قلب و نظر کو روح کو بھایا مہِ صیام
پھر اک نرالی شان سے آیا مہِ صیام
بدبخت ہے وہ جس نے کہ روزے قضا کئے
خوش بخت ہے وہ جس نے کہ پایا مہِ صیام
خود سر چھپائے پھرنے لگی معصیت کی دھوپ
رحمت کا ابر بن کے جو چھایا مہِ صیام
ہرجائیوں میں، اہلِ وفا میں تمیز ہو
مولیٰ نے اس لئے بھی بنایا مہِ صیام
اس ماہ میں بھی رب کو جو راضی نہ کر سکا
بس یوں سمجھ لو اس نے گنوایا مہِ صیام
اس کو ہوا نصیب ولایت کا گلستاں
تقویٰ کے گُل سے جس نے سجایا مہِ صیام
بدلے میں بھوک پیاس کی برداشت کے اثرؔ
بخشش کا توشہ ساتھ ہی لایا مہِ صیام