06:49    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1027 0 0 00

انوکھا معما

سب پریشان ہو چکے تھے۔ ہر ایک خوف زدہ ہونے لگا۔ مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں ۔

‘’زخمی چوہا ہے۔’‘ طیب کہنے لگا۔ ‘’ نہیں باجی سانپ لگتا ہے۔’‘ عاشی کہنے لگی۔

‘’باجی! یہ دُم لگ رہی ہے، بلی کا بچہ لٹک رہا ہے۔’‘ سارہ نے بھی ڈرتے ڈرتے کہا۔

‘’ہائے اﷲ ! مجھے تو ڈر لگ رہا ہے، باجی اس کی دو آنکھیں بھی چمک رہی ہیں ۔’‘ ننھی عائشہ کہتے کہتے رونے لگی۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔

طیب اور عاشی گھر سے باہر جانے لگے تو باہر گھپ اندھیرا دیکھ کر واپس گھر کو آ گئے۔

‘’بس، امی آنے والی ہوں گی ڈرو مت۔’‘ سب نے بڑی باجی اسما نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔

‘’ پتا نہیں کب آئیں گی۔ جب یہ سانپ ہمیں ڈس لے گا۔’‘ عاشی کے ساتھ طیب بھی رونے لگا۔

٭....٭


اسما، سارہ، عاشی اور طیب چار بہن بھائی تھے۔ اسما سب سے بڑی باجی تھیں ۔ ان کی امی آمنہ اپنے بچوں کی دادی کو قریب ہی ہسپتال لے کر گئی ہوئی تھیں کہ اس دوران میں بجلی چلی گئی۔ ماچس ، کچن کے قریب کھڑکی پر رکھتے تھے۔

اسما نے چھوٹی بہن عاشی سے کہا کہ وہ ماچس لے کر لال ٹین جلا لے تو اچانک ماچس کے قریب اسے کھڑکی پر ایک کالی رنگ کی چیز لٹکتی ہوئی نظر آئی جو ہل بھی رہی تھی۔ عاشی کو ایسے لگا کہ جیسے یہ کوئی جاندار چیز ہے اور پھر اس نے چیخ کر سب بہن بھائی کو بلا لیا اور پھر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں ہر ایک کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ خوف سے سب کو پسند آنے لگا۔

امی اور دادی اماں کے انتظار میں ایک ایک لمحہ مہینوں کے برابر معلوم ہونے لگا۔ سب بڑی باجی اسماءسے چپکے ہوئے تھے۔ گھر میں کوئی اور ماچس نہ تھی کہ وہ جلائیں اور کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی ماچس کے ریب بھی کوئی جانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ مارے ڈر کے چاند کی ہلکی روشنی میں بھی کوئی پڑوسی کے گھر جانے کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ ان کے ابو کاروباری کام سے ‘’بھائی پھیرو’‘ گئے ہوئے تھے۔

٭....٭

دروازہ بجنے کی آواز پر سب چونکے۔

‘’اری لڑکیو! گھر میں اتنا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے؟ ‘‘ دادی اماں نے لاٹھی کی نوک زمین پر تیز مارتے ہوئے کہا۔

عاشی اور طیب امی سے چپک گئے۔

‘’امی سانپ ہے اس کی آنکھیں بھی چمک رہی ہیں ۔’‘ عاشی نے کہا۔

‘’ نہیں امی ! بلی کا بچہ لگتا ہے۔’‘ سارہ بڑبڑائی۔

‘’ نہیں دادو! بڑا چوہا لگتا ہے اس کی دُم بھی ہل رہی ہے۔’‘ طیب نے بھی خوف زدہ ہو کر دادی اماں کو کہا۔

‘’ارے اچھا! ہٹو تو سہی مجھے کیسے چپک گئے ۔’‘ امی نے ان کو ایک طرف کرتے ہوئے کہا۔

پھر اسما نے امی کو ساری صورتحال بتائی۔

‘’ ارے! ماچس تو جلا لو۔’‘ دادو ماچس اس سانپ کے پاس ہی تو پڑی ہے۔ ‘‘ عاشی نے روتے ہوئے کہا۔

‘’ ستیا ناس اس سانپ کا۔ اس لاٹھی سے ابھی اس کی گردن کا منکا توڑتی ہوں ، کیسے ہمت ہوئی اسے ادھر رخ کرنے کا۔’‘ دادی اماں نے کہا تو عاشی، طیب اور سارہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دادو کو تکنے لگے۔

‘’امی! ٹھہریں پہلے وہاں سے ماچس اٹھا لیں ۔’‘ آمنہ نے دادی اماں سے کہا اور احتیاط سے ماچس اٹھانے کے لیے چل پڑیں ۔

‘’ نہیں امی آپ نے جائیں ، وہاں نہ جائیں ۔’‘ عاشی اور طیب نے اپنی امی کی ٹانگوں سے چپک گئے اور ساتھ منہ پھاڑے رو رہے تھے۔

‘’ ارے اس صدی کے بچے کیسے نکمے اور بزدل ہیں ۔’‘ یہ کہتے ساتھ ہی انہوں نے دونوں کو ایک ایک لاٹھی رسید کی اور پھر دادی اماں نے فوراً وہ ماچس اٹھا لی۔ ماچس جلا کر فوراً لال ٹین جلائی۔ لال ٹین کی روشنی میں اس عجیب و غریب چیز کو دیکھا اور اسے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ لاٹھی کے ہتھے سے عاشی کی گردن کو ذرا کھینچا۔’‘ یہ رہا تیرا سانپ۔’‘ اور پھر ایک چپت طیب کو بھی رسید کی۔

‘’ یہ راہا تیرا چوہا۔’‘ دادی اماں نے یہ کہا ہی تھا۔

جسے سانپ، چوہا اور بلی کہا جا رہا تھا۔ وہ سارہ کا دستانہ تھا۔ جسے وہ پہن کر اسکول جاتی تھی ۔ آج اسکول سے آتے ہی کچن میں بھوک کی شدت میں اسی کھڑکی کے ساتھ لٹکا دیئے تھے اور پھر اٹھانا یاد نہ رہے۔ سانپ کی آنکھیں وہ ٹافی کا ریپر تھا جو دستانے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ چاند کی روشنی میں دو چمک دار آنکھیں نظر آ رہی تھیں اور جب ہوا سے وہ دستانہ ہلتا تو وہ خوف زدہ ہو جاتے ۔

چاروں بہن بھائی اس انوکھے سانپ، بلی سمجھ بیٹھے ۔ سانپ کو دیکھ کر بے اختیار ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔