محفوظ رکھ تو بغض و عداوت کے خار سے
اس کو بچا غرض کے، ہوس کے شرار سے
شاداب رکھ تو اس کو ہمیشہ بہار سے
یارب مرے وطن کو بچا انتشار سے
تو اس کے باسیوں کو عطا اب امان کر
اس کے بڑوں کو، چھوٹوں پہ اب مہربان کر
رہبر کہ رہرووں سے کریں بات، پیار سے
یارب مرے وطن کو بچا انتشار سے
بن جائے کُل جہاں کی ضرورت مرا وطن
روشن ہو آفتاب کی صورت مرا وطن
جل جائے اس کا جسم نہ اپنے شرار سے
یارب مرے وطن کو بچا انتشار سے
خوشحال یہ رہے سدا، حالِ زبوں نہ ہو
پرچم مرے وطن کا کبھی سرنگوں نہ ہو
دنیا میں سربلند رہے افتخار سے
یارب مرے وطن کو بچا انتشار سے
اعدائے خارجی کی نظر سے امان دے
اعدائے داخلی کے بھی شر سے امان دے
مامون ہو یہ گردشِ لیل ونہار سے
یارب مرے وطن کو بچا انتشار سے