خوابِ پریشاں کے سوا
اِس تھیٹر کی حقیقت کھُل گئی
راہ کے رنج و تعب کا کیا گلہ
جب کہ دل سے گردِ کُلفت دھُل گئی
خارج ہے عہدِ طفلی و پیری حساب سے
البتہ زندگی ہے عبارت شباب سے
ہر چند گفتگو کی نہ باقی رہے مجال
لیکن زباں دراز نہ چوکے جواب سے
ہے دعویِ خلوص تو کانوں پہ ہاتھ رکھ
بیمِ عذاب اور امیدِ ثواب سے
بے نور سینہ حفظِ سفینہ سے فائدہ
معنی سے ہے کتاب نہ معنی کتاب سے
وہ اور ہی نوا ہے محرّک سرور کی
باہر گلوئے مطرب و تارِ رُباب سے
کیا کہنے آدمی کے عجب چیز ہیں جناب
برتر ملائکہ سے فروتر دواب سے
سوجھیں وہ بدعتیں کہ خدایا تری پناہ
فرصت اگر ملے بھی ہمیں خورد و خواب سے
کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے
پھر چمن اور آشیانہ اور ہے
ہاں دلِ بے تاب ! چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے
شمع پھیکی ۔ رات کم ۔ محفل اُداس
اب مغنّی کا ترانہ اور ہے
اے جوانی تو کہانی ہو گئی
ہم نہیں وہ یا زمانہ اور ہے
جس کو جانِ زندگانی کہہ سکیں
وہ حیاتِ جاودانہ اور ہے
جس کو سن کر زہرۂ سنگ آب ہو
آہ وہ غمگیں فسانہ اور ہے
وا اگر سمعِ رضا ہو تو کہوں
ایک پندِ مشفقانہ اور ہے
اِتّفاقی ہے یہاں کا ارتباط
سب ہیں بیگانے یگانہ اور ہے
راہ و رسم خط خطابت ہی سہی
گُل نہیں تو گُل کی نکہت ہی سہی
دل لگی کو کوئی ساماں چاہئے
قحطِ معنی ہو تو صورت ہی سہی
بے دماغی بندہ پرور اِس قدر
آپ کی سب پر حکومت ہی سہی
دوستی کا میں نے کب دعویٰ کیا
دور کی صاحب سلامت ہی سہی
بسکہ ذکر العیش نصف العیش ہے
یادِ ایّامِ فراغت ہی سہی
وقت ملنے کا معیّن کیجئے
خواہ فردائے قیامت ہی سہی
حسنِ صورت کا نہ کھا اصلا فریب
کلکِ صنعت گر کی صنعت ہی سہی
کُچھ نہ کرنا بھی مگر اِک کام ہے
گر نہیں صحبت تو عزلت ہی سہی
دنیا میں تہی دست کی وقعت نہیں ہوتی
یک جا کبھی محتاجی و عزّت نہیں ہوتی
ممکن ہے کہ ٹل جائے جبل اپنے مقر سے
لیکن کبھی تبدیل جبلّت نہیں ہوتی
ہے جان کی جوکھوں بھی اگر راہِ طلب میں
پست اُس سے اولو العزم کی ہمّت نہیں ہوتی
خلوت میں بھی لاتے نہیں عاقل اُسے منہ پر
جو بات شائستہ جلوت نہیں ہوتی
ہم کرتے ہیں عادت کی غلامانہ اطاعت
اصلاح پذیر اس لئے عادت نہیں ہوتی
راحت جسے کہتے ہیں وہ محنت کا صلہ ہے
راحت طلبی موجبِ راحت نہیں ہوتی
کیا گنبدِ بے در یدِ قدرت نے بنایا
جس کی کبھی سالانہ مرمّت نہیں ہوتی
انساں کی شرافت متعلق ہے عمل سے
میراث میں تقسیم شرافت نہیں ہوتی
پتّے کی طرح جو کوئی محکوم ہوا ہو
اُس شخص کی دنیا میں کبھی پت نہیں ہوتی
جو لوگ ہیں دشمنی نفس سے آگاہ
اُن کو تو کسی سے بھی عداوت نہیں ہوتی
ڈھاتی ہے قیامت یہی خونخوار جہاں میں
کُچھ غم نہیں ہوتا جو محبّت نہیں ہوتی
رخصت ہے مری جان خدا حفظ و ناصر
ہر چند کہ سیرئِ طبیعت نہیں ہوتی
لو جان بیچ کے بھی جو فضل و ہنر ملے
جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے
ملنا بُرا نہیں ہے ولیکن یہ لت بُری
جس سے ملے بہ صورتِ شیر و شکر ملے
جب چشمِ آز پھوٹ گئی سب خلش مٹی
اب سنگریزہ ہاتھ لگے یا گہر ملے
ہے غارتِ متاع نشانِ دیارِ دوست
رہزن اگر ملے تو سمجھو خضر ملے
ممکن نہیں بغیرِ قناعت فراغِ بال
ہر چند تودہ تودہ تجھے سیم و زر ملے
یارانِ بزمِ دہر میں کیا کیا تپاک تھا
لیکن جب اُٹھ گئے تو نہ بارِ دگر ملے
مردِ نبرد نفس اگر ہے تو بھاگ مت
جب تک نہ خاک و خون میں دشمن کا سر ملے
جن کو نہیں ہے درد و دوا میں کچھ امتیاز
قسمت سے اِن گُنوں کے ہمیں چارہ گر ملے
غیرِ توکّل نہیں چارا مجھے
اپنے ہی دم کا ہے سہارا مجھے
حرص و طمع نے تو ڈبویا ہی تھا
صبر و قناعت نے ابھارا مجھے
جو وہ کہے اُس کو سزاوار ہے
چوں و چرا کا نہیں یارا مجھے
بے ادبوں کی ادب آموزیاں !
اُن کے بگڑے نے سنوارا مُجھے
کوششِ بے سودا مشوّش نہ کر
قعر نہ بن جائے کنارا مُجھے
زشتیِ پندار دلاتا ہے یاد
قصّۂ اسکندر و دارا مُجھے
ننگِ ذلّت سے چھڑا لے گیا
جاشِ حمیّت کا حرارا مُجھے
اوجِ معالی پہ اُڑا لے گیا
توسنِ ہمّت کا طرارا مُجھے
آہ ! نہیں رخصتِ افشائے راز
قصہ تو معلوم ہے سارا مُجھے
فرصتِ اوقات ہے بس مفتنم
یہ نہیں ملنے کی دوبارا مُجھے
نکلے چلے آتے ہیں تہِ خاک سے کھانے
یہ خوانِ کرم کس نے بچھایا ہے ؟ خدا نے
جو دل میں ہے مُنہ پھوڑ کے بررو نہیں کہتے
مارا مجھے یاروں کی در سنت اور نہ جانے
غفلت میں ہیں سرمست بدلتے نہیں کروٹ
گو سر پہ اُٹھا لی ہے زمیں شورِ درا نے
اِسراف نے اربابِ تموّل کو ڈبویا
عالِم کو تفاخر نے تو زاہد کو ریا نے
مرد اُس کو سمجھئے نہ کیا ہو جسے بدمست
ایّامِ جوانی کی مئے ہوش ربا نے
با ایں ہمہ درماندگی انساں کے یہ دعوے
کیا ذاتِ شریف اِن کو بنایا ہے خدا نے
جلوت کا بھروسہ ہے نہ خلوت کی توقع
سب وہم تھا یاروں نے جو تاکے تھے ٹھکانے
ہو رائگاں جو قطرہ سے قطرہ جدا چلے
مِل جُل گئے تو فیض کے دریا بہا چلے
یہ دل کا حوصلہ ہے کہ میدانِ عشق میں
تیرے سمندِ ناز کے پیچھے لگا چلے
ہے آج رُخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کلَ کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے
کرتی ہے پست صف شکنوں کے بھی حوصلے
وہ رزم گاہ جس میں کہ تیغِ ادا چلے
قدسی بھی ہیں خموش نہیبِ جلال سے
اُس کو میں کیا مجال کہ پیکِ صبا چلے
جی ہی نہ چاہتا ہو تو ملنے سے فائدہ
آئے تو مُنہ بنائے ۔ چلے تو خفا چلے
تبلیغِ پیام ہو گئی ہے
حجّت بھی تمام ہو گئی ہے
جب موجِ صبا اُدھر سے آئی
تفریحِ مشام ہو گئی ہے
کتنی بودی ہے طبعِ انساں
عادت کی غلام ہو گئی ہے
خواہش کہ تھی آدمی کو لازم
بڑھ کر الزام ہو گئی ہے
تمہیدِ پیام ہی میں اپنی
تقریر تمام ہو گئی ہے
بچنا کہ وبائے صحبتِ بد
اس دور میں عام ہو گئی ہے
حلقہ میں قلندروں کے آ کر
تحقیق تمام ہو گئی ہے
جرگہ میں تضدروں کے جا کر
حکمت بدنام ہو گئی ہے
شیریں دہنوں کی طرزِ گفتار
مقبولِ انام ہو گئی ہے
بیجا بھی نکل گئی ہے جو بات
تحسینِ کلام ہو گئی ہے
نامرد کے ہاتھ میں پہنچ کر
شمشیر نیام ہو گئی ہے
تکفیرِ برادراںِ دیں بھی
شرطِ اسلام ہو گئی ہے
کیا شعر کہیں کہ شاعری کی
ترکی ہی تمام ہو گئی ہے
شبِ زندگانی سحر ہو گئی
بہرکیف اچھی بسر ہو گئی
نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہو گئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہو گئی
زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بےغیرتی بھی ہنر ہو گئی
عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مدِ نظر ہو گئی
گئے جو نکل دامِ تزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہو گئی
زمیں منقلب آسماں چرخ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہو گئی
مٹا ڈالئے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہو گئی
براہ کرم اس کو طے کیجیئے
جو اَن بَن کسی بات پر ہو گئی
نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہو گئی
یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بے خبر
وہ چپ ہیں جنھیں کچھ خبر ہو گئی
میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہیئے
میں ہی میں ہوں پھر مجھے کیا چاہیئے
غرقِ خم ہونا میسر ہو تو بس
چاہیئے ساغر نہ مینا چاہیئے
منحصر مرنے پہ ہے فتح و شکست
کھیل مردانہ ہے کھیلا چاہیئے
بے تکلف پھر تو کِھیوا پار ہے
موج زن قطرہ میں دریا چاہیئے
تیز غیروں پر نہ کر تیغ و تبر
آپ اپنے سے تبرا چاہیئے
ہو دمِ عرضِ تجلی پاش پاش
سینہ مثلِ طورِ سینا چاہیئے
حسن کی کیا ابتدا کیا انتہا
شیفتہ بھی بے سر و پا چاہیئے
پارسا بن اگر نہیں رندوں میں بار
کچھ تو بےکاری میں کرنا چاہیئے
کفر ہے ساقی پہ خِسّت کا گماں
تشنہ سرگرمِ تقاضا چاہیئے
عیش کے جلسے ہجوم آلام کے
شعبدے ہیں گردش ۔ایام کے
ہمتِ مردانہ تجھ کو آفریں
کر کے چھوڑا سِر ہوئی جس کام کے
صبح کے بھولے تو آئے شام کو
دیکھیئے کب آئیں بھولے شام کے
تو ہی کر تکلیف او نپیکِ صبا
منتظِر ہیں وہ مرے پیغام کے
حاشا للہ میکدہ کے کاسہ لیس
معتقد ہوں زاہدِ علام کے
مٹ گئی ہے دل سے آزادی کی یاد
کتنے خوگر ہو گئے ہم دام کے
اب تو چرچے جا بجا ہونے لگے
واعظوں کی بانگِ بے ہنگام کے
درد سے لبریز سینہ چاہیئے
چشمِ پر خوں جائے مینا چاہیئے
ایسے بد افعال پر لاحول پڑھ
آدمی کو بغض و کینہ چاہیئے؟
گھٹ کے مر جانا بھی ہے دوں ہمتی
چار و ناچار اور جینا چاہیئے
بحر ہو تو بحرِ طوفاں خیز ہو
اور بے لنگر سفینہ چاہیئے
ہے رگِ ہر برگ میں رنگ بہار
دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیئے
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
کچھ تسلی کچھ اضطراب بھی ہے
ہے تو اغیار سے خطاب مگر
میری ہر بات کا جواب بھی ہے
واں برابر ہے خلوت و جلوت
اس کی بے پردگی حجاب بھی ہے
ہو قناعت تو ہے جہاں دریا
حرص غالب ہو تو سراب بھی ہے
وہ تبختر کہاں ؟تپاک کہاں؟
گرم و روشن تو آفتاب بھی ہے
بنتی نہیں بات گفتگو کی
چلتی نہیں چال جستجو کی
تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ
میں اور مجال آرزو کی
اس کی طلب اور مقام و منزل
احباب کی ہائے بدسلوکی
واں زیر کی پسند نہ ادراک چاہیئے
عجز و نیاز و دیدۂ نمناک چاہیئے
آئینہ بن کے شاہد و مشہود ایک ہے
اس روئے پاک کو نظرِ پاک چاہیئے
سیر و سلوک جاں نہیں بے جذبۂ نہاں
اس راہ میں یہ توسنِ چالاک چاہیئے
گزرے امید و بیم سے یہ حوصلہ کسے؟
رندِ خراب و عارفِ بےباک چاہیئے
ہر چشمہ آئنہ ہے رخِ آفتاب کا
ہاں سطحِ آب بے خس و خاشاک چاہیئے
نشو و نمائے سبزہ و گل میں نہیں درنگ
ابرِ کرم کو تشنگیِ خاک چاہیئے
اصلاحِ حالِ عاشق دل خستہ ہے ضرور
معشوق جور پیشہ و سفاک چاہیئے
جو عین نائے و نوش ہو اس بادہ نوش کو
جام و سبو نہ خُمکدہ و تاک چاہیئے
صیاد کے اثر پہ رواں ہو تو صید ہے
وہ صید ہی نہیں جسے فتراک چاہیئے
دید وادید کی رخصت ہی سہی
میرے حصّہ کی قیامت ہی سہی
مہربانی بھی تو کچھ عیب نہیں
دشمنی شرطِ محبت ہی سہی
٭
نعمتِ خلد تھی بشر کے لئے
خاک چاٹی نظر گزر کے لئے
٭
جب غنچہ کو وا شد ہوئی تحریک صبا سے
بلبل سے عجب کیا جو کرئے نغمہ سرائی
٭
عجب شورش دلِ غمناک میں ہے
مگر درپردہ وہ بھی تاک میں ہے
چکھی بھی ہے تو نے درود جامِ توحید
یا سُن ہی لیا ہے صرف نامِ توحید
ہے کفرِ حقیقی کا نتیجہ ایماں
ترکِ توحید ہے مقامِ توحید
طلب
گر جورو جفا کرئے تو انعام سمجھ
جس کام سے وہ خوش ہو اسے کام سمجھ
گر کفر کی راہ سے رسائی ہو وہاں
اس کفر کو تو جادۂ اسلام سمجھ
قرب
مکشوف ہوا کہ دید حیرانی ہے
معلوم ہوا کہ علم نادانی ہے
ڈالا ہے تلاشِ قرب نے دوری میں
مشکل ہے بڑی یہی کہ آسانی ہے
بے نشانی
بندہ ہوں تو اک خدا بناؤں اپنا
خالق ہوں تو اک جہاں دکھاؤں اپنا
ہے بندگی وہم اور خدائی پندار
میں وہ ہوں کہ خود پتا نہ پاؤں اپنا
آزادگی
کافر کو ہے بندگی بتوں کی غم خوار
مومن کے لئے بھی ہے خدائے غفار
سب سہل ہے یہ ولیک ہونا دشوار
آزادہ و بے نیاز و بیکس بےکار
یقین
آیا ہوں میں جانبِ عدمِ ہستی سے
پیدا ہے بلند پائگی پستی سے
عجز اپنا بزور کر رہا ہوں ثابت
مجبور ہوں میں زبردستی سے
عبودیت حجابِ ربوبیت
ڈھونڈا کرئے کوئی لاکھ کیا ملتا ہے؟
دن کا کہیں رات کو پتا ملتا ہے؟
جب تک کہ ہے بندگی خدائی کا حجاب
بندہ کو بھلا کہیں خدا ملتا ہے؟
توحید
توحید کی راہ میں ہے ویرانہ سخت
آزادی و بے تعلقی ہے یک لخت
دنیا ہے نہ دین ہے نہ دوزخ نہ بہشت
تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت
اسلاف پر فخر بیجا
اسلاف کا حصّہ تھا اگر نام و نمود
پڑھتے پھرو اب ان کے مزاروں پہ درود
کچھ ہات میں نقدِ رائج الوقت بھی ہے
یا اتنی ہی پونجی۔"پدرم سلطان بود"
تقریض
حقا کہ بلند ہے مقامِ اکبر
توقیع سخن ہے اب بنامِ اکبر
دیوان ہے لطائف و حکم سے معمور
اکبر کا کلام ہے کلامِ اکبر
تنزیہ
تقریر سے وہ فزوں بیان سے باہر
ادراک سے وہ بری گمان سے باہر
اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں
سرحد ۔مکان و لامکاں سے باہر
غیر حق نہیں
حق ہے تو کہاں ہے پھر مجالِ باطل
حق ہے تو عبث ہے احتمالِ باطل
ناحق نہیں کوئی چیز راہ حق میں
باطل کا خیال ،ہے خیالِ باطل
لا موجود الا اللہ
ساقی و شراب و جام و پیمانہ کیا
شمع و گل و عندلیب و پروانہ کیا
نیک و بد و خانقاہ و مے خانہ کیا
ہے راہ یگانگی میں بیگانہ کیا
مظاہر
مجموعۂ خار و گل ہے زیبِ گلزار
نیکی و بدی ہے جلوہ گاہِ اظہار
ہے مخمصہ اختیار حق و باطل
ہے وسوسہ اعتبار یار و اغَیار
عجز و ادراک
ہر خواہش و عرض و التجا سے توبہ
ہر فکر سے ذکر سے دعا سے توبہ
از بس کہ محال ہے سمجھنا اس کا
جو آئے سمجھ میں اس خدا سے توبہ
ترک فضولی
دیکھا تو کہیں نظر نہ آیا ہرگز
ڈھونڈا تو کہیں پتا نہ پایا ہرگز
کھونا پانا ہے سب فضولی اپنی
یہ خبط نہ ہو مجھے خدایا ہرگز
اختلاف خیالی ہے
دراصل کہاں ہے اختلافِ احوال
کچھ رنج نہ راحت نہ مسرت نہ ملال
قربت ہے نہ بُعد ہے نہ فرقت نہ وصال
یہ بھی ہے خیال اور وہ بھی ہے خیال
فاعلِ حقیقی حق ہے
شیطان کرتا ہے کب کسی گمراہ
اس راز سے ہے خدائے غالب آگاہ
ہے کام کسی کا اور کسی پر الزام
لاحول ولا قوہ الا باللہ
ذات کو تغّیر نہیں
پر شور الست کی ندا ہے اب بھی
جو تھی وہی آن اور ادا ہے اب بھی
ہوتی نہیں سنتِ الہی تبدیل
جس شان میں ہے وہی خدا ہے اب بھی
تّجلیات حجاب میں
اِخفا کے لئے ہے اس قدر جوش و خروش
یاں ہوش کا مقتضا ہے بننا مدہوش
حسنِ ازلی تو ہے ازل سے ظاہر
یعنی ہے تجّلیوں میں اپنی روپوش
مشاہدہ
اے بارِ خدا یہ شور و غوغا کیا ہے؟
کیا چیز طلب ہے اور تنہا کیا ہے؟
ہے کم نظری سے اشتیاقِ دیدار
جو کچھ ہے نظر میں یہ تماشا کیا ہے؟
کسی خاص کیف کی پابندی غلط ہے
افسردگی اور گرم جوشی بھی غلط
گم گشتگی اور خود فروشی بھی غلط
کچھ کہیئے اگر تو گفتگو ہے بےجا
چپ رہیئے اگر تو ہے خموشی بھی غلط
شہودِ حق میں غیر معدوم
الحق کی نہیں ہے غیر ہرگز موجود
جب تک کہ ہے وہم غیرِ حق ہے مفقود
حق یہ ہے کہ وہم کا بھی ہونا حق ہے
حق ہے تو ہر طرح سے حق ہے مشہود
فُقر
کیفیت و ذوق اور ذکر و اوراد
دین و اسلام اور کفرو الحاد
ہر رنگ ہے محو،ہر تعلق برباد
ہے فُقر تمام عِلتوں سے آزاد
وحدت
نقاش سے ممکن ہے کہ ہو نقش خلاف
ہیں نقش میں جلوہ گر اسی کے اوصاف
ہر شے میں عیاں ہے آفتابِ وحدت
گر وہم دوئی نہ ہو تو ہے مطلع صاف
غفلت
اک عالمِ خواب خلق پر طاری ہے
یہ خواب میں کارخانہ سب جاری ہے
یہ خواب نہیں یہی سمجھنا ہے خواب
گر خواب کا علم ہے تو بیداری ہے
راہِ خدا کی انتہا نہیں
جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل
دکھے بھالے بہت مقامات و محل
اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام
یعنی ہے وہی ہنوز روزِ اول
خود شناسی
اکثر نے ہے آخرت کی کھیتی بوئی
اکثر نے ہے عمر جستجو میں کھوئی
آخر کو اگر پتا ملا تو یہ ملا
ملنے کا نہیں سوائے اپنے کوئی
مظہر
بدلا نہیں کوئی بھیس ناچاری سے
ہر رنگ ہے اختیارِ سرکاری سے
بندہ شاہد ہے اور طاعت زیور
یہ سانگ بھرا گیا ہے عیاری سے
کثرت لازمِ وحدت ہے
ہے عشق سے حسن کی صفائی ظاہر
رندی سے ہوئی ہے پارسائی ظاہر
وحدت کا ثبوت ہے ظہورِ کثرت
بندہ ہی کے دم سے ہے خدائی ظاہر
طلب بے نشانی
یارب کوئی نقش مدعا بھی نہ رہے
اور دل میں خیال ماسوا بھی نہ رہے
رہ جائے تو صرف بے نشانی باقی
جو وہم میں ہے سو وہ خدا بھی نہ رہے
ہستی واحد ہے
ہم عالمِ خواب میں ہیں یا ہم میں خواب
ہم خود سائل ہیں خود سوال اور جواب
آئی نہیں کوئی شے کہیں باہر سے
ہم خود ہیں مسبّب اور خود ہیں اسباب
ہر شان میں حق تجلی ہے
ہے شکر درست اور شکایت زیبا
ہے کفر درست اور ہدایت زیبا
گیسوئے سیاہ اور جبینِ روشن
دونوں کی بہار ہے نہایت زیبا
تنزبھ
مقصود ہے قیدِ جستجو سے باہر
وہ گل ہے دلیلِ رنگ و بو سے باہر
اندر باہر کا سب تعیّن ہے غلط
مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر
توحید
معلوم کا نام ہے نشان ہے نہ اثر
گنجائشِ علم ہے بیان یے نہ خبر
علم اور معلوم میں دوئی کی بو ہے
اس واسطے علم ہے حجاب الاکبر
ترکِ ذکر و فکر
ہوتی نہیں فکر سے کوئی افزائش
چپکے رہنے میں ہے بڑی آسائش
کہنا سننا تو ہے نہایت آساں
کہنے سننے کی ہو اگر گنجائش
ترکِ خودی
برہان و دلیل عین گمراہی ہے
نفی و اثبات محض جاں کاہی ہے
اس رہ میں عبادت و اشارت ہے گم
یاں ترکِ خودی اصولِ آگاہی ہے
دین و دنیا
دین اور دنیا کا تفرقہ ہے مہمل
نیت ہی پہ موقوف ہے تنقیحِ عمل
دنیا داری بھی عین دیں داری ہے
مرکوز ہو گر رضائے حق عز و جل
وحدت
خاکِ نمناک اور تابندہ نجوم
ہیں ایک ہی قانون کے یکسر محکوم
یکسانیِ قانون کہے دیتی ہے
لاریب کہ ہے ایک ہی ربِ قیّوم
استقلال
تیزی نہیں منجملۂ اوصاف کمال
کچھ عیب نہیں اگر چلو دھیمی چال
خرگوش سے لے گیا ہے کچھوا بازی
ہاں راہِ طلب میں شرط ہے استقلال
ایک واقعہ
کیا کہتے ہیں اس میں مفتیانِ اسلام
جب بیعِ مساجد سے نہیں چلتا کام
تو وجہِ کفاف کے لئے مومن کو
جائز بھی ہے یا نہیں خدا کا نیلام
اصلاحِ قوم دشوار ہے
پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار
بہتے دریا کو بھی لانا دشوار
دشوار سہی،مگر نہ اتنا جتنا
بگڑی ہوئی قوم کو بنانا دشوار
ہر کام کا نتیجہ اپنے لئے ہے
گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے
اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے
اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے
مراسم میں فضولی
اب قوم کی جو رسم ہے سو اوُل جلُول
فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول
ہے عید مہذب، نہ محرم معقول
ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول
نیچر انسان کی محکوم ہے
فطرت کے مطابق اگر انساں لے کام
حیوان تو حیوان ،جمادات ہوں رام
مٹی، پانی،ہوا، حرارت،بجلی
دانشمندوں کے ہیں مطیع احکام
وقت رائیگاں نہیں کرنا چاہیئے
بے کار نہ وقت کو گزارو یارو
یوں سست پڑے پڑے نہ ہمت ہارو
برسات کی فصل میں ہے ورزش لازم
کچھ بھی نہ کرو تو مکھیاں ہی مارو
اتفاق میں کامیابی ہے اور نااتفاقی میں تباہی
جب تک کہ سبق ملاپ کا یاد رہا
بستی میں ہر ایک شخص دل شاد رہا
جب رشک و حسد نے پھوٹ ان میں ڈالی
دونوں میں سے ایک بھی نہ آباد رہا
ہمت
جس درجہ ہو مشکلات کی طغیانی
ہو اہل ہمم کو اور بھی آسانی
تیراک اپنا ہنر دکھاتا ہے خوب
ہوتا ہے جب اس کے سر سے اونچا پانی
فنا عینِ وصال ہے
کس طور سے کس طرح سے کیونکر پایا
دل نذر کیا سراغ دلبر پایا
باقی رہا مدعا نہ دعویٰ نہ دلیل
کھوئے گئے آپ ہی تو سب بھر پایا
دنیا پرست دین دار
دنیا کے لئے ہیں سب ہمارے دھندے
ظاہر طاہر ہیں اور باطن گندے
ہیں صرف زبان سے خدا کے قائل
دل کی پوچھو تو خواہشوں کے بندے
محبِ دنیا نشانِ خامی ہے
یہ قول کسی بزرگ کا سچا ہے
ڈالی سے جدا نہ ہو تو پھل کچا ہے
چھوڑی نہیں جس نے حبِ دنیا دل سے
گو ریش سفید ہو مگر بچہ ہے
اچھی بات
جو بات کہو صاف ہو،ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو،کھٹی نہ ہو،مصری کی ڈلی نہ ہو
وقت سے کام لو
وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے بڑھتی ہے چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ
بری صحبت سے بچو
بد کی صحبت میں مت بیٹھو،اس کا ہے انجام برا
بد نہ بنے تو بد کہلائے،بد اچھا بدنام برا
خیالِ محال
کیا کیا خیال باندھے ناداں نے اپنے دل میں
پر اونٹ کی سمائی کب ہو چوہے کے بل میں
٭
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حّجت
اعتدالِ خیال
نہ حلوہ بن،کہ چٹ کر جائیں بھوکے
نہ کڑوا بن،کہ جو چکھے سو تھوکے
اعتدالِ غذا
نہ کھاؤ اتنا زیادہ کہ ڈال دے بیمار
نہ اتنا کم ہو کہ نا طاقتی ہی ڈالے مار
راستی
راستی سیدھے سڑک ہے جس میں کچھ کھٹکا نہیں
کوئی رہرو آج تک اس راہ میں بھٹکا نہیں
٭
گلستانِ جہاں میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی
مگر جو گل کے جویا ہیں انہیں کیا خار کا کھٹکا
اپنی حفاظت
جب کہ دو موذیوں میں ہو کھٹ پٹ
اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ
٭
تا سحر وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے باد صبا
یادگارِ رونقِ محفل تھی پروانہ کی خاک
٭
تم نہ چوکو کبھی نکوئی سے
کرنے دو گر خطا کرئے کوئی
٭
ہر چند اس کے مال سے کوئی واسطی نہ ہو
پھر بھی برا ہی کہتی ہے خلقت بخیل کو
٭
ساغرِ زریں ہو یا مٹی کا ہو ایک ٹھیکرا
تو نظر کر اس پے جو کچھ اس کے اندر ہے بھرا
نوٹ : یہ نظمیں سوائے مثلث اور ایک غزل کے ترتیبِ کلیات کے بعد لکھی گئی ہیں احباب کی فرمائش سے بطور ضمیمہ درج کی گئیں ـ
مثنوی
کوّا
کوّے ہیں سب دیکھے بھالے
چونچ بھی کالی پر بھی کالے
کالی کالی وردی سب کی
اچھی خاصی اُن کی ڈھب کی
کالی سینا کے ہیں سپاہی
ایک سی صورت ایک سیاہی
لیکن ہے آواز بُری سی
کان میں جا لگتی ہے چھُری سی
یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ
کُچھ بھی نہ چھوڑے پاک نہ گندہ
اچھی ہے پر اُس کی یہ عادت
بھائیوں کی کرتا ہے دعوت
کوئی ذرا سی چیز جو پالے
کھائے نہ جب تک سب کو بُلا لے
کھانے دانے پر ہے گرتا
پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتا
دیکھ لو ! وہ دیوار پہ بیٹھا
غُلّہ کی ہے مار پہ بیٹھا
کیوں کر باندھوں اُس پہ نشانا
بے صبرا چوکنّا ـ سیانا
کائیں کائیں پنکھ پسارے
کرتا ہے یہ بھوک کے مارے
تاک رہا ہے کونا کھُترا
کچھ دیکھا تو نیچے اُترا
اُس کو بس آتا ہے اُچھلنا
جانے کیا دو پانو سے چلنا
اُچھلا ، کودا لپکا سُکڑا
ہاتھ میں تھا بچّہ کے ٹکڑا
آنکھ بچا کے جھٹ لے بھاگا
واہ رے تیری پھرتی کاگا !
ہا ہا کرتے رہ گئے گھر کے
یہ جا وہ جا چونچ میں بھر کے
پیڑ پہ تھا چڑیا کا بسیرا
اُس کو ظالم نے جا گھیرا
ہاتھ لگا چھوٹا سا بَچّا
نوچا پھاڑا کھا گیا کچّا
چڑیا رو رو جان ہے کھوتی
ہے ظالم کی جان کو روتی
چِیں چِیں چِیں چِیں دے کے دُہائی
اپنی بِپتا سب کو سُنائی
کون ہے جو فریاد کو پہنچے
بے چاری کی داد کو پہنچے
پکنے پر جب مَکّا آئی
کوّوں نے جا لوٹ مچائی
دودھیا بھُٹّا چونچ سے چیرا
سَچ مُچ کا ہے اُٹھائی گیرا
رکھوالے نے پائی آہٹ
گوپھن لے کر اُٹھّا جھٹ پٹ
" ہریا ہریا " شور مچا کر
ڈھیلا مارا تڑ سے گھُما کر
سُن کے تڑاقا کوّا بھاگا
تھوڑی دیر میں پھر جا لاگا
لالچ خورا ڈھیٹ نڈر ہے
ڈانکو سے کچھ اِس میں کسر ہے ؟
ڈانکو ہے یا چور اُچّکا
پَر ہے اَپنی دھُن کا پکّا
مثلث
خوشی اِک مشغلہ ہو رات دن کا
شمار افزوں ہو اُس کے سال و سن کا
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہے امن اُس شہنشاہی میں ہر جا
سُکھی ہیں آج راجا اور پرجا
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
کوئن دنیا کے ہر خطّہ میں نامی
غریبوں اور مسکینوں کی حامی
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
رعایا تن کوئن اِس تن کی جاں ہے
خدا کی خلق پر وہ مہرباں ہے
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
دعاگو اُس کا پورب اور پچھاں بھی
فرنگستان بھی ہندوستاں بھی
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
رہے زندہ کوئن با دولت و بخت
رہے محفوظ اُس کا تاج اور تخت
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہیں اکثر ساکنانِ رُبِعّ سکوں
کوئن کے حکم میں مامون و مصئوں
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہے اُس کا مُلک راحت کا ٹھکانا
زمانہ اُس کا ہے طُرفہ زمانہ
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
سبھی احسان اُس کا مانتے ہیں
اُسے پیارا شہنشہ جانتے ہیں
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
ہیں اُس کے عہد میں انسان بڑھتے
نہالِ تازہ ہیں پروان چڑھتے
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
سمندر ـ شہر ـ جنگل اور پربت
بنے گلزار ہیں اُس کی بدولت
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
نظام الدین کی ہے التجا یہ
نکلتی ہے تہِ دل سے دعا یہ
خدا حافظ خدا حافظ کوئن کا
مسلمانوں کی تعلیم
اے ! خوشا وہ قوم مستقبل ہو جس کا شان دار
کَل سے بہتر آج ہو اور آج سے بہتر ہو کَل
دم بدم راہِ طلب میں کر رہی ہو دوڑ دھوپ
ایک نقطہ پر نہ ہو اُس کو توقف ایک پل
یہ نظم شیخ نظام الدین صاحب نبیرہ خان بہادر حافظ عبدالکریم مرحوم سی ـ آئی ـ ائ ریئس لال کورتی نے جلسہ سالگرہ ملکہ معظمہ کوئن وکٹوریا میں پڑھی تھی
ـ اپریل کو بمقام علی گڑھ ٹیچرز کانفرنس میں پڑہا گیا ـ
رفتہ رفتہ بن گئی ہو علم کی کشور کشا
ہوتے ہوتے ہو گئی ہو مردِ میدانِ عمل
کیوں نہ ہو اُس قوم کی دُنیا کے ہر گوشہ میں ساکھ
جس میں اخلاقی سکت ہو اور ہو حکمت کا بَل
وقت کو دولت کو طاقت کو نہ کھوئے رائگاں
کھودے احیاناً تو حاصل بھی کرے نعم البدل
ہچکچاتی ہو پہاڑوں سے نہ دریا سے رُکے
ہمّتیں ہوں اُس کی عالی عزم ہوں اُس کے اَٹل
حسرتا وہ قومِ ناقابل کہ ہو ننگِ سلف
کاہلی سے دست و بازو ہو گئے ہوں جس کے شل
اُس کی طاقت کیا ؟ کہ ہوں اوروں سے کم جس کے نفوس
اُس کی عزت کیا ؟ جو ہو پس مانده علم و عمل
اُس کی دولت کیا ؟ کہ ہوں افراد جس کے بے ہُنر
مفلسی بھی اور دماغوں میں مشیت کا خلل
کر دیا ہے خانہ برباد آج اُسے اسراف نے
جس کو قدرت نے دئے تھے سیکڑوں سنگیں محل
خیر جو گزرا سو گزرا یہ جو ہیں تازہ نہال
فکر اِن کی چاہیئے شاید یہی جائیں سنبھل
اِن کو بار آور بناؤ خواہ بے کار و فضول
آج جس سانچے میں ڈھالو گے انھیں جائیں گے ڈھل
کھیت میں پیدا ہوں پودے اور نہ سینچو وقت پر
ہے نتیجہ صاف ظاہر دھوپ سے جائیں گے جل
سوکھ کر جھڑ جائیں کلیاں اور نہ چیتے باغباں
ایسے ظالم باغباں کو کیا ملے گا خاک پھل
جی چرانا کام سے اور کامیابی کا یقیں
اے عزیزو ! ہے خلافِ حکمِ حق عزّوجل
لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّ مَا سَعیٰ پڑھتے تو ہو
لیکن اِس پڑھنے کا اے حضرات ! آخر ماحصل ؟
شہد کی مکھّی کو دیکھو کس قدر مصروف ہے
چوس کر ہر پھول سے لاتی ہے بے چاری عسل
اپنے بچّوں کے لیے کرتی ہے آذوقہ تلاش
آخرش آتے ہیں بچّوں کے بھی پَر پُرزے نکل
یہ نئی تانتی ہماری کیا کرے گی بھاگ دوڑ
تنگنائے کاہلی میں جب بڑے جائیں پھسل
بعض کہتے ہیں بڑھو آگے کہ ہے میداں وسیع
بعض کہتے ہیں کہ ہیں یہ کہنے والے مبتذل
دیکھنا ! تم ٹَس سے مَس ہرگز نہ ہونا ایک انچ
بڑھ گئے آگے تو آ جائے گا ایماں میں خلل
اُن کا کہنا مانئے یا اِن کی خاطر کیجئے
اپنا عقدہ کیجئے اب اپنے ہی ناخن سے حل
تیز کر اپنی توجّہ کی کرن اے آفتاب (۱) !
تاکہ جائے عادتوں سے برف سُستی کی پگھل
تیری گرمی سمندر سے اُٹھائے گی بخار
پھر ہوا میں جمع ہوں گے بادلوں کے دَل کے دَل
دشت اور کُہسار پر برسیں گے ایک دن جھوم جھوم
ایک ہو جائے گا آخر دیکھنا ! جل اور تھل
پھر تو ہو جائے گی یہ مردہ زمیں باغ و بہار
پھر تو کھِل جائیں گے پژمردہ دلوں کے بھی کنول
دِل نہ ہو درد آشنا تو نظم ہے اِک دردِ سر
کیا رباعی کیا قصیدہ کیا مخمّس کیا غزل
جملہ ڈیلیگٹ سے آب خیر مقدم عرض ہے
اور پریذیڈنٹ(۱) کی خدمت میں شکریہ ڈبل
۱۔ آنریبل صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بیرسٹرایٹ لا ـ علی گڑھ
رحلت ایڈورڈ ہفتم پیش آئی یک بہ یک
اِس وقوعہ کا نہ تھا ہرگز کسی کو بھی خیال
ہم نہ بھولے تھے ابھی وکٹوریہ عُظمٰے کا غم
کیوں کہ گزرے تھے ابھی اِس حادثہ پر چند سال
چند سالہ سلطنت میں شاہِ ولا جاہ نے
کر دیا سب پر عیاں اپنی لیاقت کا کمال
ملکِ افریقہ میں قومِ بور کو بخشا عروج
باوجودِ فتح مندی چھوڑ دی جنگ و جدال
کس قدر ہم عصر شاہوں سے بڑھائی آشتی
کس قدر ہمسایہ ملکوں سے بنایا اعتدال
بن گئے یارانِ مخلص پیرس و پیٹرس برگ
ڈھل گئی انگلش کی جانب سے جو تھی گردِ ملال
جرمن و اسپینسیز رومی و یونانی و ترک
صلح جو ایڈورڈ نے سب کی بدل دی چال ڈھال
پیس میکر بّرِاعظم میں ہوا اُس کا لقب
بڑھ گیا برطانیہ کا اور بھی عّز و جلال
کی تھی دورانِ ولی عہدی میں سیر اِس ملک میں
تھی عنایت کی نظر ہندوستاں کے حسبِ حال
ہفتمِ ماہِ مئی کو بج گیا کوسِ رحیل
عیسوی اُنّیس صدیاں اور یہ دسواں ہے سال
اب دعا ہے جارج پنجم جانشینِ سلطنت
مدتوں پھولے پھلے دُنیا میں یہ تازہ نہال
سب کے دل پر نقش ہیں اِس خانداں کی نیکیاں
اُن کے حق میں ہے رعایا کا دعاگو بال بال
دودمانِ شاہ کو اﷲ دے صبر و سکوں
دولت و اقبال روز افزوں رہے اور ملک و مال
شیخ عبدالقادر صاحب بیرسٹرایٹ لا
ایک دن تھا بحکمِ سرکاری
کئی اسکول جا بجا کھولے
نہ تو کچھ فیس تھی نہ داخلہ تھا
مفت تعلیم تھی اُسے جو لے
ہم مسلمان سب اکڑ بیٹھے
پہلے فتویٰ جواز کا ہو لے
مُنہ زبانی بھی اور لکھ کر بھی
پوچھ گچھ کی تو مولوی بولے
" ایسی تعلیم سے تو بہتر ہے
آدمی ٹوکری کہیں ڈھو لے "
اُن کو تنقیص دین کی سوجھی
تھے تعصّب کے آنکھ میں پھولے
وہم و وسواس کے رہے چلتے
سالہا سال توپ اور گولے
اِنتظامِ اُمورِ دُنیا کو
کیا سمجھتے یہ جَنّتی بھولے
جس کو ہو کچھ بھ فہم سے بہرہ
اپنے شربت میں زہر یوں گھولے
رہ نما بے خبر تو بات کو پھر
کون میزانِ عقل میں تولے
رہے علمِ معاش سے کورے
چہر قصبے محلّے اور ٹولے
ہیں ہمارے جو اور ہمسایے
گویا بیٹھے ہی تھے وہ مُنہ کھولے
خوانِ یغما پہ جا کے ٹوٹ پڑے
بھر لئے ٹھونس ٹھونس کر جھولے
لگی ہلدی نہ پھٹکری اور مفت
خوب موتی معاش کے رولے
محکموں کی پلٹ گئی کایا
آفسوں کے بدل گئے چولے
کہا سیّد نے قوم سے "ناداں!
تو بھی اُٹھ بیٹھ ہاتھ مُنہ دھو لے
پیچھے اُمیدِ جمع خرمن کر
پہلے کھیتوں میں بیج تو بولے "
تب ہوئی کچھ جِجھک ہماری دور
اور ہم نے بھی بال و پر کھولے
مگر اِس فیس کی گرانی کے
متواتر لگے وہ ہچکولے
حوصلہ کا نکل گیا بھرکُس
اور ہمّت کے ہو گئے ہولے
الغرض وہ مثل ہوئی اپنی
" سرمنڈتے ہی پڑ گئے اولے "
خوش ہیں غریب اپنے اُن جھونپڑوں کے اندر
جو دھوپ کی تپش سے دوزخ کی بھٹّیاں ہیں
شاکی ہیں اہلِ دولت حالاں کہ اُن کے گھر میں
پنکھا بھی کھنچ رہا ہے اور خَس کی ٹٹیاں ہیں
سر زمینِ ہند کا میوہ ہے پھوٹ
بوالہوس گِرتے ہیں اُس پر ٹوٹ ٹوٹ
نچ کھُسٹ کے رہ گیا مفلس چمن
یہ خزاں تھی یا کہ پنڈاروں کی لوٹ
ہو چکی میعادِ ایّامِ بہار
غنچہ و گل رو رہے ہیں پھوٹ پھوٹ
جا کہیں سے مول لا عقلِ فرنگ
کیا ہوا پہنا اگر ڈاسن کا بوٹ
صانِع قدرت نے بھر دیں کس قدر
صنعتیں یورپ کے سر میں کوٹ کوٹ
زالِ دُنیا کی نمائش دیکھ کر
اچّھے اچّھوں کا وضو جاتا ہے ٹوٹ
سچ کی پاؤ گے صدا ہر دم کڑی
آخرش چِیں بول ہی جاتا ہے جھوٹ
دایۂ ابرِ بہاری واہ وا!
گل زمیں کو خوب پہنایا ہے سوٹ
چھُٹتی ہیں فقروں کی آتشبازیاں
جب کبھی آپس میں ہو جاتی ہے چھوٹ
بیٹھ کر کالج میں انگریزی علوم
رَٹ لئے لیکن نہ پایا اُن کا روٹ
بے ہنر ہاتھوں میں ہیں بےکار سے
مالوے کی روئی بنگالے کا جوٹ
کیا ہمارے شعر اور کیا شاعری
گاہے ماہے اور وہ بھی جھوٹ موٹ
مانع سرگشتگی وہ سنگِ دَر ہوتا نہیں
پھوڑنا سر کا علاجِ دردِ سر ہوتا نہیں
حیف دُنیا ! ہائے عقبےٰ ! منزلِ دلبر ہے دُور
دل جو اِس رستہ میں ٹھٹکا طے سفر ہوتا نہیں
یاد اور امید کی دولت سے کٹ جاتے ہیں دن
ورنہ غم کھانے سے دنیا میں گزر ہوتا نہیں
دعوے اُلفت ہے کچّا جو نہ ہو دل میں طپش
بے حرارت تو کبھی پُختہ ثمر ہوتا نہیں
خوفِ جاں سے نامہ بر جانے کی ہامی کیوں بھرے
رشک سے یاں اعتبارِ نامہ بر ہوتا نہیں
صدمۂ دل کوبِ فرقت امتحانِ عشق ہے
بے پِسے سرمہ بھی منظورِ نظر ہوتا نہیں
ہے شعورِ ماسوا بھی اِک حجابِ آگہی
بے خبر جب تک نہ ہولے باخبر ہوتا نہیں
تاریک ہے رات اور دریا زخّار
طوفان بپا ہے اور کشتی بےکار
گھبرائیو مت کہ ہے مددگار خدا
ہمّت ہے تو جا لگاؤ کھیوا اُس پار
ہمت
انسان کو چاہیے نہ ہمّت ہارے
میدانِ طلب میں ہاتھ بڑھ کر مارے
جو علم و ہنر میں لے گئے ہیں بازی
ہر کام میں ہیں اُنھیں کے وارے نیارے
مسلمانوں کی تعلیم
قلّاش ہے قوم تو پڑھے گی کیوں کر
پس ماندہ ہے اب ت پھر بڑھے گی کیوں کر
بچّوں کے لیے نہیں ہے اِسکول کی فیس
یہ بیل کہو منڈھے چڑھے گی کیوں کر
جھوٹی نفرت
لاکھوں چیزیں بنا کے بھیجیں انگریز
سب کرتے ہں دندانِ ہوس اُن پر تیز
چِڑتے ہیں مگر علومِ انگریزی سے
گُڑ کھاتے ہیں اور گُلگُلوں سے پرہیز
یہ مسئلہ دقیق سُنئے ہم سے
آدم ہے مراد ہستیِ عالم سے
ہم اصل ہیں اور یہ ہمارا سایہ
عالم کا وجود ہے ہمارے دم سے
٭٭٭
ٹائپنگ: اردو محفل کے ارکان فاطمہ قدوسی، خرد اعوان، نایاب
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید