کیا کیا نظر کو شوقِ ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا
قُلزُم نے بڑ ھ کے چو م لئے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا
اِک موجِ خونِ خَلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اِک طوقِ فردِ جرم تھا ،کس کے گلے میں تھا
اِک رشتۂ وفا تھا سو کس ناشناس سے
اِک درد حرزِ جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا
صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھیے جو مزا ٹوٹنے میں تھا
کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا
تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے تھا
٭٭٭
کفِ مومن سے نہ دروازۂ ایماں سے ملا
رشتہ درد اسی دشمنِ ایماں سے ملا
اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے با وصف
وہ ستمگر اسی پیشانیِ خنداں سے ملا
طالبِ دستِ ہوس اور کئی دامن تھے
ہم سے ملتا جو نہ یوسف کے گریباں سے ملا
کوئی باقی نہیں اب ترکِ تعلق کے لیۓ
وہ بھی جا کر صفِ احبابِ گریزاں سے ملا
کیا کہیں اس کو جو محفل میں شناسا بھی نہ تھا
کبھی خلوت میں در آیا تو دل و جاں سے ملا
میں اسی کوہ صفت خون کی اک بوند ہوں جو
ریگ زارِ نجف و خاکِ خراساں سے ملا
٭٭٭
شہر جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات
اس شہر میں جہاں ترے خوں سے حنا بنے
یوں رائگاں نہ جائے تری آہِ نیم شب
کچھ جنبشِ نسیم بنے کچھ دعا بنے
اس رات دن کی گردشِ بے سود کے عوض
کوئی عمودِ فکر کوئی زاویہ بنے
اک سمت انتہائے افق سے نمود ہو
اک گھر دیار دیدہ و دل سے جدا بنے
اک داستانِ کرب کم آموز کی جگہ
تیری ہزیمتوں سے کوئی واقعہ بنے
تو ڈھونڈنے کو جائے تڑپنے کی لذتیں
تجھ کو تلاش ہو کہ کوئی با وفا بنے
وہ سر بہ خاک ہو تری چوکھٹ کے سامنے
وہ مرحمت تلاش کرے تو خدا بنے
٭٭٭
آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا تھا دوبارہ نہیں ملا
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
قدموں کو شوقِ آبلہ پائی تو مل گیا
لیکن بہ ظرفِ وسعت صحرا نہیں ملا
کنعاں میں میں بھی نصیب ہوئی
خود روئیدگی چاکِ قبا کو دستِ زلیخا نہیں ملا
مہر و وفا کے دشت نوردو جواب دو
تم کو بھی وہ غزال ملا یا نہیں ملا
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا
٭٭٭
روکتا ہے غمِ اظہار سے پِندار مُجھے
مرے اشکوں سے چھُپا لے مرے رُخسار مُجھے
دیکھ اے دشتِ جُنوں بھید نہ کھُلنے پائے
ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مُجھے
سِی دیے ہونٹ اُسی شخص کی مجبوری نے
جِس کی قُربت نے کیا مِحرمِ اسرار مُجھے
میری آنکھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں اَنجُم
جیسے پہچان گئی ہو شبِ بیدار مُجھے
جِنسِ ویرانیِ صحرا میری دوکان میں ہے
کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مُجھے
جَرسِ گُل نے کئی بار بلایا لیکن
لے گئی راہ سے زنجیر کی جَھنکار مُجھے
نَاوکِ ظُلم اُٹھا دَشنۂ اَندوہ سَنبھَال
لُطف کے خَنجرِ بے نام سے مت مار مُجھے
ساری دُنیا میں گَھنی رات کا سنّاٹا تھا
صحنِ زِنداں میں ملے صُبح کے آثار مُجھے
٭٭٭
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں
میرا تو جرم تذکرہ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں
آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں
اے دل ذرا سی جرأت رندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں
***
غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے
لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے
اور اپنا یہی جرم کہ باوصفِ روایت
ہم ناصح مشفق کو فرشتہ نہیں کہتے
اجسام کی تطہیر و تقدس ہے نظر میں
ارواح کے حالات پہ نوحہ نہیں کہتے
ہم نے کبھی دنیا کو حماقت نہیں سمجھا
ہم لوگ کبھی غم کو تماشا نہیں کہتے
انسان کے چہرے کے پرستار ہوئے ہیں
اور قاف کی پریوں کا فسانہ نہیں کہتے
وہ بھی تو سنیں میرے یہ اشعار کسی روز
جو لوگ نئی نسل کو اچھا نہیں کہتے
٭٭٭
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
افق اداس ہے دنیا بڑی اندھیری ہے
لہو جلے تو جلے اس لہو سے کیا ہوگا
کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے
نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس
کسے طرب میں سکوں ، کس کو غم میں سیری ہے
بس ایک گوشہ میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں
وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب گھنیری ہے
یقین ہی نہیں آتا کہ تیری خدمت میں
یہ شعر میں نے کہے ہیں ! غزل یہ میری ہے !
٭٭٭
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئ راز داں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
٭٭٭
دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آ پہنچی
اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے
اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے
اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے
یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اوّل میں
غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے
یوں تو ہے جوہرِ گفتار بڑا وصف مگر
وجہ بیماری گفتار نہ ہونے پائے
دشت میں خونِ حسین ابنِ علی بہ جائے
بیعتِ حاکمِ کفّار نہ ہونے پائے
نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم
کہ مورّخ کی گُنہ گار نہ ہونے پائے
٭٭٭
سیّال ماہ تابِ زر فشاں کی دھوم ہے
بدلے ہوئے تصوّرِ ایماں کی دھوم ہے
ایمان سے لطیف تر عصیاں کی دھوم ہے
اعلانِ سرفروشئ رِنداں کی دھوم ہے
باراں کے تذکرے ہیں بہاراں کی دھوم ہے
اب سرنگوں ہے کتنے بزرگانِ فن کی بات
اب پیشِ مُحکمات گُریزاں ہیں ظنّیات
اب محض سنگِ میل ہیں کل کے تبرُّکات
مُدّت سے اب نہ کوئی عجوبہ نہ معجزات
دنداں شِکن حقیقتِ عریاں کی دھوم ہے
اک بات آگہی کے لبوں سے نکل گئی
شمعِ نگاہِ اہلِ قدامت پگھل گئی
فولاد کی قدیم حکومت بدل گئی
اک جنبشِ نگاہ سے زنجیر گل گئی
زنداں میں طمطراقِ اسیراں کی دھُوم ہے
٭٭٭
کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم
وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم
وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم
وہی تم ، لائق صد تذکرۂ و صد تقویم
تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں
تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی
تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی خود داری کی
خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
آج تم مجھ سے مری جنس ِ گراں مانگتے ہو
حَلَفِ ذہن و وفا داریِ جاں مانگتے ہو
جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
اپنے دربانوں سے بدتر فقرا سے مانگو
اپنے دربار کے گونگے شُعرا سے مانگو
مجھ سے پوچھو ے تو خنجر سے عُدو بولے گا
گردنیں کاٹ بھی دو گے تو لہو بولے گا
تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کئے
جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دِیے
اپنی آسائش ِ یک عُمر ِ گریزاں کے لِیے
سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
علم نے خونِ رگِ جاںدیا اور نہ مَرا
علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مَرا
علم سقراط کی آواز ہے عیسےٰ کا لہو
علم گہوارہ و سیّارہ و انجام و نُمو
عِلم عبّاس علمدار کے زخمی بازُو
علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو
وادئ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
جو ان اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا
تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
مشعلوں کا یا اندھیروں کا طلبگار بنوں
کس کے خرمن کے لیے شعلۂ اسرار بنوں
کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دوں
قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسیٰ دے دوں
صُبح ِ کاشی کا ترنّم مری آواز میں ہے
سندھ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
کوہساروں کی صلابت مرے ایجاز میں ہے
بال ِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو
کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے
بہ وفاداریِ رہ وار و بہ تکریمِ علم
بہ گہرباریِ الفاظ صنادیدِ عجم
بہ صدائے جرس قافلۂ اہلِ قلم
مجھ کو ہر قطرۂ خُون ِ شُہدا تیری قسم
منزلیں آ کے پُکاریں گی سفر سے پہلے
جھُک پڑے گا در ِ زنداں مرے سر سے پہلے
آج تم رام کے مونس نہ ہنومان کے دوست
تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مُسلمان کے دوست
نہ تم الحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
تم نہ اشلوک کے حامی ہو نہ قرآن کے دوست
تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
اپنی ماؤں کو اٹھا لاتے ہو بازاروں میں
ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والوں
ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والوں
گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والوں
فکر کی راہ میں بارُود بچھانے والوں
کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
کونپلیں آج نہ پھُوٹیں گی تو کل پھُوٹیں گی
کس پہ لبّیک کہو گے کہ نہ ہوگی باہم
جوہری بم کی صدا اور صدائے گوتم
رزق برتر ہے کہ شعلہ بداماں ایٹم
گھر کے چُولھے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
ہو گئے راکھ جو کھلیان اُنہیں دیکھا ہے
ایک اک خوشۂ گندم تمہیں کیا کہتا ہے
ایک اک گھاس کی پتّی کا فسانہ کیا ہے
آگ اچھی ہے کہ دستور ِ نمو اچھا ہے
محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
تم کو کیا کہ کے پُکاریں گے مورّخ کل کے؟
بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
تمغۂ مکر سے سینوں کو سجانے والوں
کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والوں
برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والوں
دل کی درگاہ میں پندار مِٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جھُکا کر آؤ
کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
مصر میں جلوۂ یوسف کی دکاں جلتی ہے
عصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
بھیم کا گرز اور ارجن کی کماں جلتی ہے
چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح
صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے عمر خضر مانگتے ہیں
اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں
تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
دل دہلتے ہیں جو گرتا ہے سڑک پر پتّا
اک نہ اک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
اک نہ اک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
اتنی پر خار کبھی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
اتنی پُر ہول کبھی شامِ غریباں بھی نہ تھی
اے وطن کیسے یہ دھبّے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانّچے ترے رُخسار پہ ہیں
اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرہ کیوں ہے
غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے
رودِ راوی ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
اے ہڑپّہ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
بول اے ٹیکسلا تیرے صنم کیسے ہیں
ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
مانچسٹر کے لبادے ہیں کہ ہرنائی کے
عسکریت بڑی شے ہے کہ محبّت کے اصول
بولہب کا گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسول
طبل و لشکر مُتبرّک ہیں کہ تطہیرِ بُتول
مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول
آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
بینڈ جیتے گا یا شاعر کی غزل جیتے گی
٭٭٭
میں تیرے راگ سے اس طرح بھرا ہوں جیسے
کوئی چھیڑے تو اک نغمہ عرفاں بن جاؤں
ذہن ہر وقت ستاروں میں رہا کرتا ہے
کیا عجب مین بھی کوئی کرمکِ حیراں بن جاؤں
رازِ بستہ کو نشاناتِ خفی میں پڑھ لوں
واقفِ صورتِ ارواحِ بزرگاں بن جاؤں
دیکھنا اوجِ محبّت کہ زمیں کے اُوپر
ایسے چلتا ہوں کہ چاہوں تو سُلیماں بن جاؤں
میرے ہاتھوں میں دھڑکتی ہے شب و روز کی نبض
وقت کو روک کے تاریخ کا عنواں بن جاؤں
غم کا دعویٰ ہے کہ اس عالمِ سرشاری میں
جس قدر چاک ہو، اُتنا ہی گریباں بن جاؤں
تجھ کو اس شدّتِ احساس سے چاہا ہے کہ اب
ایک ہی بات ہے گلشن کہ بیاباں بن جاؤں
تو کسی اور کی ہو کر بھی مرے دل میں رہے
میں اجڑ کر بھی ہم آہنگ ِ بہاراں بن جاؤں
٭٭٭
( ایک تمثیل)
شہر میں غل تھا کہ بنگال کا ساحر آیا
مصر و یونان کے اہرام کا سیّاحِ عظیم
چین و جاپان کے افکار کا ماہر آیا
ایک ٹیلے پہ طلسمات کا پہرہ دیکھا
میں نے بھی دل کے تقاضوں سے پریشاں ہو کر
آخر اُس ساحر طنّاز کا چہرہ دیکھا
کتنا مغرور تھا اس شخص کا مضبوط بدن
کتنا چالاک تبسّم تھا جواں ہونٹوں پر
کیسے رہ رہ کے لپک جاتی تھی آنکھوں میں کرن
کتنا مرغوب تھا ہر فرد مری ملّت کا
ڈرتے ڈرتے جو چھُوا میں نے تو یہ راز کھُلا
وہ فقط موم کا اک خوف زدہ پُتلا تھا
٭٭٭
تمام شہر پہ آسیب سا مسلط ہے
دھُواں دھُواں ہیں دریچے ہوا نہیں آتی
ہر ایک سمت سے چیخیں سنائ دیتی ہیں
صدائے ہم نفس و آشنا نہیں آتی
گھنے درخت ، درو بام ، نغمہ و فانوس
تمام سحر و طلسمات و سایہ و کابوس
ہر ایک راہ پر آوازِ پائے نا معلوم
ہر ایک موڑ پہ ارواحِ زِشت و بد کا جلوس
سفید چاند کی اجلی قبائے سیمیں پر
سیاہ و سرد کفن کا گماں گزرتا ہے
فَضا کے تخت پہ چمگادڑوں کے حلقے ہیں
کوئ خلا کی گھنی رات سے اترتا ہے
٭٭٭
ہر طرف چاک گریباں کے تماشائی ہیں
ہر طرف غول بیاباں کی بھیانک شکلیں
ہم پہ ہنسنے کی تمنا میں نکل آئ ہیں
چند لمحوں کی پر اسرار رہائش کے لۓ
عقل والے لب مسرور کی دولت لے کر
دور سے آۓ ہیں اشکوں کی نمائش کے لیۓ
عقل کو زہر ہے وہ بات جو معمول نہیں
عقل والوں کے گھرانوں میں پیمبر کے لیۓ
تخت اور تاج تو کیا بنچ اور اسٹول نہیں
اپنی ٹولی تو ہے کچھ سوختہ سامانوں کی
اکثریت میں ہم آتے تو سمجھتی دنیا
اس کٹہرے کے ادھر بھیڑ ہے دیوانوں کی
اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات
کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے مری بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دھُوپ کا حرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں
مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھر آنکھیں
اسی روش پہ ہے قائم مزاجِ دیدہ و دل
لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں
زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟
کسی کی جیب و گریباں کی آزمائش میں
کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے
ذرا سا وسوسۂ ماہ و سال آتا ہے ؟
کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں
غبار راہ گزر میں اجڑ گی ہوں گی
نظر سے ٹوٹ چکے ہوں گے خواب کے رشتے
وہ ماہتاب سی نیندیں بچھڑ گئ ہو ں گی
نیازِ خواجگی و شانِ سروری کیا ہے
شعارِ مشفقی و طرزِ دلبری کیا ہے
یہ بے رخی یہ اداۓ ستم بھی پو چھیں گے
ہماری عمر کے ہم لو تو ہم بھی پو چھیں گے
٭٭٭
شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
جشنِ نوروز میں دھرتی کے دریچے جاگے
سرخیاں چونک اُٹھیں ، تیرگیاں ڈوب گئیں
تم بھی جاگو کہ یہ اعلانِ سحر خواب نہیں
درد کا بوجھ بھی تھا ، بارشِ الزام بھی تھی
میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
جُرعۂ شہر میں کچھ تلخی ایّام بھی تھی
پھر بھی ہم لوگ سویرے کی تمنّا لے کر
رات سے تلخی ایّام سے لڑتے ہی رہے
یوں تو اب بھی ہیں پر اسرار تمہاری آنکھیں
اب سے پہلے مگر ان آنکھوں میں ہیجان بھی تھا
ساز کی لہر بھی تھی ، سوز کا طُوفان بھی تھا
اب مگر جھومتی گاتی ہوئی آنکھوں کا نصیب
ساز کی لہر تو ہے سوز کا طوفان نہیں
ریشمی ڈورے لچکتے ہیں بکھر جاتے ہیں
نیم خوابیدہ اُداسی ہے صبُحی پہ مُحیط
اوس کا ذائقہ ہونٹوں پہ جما جاتا ہے
تشنگی اوس کے قطروں سے نہیں بجھ سکتی
جاگ بھی جاؤ کہ یہ نیم نگاہی بے سود
جاگ بھی جاؤ کہ سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
جانے کیوں موت کا رہ رہ کہ خیال آتا ہے
ابدیت کے کئی راز بہت یکساں ہیں
حسن اور موت کے انداز بہت یکساں ہیں
جاگ بھی جاؤ کہ انسان کی قسمت میں نہیں
آج بھی وقت کو ہم ساز شبستاں کرنا
حُسنِ وِجدان کی تذلیل ہوا کرتے ہیں
گاؤں جب شہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
مُفلسی دھات کت سکّوں کو جنم دیتی ہے
زندگی موت کے چکلوں کو جنم دیتی ہے
روحیں تہذیب کے شعلوں سے کچل جاتی ہیں
کونپلیں ریل کے پہیوں میں کچل جاتی ہیں
قہقہے جلتے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
اسپتالوں کو جراثیم نمو دیتے ہیں
خون بھی ملتا ہے ہوٹل میں رگِ تاک کے ساتھ
عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ
اُسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جنم بکتے ہیں ، ادب بکتا ہے ، فن بکتا ہے
شورشیں کرتی ہیں خاموش ہوا میں پرواز
بم گراتے ہیں اندھیرے میں فریقوں کے جہاز
زندگی گیس نگلتی ہے ، ہوا پھانکتی ہے
رشتے داروں کی نگاہوں سے ریا جھانکتی ہے
دل پہ ڈگری کا فسوں چلتا ہے تیروں کے عوض
دھڑکنیں دل کی مزاروں کو ضیا دیتی ہیں
عصمتیں ریشِ مقدّس کو دُعا دیتی ہیں
کون بن سکتا ہے سنسان کنووں کا ہم راز
کون سنتا ہے سمندر میں رہَٹ کی آواز
کون سا کیف ہے دیہات کے رومانوں میں
کس کو لطف آئے گا چوپال کے افسانوں میں
کوئی بھی دولتِ لمحات نہیں کھو سکتا
کوئی بھی دار کے سائے میں نہیں سو سکتا
دار کی چھاؤں میں سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
جانے کیوں موت کا رہ رہ کے خیال آتا ہے
یہ نہیں ہے مرے واسطے انجامِ حیات
اتنا پر ہول تصوّر ہے کہ میں ڈرتا ہوں
یہ نہیں ہے کہ مصائب سے ہراساں ہو کر
میں تخیّل کے طرب زار کا دم بھرتا ہوں
موت تو میرے لیے ایک تاثر ہے جسے
اک نہ اک راز ہم انسان دبا ہی لیں گے
اس دکھاوے کے تمدّن سے نکل کر اک روز
اپنے انجام کے اس راز کو پا ہی لیں گے
مجھ کو صرف یہ کہنا ہے کہ اس عالم میں
مجھ کو اک لمحۂ بیدار کی قوّت دے دو
مجھ کو سوتے ہوئے ہونٹوں پہ ترس آتا ہے
کوئی فنکار ، کوئی زندہ مصوّر ہرگز
حُسنِ خوابیدہ سے انکار نہیں کر سکتا
اور میں ! جس نے ان آنکھوں کی پرستش کی ہے
جس نے ان ہونٹوں کو انکار میں بھی پوجا ہے
کس طرح اپنے مقدّر کو بُرا کہ دوں گا ؟
تم کو اس کا بھی پتا ہے کہ وہ تہذیب جسے
میں نے قصبوں کی تباہی کا سبب سمجھا ہے
اپنے ہر نقص کے با وصف مری اپنی ہے
جن کو افراد نے تخریب بنا رکھا تھا
درحقیقت وہی تعمیر کی بنیاد بھی ہے
کوئی بھی مُلک تمدّن سے ہراساں ہو کر
اپنی فطرت کو نہ سمجھا نہ سمجھ سکتا ہے
کوئی بھی دیس سسکتا ہوا چرخہ لے کر
زیست کی جنگ میں ابھرا نہ ابھر سکتا ہے
لعنتیں یوں تو مشینوں کی بہت ہیں لیکن
لعنتیں صرف مشینوں سے نہیں اُگتی ہیں
اِن میں اُس مُلک کا بھی ہاتھ ہوا کرتا ہے
جس میں کچھ لوگ خود اپنی بقا کی خاطر
دُوسرے لوگوں کے انفاس چُرا لیتے ہیں
اور اس دوڑ کی رفتار میں اندھے ہو کر
قحط پڑتا ہے تو کھلیان جلا دیتے ہیں
چھین سکتا ہے ان افراد کی قوت جو نظام
صرف اُس میں ہی بھبک سکتے ہیں تیزی سے عوام
صرف اُس میں ہی اُگلتی نہیں لاوا تہذیب
صرف اُس میں ہی نکھرتے ہیں بہاروں کے نصیب
رقص ہوتا ہیں دیوانوں کی تلواروں کا
کرنیں مُنہ چومنے آتی ہیں سمن زاروں کا
ٹینک بڑھتے نہیں دامن تباہی لے کر
پھُول ہنس پڑتے ہیں دھیرے سے جماہی لے کر
بھائی اب زہر نہیں ڈھونڈتے بھائی کے لئے
دھارے مڑ جاتے ہیں کھیتوں کی سنچائی کے لئے
ریت کے بطن سے ہوتے ہیں نظارے پیدا
سنگ کے سینے سے ہوتے ہیں شرارے پیدا
کارخانوں میں تمدّن کو بقا ملتی ہے
چمنیاں زہر کے انبار اُگلتی بھی نہیں
گاؤں بھی شہر میں ہو جاتے ہیں تبدیل مگر
روحیں تہذیب کے شعلوں سے پگھلتی بھی نہیں
میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
آؤ ہم لوگ بھی اک عزم سے اک ہمّت سے
اپنے بیتے ہوئے حالات کو ٹھکرا کے چلیں
اپنی فرسودہ روایات کو ٹھکرا کے چلیں
جشنِ نوروز کو گیتوں کی ضرورت ہو گی
آؤ ریت پہ وہ نقشِ قدم چھوڑ چلیں
جن کی آتی ہوئی نسلوں کو ضرورت ہوگی
٭٭٭
تم میں کیا کچھ نہیں؟ احساس ، شرافت ، تہذیب
مجھ میں کیا ہے ؟ نہ بصیرت ، نہ فراست ، نہ شعور
تم جو گزرے بہ صد انداز و ہزاراں خوبی
سب نے سمجھا کہ چلو رات کٹی دن آیا
میں تو اُن تیرہ نصیبوں میں پلا ہوں جن کو
تم سے وہ ربط تھا جو بھوک کو اخلاق سے ہے
ایسی دُزدیدہ نگاہوں سے ہمیں مت دیکھو
ہم تو پہلے ہی بچھے بیٹھے ہیں اے جان بہار
مور کا پنکھ لگاتے ہی تھرکنے لگے پاؤں
سادہ لوحی پہ کوئی شرط ، کوئی زور نہیں
تم نے کس پیار سے یہ بات ہمیں سمجھائی
کہ یہاں تو کوئی ظالم ، کوئی کمزور نہیں
مختلف نقطوں سے چلتے تو ہیں دنیا والے
کُرہّ ارض مگر گول ہے چوکور نہیں
مِرے وطن تری خدمت میں لے کے آیا ہوں
جگہ جگہ کے طلسمات دیس دیس کے رنگ
پرانے ذہن کی راکھ، اور نئے دلوں کی امنگ
نہ دیکھ ایسی نگاہوں سے میرے خالی ہاتھ
نہ یوں ہو میر ی تہی دامنی سے شرمندہ
بسے ہوئے ہیں میرے دل میں سینکڑوں تحفے
بہت سے غم ، کَئ خوشیاں ، کَئ انوکھے لوگ
کہیں سے کیف ہی کیف اور کہیں سے درد ہی درد
جنہیں اُٹھا نہیں سکتا ہر ایک دشت نوّرد
جو تھیلیوں کے شکم میں سما نہیں سکتے
جو سوٹ کیس کی جیبوں میں آ نہیں سکتے
بچھڑ کے تجھ سے کئ اجنبی دیاروں نے
مجھے گلے سے لگایا ، مجھے تسّلی دی
مجھے بتائے شبِ تیرہ و سیاہ کے راز
مِرے بدن کو سکھائے ہزار استلذاذ
میں مدتوں یہی سمجھا کیا کہ جسم کا لَمس
اَزل سے تَا بہ ابد ایک ہی مسّرت ہے
کہ سب فریب ہے میرا بدن حقیقت ہے
اور اِس طرح بھی ہوا ہے کہ میری تنہائ
سمندروں سے لپٹ کر ہو ا سے ٹکرا کر
کبھی سمیٹ کے مجھ کو نئے جزیروں میں
کبھی پہاڑ کے جھرنے کی طرح بکھرا کر
کبھی بٹھا کے مجھے آسماں کے دوش بدوش
کبھی زمیں کی تہوں میں جڑوں میں پھیلا کر
کچھ اس طرح میرے احساس میں سمائ ہے
کہ مجھ کو جسم سے باہر نکال لائ ہے
کچھ ایسا خواب سا نا خوابیاں سی طاری تھیں
بدن تو کیا ، مجھے پر چھائیاں بھی بھاری تھیں
مِرے دیار کہاں تھے تِرے تماشائی
کہ دیدنی تھا مِرا جشنِ آبلہ پائی
کچھ ایسے دوست ملے شہرِ غیر میں کہ مجھے
کئ فرشتہ نفس دشمنوں کی یاد آئی
میں سوچتا ہوں کہ کم ہوں گے ایسے دیوانے
نہ کوئ قدر ہو جن کی نہ کوئ رسوائی
مجھے بجھا نہ سکی یخ زدہ ہوائے شمال
مجھے ڈبو نہ سکی قلزموں کی گہرائ
نہ جانے کیسا کرّہ تھا مِرا وجود کہ روز
مِرے قریب زمیں گھومتی ہوئ آئی
تلاش کرتے ہوئے گمشدہ خزانوں کو
بہت سے مصر کے فرعون مقبروں میں ملے
زبانِ سنگ سے جو ہمکلام ہوتے ہیں
کچھ ایسے لوگ پرانے مجسموں میں ملے
بلند بامِ کلیسا میں تھے وہی فنکار
جو خستہ جال مساجد کے گنبدوں میں ملے
مِری تھکی ہوئ خوابیدگی سے نالاں تھے
وہ رَت جگے جو مسائل کی کروٹوں میں ملے
کئ سراغ نظر آئے داستانو ں میں
کئ چراغ کتابوں کے حاشیوں میں ملے
سنا کے اپنے عروج و زوال کے قصّے
سبھی نے مجھ سے مِرا رنگِ داستاں پوچھا
دکھا کہ کے برف کے موسم مِرے بزرگوں نے
مزاجِ شعلگیِ عصرِ نوجواں پوچھا
مِری جھکی ہوئ آنکھیں تلاش کرتی رہیں
کوئ ضمیر کا لہجہ کوئ اُصول کی بات
گزر گئی مِری پلکوں پہ جاگتی ہوئ رات
ندامتوں کا پسینہ جبیں پہ پھوٹ گیا
مِری زباں پہ تر ا نام آ کے ٹوٹ گیا
قبول کر یہ ندامت کے اس پسینے کی
ہر ایک بوند میں چنگاریوں کے سانچے ہیں
قبول کر مِرے چہرے کی جھریاں جن میں
کہیں جنوں کہیں تہذیب کے طمانچے ہیں
سنبھال میرا سّبک ہدیۂ غمِ اِدراک
جو مجھ کو سات سمندر کا زہر پی کے مِلا
ثقافتوں کے ہر آتش فشاں میں جی مِلا
طلب کیا مجھے یونان کے خداؤں نے
جنم لیا میرے سینے میں دیوتاؤں نے
فَریب و حِرص کے ہر راستے سے موڑ دیا
اور اُس کے بعد سُپر مارکٹ پہ چھوڑ دیا
جہاں بس ایک ہی معیارِ آدمیت تھا
ہجومِ مرد و زناں محوِ سیرِ وحشت تھا
گھڑی کا حسن ، نئے ریڈیو کی زیبائی
پلاسٹک کے کنول ۔ نائلان کی ٹائی
اطالیہ کے نئے بوٹ ہانگ کانگ کے ہار
کرائسلرکی نئی رینج، ٹوکیو کے سنگار
ہر ایک جسم کو آسودگی کی خواہش تھی
ہر ایک آنکھ میں اسباب کی پرستش تھی
یہ انہماک قیادت میں بھی نہیں ملتا
یہ سوئے نفس عبادت میں بھی نہیں ملتا
مِرے وطن میرے سامان میں تو کچھ بھی نہیں
بس ایک خواب ہے اور خواب کی فصیلیں ہیں
قبول کر میری میلی قمیض کا تحفہ
کہ اس کی خاک میں سجدوں کی سر زمینیں ہیں
نہ دھُل سکے گا یہ دامن کہ اس سینے پر
بیافرا کے مقدس لہو کے چھینٹے ہیں
یہ ویٹ نام کی مٹی ہے جس کے ذروں میں
پیمبروں کی دمکتی ہوئ جبینیں ہیں
٭٭٭
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوے دل
راکھ ہو جائیں ،کوئ اور تمنا نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے،زخمِ تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے ،شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئ امید تو آنکھیں چھن جائیں
اُس ملاقات کا اس بار کوئ وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جُنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
لُٹ گئ شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہو تو کیسے کوئ نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کا کئ رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارضِ و رُخسار ملو
ماتمی ہیں دَمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ،نہ اقرار،نہ انکار،ملو
آخری بار ملو۔
٭٭٭
بے نُور ہوں کہ شمعِ سرِ راہ گزر میں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں
اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصّۂ نا معتبر میں ہوں
ذرّے جوان ہو کے اُفق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں
مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں
لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیئے
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاشِ سحر میں ہوں
سفّاک بچپنوں کا کھلونا بنا ہوا ہے
دنیا کی زد میں پنجۂ شمس و قمر میں ہوں
میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیِ نوعِ بشر میں ہوں
جی چاہتا ہے مثلِ ضیا تجھ سے تجھ سے مِل سکوں
مجبور ہوں کہ محبسِ دیوار و در میں ہوں
میں ہم نشینِ خلوتِ شہنازِ لالہ رُخ
میں گرمئ پسینۂ اہلِ ہنر میں ہوں
خوابوں کے راہروو، مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل میں ہوں یا خبر میں ہوں
اتنی تو دور منزلِ وارفتگاں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں
کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسمِ ہوش رُبا کے اثر میں ہوں
زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں
٭٭٭
یوں ہر گلی کنارہ کش و چشم پوش ہے
جیسے ہمارا گھر سے نکلنا گناہ ہو
منبر میں ایسا لحن ہے ایسا سرّوش ہے
جیسے ہمارا نامۂ رندی سیاہ ہو
ہوں دن گزر رہے ہیں کہ نہ فردا نہ دوش ہے
اے اعتبارِ وقت معّین نگاہ ہو
اب تک قتیلِ ناوکِ یاراں میں ہوش ہے
اے دوستوں کی مجلسِ شوری صلح ہو
"میری سنو جو دوشِ نصیحت نیوش ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو"
میں آنکھیں بند کئے سوچتا رہا لیکن
نہ حافظے نے مدد کی نہ مرنے والوں نے
ہر ایک سالگرہ موم بتّیوں کی طرح
پگھل کے رہ گئی تاریخ کے اندھیروں میں
خیال ہے کہ اک ایسا بھی موڑ آیا تھا
جب انتظار کی ہر بے کراں اندھیری رات
ترے خیال کی آہٹ سے چونک جاتی تھی
تِرے لبوں کی عنایت سے بہت پہلے
ترے لبوں کے تصور سے آنچ آتی تھی
نہ جانے کون سے لمحے نے مجھ کو چھین لیا
نہ جانے کون سی ساعت تری رقیب بنی
اک ایسا غم تھا شبستانِ جسم و جاں پہ مُحیط
جو تیرا غم بھی نہ تھا ، غمِ جہاں بھی نہیں
مِرا دیارِ تمنّا ضرور تھا ، لیکن
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
خوشی بھی تھی کہ یہ سرحد خوشی سے آگے ہَے
فغاں بھی تھی کہ یہ معمُورۂ فغاں بھی نہیں
مری رگوں میں لہُو بن کے رچ گئی تھی وُہ نیند
تِرے بدن کی حلاوت نے جس کی باہوں میں
زمانے بھر کی پُر اسرار خُنکیاں رکھ دیں
تری نگاہ کی شفقت نے جس کی پلکوں پر
لطیف ، نرم ، مِلنسار اُنگلیاں رکھ دیں
اور اس دھُلے ہُوئے لمحے میں ، ایک ساعت میں
تری وفا ، تری آغوش کی حلاوت میں
کِسی نے جیسے مرے دونوں ہات تھام لیے
اُفق کے بعد اُفق آئے ، رنگ رنگ کے دیس
چمکتے ، کوندتے ، سیماب کی طرح بے تاب
نہ آسمان ، نہ دھرتی کا گھُومتا چکّر
نہ ماہتاب کے ٹکڑے ، نہ ریت کے ذرّے
کوئی زمیں بھی نہیں تھی ، کوئی زماں بھی نہیں
دیارِ دل بھی نہیں تھا ، دیارِ جاں بھی نہیں
یہاں بھی ویسے ہی اِنساں تھے جنھیں میں نے
زمیں پہ چھوڑ دیا تھا ، مگر یہاں میرے
اور اُن کے بیج ، آئینہ جمال نہ تھا
سیاہ آنکھوں کے بدلے ، جواں لبوں کے عوض
ہر ایک شکل کھڑی تھی کوئی دُکان سجائے
ہر ایک شکل سے آتی تھی دم بہ دم آواز
" گھڑی ، پُرانی قمیضیں ، دوائیں ، سِگرٹ ۔ چائے"
٭٭٭
رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس
چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے
دل میں دہکے ہوئے ناسور لئے بیٹھا ہوں
یہی معصوم تصور جو ترا مجرم ہے
کون یہ وقت کے گھونگٹ سے بلاتا ہے مجھے
کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب
کون آیا ہے چڑھانے کو تمنّاؤں کے پھول
ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے قریب
وہ تو طوفان تھی، سیلاب نے پالا تھا اسے
اس کی مدہوش امنگوں کا فسوں کیا کہیے
تھرتھراتے ہوئے سیماب کی تفسیر بھی کیا
رقص کرتے ہوئے شعلے کا جنوں کیا کہیے
رقص اب ختم ہوا موت کی وادی میں مگر
کسی پائل کی صدا روح میں پایندہ ہے
چھپ گیا اپنے نہاں خانے میں سورج لیکن
دل میں سورج کی اک آوارہ کرن زندہ ہے
کون جانے کہ یہ آوارہ کرن بھی چھپ جائے
کون جانے کہ اِدھر دھند کا بادل نہ چھٹے
کس کو معلوم کہ پائل کی صدا بھی کھو جائے
کس کو معلوم کہ یہ رات بھی کاٹے نہ کٹے
زندگی نیند میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح
عہدِ رفتہ کے ہر اک بت کو لئے سوتی ہے
گھنٹیاں اب بھی مگر بجتی ہیں سینے کے قریب
اب بھی پچھلے کو، کئی بار سحر ہوتی ہے
٭٭٭
میں وہ انجان تمنا ہوں گُہر کے دل میں
جو رموز ِ شب ِ نیساں سے قسم لیتی ہے
میں ہوں آفاق کے سینے کی وہ پہلی دھڑکن
جو فقط سینۂ شاعر میں جَنَم لیتی ہے
میرے پیکر میں پھر اک بار اتر آیا ہے !
وہ گنہگار کہ جس سا نہیں کوئی معصوم
میں ہوں وہ درد جو راتوں میں کسک اٹھتا ہے
میں ہوں وہ راز جو مجھ کو بھی نہیں ہے معلوم
قابل ِ رشک ہے پندار ِ تعیش کے لئے
مری افسردہ جوانی کی اُداسی کا غرور
کیف ِ ہر عہد ہے ، نیرنگیِ امروز نہیں
میرے ان خون سے سینچے ہوئے نغموں کا غرور
میں وہ آہنگ ہوں جو سوز کی حد کو چھو لوں
خودبخود ساز کے تاروں میں پگھل جاتا ہے
جو کبھی تاج ِ سلیماں کا نگیں بنتا ہے
اور کبھی محنت ِ مزدور میں ڈھل جاتا ہے
٭٭٭
لوگ کہتے ہیں ، عشق کا رونا
گریۂ زندگی سے عاری ہے
پھر بھی یہ نامراد جذبۂ دل
عقل کے فلسفوں پہ بھاری ہے
آپ کو اپنی بات کیا سمجھاؤں
روز بجھتے ہیں حوصلوں کے کنول
روز کی الجھنوں سے ٹکرا کر !!
ٹوٹ جاتے ہیں دل کے شیش محل
لیکن آپس کی تیز باتوں پر
سوچتے ہیں ، خفا نہیں ہوتے
آپکی صنف میں بھی ہے یہ بات
مرد ہی بے وفا نہیں ہوتے
٭٭٭
چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں
وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا
یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے
یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا
لہو کے ناچتے دھارے کے سامنے اب تک
دل و دماغ کی بےچارگی نہیں جاتی
جنوں کی راہ میں سب کچھ گنوا دیا لیکن
مرے شعور کی آوارگی نہیں جاتی
نہ جانے کس لئے اس انتہائے حدت پر
مرا دماغ سلگتا ہے جل نہیں جاتا
نہ جانے کیوں ہر اک اُمید لوٹ جانے پر
مرے خیال کا لاوا پگھل نہیں جاتا
نہ جانے کون سے ہونٹوں کا آسرا پا کر
تمھارے ہونٹ مری تِشنگی کو بھُول گئے
وہی اصول جو مخکم تھے نرم سائے میں
ذرا سی دھوپ میں نکلے تو جُھول جُھول گئے
٭٭٭
دل میں وہ درد نہاں ہے کہ بتائیں کس کو
ہاں اگر ہے تو کوئی محرمِ اَسرار سنے
خلوتِ ذہن کے ہر راز کی سرگوشی کو
یہ نہ ہو جائے کہ بازار کا بازار سنے
نرمیِ رمز و کنایہ کا تقاضا یہ ہے
پرتَوِ شاخ کہے، سایۂ دیوار سنے
ہونٹ ہلنے بھی نہ پائیں کہ معانی کھُل جائیں
لمحۂ شوق کہے، ساعتِ دیدار سنے
میں تو سو مرتبہ تیشے کی زباں سے کہہ دوں
تُو جو افسانۂ فرہاد بس اِک بار سنے
٭٭٭
پھر آج یاس کی تاریکیوں میں ڈوب گئی !
وہ اک نوا جو ستاروں کو چُوم سکتی تھی
سکوت ِ شب کے تسلسل میں کھو گئی چپ چاپ
جو یاد وقت کے محور پہ گھوم سکتی تھی
ابھی ابھی مری تنہائیوں نے مجھ سے کہا
کوئی سنبھال لو مجھ کو ، کوئی کہے مجھ سے
ابھی ابھی کہ میں یوں ڈھونڈتا تھا راہ فرار
پتہ چلا کہ مرے اشک چھن گئے مجھ سے
٭٭٭
مری رفیق ِ طرب گاہ ، تیری آمد پر
نئے سروں میں نئے گیت گائے تھے میں نے
نفس نفس میں جلا کر اُمید کے دیپک
قدم قدم پہ ستارے بچھائے تھے میں نے
ہوا سے لوچ ، کَلی سے نکھار مانگا تھا
ترے جمال کا چہرہ سنوارنے کے لئے
کنول کنول سے خریدی تھی حسرتِ دیدار
نظر نظر کو جِگر میں اتارنے کے لئے
بہت سے گیت چھلکتے رہے اُفَق کے قریب
بہت سے پھول برستے رہے فضاؤں میں
الجھ الجھ گئیں مجروح زیست کی گرہیں
بکھر بکھر گئیں انگڑائیاں خلاؤں میں
میں پوچھتا ہوں کہ اے رنگ و نور کی دیوی
علاج ِ تیرہ شبی کیا اِسی کو کہتے ہیں !
بجھے بجھے سے یہ مفلس دیئے نہ جانے کیا
سُلگ سُلگ کے تری بےحسی کو کہتے ہیں
یہ گیت سر بگریباں ہیں تیرے جانے سے
یہ تو عروس ستارے بڑھا رہے ہیں سہاگ
کلی کلی کو تری بےرخی کا شکوہ ہے
نفس نفس سے نکلتی ہے ایک ایسی آگ
جسے بھجاؤں تو دل زمہریر ہو جائے
ترا عظیم تصور حقیر ہو جائے
٭٭٭
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل:اعجاز عبید