02:08    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ انتخاب داغؔ

3316 0 0 00




یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں میں تیری فلک تیرا

یہاں بھی تو وہاں بھی تو زمیں میں تیری فلک تیرا

کہیں ہم نے پتہ پایا نہ ہر گز آج تک تیرا

صفات و ذات میں یکتا ہے تو اے واحد مطلق

نہ کوئی تیرا ثانی کوئی مشترک تیرا

جمال احمد و یوسف کو رونق تو نے بخشی ہے

ملاحت تجھ سے شیریں حسن شیریں میں نمک تیرا

ترے فیض و کرم سے نار و نور آپس میں یکدل ہیں

ثنا گر یک زبان ہر ایک ہے جن و ملک تیرا

کسی کو کیا خبر کیوں شر پیدا کئے تو نے

کہ جو کچھ ہے خدائ میں وہ ہے لاریب کئے تو نے

نہ جلتا طور کیونکر کس طرح موسی نہ غش کھاتے

کہاں یہ تاب و طاقت جلوہ دیکھئے مر دیک تیرا

دعا یہ ہے کہ وقت مرگ اسکی مشکل آساں ہو

زباں پر داغ کے نام آئے یا رب یک بہ یک تیرا

٭٭٭






تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا

تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا

یا نبی خوب ہوا خوب ہوا خوب ہوا

شب معراج یہ کہتے تھے فرشتے باہم

سخن طالب و مطلوب ہوا خواب ہوا

حشر میں امت عاصی کا ٹھکانا ہی نہ تھا

بخشوانا تجھے مر غوب ہوا خوب ہوا

تھا سبھی پیش نظر معرکہ کرب و بلا

صبر میں ثانی ایوب ہوا خوب ہوا

داغ ہے روز قیامت مری شرم اسکے ہاتھ

میں گناہوں سے جو محبوب ہوا خوب ہوا

٭٭٭






یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا

یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا

محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا

جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری

جب تک زباں ہے منہ میں‌جاری ہو نام تیرا

ایمان کی کہیں گے ایمان ہے ہمارا

احمد رسول تیرا مصحف کلام تیرا

ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی

اسفل مقام میرا اعلیٰ مقام تیرا

محروم کیوں‌رہوں میں جی بھر کے کیوں نہ لوں میں

دیتا ہے رزق سب کو ہے فیض عام تیرا

یہ ’’داغ‘‘ بھی نہ ہو گا تیرے سوا کسی کا

کونین میں‌ہے جو کچھ وہ ہے تمام تیرا

٭٭٭






ہماری آنکھوں نے بھی تماشا عجب عجب انتخاب دیکھا

ہماری آنکھوں نے بھی تماشا عجب عجب انتخاب دیکھا

برائی دیکھی ، بھلائی دیکھی ، عذاب دیکھا ، ثواب دیکھا

نہ دل ہی ٹھہرا ، نہ آنکھ جھپکی ، نہ چین پایا، نہ خواب آیا

خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستی میں عذاب دیکھا

نظر میں ہے تیری کبریائی، سما گئی تیری خود نمائی

اگر چہ دیکھی بہت خدائی ، مگر نہ تیرا جواب دیکھا

پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کلیم دیکھوں تو جب بھی خوش تھے

ہم اس کی آنکھوں کے صدقے جس نے وہ جلوہ یوں بے حجاب دیکھا

یہ دل تو اے عشق گھر ہے تیرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا

مکاں سے تالا دیکھا ، تجھی کو خانہ خراب دیکھا

جو تجھ کو پایا تو کچھ نہ پایا، یہ خاکداں ہم نے خاک پایا

جو تجھ کو دیکھا تو کچھ نہ دیکھا ، تمام عالم خراب دیکھا

٭٭٭






خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا

خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا

وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا

مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کی توبہ

لے لیا دوڑ کے جب سامنے ساغر آیا

غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے

نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا

سخت جانی سے مری جان بچے گی کب تک

ایک جب کُند ہوا دوسرا خنجر آیا

داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا

لے لیا عشق میں جو ہم کو میسر آیا

عشق تاثیر ہی کرتا ہے کہ اس کافر نے

جب مرا حال سنا سنتے ہی جی بھر آیا

اس قدر شاد ہوں گویا کہ ملی ہفت اقلیم

آئینہ ہاتھ میں آیا کہ سکندر آیا

وصل میں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا

اے فلک دیکھ تو یہ کون مرے گھر آیا

راہ میں وعدہ کریں جاؤں میں گھر پر تو کہیں

کون ہے، کس نے بلایا اسے، کیونکر آیا

داغ کے نام سے نفرت ہے، وہ جل جاتے ہیں

ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آیا

٭٭٭






اب دل ہے مقام بے کسی کا

اب دل ہے مقام بے کسی کا

یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا

کس کس کو مزا ہے عاشقی کا

تم نام تو لو بھلا کسی کا

پھر دیکھتے ہیں عیش آدمی کا

بنتا جو فلک میر خوشی کا

گلشن میں ترے لبوں نے گویا

رس چوم لیا کلی کلی کا

لیتے نہیں بزم میں مرا نام

کہتے ہیں خیال ہے کسی کا

جیتے ہیں کسی کی آس پر ہم

احسان ہے ایسی زندگی کا

بنتی ہے بری کبھی جو دل پر

کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا

ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں

منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا

اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں

کہنا نہیں مانتے کسی کا

ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے

منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت

سارا سودا ہے جیتے جی کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے

انجام اچھا ہو آدمی کا

روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت

آنا جانا کبھی کبھی کا

ایسے سے جو داگ نے نباہی

سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا

٭٭٭






کس نے کہا کہ داغ وفا دار مرگیا

کس نے کہا کہ داغ وفا دار مرگیا

وہ ہاتھ مل کے کہتے ہیں کیا یار مر گیا

دام بلائے عشق کی وہ کشمکش رہی

ایک اک پھڑک پھڑک کے گرفتار مرگیا

آنکھیں کھلی ہوئی پس مرگ اس لئے

جانے کوئی کہ طالب دیدار مرگیا

جس سے کیا ہے آپ نے اقرار جی گیا

جس نے سنا ہے آپ سے انکار مرگیا

کس بیکسی سے داغ نے افسوس جان دی

پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مرگیا

٭٭٭






دیکھو جو مسکراکے تم آغوش نقش پا

دیکھو جو مسکراکے تم آغوش نقش پا

گستاخیوں کرے لب خاموش نقش پا

پائی مرے سراغ سے دشمن نے راہ دوست

اے بیخودی مجھے نہ رہا ہوش نقش پا

میں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق

میری زباں سے حال سنے گوش نقش پا

آئے بھی وہ چلے بھی گئے مری راہ سے

میں نا مراد والہ و مدہوش نقش پا

یہ کون میرے کوچہ سے چھپ کر نکل گیا

خالی نہیں ہے فتنوں سے آغوش نقش پا

یہ داغ کی تو خاک نہیں کوئے یار میں

اک نشہ وصال ہے آغوش نقش پا

٭٭٭






یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

سن سن کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے

میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے

میرا یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

خط میں مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں

آخر میں یہ لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت

پوچھوں تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یہ خوب سمجھ لیجئے غمار وہی ہے

جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام

مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

مشتاق بہت ہیں مرے کہنے کے پر اے داغؔ

یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

٭٭٭






آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا

آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا

بو سے لینے کے لئے کعبے میں پتھر رکھ دیا

ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا

پھر کلیجا رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا

زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا

قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا

دیکھئے اب ٹھوکریں کھاتی ہے کس کس کی نگاہ

روزن دیوار میں ظالم نے پتھر رکھ دیا

زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈیں اسے

تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا

داغ کی شامت جو آئی اضطراب شوق میں

حال دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ دیا

٭٭٭






کیا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں

کیا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں

پھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا

محشر میں وہ نادم ہوں خدا یہ نہ دکھائے

آنکھوں نے کبھی اس کو پشیماں نہیں دیکھا

ہر چند ترے ظلم کی کچھ حد نہیں ظالم

پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں رکھا

ملتا نہیں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا

تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہیں دیکھا

لو اور سنو کہتے ہیں وہ دیکھ کے مجھ کو

جو حال سنا تھا وہ پریشان نہیں دیکھا

کیا پوچھتے ہو کون ہے یہ کسی کی ہے شہرت

کیا تم نے کبھی داغ کا دیوان نہیں دیکھا

٭٭٭






محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

محبت میں کرے کیا کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا

کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو

یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا

چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر

چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی ہے ہو نہیں سکتا

نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا

پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا

ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کر کے

اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا

خدا جب دوست ہے اے داغ کیا دشمن سے اندیشہ

ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا

٭٭٭






لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا

لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا

ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا

تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے

کس کے اجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا

اپنی آنکھوں میں کوند گئی بجلی سی

ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا

٭٭٭

دل کے نالوں سے جگر دکھنے لگا

یاں تلک روئے کہ سر دکھنے لگا

دور تھی از بسکہ راہِ انتظار

تھک کے ہر پائے نظر دکھنے لگا

روتے روتے چشم کا ہر گوشہ یاں

تجھ بن اے نور بصر دکھنے لگا

درد یہ ہے ہاتھ اگر رکھا ادھر

واں سے تب سرکا ادہار دکھنے لگا

مت کراہ انشا نہ کر افشائے راز

دل کو دکھنے دے اگر دکھنے لگا

ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا

تمھیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا

ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا

ذرا رہے پاس آبرو بھی نہیں ہماری ہنسی نہ کرنا

کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں یہ رسمیں

وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا

نہیں ہے کچھ قتل انکا آساں یہ سخت جاں ہیں بری بلا کے

قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا

مری تو ہے بات زہر ان کو وہ ان کے مطلب ہی کی نہ کیوں ہو

کہ ان سے جو التجا سے کہنا غضب ہے ان کو وہی نہ کرنا

وہ ہے ہمارا طریق الفت کہ دشمنوں سے بھی مل کے چلنا

یہ ایک شیوہ ترا ستمگر کہ دوست سے دوستی نہ کرنا

ہم ایک رستہ گلی کا اس کی دکھا کے اس کو ہوئے پشیماں

یہ حضرت خضر کو جتا دو کسی کی تم رہبری نہ کرنا

بیاں درد فراق کیا کہ ہے وہاں اپنی یہ حقیقت

جو بات کرنی تو نالہ کرنا نہیں تو وہ بھی کبھی نہ کرنا

مدار ہے ناصحو تمھی پر تمام اب اس کی منصفی کا

زرا تو کہنا خدا لگی بھی فقط سخن پروری نہ کرنا

٭٭٭






خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں

اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ

ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں

لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر

مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا

گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا

ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے

اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

٭٭٭






بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں

بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں

ہم بھی دیکھیں تو اسے دیکھ کے کیا کہتے ہیں

ہم تصور میں بھی جو بات ذرا کہتے ہیں

سب میں اڑ جاتی ہے ظالم اسے کیا کہتے ہیں

جو بھلے ہیں وہ بروں کو بھی بھلا کہتے ہیں

نہ برا سنتے ہیں اچھے نہ برا کہتے ہیں

وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ دیں گے

غیر کا حال جو پوچھا تو کہا کہتے ہیں

نہیں ملتا کسی مضمون سے ہمارا مضمون

طرز اپنی ہے جدا سب سے جدا کہتے ہیں

پہلے تو داغ کی تعریف ہوا کرتی تھی

اب خدا جانے وہ کیوں اس کو برا کہتے ہیں

٭٭٭






کعبے کی سمت جا کے مرا دھیان پھر گیا

کعبے کی سمت جا کے مرا دھیان پھر گیا

اس بت کو دیکھتے ہی بس ایمان پھر گیا

محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا

تو جان لے یہ باتھ سے میرا پھر گیا

چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر

سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گیا

رونق جو آ گئی پسینے سے موت کے

پانی ترے مریض پر اک آن پھر گیا

گریے نے ایک دم میں بنا دی وہ گھر کی شکل

میری نظر میں صاف بیابان پھر گیا

لائے تھے کوئے یار سے ہم داغ کو ابھی

لو اس کی موت آئی وہ نادان پھر گیا

٭٭٭






غضب کیا تیرے وعدے کا اعتبار کیا

غضب کیا تیرے وعدے کا اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا

مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا

وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال اندیش

انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا

نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا

صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا

تری نگاہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل

لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا

ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا

کہ آسماں نے ترا شیوہ اختیار کیا

نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں

وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا

وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے

ستم کیا تو بڑا تو نے افتخار کیا

٭٭٭






زباں ہلاؤ تو ہو جائے فیصلہ دل کا

زباں ہلاؤ تو ہو جائے فیصلہ دل کا

اب آ چکا ہے لبوں پر معاملہ دل کا

خدا کے واسطے کر لو معاملہ دل کا

کہ گھر کے گھر ہی میں ہو جائے فیصلہ دل کا

تم اپنے ساتھ ہی تصویر اپنی لے جاؤ

نکال لیں گے کوئی اور مشغلہ دل کا

قصور تیری نگہ کا ہے کیا خطا اس کی

لگاوٹوں نے بڑھا یا ہے حوصلہ دل کا

شباب آتے ہی اسے کاش موت بھی آتی

ابھارتا ہے اسی سن میں ولولہ دل کا

جو منصفی ہے جہاں میں تو منصفی تیری

اگر معاملہ ہے تو معاملہ دل کا

ملی بھی ہے کبھی عاشقی کی داد دنیا میں

ہوا بھی ہے کبھی کم بخت فیصلہ دل کا

ہماری آنکھ میں بھی اشک گرم ایسے ہیں

کہ جن کے آگے بھرے پانی آبلہ دل کا

ہوا نہ اس سے کوئی اور کانوں کان خبر

الگ الگ ہی رہا سب معاملہ دل کا

اگر چہ جان پہ بن بن گئی محبت میں

کسی کے منہ پر نہ رکھا غلہ دل کا

ازل سے تا بہ ابد عشق ہے اس کے لئے

ترے مٹائے مٹے گا نہ سلسلہ دل کا

کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے

وہی بتوں کی شکایت وہی گلہ دل کا

٭٭٭






بنتی ہے بری کبھی جو دل پر

بنتی ہے بری کبھی جو دل پر

کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا

ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں

منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا

اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں

کہنا نہیں مانتے کسی کا

ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے

منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت

سارا سودا ہے جیتے جی کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے

انجام اچھا ہو آدمی کا

روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت

آنا جانا کبھی کبھی کا

ایسے سے جو داغ نے نباہی

سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا

٭٭٭






تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں

یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا

وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے

تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا

رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا

مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا

نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت

تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا

تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق

کہو، وہ تذکرۂ نا تمام کس کا تھا

گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں

خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا

ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا

یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا

عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا

کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

نہ مزہ ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں

کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا

یہ مزہ تھا دل لگی کا، کہ برابر آگ لگتی

نہ تمھیں قرار ہوتا، نہ ہمیں قرار ہوتا

ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے

مگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا

٭٭٭






حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں

حضرت دل آپ ہیں جس دھیان میں

مر گئے لاکھوں اسی ارمان میں

گر فرشتہ وش ہوا کوئی تو کیا

آدمیت چاہئے انسان میں

جس نے دل کھویا اسی کو کچھ ملا

فائدہ دیکھا ۔ اسی نقصان میں

کسی نے ملنے کا کیا وعدہ ۔ کہ داغ

آج ہو تم اور ہی سامان میں






عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں

باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں

منتظر ہیں دمِ رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں

پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں

سر اٹھاؤ تو سہی آنکھ ملاؤ تو سہی

نشۂ مے بھی نہیں نیند کے ماتے بھی نہیں

کیا کہا؟، پھر تو کہو، ’’ہم نہیں سنتے تیری’’

نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

مجھ سے لاغر تری آنکھوں میں کھٹکتے تو رہے

تجھ سے نازک مری نظروں میں سماتے بھی نہیں

دیکھتے ہی مجھے محفل میں یہ ارشاد ہوا

کون بیٹھا ہے اسے لوگ اٹھاتے بھی نہیں

ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں

جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو؟

جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں

٭٭٭






دل میں ہے غم و رنج و الم ۔ حرص و ہوا بند

دل میں ہے غم و رنج و الم ۔ حرص و ہوا بند

دنیا میں مخمس کا ہمارے نہ کھلا بند

موقوف نہیں دام و قفس پر ہی اسیری

ہر غم میں گرفتار ہوں ہر فکر میں پابند

اے حضرت دل !جائیے ۔ میرا بھی خدا ہے

بے آپ کے رہنے کا نہیں کام مرا بند

دم رکتے ہی سینہ سے نکل پڑتے ہیں آنسو

بارش کی علامت ہے جو ہوتی ہے ہوا بند

کہتے تھے ہم ۔ اے داغ وہ کوچہ ہے خطرناک

چھپ چھپ کے مگر آپ کا جانا نہ ہوا بند

جہاں تیرے جلوہ سے معمور نکلا

پڑی آنکھ جس کوہ پر طور نکلا

یہ سمجھے تھے ہم ایک چرکہ ہے دل پر

دبا کر جو دیکھا ۔ تو ناسور نکلا

نہ نکلا کوئی بات کا اپنی پورا

مگر ایک نکلا تو منصور نکلا

وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے

نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا

سمجھتے تھے ہم داغ گمنام ہو گا

مگر وہ تو عالم میں مشہور نکلا

٭٭٭






وہ زمانہ نظر نہیں آتا

وہ زمانہ نظر نہیں آتا

کچھ ٹھکانہ نظر نہیں آتا

دل نے اس بزم میں بٹھا تو دیا

اٹھ کے جانا نظر نہیں آتا

رہئے مشتاق جلوہ دیدار

ہم نے مانا نظر نہیں آتا

لے چلو مجھکو رہروان عدم

یہاں ٹھکانہ نظر نہیں آتا

دل پر آرزو لٹا اے داغ

وہ خزانہ نظر نہیں آتا

٭٭٭






کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا

سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے

پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا

میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے

کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے

ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے

جانبر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان

کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر

کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے

وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا

یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے

فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے

دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے

قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح

چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے

جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال

تشویش ایک خاطرِ نا مہرباں کی ہے

سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا

ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے

دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا

خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے

ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار

کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے

کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر

موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے

تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں

تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

٭٭٭






مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ

مانندِ گل ہیں‌ میرے جگر میں‌ چراغِ داغ

پروانے دیکھتے ہیں تماشائے باغِ داغ

مرگِ عدو سے آپ کے دل میں چھپُا نہ ہو

میرے جگر میں اب نہیں ملتا سراغِ داغ

دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ

اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ

تاریکیِ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف

روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ

مولا نے اپنے فضل و کرم سے بچا لیا

رہتا وگرنہ ایک زمانے کو داغِ داغ

٭٭٭






ناروا کہیے ناسزا کہیے

ناروا کہیے ناسزا کہیے

کہیے کہیے مجھے برا کہیے

تجھ کو بد عہد و بے وفا کہیے

ایسے جھوٹے کو اور کیا کہیے

پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے

ایک کے بعد دوسرا کہیے

آپ اب میرا منہ نہ کھلوائیں

یہ نہ کہیے کہ مدّعا کہیے

وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں

مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے

دل میں رکھنے کی بات ہے غمِ عشق

اس کو ہرگز نہ برملا کہیے

تجھ کو اچھا کہا ہے کس کس نے

کہنے والوں کو اور کیا کہیے

وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی

حالِ دل سب سے جابجا کہیے

مجھ کو کہیے برا نہ غیر کے ساتھ

جو ہو کہنا جدا جدا کہیے

انتہا عشق کی خدا جانے

دمِ آخر کو ابتدا کہیے

میرے مطلب سے کیا غرض مطلب

آپ اپنا تو مدّعا کہیے

صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے

پر اسے دیر آشنا کہیے

آ گئی آپ کو مسیحائی

مرنے والوں کو مرحبا کہیے

آپ کا خیر خواہ میرے سوا

ہے کوئی اور دوسرا کہیے

ہاتھ رکھ کر وہ اپنے کانوں پر

مجھ سے کہتے ہیں ماجرا کہیے

ہوش جاتے رہے رقیبوں کے

داغ کو اور با وفا کہیے

٭٭٭






ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں

ناز والے نیاز کیا جانیں

کب کسی در کی جُبّہ سائی کی

شیخ صاحب نماز کیا جانیں

جو رہِ عشق میں قدم رکھیں

وہ نشیب و فراز کیا جانیں

پوچھئے مے کشوں سے لطفِ شراب

یہ مزہ پاک باز کیا جانیں

حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں

لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں

٭٭٭






لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی، بانکپن، اغماز، شرارت، شوخی

تُو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ

آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم

خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے

تم نہیں جانتے اب تک یہ تمھارے انداز

وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے

داغِ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے

اس طرح کھینچ کہ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے

٭٭٭






کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں

کیوں چراتے ہو دیکھ کر آنکھیں

کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں

چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم

تم دکھا دو جو اک نظر آنکھیں

ہے دوا انکی آتشِ رخسار

سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں

کوئی آسان ہے تیرا دیدار

پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں

جلوۂ یار کی نہ تاب ہوئی

ٹوٹ آئیں ہیں کس قدر آنکھیں

دل کو تو گھوَنٹ گھوَنٹ کر رکھا

مانتی ہی نہیں مگر آنکھیں

نہ گئی تاک جھانک کی عادت

لئے پھرتی ہیں در بہ در آنکھیں






ناوک و نیشتر تری پلکیں

ناوک و نیشتر تری پلکیں

سحرِ پرداز و فتنہ گر آنکھیں

یہ نرالا ہے شرم کا انداز

بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں

خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا

ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں

نوحہ گر کون ہے مقدر میں

رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں

یہی رونا ہے گر شبِ غم کا

پھوٹ جائیں گی تا سحر آنکھیں

حالَ دل دیکھنا نہیں آتا

دل کی بنوائیں چارہ گر آنکھیں

داغ آنکھیں نکالتے ہیں وہ

انکو دے دو نکال کر آنکھیں

٭٭٭






دیکھتا جا ادھر او قہر سے ڈرنے والے

دیکھتا جا ادھر او قہر سے ڈرنے والے

نیچے نظریں کیے محشر میں گذرنے والے

راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گذرنے والے

ہم تو جاتے ہیں، ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے

قلزمِ عشق سے اے خضر! ہمیں خوف نہیں

بیٹھ کر تہ میں ابھرتے ہیں ابھرنے والے

اس گذر گاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک

جیسے گذرے گی گذاریں گے گذرنے والے

منہ نہ پھیرا جگر و دل نے صفِ مژگاں سے

سچ تو یہ، وہ بھی برے ہوتے ہیں مرنے والے

ہو کے لبریز نہ چھلکے گا مرا ساغرِ دل

میکدے سو ہوں اگر لاکھ ہوں بھرنے والے

ایک تو حسن بلا، اس پہ بناوٹ آفت

گھر بگاڑیں گے ہزاروں کے سنورنے والے

کیا جہانِ گذَراں میں بھی لگے ہے گذری

مول لے جاتے ہیں غم یاں سے گذرنے والے

قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے

آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے

تیرے گیسوئے پریشان نہ کریں سودائی

سر نہ ہو جائیں کسی کے یہ بکھرنے والے

آہ کے ساتھ فلک سے یہ ندائیں آئیں

جل گئے سایۂ طوبیٰ میں ٹھہرنے والے

حشر میں لطف ہو جب ان سے ہوں دو دو باتیں

وہ کہیں، کون ہو تم؟ ہم کہیں، مرنے والے

کشتیِ نوح سے بھی کود پڑوں طوفاں میں

دیں سہارا جو مجھے پار اترنے والے

خوش نوائی نے رکھا ہم کو اسیر اے صیّاد!

ہم سے اچھے رہے صدقے میں اترنے والے

کیا تری کاکلِ شب گُوں کی بلائیں لیں گے

بوالہوس تیرگیِ بخت سے ڈرنے والے

ہے وہی قہر، وہی جبر، وہی کبر و غرور

بت خدا ہیں مگر انصاف نہ کرنے والے

غسل میت کی شہیدوں کو ترے کیا حاجت

بے نہائے بھی نکھرتے ہیں نکھرنے والے

حضرتِ داغؔ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے

اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے

٭٭٭






اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا

اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا

یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانہ دل کا

تم بھی چوم لو ، بے ساختہ پیار آ جائے

میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانہ دل کا

ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ

ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا

پوری مہندی بھی لگانی نہیں آئی اب تک

کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا

حور کی شکل ہو تم، نور کے پتلے ہو تم

اور اس پر تمہیں آتا ہے جلانا دل کا

بعد مدت کے یہ اے داغ سمجھ میں آیا

وہی دانا ہے، کہا جس نے نہ مانا دل کا

٭٭٭






سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

دل سے سب کچھ بھلا دیا تو نے

لاکھ دینے کا ایک دینا ہے

دلِ بے مُدّعا دیا تو نے

بے طلب جو ملا، ملا مجھ کو

بے غرض جو دیا، دیا تو نے

کہیں مشتاق سے حجاب ہوا

کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے

مٹ گئے دل سے نقشِ باطل سب

نقش اپنا جما دیا تو نے

مجھ گناہگار کو جو بخش دیا

تو جہنم کو کیا دیا تو نے

داغ کو کون دینے والا تھا

اے خدا ! جو دیا، دیا تو نے

٭٭٭






ہائے دو دل جو کبھی مل کے جدا ہوتے ہیں

ہائے دو دل جو کبھی مل کے جدا ہوتے ہیں

نہیں‌معلوم وہ کیا کرتے ہیں‌کیا ہوتے ہیں

جی میں آئے تو کبھی فاتحہ دلوا دینا

آخری وقت ہے ہم تم سے جدا ہوتے ہیں

دیکھیں مسجد ہو کہ مے خانہ ہو پہلے آباد

دونوں دیوار بہ دیوار بنا ہوتے ہیں

دوست دشمن ہیں سبھی بزم میں‌ دیکھیں کیا ہو

کس سے خوش ہوتے ہیں وہ کس سے خفا ہوتے ہیں

پار ہوتی ہیں‌کلیجے سے نگاہیں اُن کی

قدر انداز کے کب تیر خطا ہوتے ہیں

٭٭٭






تو نے کی غیر سے کل میری بُرائی کیوں کر

تو نے کی غیر سے کل میری بُرائی کیوں کر

گر نہ تھی دل میں تو لب پر تیرے آئی کیوں کر

نہ کہوں گا نہ کہوں گا نہ کہوں گا ہر گز

جا کے اُس بزم میں شامت میری آئی کیوں ‌کر

کھُل گئی بات جب اُن کی تو وہ یہ پوچھتے ہیں

منہ سے نکلی ہوئی ہوتی ہے َپرائی کیوں‌کر

داد خواہوں سے وہ کہتے ہیں‌کہو ہم بھی تو سنیں

دو گے تم حشر میں سب مل کے دُہائی کیوں‌کر

وہ یہاں آئیں وہاں‌غیر کا گھر ہو برباد

اس طرح سے ہو صفائی میں‌صفائی کیوں‌کر

آئینہ دیکھ کے وہ کہنے لگے آپ ہی آپ

ایسے اچھے کی کرے کوئی بُرائی کیوں‌کر

اُس نے صدقے میں‌کیئے آج ہزاروں آزاد

دیکھئے ہوتی ہے عاشق کی رہائی کیوں کر

داغ کو مہر کہا اشک کو دریا تم نے

اور پھر کرتے ہیں چھوٹوں‌ کی برائی کیوں‌کر

داغ کل تک تو دعا آپ کی مقبول نہ تھی

آج منہ مانگی مراد آپ نے پائی کیوں‌ کر

٭٭٭






دنیا میں آدمی کو مصیبت کہاں‌ نہیں

دنیا میں آدمی کو مصیبت کہاں‌ نہیں

وہ کون سی زمیں ہے جہاں آسماں نہیں

کس طرح جان دینے کے اقرار سے پھروں

میری زبان ہے یہ تمہاری زباں نہیں

اے موت تو نے دیر لگائی ہے کس لیئے

عاشق کا امتحان ہے تیرا امتحان نہیں

تنہا بھی جب رہے تو وہ رہتے ہیں‌ہوشیار

خود اپنے پاسباں‌ ہیں اگر پاسباں نہیں

ایسا خط اُن کو راہ میں‌ ملتا ہے روز ایک

جس میں‌کسی کا نام کسی کا نشاں نہیں

٭٭٭






گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے

گر ہو سلوک کرنا انسان کر کے بھولے

احسان کا مزا ہے احسان کر کے بھولے

نشتر سے کم نہیں ہے کچھ چھیڑ آرزو کی

عاشق مزاج کیوں کر ارمان کر کے بھولے

وعدہ کیا پھر اُس پر تم نے قسم بھی کھائی

کیا بھول ہے انساں پیمان کر کے بھولے

وعدے کی شب رہا ہے کیا انتظار مجھ کو

آنے کا وہ یہاں تک سامان کر کے بھولے

اپنے کئے پہ نازاں ہو آدمی نہ ہر گز

طاعت ہو یا اطاعت انسان کر کے بھولے

خود ہی مجھے بلایا پھر بات بھی نہ پوچھی

وہ انجمن میں اپنی مہمان کر کے بھولے

یہ بھول بھی ہماری ہے یادگار دیکھو

دل دے کے مفت اپنا نقصان کر کے بھولے

تم سے وفا جو کی ہے ہم سے خطا ہوئی ہے

ایسا قصور کیوں کر انسان کر کے بھولے

آخر تو آدمی تھے نسیان کیوں نہ ہوتا

میری شناخت شب کو دربان کرے بھولے

اب یاد ہے اُسی کی فریاد ہے اُسی کی

سارے جہاں کو جس کا ہم دھیان کر کے بھولے

اب عشق کا صحیفہ یوں دل سے مٹ گیا ہے

جس طرح یاد کوئی قرآن کر کے بھولے

اے داغ اپنا احساں رکھے گا یاد قاتل

وہ اور میری مشکل آسان کر کے بھولے

٭٭٭






حسن کی تم پر حکومت ہو گئی

حسن کی تم پر حکومت ہو گئی

ضبط آنکھوں کی مرّوت ہو گئی

یہ نہ پوچھو کیوں یہ حالت ہو گئی

خود بدولت کی بدولت ہو گئی

لے گئے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہ دل

ہوشیاری اپنی غفلت ہو گئی

وہ جو تجھ سے دوستی کرنے لگا

مجھ کو دشمن سےمحبت ہو گئی

اس قدر بھی سادگی اچھی نہیں

عاشقوں کی پاک نیت ہو گئی

مان کر دل کا کہا پچھتائے ہم

عمر بھر کو اب نصیحت ہو گئی

کیا عجب ہے گر ترا ثانی نہیں

اچھی صورت ایک صورت ہو گئی

غیر بھی روتے ہیں تیرے عشق میں

کیا مری قسمت کی قسمت ہو گئی

اس کی مژگاں پر ہوا قربان دل

تیر تکّوں پر قناعت ہو گئی

جب ریاست اپنی آبائی مٹی

نوکری کی ہم کو حاجت ہو گئی

شاعروں کی بھی طبیعت ہے ولی

جو نئی سوجھی کرامت ہو گئی

تیری زلفوں کا اثر تجھ پر نہیں

دیکھتے ہی مجھ کو وحشت ہو گئی

کھیل سمجھے تھے لڑکپن کو تیرے

بیٹھتے اٹھتے قیامت ہو گئی

مفت پیتے ہیں وہ ہر قسم کی

جن کو مے خانے کی خدمت ہو گئی

میرے دل سے غم ترا کیوں‌دور ہو

پاس رہنے کی محبت ہو گئی

کہتے ہیں کب تک کوئی گھبرا نہ جائے

دل میں رہتے رہتے مدت ہو گئی

نقشہ بگڑا رہتے رہتے غصّہ ناک

کٹ کھنی قاتل کی صورت ہو گئی

داغ کا دم ہے غنیمت بزم میں

دو گھڑی کو گرم محبت ہو گئی

٭٭٭






یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں‌کہتا

یہ قول کسی کا ہے کہ میں کچھ نہیں‌کہتا

وہ کچھ نہیں کہتا ہے کہ میں‌کچھ نہیں‌کہتا

سُن سُن کے تیرے عشق میں اغیار کے طعنے

میرا ہی کلیجا ہے کہ میں‌کچھ نہیں‌کہتا

اُن کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں‌سنتے

میرا یہی کہنا ہے کہ میں‌کچھ نہیں‌کہتا

خط میں وہ مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں

آخر میں‌لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں‌کہتا

پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت

پوچھو تو یہ کہتا ہے کہ میں‌کچھ نہیں کہتا

یہ خوب سمجھ لیجئے غماّز وہی ہے

جو آپ سے کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں‌کہتا

تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام

مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں‌کہتا

مشتاق بہت ہیں مرے کہنے کے پر اے داغ

یہ وقت ہی ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

٭٭٭






مہرباں ہو کے جب ملیں گے آپ

مہرباں ہو کے جب ملیں گے آپ

جو نہ ملتے تھے سب ملیں گے آپ

آپ کیوں‌خاک میں‌ملاتے ہیں

ہم مصیبت طلب ملیں گے آپ

کارواں کی تلاش کیا اے دل

آ کے منزل پہ سب ملیں گے آپ

ایک تو وعدہ اور اُس پہ قسم

یہ یقیں ہے کہ اب ملیں‌گے آپ

داغ اک آدمی ہے گرما گرم

خوش بہت ہوں گے جب ملیں گے آپ

٭٭٭






ستم ہے کرنا جفا ہے کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا

ستم ہے کرنا جفا ہے کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا

تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں‌کمی نہ کرنا

ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا

ذرا رہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا

کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں‌ یہ رسمیں

وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا

لیئے تو چلتے ہیں‌حضرت دل تمہیں بھی اس انجمن میں‌لیکن

ہمارے پہلو میں‌بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا

نہیں ہے کچھ قتل انکا آسان یہ سخت جان ہیں‌ بڑے بلا کے

قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنے خوشی نہ کرنا

٭٭٭






تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا

تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا

دل ملا کر مجھ ہی سے ملنا تھا

پوچھتے کیا ہو کیوں لگائی دیر

اک نئے آدمی سے ملنا تھا

مل کے غیروں سے بزم میں یہ کہا

مجھ کو آ کر سبھی سے ملنا تھا

عید کو بھی خفا خفا ہی رہے

آج کے دن خوشی سے ملنا تھا

آپ کا مجھ سے جی نہیں‌ملتا

اس محبت پہ جی سے ملنا تھا

تم تو اُکھڑے رہے تمہیں اے داغ

ہر طرح مدّعی سے ملنا تھا

٭٭٭






سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا

سبب کھلا یہ ہمیں اُن کے منہ چھپانے کا

اڑا نہ لے کوئی انداز مسکرانے کا

طریق خوب ہے یہ عمر کے بڑھانے کا

کہ منتظر رہوں‌ تا حشر اُن کے آنے کا

چڑھاؤ پھول میری قبر پر جو آئے ہو

کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا

جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ

گیا تو پھر یہ نہیں میرے ہاتھ آنے کا

سمائیں اپنی نگاہوں میں ایسے ویسے کیا

رقیب ہی سہی ہو آدمی ٹھکانے کا

تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ

نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا

٭٭٭






بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تَن کے بیٹھے ہیں

بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تَن کے بیٹھے ہیں

کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بَن کے بیٹھے ہیں

دلوں‌ پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں

کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں

الٰہی کیوں نہیں‌ اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے

ہمارے سامنے پہلو میں‌ وہ دُشمن کے بیٹھے ہیں

یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں‌ ہے اے دلِ ناداں

ابھی پھر سے روٹھ جائیں‌ گے ابھی وہ مَن کے بیٹھے ہیں

اثر ہے جذب الفت میں تو کھنچ کر آ ہی جائیں گے

ہمیں‌ پرواہ نہیں ہم سے اگر وہ تَن کے بیٹھے ہیں

سبک ہو جائیں گے گر جائیں‌گے وہ بزمِ دشمن میں

کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں تو لاکھوں مَن کے بیٹھے ہیں

فسوں ہے یا دعا ہے یہ معّما کھُل نہیں سکتا

وہ کچھ پڑھتے ہوئے ، آگے میرے مدفن کے بیٹھے ہیں

بہت رویا ہوں میں‌جب سے یہ میں‌ نے خواب دیکھا ہے

کہ آپ آنسو بہائے سامنے دُشمن کے بیٹھے ہیں

یہ اُٹھنا بیٹھنا محفل میں اُن کا رنگ لائے گا

قیامت بن کے اُٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں

کسی کی شامت آئیگی کسی کی جان جائیگی

کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

قسم دے کر اُنہیں سے پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اُس کے

تمہاری بزم میں‌ کچھ دوست بھی دُشمن کے بیٹھے ہیں

٭٭٭






تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا

تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا

تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا

جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو

اور میں جان سے بیزار یہ کیا

پاؤں‌ پر اُنکے گِرا میں‌ تو کہا

دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا

تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں

سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا

کیوں مرے قتل سے انکار یہ کیوں

اسقدر ہے تمہیں دشوار یہ کیا

سر اُڑاتے ہیں وہ تلواروں سے

کوئی کہتا نہیں سرکار یہ کیا

ہاتھ آتی ہے متاعِ الفت

ہاتھ ملتے ہیں خریدار یہ کیا

خوبیاں کل تو بیاں ہوتی تھیں

آج ہے شکوۂ اغیار یہ کیا

وحشتِ دل کے سوا اُلفت میں

اور ہیں سینکڑوں آزار یہ کیا

ضعف رخصت نہیں دیتا افسوس

سامنے ہے درِ دلدار یہ کیا

باتیں سنیے تو پھڑک جائیے گا

گرم ہیں‌ داغ کے اشعار یہ کیا

٭٭٭

ٹائپنگ: مختلف انٹر نیٹ اردو فورموں کے مختلف ارکان

تدوین، پروف ریڈنگ، ای بک: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔