رو رو کے کیا ابتر سب کام مرے دل کا
کھویا مری آنکھوں نے آرام مرے دل کا
آغازِ محبت میں دیکھا تو یہ کچھ دیکھا
کیا جانیے کیا ہو گا انجام مرے دل کا
جس دن سے ہوا پیدا اُس دن سے ہوا شیدا
دیوانہ و سودائی ہے نام مرے دل کا
طوفان ہے زلفوں پر بہتان ہے کاکل پر
ہے رشتہ اُلفت ہی پر دام مرے دل کا
جب تک میں جیا مجھ کو قاصد نہ ملا آخر
اب جی ہی چلا لے کر پیغام مرے دل کا
بتخانۂ دل میرا کعبے کے برابر ہے
واجب ہے تجھے جاناں اکرام مرے دل کا
معشوق کی اُلفت سے مت جان حسنؔ خالی
لبریز محبت ہے یہ جام مرے دل کا