07:11    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

مجموعہ پسِ پردۂ شب

1946 0 0 00




تلاش

آج کیوں میرے شب و روز ہیں محرومِ گداز

اے مری روح کے نغمے، مرے دِل کی آواز

اک نہ اک غم ہے نشاطِ سحروشام کے ساتھ

اور اس غم کا مفہوم نہ مقصد نہ جَواز

میں تو اقبال کی چوکھٹ سے بھی مایوس آیا

میرے اَشکوں کا مداوا نہ بدخشاں نہ حِجاز

چند لمحوں سے خواہش کہ دوامی بن جائیں

ایک مرکز پہ رہے سُرخ لہو کی ہَل چَل

کبھی ہر گام پہ ٹھوکر، کبھی منزل کا حریف

اے جہانِ گزراں ایک سے انداز پہ چل

٭٭٭






کردار

خیال و خواب کی دنیا کے دل شکستہ دوست

تری حیات مری زندگی کا خاکہ ہے

غمِ نگار و غمِ کائنات کے ہاتھوں !

ترے لبوں پہ خموشی ہے،مجھ کو سَکتہ ہے

مری وفا بھی ہے زخمی تری وفا کی طرح

یہ دل مگر وہی اک تابناک شعلہ ہے

ترا مزار ہے اینٹوں کا ایک نقشِ بلند

مرا مزار مرا دل ہے، میرا چہرہ ہے

جو زہر پی نہ سکا تو حیات سے ڈر کے

وہ زہر اَب بھی بدستور پی رہا ہوں میں

شدید کرب میں تو نے تو خود کُشی کر لی

شدید تر غمِ ہستی میں جی رہا ہوں میں

٭٭٭






نیا آذر

مری رفیقِ طرب گاہ، تیری آمد پر

نئے سروں میں نئے گیت گائے تھے میں نے

نفس نفس میں جلا کر اُمید کے دیپک

قدم قدم پہ ستارے بچھائے تھے میں نے

ہوا سے لوچ، کَلی سے نکھار مانگا تھا

ترے جمال کا چہرہ سنوارنے کے لئے

کنول کنول سے خریدی تھی حسرتِ دیدار

نظر نظر کو جِگر میں اتارنے کے لئے

بہت سے گیت چھلکتے رہے اُفَق کے قریب

بہت سے پھول برستے رہے فضاؤں میں

الجھ الجھ گئیں مجروح زیست کی گرہیں

بکھر بکھر گئیں انگڑائیاں خلاؤں میں

میں پوچھتا ہوں کہ اے رنگ و نور کی دیوی

علاجِ تیرہ شبی کیا اِسی کو کہتے ہیں !

بجھے بجھے سے یہ مفلس دیئے نہ جانے کیا

سُلگ سُلگ کے تری بےحسی کو کہتے ہیں

یہ گیت سربگریباں ہیں تیرے جانے سے

یہ تو عروس ستارے بڑھا رہے ہیں سہاگ

کلی کلی کو تری بےرخی کا شکوہ ہے

نفس نفس سے نکلتی ہے ایک ایسی آگ

جسے بھجاؤں تو دل زمہریر ہو جائے

ترا عظیم تصور حقیر ہو جائے

٭٭٭






اِنتہا

پھر آج یاس کی تاریکیوں میں ڈوب گئی !

وہ اک نوا جو ستاروں کو چُوم سکتی تھی

سکوتِ شب کے تسلسل میں کھو گئی چپ چاپ

جو یاد وقت کے محور پہ گھوم سکتی تھی

ابھی ابھی مری تنہائیوں نے مجھ سے کہا

کوئی سنبھال لو مجھ کو، کوئی کہے مجھ سے

ابھی ابھی کہ میں یوں ڈھونڈتا تھا راہ فرار

پتہ چلا کہ مرے اشک چھن گئے مجھ سے

٭٭٭






رُوح کی مَوت

چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں

وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا

یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے

یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا

لہو کے ناچتے دھارے کے سامنے اب تک

دل و دماغ کی بےچارگی نہیں جاتی

جنوں کی راہ میں سب کچھ گنوا دیا لیکن

مرے شعور کی آوارگی نہیں جاتی

نہ جانے کس لئے اس انتہائے حدت پر

مرا دماغ سلگتا ہے جل نہیں جاتا

نہ جانے کیوں ہر اک اُمید لوٹ جانے پر

مرے خیال کا لاوا پگھل نہیں جاتا

نہ جانے کون سے ہونٹوں کا آسرا پا کر

تمھارے ہونٹ مری تِشنگی کو بھُول گئے

وہی اصول جو مخکم تھے نرم سائے میں

ذرا سی دھوپ میں نکلے تو جھُول جھُول گئے

٭٭٭






سمجھوتہ

لوگ کہتے ہیں، عشق کا رونا

گریۂ زندگی سے عاری ہے

پھر بھی یہ نامراد جذبۂ دل

عقل کے فلسفوں پہ بھاری ہے

آپ کو اپنی بات کیا سمجھاؤں

روز بجھتے ہیں حوصلوں کے کنول

روز کی الجھنوں سے ٹکرا کر !!

ٹوٹ جاتے ہیں دل کے شیش محل

لیکن آپس کی تیز باتوں پر

سوچتے ہیں، خفا نہیں ہوتے

آپکی صنف میں بھی ہے یہ بات

مرد ہی بے وفا نہیں ہوتے ٭٭٭

ہم سے پہلے کبھی یہ مرتبۂ دار نہ تھا

عشق رُسوا تھا مگر یوں‌ سرِ بازار نہ تھا

آج تو خیر ستارے بھی ہیں ویرانے بھی

ہم پہ وہ رات بھی گزری ہے کہ غمخوار نہ تھا

کیا مری بات کو سمجھے کہ ابھی وہ کل تک

راہ و رسمِ دلِ ناداں‌ سے خبردار نہ تھا

٭٭٭






کارواں

اِسی طرف سے زمانے کے قافلے گُزرے

سکُوتِ شامِ غریباں کے خلفشار میں گُم

ذرا سا راگ خموشی کے دوش پر لرزاں

ذرا سی بوند پُر اسرار آبشار میں گُم

گھنے اندھیرے میں گُمنام راہ رَو کی طرح

کوئی چراغ چمکتی ہُوئی قطار میں گُم

فضا میں سوئی ہُوئی گھنٹیوں کی آوازیں

ستارے نِیل کی خاموش جُوئبار میں گُم

سُلگتے پیار کی شِدت سے کانپتے ہُوئے ہونٹ

کِسی کی وعدہ وفائی کے اِعتبار میں گُم

نہ جانے کِتنی اُمیدیں اُفق سے آنکھ لگائے

سحر کی آس میں فردا کے اِنتظار میں گُم

٭٭٭






لبِ مرگ

قوم کے پاس اَب رہا کیا ہے

شاعرانہ تعلّیوں کے سِوا

ہیں معالج مگر دوا کیا دیں

جانکنی میں، تسلّیوں کے سِوا

٭٭٭






کوہِ ندا

اَیُّہَاالنّاس چلو کوہِ ندا کی جانب

کب تک آشفتہ سری ہو گی نئے ناموں سے

تھک چکے ہو گے خرابات کے ہنگاموں سے

ہر طرف ایک ہی انداز سے دن ڈھلتے ہیں

لوگ ہر شہر میں سائے کی طرح چلتے ہیں

اجنبی خوف کو سینوں میں چھُپائے ہوئے لوگ

اپنے آسیب کے تابوت اُٹھائے ہوئے لوگ

ذات کے کرب میں، بازار کی رُسوائی میں

تم بھی شامل ہو اس انبوہ کی تنہائی میں

تم بھی ایک بادیہ پَیما ہو خلا کی جانب

خود ہی سوچو کہ ہر اک در سے ملا کیا آخِر

کار آمد ہوئی فریاد کے ناکام ہُوئی

اپنی گلیوں میں سے کس کس نے ستایا تم کو

دشتِ غربت میں کہاں صبح، کہاں شام ہوئی

کس نے سوئے ہوئے اسبابِ فغاں کو چھیڑا

کس نے دُکھتے ہوئے تارِ رگِ جاں کو چھیڑا

کس نے سمجھائیں تمھیں عشرتِ غم کی باتیں

کون لایا تمھیں اندوہِ وفا کی جانب

اب کدھر جاؤ گے، کیا اپنا وطن کیا پردیس

ہر طرف ایک سی سَمتوں کا نشاں مِلتا ہے

اپنی آواز بکھر جاتی ہے آوازوں میں

اپنا پندار ملول و نگراں ملتا ہے

پھونک کر خود کو نظر آتی ہے احساس کی راکھ

وقت کی آنچ پہ لمحوں کا دھواں ملتا ہے

راستے کھوئے چلے جاتے ہیں سناٹوں میں

مشعلیں خودبخود آتی ہیں ہوا کی جانب

کب تک افسانہ و افسوں کی حشیشی راتیں

طلبِ جنس و تلاشِ شبِ امکاں کب تک

ذہن کو کیسے سنبھالے گی بدن کی دیوار

درد کا بوجھ اٹھائے گا شبستاں کب تک

دیر سے نیند کو ترسی ہوئی آنکھوں کے لیے

خواب آور نشہ ء عارض و مژگاں کب تک

کتنے دن اور پُکارے گی تمھیں جسم کی پیاس

نغمہ و غمزہ و انداز و ادا کی جانب

رات بھر جاگتے رہتے ہیں دکانوں کے چراغ

دل وہ سنسان جزیرہ کے بھجا رہتا ہے

لیکن اس بند جزیرے کے ہر اک گوشے میں

ذات کا بابِ طلسمات کھلا رہتا ہے

اپنی ہی ذات میں پستی کے کھنڈر ملتے ہیں

اپنی ہی ذات میں اک کوہِ ندا رہتا ہے

صرف اِس کوہ کے دامن میں میسر ہے نجات

آدمی ورنہ عناصر میں گھِرا رہتا ہے

اور پھر ان سے بھی گھبرا کے اٹھاتا ہے نظر

اپنے مذہب کی طرح اپنے خدا کی جانب

اَیُّہَاالنّاس چلو کوہِ ندا کی جانب

٭٭٭

ڈھلے گی رات آئے گی سحر آہستہ آہستہ

پِیو ان انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ

دِکھا دینا اُسے زخمِ جگر آہستہ آہستہ

سمجھ کر، سوچ کر، پہچان کر آہستہ آہستہ

اُٹھا دینا حجابِ رسمیاتِ درمیاں لیکن

خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ

دریچوں کو تو دیکھو، چلمنوں کے راز تو سمجھو

اُٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ

ابھی تاروں سے کھیلو چاندنی سے دل کو بہلاؤ

مِلے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

کہیں شامِ بلا ہو گی کہیں صُبحِ کماں داراں

کٹے گا زُلف و مژگاں کا سفر آہستہ آہستہ

یکایک ایسے جل بُجھنے میں لُطفِ جاں کنی کب تھا

جلے اک شمع پر ہم بھی مگر، آہستہ آہستہ

٭٭٭






کہانی

بچو، ہم پر ہنسنے والو، آؤ تمھیں سمجھائیں

جِس کے لئے اس حال کو پُہنچے، اس کا نام بتائیں

رُوپ نگر کی اک رانی تھی، اس سے ہُوا لگاؤ

بچو، اس رانی کی کہانی سُن لو اور سو جاؤ

اُس پر مرنا، آہیں بھرنا، رونا، کُڑھنا، جلنا

آب و ہوا پر زندہ رہنا، انگاروں پر چلنا

ہم جنگل جنگل پھرتے تھے اس کے لئے دیوانے

رِشی بنے، مجنوں کہلائے، لیکن ہار نہ مانے

برسوں کیا کیا چنے چبائے، کیا کیا پاپڑ بیلے

لہروں کو ہمراز بنایا، طُوفانوں سے کھیلے

دفتر بھُولے، بستر بھُولے، پینے لگے شراب

پل بھر آنکھ لگے، تو آئیں اُلٹے سیدھے خواب

نیند میں کیا کیا دیکھیں، تڑپیں، روئیں، اُٹھ اُٹھ جائیں

سو جانے کی گولی کھائیں، اِنجیکشن لگوائیں

آخر وہ اک خواب میں آئی سُن کے ہمارا حال

کویل جیسی بات تھی اس کی، ہرنی جیسی چال

کہنے لگی : کَوی جی، تیرا حال نہ دیکھا جائے

میں نے کہا کہ رانی اپنی پرجا کو بہلائے

کہنے لگی کہ تو کیا لے گا : سونا، چاندی، ہار

میں نے کہا کہ رانی، تیرے مکھڑے کی تلوار

پھر دِل کے آنگن میں اُترا اس کا سارا رُوپ

اُس چہرے کی شیتل کرنیں، اس مُکھڑے کی دھوپ

دھوپ پڑی، تو کھُل گئیں آنکھیں، کھُل گیا سارا بھید

غَش کھایا، تو دوڑے آئے مُنشی، پنڈت، وید

وُہ دِن ہے اور آج کا دِن ہے چھُٹ گیا کھانا پانی

چھُٹ گیا کھانا پانی، بچو، ہو گئی ختم کہانی

میری کہانی میں لیکن اِک بھید ہے، اس کو پاؤ

چاند کو دُور ہی دُور سے دیکھو، چاند کے پاس نہ جاؤ

" نہ اپنے گھر ہی اُس کو بُلاؤ "

٭٭٭






دسہرا

عزیز دوست یہ سچ ہے اِن نظاروں سے

ہمارے جسم کو آسُودگی نہیں مِلتی

سکونِ دل کو ضروری ہے لمس کی لذت

ہَوا کی گود میں وارفتگی نہیں ملتی

مگر یہ وقت نہیں فلسفے کی باتوں کا

فضا میں گُونج رہی ہیں طرب کی آوازیں

سڑک پہ شور ہے چھجوں کے لالہ زاروں کا

عجب نہیں کہ ہماری قنوطیت بھی مِٹے

ہمارے سر کو ہماری جبیں کو دَر تو ملے

سکونِ دل نہ ملے، حاصلِ نظر تو ملے

جدید عشق میں فرہاد کا مقام نہیں

جدید حُسن کو مجنوں کا احترام نہیں

غلط نہیں کہ ہمیں شخصیت کا پاس بھی ہے

ہمیں ضرورتِ تبدیلیِ لباس بھی ہے

تری نگاہ میں احساسِ کمتری کیوں ہے ؟

یہ تھرتھری یہ جھِجک یہ فسردگی کیوں ہے ؟

یہ عام راہ جہاں آج اتنی رونق ہے

طوائفوں کے گھروں کی طرف نکلتی ہے

اسی گروہ میں اخلاق کے کئی نقاد

غرورِ فتح سے گردن اُٹھا کے چلتے ہیں

بڑے شکوہ سے سینے پھُلا کے چلتے ہیں

اُٹھا کے پھینک دے مشرق کی وضعداری کو

کہ تیری ساتھ یہ افرادِ با حشَم بھی ہیں

ہزاروں گھورنے والوں میں ایک ہم بھی ہیں

کسے مجال کہ ہم سے کوئی سوال کرے

زیادہ لوگ تو لچھمن کی آڑے لے لے کر

سیاہ اور ہری ساریوں کو دیکھتے ہیں

کِسی نگار کی تیاریوں کو دیکھتے ہیں

تھکن سے چُور، گریباں دریدہ، چہرہ ماند

یہ پائجاموں کی بدبُو، یہ دھوتیوں کی بساند

یہ زندگی کا تلاطُم، یہ ہمہموں کا ساماں

یہ جِنسیات کے شُعلے، یہ بِیڑیوں کا دھُواں

یہ سطحِ روشن و رنگیں، یہ اندرونی سوگ

یہ اپنے شہر کے بابُو، یہ اپنے گاؤں کے لوگ

اِسی گروہ میں نا اہل و باکمال بھی ہیں

یہاں ضعیف بھی ہیں، اور خورد سال بھی ہیں

کِسے مجال کہ ہم سے کوئی سوال کرے

کہ اس سوال سے بڑھ کر کئی سوال بھی ہیں

وُہی سوال جنھیں بےبسوں نے دُہرایا

جِنھیں بگڑتی ہوئی صِحتوں نے دُہرایا

وُہی سوال کہ ہے جن میں انہدام کی بات

مشیتوں سے اُلجھتی ہوئی حقیقت سے

ضرورتوں کے تقاضائے صُبح و شام کی بات

کِسے مجال، کہ یہ مُلک اتنا بُزدِل ہے

کہ اپنا غم بھی بتانے میں عار ہے جِس کو

یہ مُلک جس میں عوامی حقوق عام نہیں

یہ مُلک جس میں فقط ڈِگریاں ہیں کام نہیں

یہ مُلک جِنس کی تعلیم جُرم ہے جس میں

یہ مُلک جس میں ابھی تک نزاعِ مذہب سے

سِلے ہوئے ہیں تفکُر، بِکے ہوئے ہیں دِماغ

یہاں تو جلنے سے ڈرتے ہیں بد نصیب چراغ

یہاں تو آج بھی ہے ذہنیت میں کل کا وقار

یہ " ہتھنیوں کا جزیرہ " یہ " ہاتھیوں کا دیار " ۔

نظر اُٹھا میرے ہمدم، درندگی کی نظر

یہاں تو ہم سبھی راوؔن ہیں، اور کوٹھیوں پر

سجی کھڑی ہیں ہماری صدی کی سِیتائیں

وُہ وقت اور تھا جب رام ؔ ہم سے جِیت گیا

وہ بات ختم ہوئی، وہ زمانہ بہت گیا

نظر اُٹھا مرے ہمدم وُہ " چوکیاں " آئیں

عجب نہیں کہ ہمارے بھی بھاگ کھُل جائیں

عجب نہیں کہ ہمیں بھی کسی چَرنوں میں

نصیب ہو سکے " بھگوان " کا کبھی درشن

اگر نہیں تو یہ آوارگی ہی کیا کم ہے ؟

ہمارے سَر کو، ہماری جبیں کو، در تو ملے

سکونِ دِل نہ مِلے، حاصلِ نظر تو مِلے !

٭٭٭






یہ آدمی کی گُزر گاہ

زندگی آج تُو کِس طرف آ گئی

صُبح کی سِیپیا روشنی چھوڑ کر

مدھ بھری شام کی کم سِنی چھوڑ کر

اوس پِیتی ہُوئی چاندنی چھوڑ کر

اُس کے مُکھڑے کی مِیٹھی نمی چھوڑ کر

زندگی آج تُو کِس طرف آ گئی

اِس نئے دیس کے اجنبی راستے

کِتنے تاریک، کِتنے پُر اسرار ہیں

آج تو جیسے وحشی قبیلے یہاں

اِ ک نئے آدمی کے لہُو کے لیے

جِسم پر راکھ مَل کر نکل آئے ہیں

آنکھ میں چُبھ رہا ہے کسَیلا دھُواں

جِسم کو چھُو رہی ہیں خُنک سُوئیاں

ہر قدم پر ڈھچر، ہر طرف ہڈیاں

وقت کی خوف سے سانس رُکتی ہُوئی

رات کے بوجھ سے ہانپتی خامُشی

ہر طرف تِیرگی، تِیرگی، تِیرگی

پیڑ کے روپ میں کوئی دُشمن نہ ہو

پاس کے موڑ پر کوئی رہزن نہ ہو

یہ کھنڈر کوئی رُوحوں کا مسکن نہ ہو

اِس بھٹکتی صدا میں کوئی راز ہے

یہ پُرانا دِیا کِس کا غماز ہے ؟

کِس کی آہٹ ہے یہ، کِس کی آواز ہے ؟

کِس لِیے آج سامانِ شبخُون ہیں ؟

کون سے راز سِینوں میں مدفُون ہیں ؟

کِس کے لشکر اب آمادۂ خون ہیں ؟

ہر طرف دھُند ہَے ہَر طرف سہم ہے

کوئی صاحِب نظر ہے کہ نا فہم ہے ؟

سانپ کی سرسراہٹ ہے یا وہم ہے ؟

زندگی آج تُو کِس طرف آ گئی

مَیں تری راہ کس طرح روشن کروں

میری ویران آنکھوں میں آنسُو نہیں

تیرے سازوں کی تحریک کے واسطے

میرے ہونٹوں پہ گیتوں کا جادُو نہیں

رات سُنسان ہے راہ ویران ہے

کوئی نغمہ نہیں کوئی خُوشبُو نہیں

آج تک مَیں نے تیرے لیے رات دن

موتیوں اور چراغوں کے ہر تھال پر

کتنے گَجرے عقِیدت سے حاضر کیے

کنواریوں کے بدن کی جواں اوس سے

تیرے پھُولوں کے چہروں کو ضو بخش دی

جب بُجھی جا رہی تھی تری دل کشی

تیرا مُنہ چُوم کر تجھ کو لَو بخش دی

چُوڑیوں کی کھنک سے تِرے واسطے

ایسے معصُوم نغمے مُرتب کیے

جِن کو سُن کر ستاروں کے اک شہر میں

کِرشن کے پاتھ سے بانسری چھُٹ گئی

تیری ہر نیند کو، تیرے ہر خواب کو

میں نے پریوں کی زُلفوں کا بِستر دیا

نَو عرُوسوں کی شرماہٹیں سونپ دیں

لَے کے گہنے، تبسم کا زیور دیا

اپسراؤں کے سِینوں کے بھونچال سے

حِدتیں چھِین کر تُجھ کو پیکر دیا

تیرے بالوں پہ غزلوں سے اَفشاں چُنی

تیرے ماتھے کو نظموں کا جھُومر دیا

اُنگلیوں کو اجنتا کی صنعت گری

انکھڑیوں کو بنارس کا منظر دیا

ایک تشبِیہ اجنتا کی صنعت گری

انکھڑیوں کو بنارس کا منظر دیا

ایک تشبِیہ سوچی کمر کے لیے

استعارے تراشے نظر کے لیے

جِسم اور خُون سے ماورا کہہ دیا

اَور اک روز تجھ کو خُدا کہہ دیا

زندگی آج تُو کِس طرف آ گئی

مَیں چٹانوں سے فرہاد بن کر لڑا

تُو نے تیشے میں میرا لُہو بھر دیا

والمیک اَور بُدھ بن کے آواز دی

تُو نے صحراؤں میں مُجھ کو گُم کر دیا

ٹرائے کی جنگ میں تیرا ہومر بنا

مُجھ سے آنکھوں کی سب نعمتیں چھِن گئیں

دشتِ اِحساس میں تیرا شاعر بنا

تیرے کانٹوں نے میری رگیں چھِیل دِیں

میں نے ڈھُونڈا تُجھے ذہنِ سُقراط میں

اور مجھے زہر کا جام پینا پڑا

مَیں نے جانا تُجھے بےحد و بےمکاں

اَور مجھے قید خانوں میں جِینا پڑا

حادثوں نے بُجھا دی عقِیدت کی لَو

تجربوں نے عقائد کو گُم کر دیا

پھر بھی مَیں نے تیرے دامن کو تھامے ہوئے

زخم دھوتا رہا اَور گاتا رہا

اَور مہکے یہ زخموں کا بن یا نہیں

اَور کچھ دن رہے یہ لگن یا نہیں

اَے مِری ہم سفر مُجھ کو آواز دے

مُسکرائے گی کوئی کِرن یا نہیں

جِس کھنڈر پر گھنی مَوت کا راج ہے

اُس سے اُبھرے گی صُبحِ وطن یا نہیں

اقتصادی خیالات کی جنگ میں

جیت جائے گا شاعر کا فن یا نہیں

٭٭٭






اے صُبح کے غمخوارو !

اے صُبح کے غمخوارو، اِس رات سے مت ڈرنا

جس ہات میں خنجر ہے اس ہات سے مت ڈرنا

خورشید کے متوالو ذرات سے مت ڈرنا

چنگیز نژادوں کی اوقات سے مت ڈرنا

ہاں شاملِ لب ہو گی نفرت بھی، ملامت بھی

یارانہ کدورت بھی، دیرینہ عداوت بھی

گزرے ہُوئے لمحوں کی مرحوم رفاقت بھی

قبروں پہ کھڑے ہو کر جذبات سے مت ڈرنا

آباد ضمیروں کو اُفتادِ ستم کیا ہے

آسودہ ہو جب دل پھر تکلیفِ شکم کیا ہے

تدبیرِ فلک کیا ہے، تقدیرِ اُمم کیا ہے

مَحرم ہو تو دو دن کے حالات سے مت ڈرنا

رُودادِ سرِ دامن کب تک نہ عیاں ہو گی

نا کردہ گناہوں کے منہ میں تو زباں ہو گی

جس وقت جرائم کی فہرست بیاں ہو گی

اُس وقت عدالت کے اثبات سے مت ڈرنا

اے صُبح کے غمخوارو !

٭٭٭

گریہ تو اکثر رہا، پَیہم رہا

پھر بھی دل کے بوجھ سے کچھ کم رہا

قمقمے جلتے رہے، بُجھتے رہے

رات بھر سینے میں اک عالم رہا

اُس وفا دشمن سے چھُٹ جانے کے بعد

خود کو پا لینے کا کِتنا غم رہا

اپنی حالت پر ہنسی بھی آئی تھی

اِس ہنسی کا بھی بڑا ماتم رہا

اِتنے ربط، اِتنی شناسائی کے بعد

کون کس کے حال کا محرم رہا

پتھروں سے بھی نکل آیا جو تِیر

وہ مرے پہلو میں آ کر جم رہا

ذہن نے کیا کچھ نہ کوشش کی مگر

دل کی گہرائی میں اک آدم رہا

٭٭٭

اُدھر اسی سے تقاضائے گرمیِ محفِل

اِدھر جگر کا یہ عالم کہ جیسے برف کی سِل

نہ جانے کون سی عجلت تھی اے تصّوُرِ دوست

ابد کا لمحہ بھی مشکل سے ہو سکا شامِل

ہم اپنے پاسِ روایاتِ عاشقی میں رہے

ہمارے پاس سے ہو کر گزر گیا محمِل

ابھی اُمنگ میں تھوڑا سا خُون باقی ہَے

نچوڑ لے غمِ دنیا، نچوڑ لے غمِ دل

٭٭٭

ہونٹوں کے ماہ تاب ہیں، آنکھوں کے بام ہیں

سَر پھوڑنے کو ایک نہیں سو مقام ہیں

تم سے تو ایک دل کی کلی بھی نہ کھِل سکی

یہ بھی بلا کشانِ محبت کے کام ہیں

دل سے گزر خدا کے لیے اور ہوشیار

اِس سر زمیں کے لوگ بہت بد کلام ہیں

تھوڑی سی دیر صبر کہ اِس عرصہ گاہ میں

اے سوزِ عشق، ہم کو ابھی اور کام ہیں

تم بھی خُدا سے سوزِ جنوں کی دُعا کرو

ہم پر تو اِن بزرگ کے احسان عام ہیں

وہ کیا کرے جو تیری بدولت نہ ہنس سکا

اور جس پہ اتفاق سے آنسُو حرام ہیں

اپنے پہ آ پڑیں تو نئے پن کی حَد نہیں

جو واقعات سب کی حکایت میں عام ہیں

مُنعم کا تو خُدا بھی اَمیں، بُت بھی پاسباں

مُفلس کے صرف تیغ علیہ السّلام ہیں

٭٭٭






یہ ایک نام

شفق سے دُور، ستاروں کی شاہراہ سے دُور

اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے

تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے

فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کھُل جائیں

دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دھُل جائیں

! یہ بولتی ہُوئی شب، یہ مُہِیب سناٹا

کہ جیسے تُند گناہوں کے سینکڑوں عفرِیت

بس ایک رات کو دُنیا کے حُکمراں ہو جائیں

اجل کے غار سے نِکلی ہُوئی گراں رُوحیں

لہُو سے پیاس بُجھا کر کہیں مزاروں میں

نشے کے بوجھ سے چِیخیں، تو چِیختی رہ جائیں

اِسی جنوں میں، اِسی آندھیوں کے میلے میں

تمھارا نام کہیں دُور جگمگاتا ہَے

سفید، دودھ سے شفاف، عکس سے نازک

اُداس رُوح کی لہروں پہ نرم دیپ جلائے

تمھارے نام سے یادوں کے کاروانوں میں

چمکتی جاگتی چاندی کی گھنٹیوں کی کھنک

کچھ آنسوؤں کی گھُلاوٹ، کچھ آرزو کی کسک

یہ ایک نام نہ ہوتا تو اِس اندھیرے میں

جہاں سحر کا پتہ ہَے نہ زندگی کا سُراغ

نہ جانے کِتنے عقیدے، نہ جانے کِتنے چراغ

تلاش کرتے مگر روشنی نہیں مِلتی

ہزار رنگ بِکھرتے، ہزار کچے رنگ

جو اَب نصِیب ہَے وُہ سادگی نہیں مِلتی

٭٭٭






تراشِیدم ۔۔

ایک قندیل جلائی تھی مِری قسمت نے

جگمگاتے ہُوئے سُورج سے درخشاں قندیل

پہلے یوں اس نے مرے دل میں قدم رکھا تھا

ریت میں جیسے کہیں دُور چمکتی ہُوئی جھِیل

پھر یہی جھِیل اُمڈ آئی سمندر بن کر

ایک پیمانے میں ہونے لگی دُنیا تحلِیل

اک فقط میں ہی نہ تھا کُشتۂ احساسِ شکست

اور بھی لوگ تھے واماندہ و مجرُوح و قِتیل

اُس نے ماحَول کو قدموں کے تلے روند دِیا

اور ماحَول نے اس کے لِیے ایوان سجائے

اُس کی ٹھوکر میں تھا قانون کا سازِ کُہنہ

ساز نے اُس کی حمایت کے لیے راگ بنائے

اُس کے ماتھے کی ہر اک لہر تھی طُوفان بدوش

ہر سفینے نے بڑے عجز سے مستول جھُکائے

آگ میں کُود پڑا اُس کا جیالا اِدراک

آگ نے اس کی زیارت کے لئے پھُول بِچھائے

اُس کی باتوں کا ہر انداز حریفانہ تھا

جِن سے بچنے کی نہ قُوت تھی نہ لڑنے کی سبیل

یہ فقط میرا کلیجہ تھا کہ مَیں نے بڑھ کر

سب سے پہلے اُسے بخشی غمِ دل کی تاویل

اُس کی آنکھوں کو ستاروں کے حسیں خواب دِیے

اُس کے چہرے کو عطا کی سحرِ دَجلہ و نِیل

آگ خود بن گئی گلزار تو کیا ہوتا ہے

کَون پتھر کو بدل سکتا ہَے ۔۔۔ ۔۔آذر کہ خلیل ؟

٭٭٭






احسان فراموش

جب مُنڈیروں پہ چاند کے ہمراہ

بُجھتی جاتی تھیں آخری شمعیں

کیا ترے واسطے نہیں ترسا

اُس کا مجبُور مضمحل چہرا ؟

کیا ترے واسطے نہیں جاگیں ؟

اُس کی بِیمار رحمدل آنکھیں

کیا تجھے یہ خیال ہَے کہ اُسے

اپنے لُٹنے کا کوئی رنج نہیں

اُس نے دیکھی ہَے دن کی خونخواری

اُس پہ گُزری ہَے شب کی عیاری

پھر بھی تیری طرح وُہ بےچاری

ساری دُنیا سے شکوہ سنج نہیں

زندہ باد اے انائے جذبۂ عِشق

مرحبا اے شِکوہِ خُدامی

اُس کی قُربت سے تجھ کو پھُول مِلے

زندگی کے نئے اصُول مِلے

تیری اُلفت سے کیا مِلا اُس کو

زحمتیں، اضطراب، بدنامی

٭٭٭






جُدائی

نگارِ شام غم مَیں تجھ سے رخصت لینے آیا ہُوں

گلے مِل لے کہ یوں مِلنے کی نوبت پھر نہ آئے گی

سرِ را ہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا

یہ لمحے پھِر نہ لَوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی

جَرس کی نغمگی آوازِ ماتم ہوتی جاتی ہَے

غضب کی تِیرگی ہَے راستہ دیکھا نہیں جاتا

یہ مَوجوں کا تلاطُم یہ بھرے دریا کی طُغیانی

ذرا سی دیر میں یہ دھڑکنیں بھی ڈوب جائیں گی

میری آنکھوں تک آ پہنچا ہَے اب بہتا ہُوا پانی

تِری آواز مدھم ۔۔۔ اور مدھم ہوتی جاتی ہَے

٭٭٭






فراق

ہم نے جِس طرح سبُو توڑا ہے ------ ہم جانتے ہیں

دلِ پُر خُوں کی مئے ناب کا قطرہ قطرہ

جُوئے الماس تھا، دریائے شبِ نیساں تھا

ایک اک بُوند کے دامن میں تھی موجِ کوثر

ایک اک عکس حدیثِ حَرَمِ اِیماں تھا

ایک ہی راہ پہنچتی تھی تَجلّی کے حضُور

ہم نے اُس راہ سے مُنھ موڑا ہے ------ ہم جانتے ہیں

ماہ پاروں کے طِلسمات میں تیرا افسُوں

شیوہ و شعبدہ و رسم و روایات میں تُو

حرف و تقریر میں تُو، رمز و کنایات میں تُو

خواب کی بزم تِری، دیدۂ بےخواب تِرا

صُبح کے نُور میں تُو، نیند بھری رات میں تُو

دِل کی دھڑکن کا تِرے قُرب کے لمحوں پہ مدار

ہم نے جِس طرح تجھے چھوڑا ہے ------ ہم جانتے ہیں

٭٭٭






آہنگ

میں وہ انجان تمنا ہوں گُہر کے دل میں

جو رموزِ شبِ نیساں سے قسم لیتی ہے

میں ہوں آفاق کے سینے کی وہ پہلی دھڑکن

جو فقط سینۂ شاعر میں جَنَم لیتی ہے

میرے پیکر میں پھر اک بار اتر آیا ہے !

وہ گنہگار کہ جس سا نہیں کوئی معصوم

میں ہوں وہ درد جو راتوں میں کسک اٹھتا ہے

میں ہوں وہ راز جو مجھ کو بھی نہیں ہے معلوم

قابلِ رشک ہے پندارِ تعیش کے لئے

مری افسردہ جوانی کی اُداسی کا غرور

کیفِ ہر عہد ہے، نیرنگیِ امروز نہیں

میرے ان خون سے سینچے ہوئے نغموں کا غرور

میں وہ آہنگ ہوں جو سوز کی حد کو چھو لوں

خودبخود ساز کے تاروں میں پگھل جاتا ہے

جو کبھی تاجِ سلیماں کا نگیں بنتا ہے

اور کبھی محنتِ مزدور میں ڈھل جاتا ہے

٭٭٭






وِصال

وُہ نہیں تھی تو دِل اک شہرِ وفا تھا،جس میں

اُس کے ہونٹوں کے تصور سے تپش آتی تھی !

اُس کے اِنکار پہ بھی پھُول کھِلے رہتے تھے

اُس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی

دِن اِس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی

اُس نے کُچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے

اُنگلیاں برق زدہ رہتی تھیں، جیسے اُس نے

اپنے رُخساروں کو چھُونے کی اِجازت دی ہے

اُس سے اِک لمحہ الگ رہ کے جُنوں ہوتا تھا

جی میں تھی اُس کو نہ پائیں گے تو مر جائیں گے

وُہ نہ ہوگی تو دَرک جائے گا پیمانۂ ماہ

تیرگی میں کِسے ڈھُونڈیں گے، کِدھر جائیں گے

پھر ہُوا یہ کہ لپکتے ہُوئے انگاروں میں

ہم تو جلتے تھے مگر اُس کا نشیمن بھی جلا

بجلیاں جِس کی کِنیزوں میں رہا کرتی تھِیں

دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وُہ خِرمن بھی جلا

اُس میں اِک یُوسفِ گم گشتہ کے ہاتوں کے سِوا

اِک زلیخائے خُود آگاہ کا دامن بھی جلا

٭٭٭






مِرے زخمی ہونٹ

نشّہ جس وقت بھی ٹوٹے گا، کئی اندیشے

صُبحِ لب بَستہ کے سینے میں اُتر آئیں گے

محفلِ شعلۂ شب تاب کے سارے لمحے

راکھ ہو جائیں گے، پلکوں پہ بکھر جائیں گے

ریت در آئے گی سُنسان شبستانوں میں

اور بگولے پسِ دیوار نظر آئیں گے

اس سے پہلے کہ یہ ہو جائے، مرے زخمی ہونٹ

میں یہ چاہوں گا کہ بے لحن و صدا ہو جائیں

میں یہ چاہوں گا کہ بجھ جائے مری شمعِ خیال

اِس سے پہلے کہ سب احباب جُدا ہو جائیں

اِس لیے مجھ سے نہ پوچھو کہ صفِ یاراں میں

کیوں یہ دل بے ہُنر و حسن و تمیز اِتنا ہے

اور اے دیدہ ورو ! یہ بھی نہ پوچھو کہ مجھے

ساغرِ زہر بھی کیوں جاں سے عزیز اتنا ہے

کراچی ۱۹ مئی ۶۹

٭٭٭






کراہتے ہوئے دِل

مَیں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دُور

یہ سوچتا ہُوں کہ ایسی عجیب دُنیا میں

نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہُوا ہو گا

کِسی نےبڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے

کسی کے ہات میں مہتاب آگیا ہو گا

جلائی ہوں گی کِسی کے نفَس نے قِندیلیں

کِسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہو گا

کِسی کو ذہن کا چھوٹا سا تازیانہ بہت

کسی کو دل کی کشاکش کا حوصلہ ہو گا

نہ جانے کِتنے ارادے اُبھر رہے ہوں گے

نہ جانے کِتنے خیالوں کا دل بڑھا ہو گا

تمھاری پھُول سی فطرت کی سِطح نرم سے دُور

پہاڑ ہوں گے، سمندر کا راستہ ہو گا

یہ ایک فرض کا ماحَول، فرض کا سنگیت

یہ اسپتال کے آنسُو، یہ اسپتال کی رِیت

مرے قریب بہت سے مریض اور بھی ہیں

پُکارتی ہُوئی آنکھیں، کراہتے ہُوئے دِل

بہت عزیز ہے اِن سب کو زندگی اپنی

"یہ اپنی زیست کا احساس کیسی نعمت ہے "

مگر مجھے یہی الجھن کہ زندگی کی یہ بھیک

جو مِل گئی بھی تو کِتنی ذرا سی بات مِلی

کِسی کے ہات مہتاب آگیا بھی تو کیا

کسی کے قدموں میں سُورج کا سرجھُکا بھی تو کیا

ہُوا ہی کیا جو یہ چھوٹی سی کائنات مِلی ؟

مرے وجُود کی گہری، خموش ویرانی

تمھیں یہاں کے انّدھیرے کا عِلم کیا ہو گا

تمھیں تو صرف مقّدر سے چاند رات مِلی

٭٭٭






زندگی دھُوپ ہے سنّاٹا ہے

زندگی دھُوپ ہے سنّاٹا ہے

نکہتِ عَارض و کاکل والو !

رات آئے گی گزر جائے گی

عاشقو ! صبر و تحمل والو !

ہم میں اور تم میں کوئی بات نہ تھی

مہ جبینوں میں تجاہل والو !

اعتبارات بھی اٹھ جائیں گے

اے غمِ دل کے تسلسل والو !

پھر بہاروں میں وہ آئیں کہ نہ آئیں

دوستو ! زخمِ جگر دھُلوا لو ٭٭٭

فضائے شامِ غریباں طلوعِ صبحِ طرب

مری سرشت میں کیا کچھ نہیں بہم آمیز

شکستِ دل کے فسانے کا ایک باب ہے اشک

لہو نے جس میں کیا ہے ذرا سا نم آمیز

مجھے تو اپنی تباہی کا کوئی عِلم نہ تھا

مگر وہ آنکھ بھی ہے آج کل کَرَم آمیز

کبھی جنونِ تمنا بھی بےغرض بے لوث

کبھی خلوصِ رفاقت بھی بیش و کم آمیز

مرے صنم میں بہت کچھ خدا کے تیور ہیں

یہ اور بات کہ تیرا خدا صنم آمیز

٭٭٭

بُجھ گئی شمعِ حَرم، بابِ کلیسا نہ کھُلا

کھُل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھُلا

درِ توبہ سے بگوُلوں کی طرح گُزرے لوگ

ابر کی طرح اُمڈ آئے جو مَے خانہ کھُلا

شہر در شہر پھری میرے گُناہوں کی بیاض

بعض نظروں پہ مِرا سوزِ حکِیمانہ کھُلا

نازنِینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی

لاکھ پہروں میں بھی کاشانے پہ کاشانہ کھُلا

اَب جو بےباک ہُوئے بھی تو بہ صد اندیشہ

اَب جو اِک شخص کھُلا بھی تو حجابانہ کھُلا

مِل کے بھی تُجھ سے رہی اب کے طبعیت اَیسے

جیسے بادل سا گھِر آیا جو نہ برسا نہ کھُلا

ہم پری زادوں میں کھیلے، شبِ افسوں میں پلے

ہم سے بھی تیرے طلسمات کا عُقدہ نہ کھُلا

ایک اک شکل کو دیکھا ہے بڑی حیرت سے

اجنبی کون ہے اَور کون شناسا نہ کھُلا

ریت پر پھینک گئی عقل کی گُستاخ لبی

پھر کبھی کشف و کرامات کا دریا نہ کھُلا

٭٭٭






کس کس پہ جان دیجئے کس کس کو روئیے

ہر "خیرخواہ" کو دلِ ناداں نے آج تک

"ناصح" کہا "حکیم" کہا "محتسب" کہا

ہر "باشعور" دوست پہ سو پھبتیاں کسیں

"رندی" کو "فہم" خانہ خرابی " کو " طِب" کہا

ماضی کے قیس آج کے ہم دونوں سادہ لوح

اسٹیل اور فرائڈ کے کردار عام ہیں

یکتائے روزگار نہیں ہم میں ایک بھی

ہم لوگ صرف اپنی نظر میں امام ہیں

سب کچھ گنوا کے آج فقط یہ پتہ چلا

آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کہ دھوئیے

دنیا میں مے لقاؤں کی کوئی کمی نہیں

کس کس پہ جان دیجئے کس کس کو روئیے ٭٭٭

ساری محفِل لُطفِ بیاں پر جھُوم رہی ہے

دِل میں ہے جو شہرِ خموشاں کِس سے کہئیے

ساعتِ گُل کے دیکھنے والے آئے ہُوئے ہیں

شبنم تیرا گریۂ پنہاں کِس سے کہئیے

شام سے زخموں کی دُوکان سجائی ہوئی ہے

اپنا یہ انداز چراغاں کِس سے کہئیے

اَوجِ فضا پر تیز ہوا کا دم گھُٹتا ہے

وُسعت وُسعت تنگیِ زِنداں کِس سے کہئیے

٭٭٭






کِرَن

چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن

ایک ننھا سا دیا اب بھی ہے ہم راہ و نشاں

ایک ننھا سا دیا اور یہ شب کی یورش

اور یہ ابر کے طوفاں، یہ کُہرا، یہ دھُواں

لیکن اس ایک تصور سے نہ ہو افسردہ

ساعتیں اب بھی نیا جوش لئے بیٹھی ہیں

سنگِ رہ اور کئی آئیں گے لیکن آخر

منزلیں گرمیِ آغوش لئے بیٹھی ہیں

اک نئے عہد کی امید، نئی صبح کی ضو !!

اس اندھیرے سے اُبھرتے ہیں چراغاں کتنے

زیست کے جامۂ صد چاک کا ماتم کیسا !

زیرِ تخلیق ہیں خلّاق گریبَاں کتنے

چھُپ گئے رات کے دامن میں ستارے لیکن

یہ تری شُعلہ نوائی کا نیا دَور سہی !

عزمِ پرواز کی توہین سے مایوس نہ ہو

ایک بار اور سہی، اور سہی، اور سہی

٭٭٭






سپردگی کا یہ عالم

سپردگی کا یہ عالم کہ جیسے نغمہ و رنگ

ہوا، زمین،فضا، بے کراں، خَلا، آفاق

تمام عالَمِ روحانیاں، تمام حواس

پگھل کے حلقۂ یک آرزو میں ڈھل جائیں

ہر ایک پور میں گھُل جائیں سیکڑوں گرہیں

ہر ایک قطرۂ شبنم میں سوزِ قلزم ہو

رَچی ہُوئی ہے بدن میں لہو کی قوسِ قزح

یقین ہی نہیں آتا کہ جیسے یہ تم ہو !

اور ایک ہم ہیں، شکارِ ہزار اندیشہ

تمام کرب و تجسس، تمام وہم و گُمان

زباں پہ قفلِ طلسماتِ روز و شب ڈالے

خیال و خواب کی آہٹ سے چونکنے والے

کوئی رفیقِ جنوں، کوئی ساعتِ مرہم

روایتاً بھی نہ دیکھے ہماری سمت کہ ہم

ہزار مصلحتوں کو شمار کرتے ہیں

تب ایک زخمِ جگر اختیار کرتے ہیں

٭٭٭






شہناز (۴)

" خود کو تاراج کرو، زندگیاں کم کر لو

جتنا چاہو دلِ شوریدہ کا ماتم کر لو

تابِ وحشت کسی صحرا، کسی زنداں میں نہیں

اِس قدر چارہ گری وقت کے امکاں میں نہیں

خاطرِ جاں کے قرینے تو کہاں آئیں گے

صرف یہ ہو گا کہ احباب بچھڑ جائیں گے

گھر جو اُجڑے تو سنورتے نہیں دیکھے اب تک

ایسے ناسُور تو بھرتے نہیں دیکھے اب تک

٭٭٭






پرستیدم، شِکستم

پہلے مرے گیتوں میں

سرمئی نقابیں تھیں

چمپئی تبسُم تھے !

پہلے میرے نغموں پر

جھُومتی ہُوئی کلیاں

آنکھ کھول دیتی تھیں

انقلاب کی لَے پر

میری نظمیں بڑھتی تھیں

جیسے ریل کے پہیے

پٹریوں کے لوہے پر

فن کے گیت گاتے ہوں

میری نظم کے پیچھے

زندگی کی دھڑکن تھی

ماسکو کے گنبد تھے

چین کی چٹانیں تھیں

پیبلو نرودا کا

بے پناہ نغمہ تھا

بجلیوں کی عظمت تھی

آندھیوں کی قُوت تھی

آج میرے ہونٹوں سے

راگ یُوں اُبھرتے ہیں

جیسے ناؤ میں مانجھی

ڈُوبتی ہوئی لَے میں

ماہیا سُناتے ہیں

میری نظم گھائل ہے

میرے گیت روتے ہیں

اپنا حال دیکھ کر

ہارڈی کے ناول کے

لوگ یاد آتے ہیں

پہلے دل کے ساگر پر

جاگتی ہُوئی لہریں

جھُومتی ہُوئی کرنیں

ڈول ڈول جاتی تھیں

زندگی کے جھُولے پر

ٹہنیوں کے سائے سے

نکہتیں اُترتی تھیں

اب شدید گرمی میں

تاڑ کے درختوں پر

اِک مُہیب سناٹا

سائیں سائیں کرتا ہے

مُدتوں کا پروردہ

ایک نقش تھا دل پر

جس کو چند لمحوں نے

داستاں بنا ڈالا

رات بھر کوئی دل میں

کروٹیں بدلتا تھا

اِک چراغ بُجھتا تھا

اِک چراغ جلتا تھا

جُون کے مہینے کی

بے پناہ تنہائی

چیخ چیخ اُٹھتی تھی

بےکسی کے عالم میں

دوست یاد آتے تھے

ساتھ چلنے والوں کی

شکل یُوں اُبھرتی تھی

جیسے جیل کے اندر

آہنی سلاخوں سے

اک اُداس قیدی پر

چاندنی اُترتی ہے

اور یہ سبھی چہرے

اک دھُوئیں کے بادل میں

ڈوب ڈوب جاتے تھے

صرف ایک چہرہ تھا

جو کبھی نہیں ڈُوبا

جو کبھی نہیں بِکھرا

اور جو تصوُر میں

آنسوؤں کی چلمن سے

اِس طرح اُبھرتا تھا

جیسے گھر سے پہلی بار

اِک شریف کُنبے کی

نازنیں نکلتی ہے

صُبح دھُوپ چڑھنے پر

آنکھ آیسے کھُلتی تھی

جیسے نوکِ ناخُن سے

کوئی زخم چھِل جائے

دُودھ کے پیالے میں

جیسے ریت مل جائے

بےبسی میں بڑھتے تھے

یُوں اُمید کے سائے

جیسے کوئی میلے میں

راستہ بھٹک جائے

گرم گرم آنکھوں میں

پھانس سے کھٹکتی تھی

ایریل کے کھمبوں پر

رات سر پٹکتی تھی

اور پھِر وہ دن آیا

جب یہ جاگتی آنکھیں

اُس کو دیکھ سکتی تھیں

اُس کو دیکھ لینے پر

دل کی ایسی حالت تھی

جَیسے کوئی پردیسی

دُور کے سفر کے بعد

ایک سرد چشمے پر

ہاتھ پیر دھوتا ہے

لیکن اے غمِ آخر

صرف ایک لمحے کو

زندگی نہیں کہتے

اے تلاشِ لا حاصل

مُسکرا کے ملنے کو

دوستی نہیں کہتے

اے مِرے تصوُر کی

بے حجاب شہزادی

مجھ کو تیرے کانوں میں

ایک بات کہنی تھی

بات جس کے کہنے کو

میرے ہونٹ جلتے تھے

بات جس کے کہنے کو

میرا دِل سُلگتا تھا

اب فقط یہ کہنا ہے

جو چراغ سینے کی

آندھیوں میں جلتے ہیں

وُہ ذرا سی کوشش سے

جھلملا بھی سکتے ہیں

حوصلے کے آدمی

اپنے دل کے زخموں پر

مُسکرا بھی سکتے ہیں

بُت بنانے والے ہاتھ

فیصلے کے لمحوں میں

بُت گِرا بھی سکتے ہیں

٭٭٭






عدالت

خدائے قُدّوس کی بُزرگ اور عظیم پلکیں

زمیں کے چہرے پہ جھُک گئی ہَیں

زمین کی دُخترِ سعید اپنے آنسوؤں اور ہچکیوں میں

شفیق، ہمدرد باپ کی بارگاہ کا اک ستُون تھامے

گُنہ کا اقرار کر رہی ہے

ترے فرشتے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

ترے فرشتے کہ جن کی قسمت میں محض تسبیح و نَے نوازی

نہ سوزِ فطرت نہ دل گُدازی

یہ وُہ ہیں جن کے شریر اور بدمزاج بچوں

نے آسماں کے کئی ستاروں کو توڑ کر

اپنے ہات میں خُون کر دیا ہے

یہ وُہ ہیں جن کی غلام رُوحوں

نے صبح کے دیوتا کا مندر

سفید برفانی چوٹیوں کی بلندیوں سے ہٹا دیا ہے

اَگر یہی ہے گُنہ کہ جب

دیوتا کے تلووں پہ دربدر ٹھوکروں کی کثرت

سے آبلے پھُوٹنے لگے تھے

تو ایک معصوم بھولی بھالی حسین لڑکی نے اپنے گھر میں

اُسے بلایا تھا، اُس کے زخموں کو دھو کے مرہم لگا دیا تھا

اُسے محبت کی نرم، پاکیزہ لوریوں میں سُلا دیا تھا

تو پھر خُدایا

تری کنواری، سعید لڑکی

گناہ کا اعتراف کر کے

سزا کی حقدار ہو گئی ہے

٭٭٭






نہ کوئی مخملی تصویر نہ کوئی نغمہ (ترجمہ)

نہ کوئی مخملی تصویر، نہ کوئی نغمہ

میرے مفہُوم کو مفہُوم بنا سکتا ہے

اس لیئے، میں نے وُہ الفاظ چُنے ہیں، جن سے

میرے افکار، تعیش کی حدوں کے باہر

اِک نیا دائرۂ ذہن بنا سکتے ہوں

دائرہ، جس میں نہیں فِکر و نظر کا اُلجھاؤ

اَور آئیں گے ؛ اگر چاہو، تو تُم بھی آ جاؤ

٭٭٭






دیکھنا اہلِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی

دیکھنا اہلِ جنوں، ساعتِ جہد آ پُہنچی

اب کے توہینِ لبِ دار نہ ہونے پائے

اب کے کھُل جائیں خزانے نفَسِ سوزاں کے

اب کے محرومیِ اظہار نہ ہونے پائے

یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صَفِ اوّل میں

غیر کے ہات کی تلوار نہ ہونے پائے

یُوں تو ہر جوہرِ گُفتار بڑا وصف، مگر

وجہ بیماریِ کِردار نہ ہونے پائے

ایسے زخموں کی جراحت سے محبّت سیکھو

جِن کو مرہم سے سروکار نہ ہونے پائے

دشت میں خُونِ حُسین ابنِ علی بہہ جائے

بیعتِ حاکمِ کُفّار نہ ہونے پائے

یہ نئی نسل اس انداز سے نکلے سرِ رزم

کہ مؤرّخ سے گنہگار نہ ہونے پائے

٭٭٭






ناشناس (۱)

کِتنے لہجوں کی کٹاریں مری گردن پہ چلیں

کِتنے الفاظ کا سِیسہ مِرے کانوں میں گھُلا

جس میں اِک سَمت دھُندلکا تھا اَور اِک سَمت غُبار

اُس ترازو پہ مِرے درد کا سامان تُلا

کم نِگاہی نے بصیرت پہ اُٹھائے نیزے

جُوئے تقلِید میں پیراہنِ افکار دھُلا

قحط اَیسا تھا کہ برپا نہ ہوئی مجلسِ عِشق

حَبس ایسا تھا کہ تحقِیق کا پرچم نہ کھُلا

کون سے دیس میں رہتے ہیں وُہ مونِس جن کی

روز اِک بات سُناتے تھے سُنانے والے

ٹھوکروں میں ہے مَتاعِ دلِ ویراں کب سے

کیا ہُوئے غم کو سرآنکھوں پہ بِٹھانے والے

رات سُنسان ہے، بے نُور سِتارے مدّھم

کیا ہُوئے راہ میں پلکوں کو بچھانے والے

اَب تو وُہ دن بھی نہیں ہیں کہ مرے نام کے ساتھ

آپ کا نام بھی لیتے تھے زمانے والے

٭٭٭






طلِسم

بُجھ گیا ہے وُہ ستارہ جو مِری رُوح میں تھا

کھو گئی ہے وُہ حرارت جو تِری یاد میں تھی

وُہ نہیں عِشرتِ آسودگیِ منزِل میں

جو کسک جادۂ گُم گشتہ کی اُفتاد میں تھی

دُور اِک شمع لرزتی ہے پسِ پردۂ شب

اِک زمانہ تھا کہ یہ لَو مِری فریاد میں تھی

ایک لاوے کی دھمک آتی تھی کُہساروں سے

اِک قیامت کی تپش تیشۂ فرہاد میں تھی

ناسِخ ساعتِ اِمروز کہاں سے لائے

وُہ کہانی جو نظر بندیِ اجداد میں تھی ٭٭٭






دلِ رُسوا

وہی اک ہمدمِ دیرینہ رہا اپنا رفیق

جس کو ہم سوختہ تن، آبلہ پا کہتے تھے

جس کو اغیار سے حاصل ہوئی فقروں کی صلیب

شہر کے کتنے ہی کوچوں سے اٹھا اسکا جلوس

کتنے اخباروں نے تصویر اُتاری اس کی

اس کے درشن سے بنا کوئی رشی کوئی ادیب

اگلے وقتوں سے یہی رسم چلی آتی ہے

ہم نے چاہا تھا کہ دنیا کا مقدر بن جائے

خود ہمِیں ہو گئے برباد تو یہ اپنا نصیب

٭٭٭

ٹائپنگ: غزل جی

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔