ہوا ہر جگہ گو کے موجود ہے
نظر سے ہماری یہ مفقود ہے
ہوا میں بس اک خاص ترکیب ہے
ملی ہیں کئی گیسیں ترتیب سے
ہوا میں نہ بو ہے نہ ہے ذائقہ
عجب چیز ہے یہ ہوا بے مزہ
ہوا میں ہیں آبی بخارات بھی
الٰہی سے ہے رہتی ہوا میں نمی
جگہ گھیرتی ہے ہوا ہر جگہ
وزن ڈالتی ہے برابر ہوا
ہوا بھر دیں گر ہم کسی چیز میں
سما جاتی ہے یہ اسی چیز میں
سمندر میں کشتی چلاتی ہے یہ
پہاڑوں کو ریزہ بناتی ہے یہ
اڑا دیتی ہے بادلوں کو ہوا
اسی کے اثر سے ہے آتی گھٹا
جو چلتی ہے آندھی کی رفتار سے
تو ٹکراتی ہے در سے دیوار سے
ہوا گر نہ ہو کوئی زندہ نہ ہو
بشر کیا، چرندہ پرندہ نہ ہو
جہاں کچھ نہیں ہے وہاں ہے ہوا
غلاف اس کا ہر سو ہے پھیلا ہوا
ہوا پر ہی ٹھہری ہے یہ کائنات
حقیقت میں دنیا ہے یہ بے ثبات
خدا کا یہ احساں ہے ہم پر بڑا
ہمیں مفت دی ہے خدا نے ہوا
نہیں مانتے جو وجود خدا
افقؔ وہ دکھا دیں بنا کر ہوا