اردو کے جدید شعرا میں ایک اہم نام۔ جن کی نظمیں داخل اور خارج کا حسین امتزاج ہیں۔ تیغ الہ آبادی کے نام سے بھی لکھتے رہے۔
سید مصطفیٰ حسین زیدی کی پیدائش 10 اکتوبر 1930ء کو ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ان کے والد سید لخت حسین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الہ آباد یونیو رسٹی سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا اور صرف 19 سال کی عمر میں ان کا شعری مجموعہ ”موج مری صدف صدف“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا اور فراق صاحب نے ان کی شکل میں ایک بڑے شاعر کی پیش گوئی کی تھی۔ کسی حد تک تو یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ چالیس سال کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کی کلیات کلیاتِ مصطفی زیدی کے نام سے شائع ہوئی۔
مصطفیٰ زیدی 1951ء میں کراچی چلے گئے تھے۔ کچھ دن وہ اسلامیہ کالج پشاور میں بطور استاد تعینات رہے۔ وہاں سے نکالے گئے۔ پھر انہوں نے سی ایس پی کا امتحان دیا جس میں کامیابی حاصل کی اور اہم عہدوں پر کام کیا۔ لیکن بار بار کے مارشل لاء نے آزادیِ فکر کا گلا گھونٹ دیا تھا جس کی باز گشت ان کے اشعار میں سنی جا سکتی ہے۔
جس دن سے اپنا طرزِ فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دلِ شاہانہ چھٹ گیا
وہ جب کراچی میں اسسٹنٹ کمشنر تھے اسی وقت جنرل یحییٰ خاں کے عتاب کے بھی شکار ہوئے اور یحییٰ خاں نے جو 303 افسران کی ہٹ لسٹ تیار کر رکھی تھی اس میں مصطفیٰ زیدی کا نام بھی تھا مگر فوجی آمر کی گولیوں سے قبل وہ کسی بڑی سازش کا شکار ہو گئے اور اس کا سبب بنی ایک خاتون شہناز گل، جس کے باعث مصطفیٰ زیدی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان کی لاش 12 اکتوبر 1970ء کو کراچی کے ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ جس پر بعد میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا اور مقدمہ بھی عدالت میں گیا تھا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں تک اس پر دھواں دھار بحثیں ہوتی رہیں۔ عدالت نے طویل رد و کد کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیا۔