ہندوستان کا زوال اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب عظیم مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کا انتقال ہوا۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اس کے دونوں بیٹے اعظم اور معظم کے درمیان سلطنت کے حصول کے لیے جنگ شروع ہو گئی۔ اعظم مارا گیا اور معظم تخت نشین ہوا۔ تخت پر بیٹھے صرف پانچ سال گزرے تھے کہ معظم کا ذہنی توازن خراب ہو گیا اور وہ پاگل سا ہو گیا۔ اس کے بعد ہندوستان مستقل خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ راجوں ، مہاراجوں اور نوابوں کے درمیان اختلافات طویل ہوتے گئے اور حصول اقتدار کی کشمکش روز بروز بڑھتی گئی۔ ہندوستان کا دارالخلافہ دہلی کمزور پڑ چکا تھا۔ مہاراشٹر کے جاہل اور سخت جان دیہاتی کسان مرہٹے جب چاہتے دہلی آ کر شہر کو لوٹ لیتے اور قتل و غارت گری کرتے۔ ان حالات میں جبکہ ہندوستان کے لوگ آپس میں دست و گریباں تھے ۔ کس کو ہوش تھا کہ وہ دیکھے کہ انگریز ہندوستان میں کیا گل کھلا رہے ہیں ۔ انگریز جو کہ تجارت کے لئے پہلے سے موجود تھے حالات کا فائدہ اٹھا کر سیاست میں کود پڑے۔ اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ راجوں ، مہاراجوں اور نوابوں کی خوشامد کر کے اور کبھی ان کو امداد دے کر ایک دوسرے کے ساتھ لڑانا شروع کر دیا۔ کبھی وزیروں کو خرید کر ان سے بغاوت کرا دی۔ ہوتے ہوتے بالآخر انگریز نے ہندوستان کے حکمرانوں کو سازشیں کر کے اور آپس میں لڑا لڑا کر کافی کمزور کر دیا اور ساتھ ہی یہ اندازہ بھی لگا لیا کہ ہندوستان کی فوجوں کے پاس اسلحہ زیادہ جدید نہیں ہے اور نہ ہی ان میں اب نظم و ضبط رہا ہے۔ سپاہی بہادر ہیں مگر راہنما کمزور ہیں ۔ ہندوستانیوں نے آپس کے اختلافات اتنے بڑھائے ہیں کہ اب متحد نہیں ہو سکتے۔ ان کو سازشوں کے ذریعے کمزور کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں انہیں ملک اور قوم کا خیال نہیں رہا۔ یہ اندازہ لگانے کے بعد انگریز کھل کر سامنے آ گیا اور کھلے بندوں لڑائیاں شروع کر دیں اور پے در پے شکستیں کھائیں ۔ ادھر دہلی کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر مرہٹے جب چاہتے منہ اٹھا کر دہلی کو لوٹنے آ جاتے ۔ اس کے علاوہ قتل و غارت گری الگ مچاتے۔ افغانستان کا حکمران احمد شاہ ابدالی ان حالات پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ اسے بڑا طیش آیا کچھ مسلمانوں نے بھی خط لکھ کر اس سے مدد مانگی تو وہ قہر خداوندی بن کر مرہٹوں پر آ نازل ہوا۔ پانی پت کے میدان میں اس نے مرہٹوں کو ایسا سبق سکھایا کہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ مسلمانوں کی خواہش تھی کہ دہلی کا تخت احمد شاہ ابدالی سنبھال لے اور ایک مرتبہ پھر ایک مضبوط اور متحدہ ریاست قائم ہو جائے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے وزیروں نے اس سے کہا کہ یہاں کی آب و ہوا ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ مغلوں کا سب سے پہلا بادشاہ جس نے ہندوستان میں مغل بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ ظہیر الدین محمد بابر بھی افغانستان سے ہی آیا تھا۔ دوسری طرف انگریز نے جب بار بار شکستوں کا منہ دیکھا تو اس کو اندازہ ہو گیا کہ ہم صرف میدان میں جنگ نہیں جیت سکتے۔ اس لیے اس نے چالبازی اور سازش کا ہتھیار استعمال کیا اور بڑی جدوجہد کے بعد ہندوستان پر قبضہ کر لیا ۔ انگریز کا اقتدار برصغیر کے عوام کے لیے بڑا ہی منحوس ثابت ہوا اور عوام کو بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریز کی کوشش یہ تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت لوٹ کر برطانیہ لے جائیں ۔ اس کو یہاں کے عوام سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اس نے یہاں کے جاگیرداروں سے جاگیریں چھین لیں اور ان کو بھیک مانگنے کے لئے چھوڑ دیا۔ جاگیردار بے چارے کیا کرتے ۔ غربت میں اور تھوڑی تھوڑی آمدنیوں میں مشکل سے گزارا کرنے لگے۔ ہندوستان کے کاریگر جو چیزیں تیار کرتے تھے وہ پوری دنیا میں پسند کی جاتی تھیں ۔ قنوج کا عطر، امروہہ کی ریشمی ٹوپیاں اور مراد آباد کے برتن اپنی مثال آپ تھے۔ یہاں کھلونے ، رومال، تلواریں ، تیر کمان اور بڑھئی کا کام بھی بڑا نفیس ہوتا ہے۔ جبکہ لکھنؤ کا چکن کا کپڑا، بنگال کا سوتی کپڑا اور بنارس کا ریشمی کپڑا تو برطانیہ کی خواتین بڑے فخرسے خریدتی تھیں ۔ مگر انگریزوں نے مقامی کارخانوں کو بند کر کے اپنے کارخانے کھول لیے ۔ تجارت مسلمانوں کا آبائی پیشہ تھا اور وہ صدیوں سے تجارت کرتے آئے تھے۔ جو سامان مقامی کارخانوں میں تیار ہوتا تھا۔ مسلمان بحری جہازوں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں اس کی تجارت کرتے تھے۔ مگر انگریزوں نے بندرگاہوں پر قبضہ کر کے تجارت پر بھی زبردستی قبضہ کر لیا۔ مقامی لوگوں کا سامان باہر نہ جانے دیتے اور خود سستے داموں خرید لیتے چاہے کسی کو فائدہ ہوتا یا نقصان اور آگے اچھی قیمت پر بیچ دیتے۔ کسانوں اور زمینداروں پر بے تحاشا ٹیکس لگا دیئے، جو ٹیکس کم دیتا اس سے زمینیں چھین کر دوسرے کو دے دیتے۔ کسان سارا سال محنت کرتے اور فصل انگریز لے جاتے۔ ان سب باتوں کے علاوہ مقامی لوگ انگریز کے فریب اور وعدہ خلافیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ یہاں کے لوگوں اور انگریز کے درمیان جو بھی معاہدے ہوتے جب تک انگریز کو اپنا فائدہ نظر آتا وہ اس پر قائم رہتے ورنہ فوراً معاہدہ توڑ دیتا۔ ان سب مظالم کے بعد انگریز نے کھلے عام عیسائیت کی تبلیغ بھی شروع کر دی۔ وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کو عیسائیت کی دعوت دینے لگے کہ جس پر وہ خود بھی عمل نہیں کرتے تھے۔ اس سے نفرت میں مزید اضافہ ہوا اور لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ انگریز ہم سے سب کچھ لوٹ کر اب ہمیں دین اور مذہب سے بھی ہٹانا چاہتا ہے۔ ہندوستان کے لوگ چونکہ بہادر اور حوصلہ مند تھے اس لیے انگریز نے ایک بڑی تعداد ہندو اور مسلمانوں کی فوج میں لی ہوئی تھی مگر جب بھی وہ کوئی مطالبہ کرتے اور اپنے حقوق مانگتے، توپوں کے منہ پر باندھ کر اڑا دیئے جاتے۔ یہ اس قوم کے مظالم ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا جیسا کوئی مہذب دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ لوگ ان مظالم سے تنگ آ چکے تھے۔ علما اور دینی رہنما پہلے ہی خفیہ اور کبھی کھلے عام جہاد کی تبلیغ کرتے آ رہے تھے۔ آخر کار 10مئی 1857ءکو میرٹھ کے مسلمان اور ہندو سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ انگریز افسروں کو قتل کر دیا اور اسلحہ سمیت دہلی پہنچ گئے۔ دہلی پہنچ کر انہوں نے ملک کے مختلف حصوں کی فوجی چھاؤنیوں میں اعلانات اور پیغامات بھیجے ۔ ہندوستانی سپاہی پہلے ہی افسروں کی زیادتیوں کا شکار تھے۔ اعلانات سنتے ہی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سپاہی خزانے ، اسلحے اور توپوں سمیت دہلی پہنچنے لگے۔ ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ پہلی بغاوت 10مئی کو میرٹھ میں ہوئی اس کے بعد 19مئی کو الہ آباد، 20مئی کو علی گڑھ ، 22مئی کو پشاور، 31مئی کو گوالیار ، 4جون کو حصار ، 5جون کو کانپور ، 7جون کو آگرہ اور لکھنو، 21جون کو جالندھر ۔ شروع جولائی میں جہلم ، 8جولائی کو بنارس اور 21جولائی کو سہارنپور میں لگاتار بغاوتیں ہوئیں ۔ اس کے علاوہ انبالہ ، لاہور، چیچہ وطنی، سیالکوٹ ، کلکتہ اور نوشہرہ میں بھی بغاوتیں ہوئیں اور یہ سلسلہ اگست کے آخر تک جاری رہا۔ دہلی میں بہت سی باغی فوج جمع ہو چکی تھی۔ انگریزوں نے پنجاب کے لوگوں اور سکھوں کو بھرتی کر لیا اور ستمبر میں دہلی پر حملہ آور ہوئے۔ کئی دن تک گھمسان کی جنگ ہوئی ۔ بالآخر انگریز کی چالبازیوں ، سکھوں کی غداریوں اور سازو سامان کی کمی کی وجہ سے دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ اسی طرح اودھ، کانپور، جھانسی، بنارس، الہ آباد، روہیل کھنڈ اور بہار میں بھی خوں ریز لڑائیاں ہوئیں جن میں مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی بہادری دکھائی۔ خاص کر حضرت محل اور رانی لکشمی بائی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ چونکہ ہندوستانیوں کے پاس باقاعدہ فوج نہیں تھی اس لیے قیادت اور نظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے ہندوستانی یہ جنگ ہار گئے ۔ اس کے بعد بھی انگریزوں نے جب تک حکومت کی، ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند ہوتی رہی۔
ہماری درسی کتابوں میں ان تمام واقعات کو بغاوت سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ بغاوت ضرور تھی لیکن ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ درحقیقت ہماری جنگ آزادی کا نقطہ آغاز تھا اور ظلم کے نظام کے خلاف بغاوت کی اصل آزادی ہے۔
٭٭٭