09:11    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1167 0 0 00

گوپال نے جھوٹ کیوں بولا

گوپال بہت پیارا بچہ ہے۔ اس کے ماں باپ اس سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ اس کی ہر مانگ پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے ہنس کر بات کرتے، نہ کبھی ڈانٹتے نہ پھٹکارتے۔ مارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب کبھی گوپال کوئی غلط کا م کرتا تو وہ اسے غلطی بتاتے اور لاڈ پیار سے اس کو سمجھاتے بجھاتے۔ ہاں ! کبھی کبھی مارنے کی نوبت آتی تو وہ مارنے کے بعد بہت زیادہ دکھی ہو جاتے۔ ان کا دکھ ان کے چہرے سے ظاہر ہو جاتا تھا۔ گوپال اپنے ماں باپ کو دکھ کی حالت میں دیکھ کر خود بھی دکھی ہو جاتا اور سوچنے لگتا کہ میری وجہ سے ماں باپ کو تکلیف پہنچی ہے۔

          آج وہ بہت زیادہ خوش تھا موسم میں معمولی گرمی تھی لیکن جلن اور گھٹن نہیں تھی۔ وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لیے اپنا بستہ ٹھیک ٹھاک کر رہا تھابستہ ٹھیک کرنے کے بعد وہ ڈرائنگ روم میں اپنے والد کے پاس گیا اور بولا:’’ ابو جان!آج اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد میں سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جانا چاہتا ہوں، مجھے بیس روپے چاہیے۔‘‘

          اس کے ابّا نے جیب سے بیس روپے نکالے اور گوپال کو دیتے ہوئے کہا کہ:’’ بیس روپے کیوں، کیا اتنا زیادہ ٹکٹ لگتا ہے۔؟‘‘

          گوپال یہ سُن کر ہڑبڑا گیا۔ بولا:’’ ہاں ! ابو جان۔‘‘

          گوپال روپے لے کر چل دیا لیکن وہ دل ہی دل میں پریشان پو رہا تھا۔ کیوں کہ اس نے اس کے ابا جان کو جھوٹ بولا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس کا جھوٹ پکڑا گیا تو کیا ہو گا؟

          گوپال کے گھر سے نکلتے ہی اُس کے ابا جان کو ذہنی دھکا لگا وہ جانتے تھے کہ گوپال نے جھوٹ بولا ہے۔ انھیں ڈر ہونے لگا کہ کہیں گوپال غلط صحبت میں تو نہیں پڑ گیا ہے؟

          سوچتے سوچتے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے، جوتے پہنے اور گوپال کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ تھوڑی دیر میں اُنھیں گوپال دکھائی دیا۔ وہ ایک پھل والے کی دکان سے پھل خرید رہا تھا۔ اس نے پھل خرید کر اپنے بستے میں ڈالے اور پھر چل دیا۔ گوپال کے والد کچھ سمجھ نہ سکے کہ گوپال نے پھل کیوں خریدا ہے۔ اب معاملہ اور زیادہ اُلجھ گیا تھا۔ وہ پھر گوپال کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ گوپال ایک گلی میں مڑ گیا اور ایک پُرانے مکان میں گھس گیا۔

          گوپال کے والد دَم سادھے کھڑے رہے، تھوڑی دیر میں گوپال مکان سے نکلا اور اپنی اسکول کو چل دیا۔ اس کے والد گھر واپس آ گئے وہ الجھن میں تھے کہ گوپال نے پھل کیوں خریدا ؟ اور وہ سیدھا اسکول میں جانے کی بجائے اُس پُرانے مکان میں کیوں گیا؟ وہ طرح طرح کے اندیشے کر رہے تھے کہ شام ہو گئی۔

          گوپال اسکول سے واپس آیا۔ تھکن کے آثار نمایاں تھے، وہ بھی حیران تھا کیوں کہ وہ تو سوئمنگ پول نہیں گیا تھا۔ وہ جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا تو سامنے اس کے والد صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔انھوں نے گوپال کو اپنے پاس بلایا اور صوفے پر بٹھا کر پوچھا:’’ کہو کیسا رہا آج کا دن؟ ‘‘ گوپال گھبرا اُٹھا اور بولا:’’ اچھا رہا پاپا۔‘‘

          اس کے والد نے کہا :’’ تم جلدی آ گئے کیا سوئمنگ پول نہیں گئے؟‘‘

          گوپال بولا:’’ ہاں پاپا! پلان بدل گیا تھا۔‘‘اس کے والد نے کہا:’’ لیکن تم نے تو وہاں کے ٹکٹ کے لیے بیس روپے لیے تھے، ٹکٹ کی فیس تو اتنی زیادہ نہیں ہوتی، تم نے جھوٹ بولا ہے سچ بتاؤ تم نے اُن بیس روپیوں کا کیا کِیا؟‘‘

          گوپال بولا:’’ ابو جان ! وہ… در…اصل… میرے… دوست کی امّی جان… بیمار تھیں ان کے پاس پیسے نہیں تھے …اور ڈاکٹر نے اُن کو سیب کھانے کے لیے کہا تھا اس لیے میں نے بیس روپے لے کر سیب خریدے اور ان کو لے جا کر دے دیے۔‘‘

          گوپال کے والد صاحب سمجھ گئے کہ وہ سچ بول رہا ہے وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ :’’دوسروں کی مدد کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، اگر تم سچ سچ بتاتے تو ہم اور بھی زیادہ رقم سے پھل فروٹ خرید کر لے جاتے اور دوا گولی وغیرہ کے لیے بھی اُن کی مدد کرتے۔‘‘

          گوپال نے کہا :’’ پاپا! میں ڈرا ہوا تھا کہ کہیں آپ منع نہ کر دیں ۔‘‘اس کے والد صاحب نے کہا کہ :’’ بیٹا! اچھے کام کے لیے ڈرنا کیسا؟ اگر کبھی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔‘‘ گوپال کا سر شرمندگی سے جھک گیا اور اس نے اپنے ماں باپ سے معافی مانگی۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔