جب سے جنگل کٹنے شروع ہوئے ہماری تو مصیبت ہی ہو گئی۔ جنگل میں شکار نہیں ملتا تو شیر اور بھڑیے گاؤں میں گھس آتے ہیں، جو ملا اسے ہی مار کر کھا جاتے ہیں، چاہے بچھڑا ملے، بھیڑ، بکری یا کتّا بلّی۔ ہمارے گاؤں میں پچھلے کئی دنوں میں بہت ساری اس طرح کی واردات ہو چکی ہے۔ رات میں چپکے سے شیر آیا اور ایک گائے کو مار کر کھا گیا۔ دوسرے دن ہمارے پڑوسی کی گائے کے بچھڑے کو کھا گیا۔ بھڑیے نے ایک رات ہمارے گاؤں کے سرپنچ کے کتّے تامی کو ہی کھا ڈالا۔ گاؤں والوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیا کہ شیر اور بھڑیے کسی دن کہیں آدمی کو نہ کھالیں اور آدم خور بن کر بڑا نقصان پہنچائیں ۔
گاؤں کے لوگ اس مسئلے کو لے کر سرپنچ کشن لال کے گھر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر سب اپنی اپنی ہی بولی بول رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا:’’ اس سال بارش کم ہوئی تمام تالاب سوکھ گئے۔‘‘ کوئی کہہ رہا تھا: ’’ جنگل میں اب درخت نہیں بچے ہیں ہم پکانے کے لیے لکڑیاں کہاں سے کاٹ کر لائیں ؟‘‘ وغیرہ۔
سرپنچ کشن لال نے تبھی بیچ میں کہا کہ :’’ پانی کی تلاش میں ہی شیر اور بھڑیے گاؤں میں آرہے ہیں اور جنگل میں درختوں کی لگاتار کٹائی ہونے سے چھوٹے چھوٹے جنگلی جانور گاؤں کی طرف آ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں ۔ شیر اور بھیڑیے کو شکار نہ ملنے کی وجہ سے وہ بھی گاؤں کی طرف رُخ کرتے ہیں ایسے حادثات کے ذمہ دار تو ہم ہی ہیں ۔‘‘
راہل دُکھی لہجے میں کہنے لگا:’’ شیر نے تو میری گائے کی بچھڑی کو ہی کھا گیا ہے سر پنچ صاحب کوئی علاج سوچیے۔‘‘
چرن سنگھ نے کہا:’’ رام کلا لوہار سے ایک جال بنوا لیتے ہیں اور شیر اور بھڑیے کو اس میں پھنسا لیتے ہیں تاکہ ہم سکھ کی سانس لے سکیں ۔‘‘
چرن سنگھ کی بات سب کو ٹھیک لگی۔ رام کلا لوہار نے کہا کہ :’’ ایساجال بناؤں گا کہ شیر ہو یا بھیڑیا، پیر رکھتے ہی پھنس جائیں گے۔‘‘ لوگوں نے کہا کہ یہ بھی طَے کر لیا جائے کہ شیر اور بھیڑیے کو پھنسانے کے لیے کیا کِیا جائے ؟ کوئی بھیڑ بکری جال کے پاس باندھنی پڑے گی تب ہی تو شیر یا بھیڑیا وہاں آئیں گے۔
’’ بکری میں دے دوں گا۔‘‘ سر کشن لال نے کہا۔
میں کھونٹے سے بندھی یہ سب سُن رہی تھی۔ میرے تو پیروں کے نیچے کی زمین کھسک گئی۔ میرا سر چکرانے لگا۔ مجھے سر پنچ کے اوپر غصہ آنے لگا۔ ٹامی نے اپنی جان دے کر میری جان بچائی تھی۔ وہ زور زور سے بھونکتا رہا۔ کسی نے دھیان ہی نہیں دیا۔آخر کار بھیڑیے نے اسی کو اپنا شکار بنا لیا۔
مُنّا بھی چار پائی پر بیٹھا لوگوں کی باتیں سُن رہا تھا۔ وہ بول پڑا :’’ میں اپنی بکری نہیں دوں گا۔ گاؤں میں کئی لوگوں کے یہاں کئی کئی بکریاں ہیں ۔ہم ہیں کیوں اپنی بکری دیں ؟‘‘… اُسے اِس طرح بیچ میں بولتا دیکھ کر کشن لال نے ڈانٹ کر کہا:’’ بچے اِس طرح بڑوں کے بیچ میں نہیں بولا کرتے۔‘‘
کئی لوگوں نے ایک ساتھ مڑ کر مُنّا کی طرف دیکھا وہ سب کو گھور رہا تھا۔
مجھے بہت اچھا لگا چلو کوئی تو ہے جو میرے بارے میں سوچتا ہے۔ میری جان میں جان آئی۔ مُنّا ضدی ہے، وہ میرے لیے کچھ بھی کر سکتاہے۔ ہمارے خاندان میں صرف تین جانور ہیں ۔ میری ماں، میری بہن چھوٹی اور مَیں … ماں کو جال کے پاس باندھا جائے گا تو شیر یا بھیڑیا کھا جائے گا۔ میری بہن چھوٹی ابھی بہت چھوٹی تھی وہ چارا کم کھاتی تھی۔ روز وہ ماں کا دودھ پیتی تھی۔ ماں کے بغیر وہ پل بھر نہیں رہے سکتی تھی اور دودھ کے بغیر تو اس کا زندہ رہنا ہی مشکل ہو جائے گا۔
اب صرف مَیں بچی تھی۔ رام کلا لوہار نے لوہے کا جال بنا دیا، گاؤں کے کنارے والے راستے پر باندھنے کے لیے مجھے لے کر گئے۔ مُنّا نے بہت ہائے توبہ کی،بہت رویا، گڑگڑایا لیکن اس کی بات کسی نے نہ سُنی مجھے ایک کھونٹے سے باندھ دیا گیا۔ میرے سامنے ہری ہری گھاس ڈال دی گئی ایک بالٹی میں میرے لیے پانی بھی رکھ دیا گیا۔ مَیں ڈری سہمی تھی، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مجھے اس جگہ کیوں باندھا گیا ہے مَیں نے چارا تو نہیں کھایا ہاں ! پانی تھوڑا سا پانی ضرور پِیا۔
سورج ڈوب چکا اور رات ہو چکی تھی جو بھی اس راستے سے گذرتا وہ یہی کہتا کہ سر پنچ کشن لال کی یہ بکری تو گئی جان سے۔ شیر اسے کھا جائے گا یا بھیڑیا چٹ کر جائے گا۔ چاروں طرف سناٹا چھانے لگا۔ میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ مجھے ماں کی یاد آنے لگی اور بہن چھوٹی کے ساتھ کھیلنا کودنا بھی یاد آنے لگا۔ میں سوچنے لگی ہائے! اب کیا ہو گا۔ جنگل سے طرح طرح کی ڈراونی آوازیں آ رہی تھیں مَیں نے رونا اور چلا نا چاہا پھر میں نے سوچا کہ کہیں میری آواز سُن کر شیر نہ آ جائے۔ اچانک کسی کا سایا نظر آنے لگا اور کوئی میری طرف بڑھنے لگا میں ڈر گئی لیکن کیا دیکھتی ہوں کہ وہ اُچھلو خرگوش ہے۔ اس نے مجھ کو بندھا دیکھا اور خود ہی دور بھاگ گیا۔ مَیں تھوڑی دیر تک اور کھڑی رہی اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔
رات اور گہری ہوتی گئی، مجھے بار بار ہر آہٹ پر یہ لگتا تھا کہ شیر اب آیا، شیر اب آیا۔ مجھے کسی کے دھیرے دھیرے چلنے کی آہٹ محسوس ہوئی۔ بس مَیں سمجھ گئی کہ اب میرا کام تمام ہو جائے گا سو مَیں نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کر لیں ۔ مجھے ایسا لگنے لگا کہ اب مجھے شیر یا بھیڑیا بس دبوچنے ہی والے ہیں اچانک کسی نے میرے گلے پر ہاتھ رکھا مَیں بہت زیادہ ڈر گئی اور کانپنے لگی۔ مَیں نے محسوس کیا کہ یہ ہاتھ تو بہت زیادہ نرم و ملائم بالکل مُنّا کے ہاتھ جیسا۔ ہاں ! یہ مُنّا ہی تھا اس نے میرے گلے کی رسّی کھول دی اور میرے کان میں کہا :’’ جا جلدی سے گھر کی طرف بھاگ جا۔‘‘
مَیں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور گھر کی طرف پوری رفتار سے دوڑنے لگی۔ ماں میرے بغیر زور زور سے مِمیا رہی تھی۔ مجھے واپس آیا ہوا دیکھ کر میری بہن چھوٹی خوشی سے اُچھلنے کودنے لگی۔ مجھے آج پتا چلا کہ مُنّا مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے اور وہ میرا سچا اور اچھا دوست ہے۔دوسرے دن پتا چلا کہ شیر اُدھر سے گذر رہا تھا جب اس نے بالٹی میں پانی دیکھا تو اس کو پینے کے لیے آگے بڑھا اور جال میں پھنس گیا لوگوں نے اُسے پکڑ کر چڑیا گھر بھجوا دیا۔ اس طرح مُنّا کی مجھ سے دوستی اور پیار کی وجہ سے میری جان بھی بچ گئی اور شیر بھی پکڑا گیا۔
٭٭٭