01:43    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1901 1 0 05

ننّھا چوٗزہ

شبّو مرغی بڑے جتن سے اپنا ایک انڈہ بچا پائی تھی۔ کیوں کہ اُس کے سارے انڈے ناشتے میں کھا لیے گئے تھے۔ بے چاری شبّواُسے لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ بیس بائیس دن کی لمبی محنت کے بعد انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزہ باہر آ گیا۔ شبّو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔

          چوزہ تھا بڑا چنچل اور شریر … شبّو دانہ چگنے جب با ہر جانے لگی تو اس نے چوزے کو نصیحت کی کہ یہاں سے ہٹنا نہیں ۔ ماں جب باہر چلی گئی تو چوزہ گھر کا معاینہ کرنے لگا۔ اُسے سامنے چوہے کی بِل دکھائی دی۔ چو ہا ابھی ابھی گھوم پھِر کر واپس آیا تھا۔ اُس نے چوزے کو دیکھا تو للچا اُٹھا، اور دل ہی دل میں کہنے لگا:’’ ہائے ! اتنا پیارا چوزہ!‘‘ اس کے من میں کھوٹ آ گیا وہ سوچنے لگا، کاش! اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر مِل جائیں تو میں اپنا گدّا بنا کر سکون کی نیند سو سکوں ۔

          وہ چوزے سے بول اُٹھا:’’ پیارے چوزے مجھ سے دوستی کرو گے؟‘‘

          ’’ہاں ! ہاں !‘‘ چوزہ کہہ اُٹھا اور حیرت سے پوچھا:’’کیا تم مجھے اپنا دوست بناؤ گے؟‘‘

          ’’کیوں نہیں !‘‘چوہے نے جھٹ سے جواب دیا اور کہا کہ :’’ میں تمہیں دُنیا کی سیرکراؤں گا، مالکن کے کچن روم میں لے جا کر اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا۔‘‘

          ’’سچ مچ!‘‘ چوزہ چہک اُٹھا۔ اور چوہے کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گیا۔ چوہا ترکیب سوچنے لگا کہ کس طرح اِس کے پر کترے جائیں ۔ سو اُس نے کہا :’’دوست! میرے گھر نہیں آؤ گے؟‘‘

          چوزے نے کہا:’’کیوں نہیں ؟ دوستی کی ہے تو اُس کو نبھاؤں گا بھی۔‘‘اتنا کہہ کر چوزہ چوہے کی بِل میں گھسنے لگا، لیکن وہ اُس باریک سوراخ میں کہاں جا پاتا؟اُس کی گردن اُس میں پھن￿س گئی۔ چوہا فوراً اس کے نرم و ملائم اور ریشمی پر و ں کو کترنے لگا۔ چوزہ بولا :’’میرے دوست! مجھے بہت درد پو رہا ہے اور مجھ کو گھٹن محسوس ہو رہی ہے کہیں میرا دم نہ نکل جائے۔‘‘

          ’’میرے پیارے دوست! تھوڑا اور ٹھہرو میں بِل کا سوراخ بڑا کر رہا ہوں ‘‘چوہے نے چالاکی سے کہا۔

          تب ہی شبّو مرغی دانہ چُگ کر واپس  آ گئی، اپنے پیارے بچے کی گردن چوہے کی بِل میں پھنسی دیکھ کر کراہ اُٹھی اور فوراًاس کو باہر کھینچ لیا۔ اسی جھٹکے میں چوزے کا پر کترنے میں مصروف چوہا بھی بِل سے باہر آ گیا۔ شبّواس کے کرتوت کو سمجھ کر غصہ سے بپھر گئی۔ اس نے زور سے چوہے کو چونچ ماری کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی۔

          چوزہ اپنی بگڑی ہو ئی حالت دیکھ کر زور زور سے رونے لگا۔ کیوں کہ اس کی گردن کے پاس کے سارے پر صاف ہو گئے تھے۔ شبّو نے بڑے لاڈ سے اس کو کہا:’’ کوئی بات نہیں میرے لعل یہ بچپن کے پر ہیں کچھ دنوں کے بعد تمہارے دوسرے پر اُگ آئیں گے ‘‘۔ اور پھر سمجھایا کہ ’’تمہیں میری نصیحت یاد رکھنی چاہیے تھی نا!‘‘ ……

          ’’ہاں ! امّی جان!‘‘ چوزہ بہت شرمندہ ہوا۔

٭٭٭

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔