03:21    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1297 0 0 00

کہیں دیر نہ ہو جائے

’ہوصی ماموں ’‘ کسی چیخ نما آواز پر میری آنکھ کھلی اور میں نے فوراً ہی بند بھی کر لی یقیناً آپی کا نزول ہو چکا تھا’’ اف ایک تو یہ صبح صبح آ جاتی ہیں ’‘ میں نے دانت کچکچا کر سوچا اور جھنجھلا کر تکیہ منہ پر رکھ لیا۔

‘’ہوصی ماموں دیکھیں ! میں آپ پر چھلانگ لگا رہی ہوں ’‘ لہک لہک کر بولتی یقیناً یہ بھانجی صاحبہ تھیں میں الرٹ ہو کر الٹا لپنے کا سوچنے لگا تاکہ بھانجی صاحبہ چھلانگ لگائیں بھی تو اتنا درد نہ ہو مگر برا ہو اس سوچنے کا کہ جتنی دیر میں بے سوچے میں لگائی اتنی دیر میں بھانجی صاحبہ کو د چکی تھیں مجھ پہ۔

‘’اوئی!’‘ میرے منہ سے دلدوز چیخ برآمد ہوئی۔

‘’کک کیا ہوا’‘ امی اور آپی حواس باختہ سی دوڑی آئیں میں پیٹ پکڑ کر دوہرا ہو گیا تھا نیند اچھی طرح پوری ہوئی تھی۔

‘’مما ہومی ماموں سو تھوڑی رہے تھے دیکھا اٹھ گئے’‘ رمیہ (بھانجی) تالیاں بجا کر داد وصول کرنا چاہ رہی تھی۔ آپی نے اسے بری طرح گھورا اور ساتھ دہاڑی تھیں ‘’امیہ چلو یہاں سے’‘ ‘’بھائی بھی تو یہاں ہیں ’‘ رمیہ معصومیت سے لہک لہک کر بولی (وہ بولتی ہی لہک کر تھی) میں الرٹ ہو گیا! مجھے یاد آ گیا کہ محترمہ کہ بھائی بھی ہوتے ہیں یعنی میرے بھانجے صاحب! اور وہ قطعاً شریف نہیں تھے میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔ اس کی خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی تھی۔

میں نیند کو خیر باد کہتے ہوئے بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ دیر بعد انہیں ڈھونڈ بھی نکالا۔ بستر کے نیچے موجود بھانجے صاحب کو دیکھ کر میری سمجھ سے بالا تر تھی یہ بات کہ دوات ان کے اوپر گری ہے بارہ دوات کے اوپر اور وہ صاحب ایک رنگ میں رنگے ہوئے نہیں تھے کہیں سے ہرے‘ کہیں سے نیلے‘ کہیں سے کالے اور کہیں سے لال مجھے اس وقت اپنے شوق پر سخت غصہ آیا چونکہ انک پین (INK PEN) سے کام کرنے کے لئے صرف نیلے اور کالے پین کی ضرورت ہوتی ہے مگر دوسرے دو رنگ کی دوات کی بوتلیں میرا شوق تھیں میرے جیومیٹری بکس میں چاروں کلر کے انک پین ہمہ وقت موجود ہوتے تھے۔ مگر آہ! یہ بستر کے نیچے دوات کی بوتلوں کی موجودگی کا سبب بھی میرے بھانجا‘ بھانجی تھے ہر جمعے کو ان کا نزول ضروری ہوتا ہے۔ کبھی کھار بیچ میں بھی چکر لگ جاتے تھے اور صبح صبح آٹھ بجے میری محترمہ آپی آموجود ہوتی تھیں اور ان کے بچوں کی کوشش ہوتی تھی کہ مجھے کسی نہ کسی طرح اٹھا دیں چاہے کود پھاند کر ہی مگر میری آنکھیں کھلی دیکھ لیں مگر میری آنکھیں کھلی کم اور ابلتی زیادہ تھیں ان دنوں کی حرکتوں پہ‘

٭٭٭

‘’اس کوتو میرے بچوں کا آنا ہی برا لگتا ہے ہٹ جائیں اب میں جا رہی ہوں چلو ریان اٹھو‘ رمیہ آپ بھی جوتے پہنیں ’‘ آپی غصے میں تیز تیز بولنے اور ہاتھ چلانے لگتی تھیں وہ ‘’شو’‘ ایسا کراتی تھیں جیسے بہت تیزی سے کام کر رہی ہیں مگر وہ تیزی سے تو کیا کام ہی نہیں کر رہی ہوتی تھیں محض ادھر ادھر ہاتھ ما رہی ہوتی تھیں ۔ ابھی بھی کچھ زیادہ نہیں ہوا تھا انہوں نے مجھ سے کہا بچوں کو چیزیں دلا لاؤ۔ میں نے بچوں کو پکڑا سامنے والے بچے کے ساتھ کیا اور خود اندر گیا! مگر‘ لگتا ہے وہ بچہ بھی ہماری کسٹڈی میں کافی عرصہ رہا تھا‘ بچوں کو دکان پہ لے جا کر کھرا کر کے چیزیں دلانے کا احسان کر کے کھیلنے کودنے چلے گئے محترم‘ بچے پہلے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے آس پاس دیکھتے رہے پھر جب ان کی چیزوں کی چھینا جھپٹی شروع ہوئی تو دونوں نے جو گلا پھاڑنا شروع کیا تو الامان وہ تو بھلا ہو ولید کا امیر واحد اور بہترین دوست اس نے دونوں کو دیکھا اور بائیک پہ بٹھا کر گھر چھوڑ گیا‘ اور اب جب سے میں گھر میں داخل ہوا تھا تب سے آپی تیز تیز ہاتھ چلا چلا کر اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھیں اور اپنے گھر جانے ا اعلان فرما رہی تھیں امی سے! ‘’چلو ریان’‘ رمیہ جوتے پہنو سنا نہیں تم نے’‘ آپی بری طرح دہاڑی تھیں ۔

‘’ماما آپ جائیں نہیں جا رہے! رمیہ تم جاؤ گی’‘ ریان معصومیت سے رمیہ سے پوچھ رہا تھا۔ ‘’نئیں ’‘ رمیہ نے جھٹ نفی میں سر ہلایا۔

‘’ماما‘’ گلطی ہو گئی ناں ماموں سے’‘ معصوم بھانجے نے ‘’غ’‘ کو ’گ‘ میں بدلتے ہوئے میری حمایت کی معصوم میرا بھانجا کتنی محبت کرتا ہے مجھ سے اور میں ....؟ تف ہے مجھ پر’‘

‘’رہو پھرا دھر ہی ماموں کو فکر ہی نہیں ہے کوئی ان کی! بھانجا بھانجی محبت میں دوڑے چلے آتے ہیں ’‘ آپی کے ہاتھ ہنوز تیز تیز چل رہے تھے۔

‘’حو ہو گئی آپی ایک تو آپ ذراسی بات کا بتنگڑ بنا دیتی ہیں ! آصف بھائی آنے ہی والے ہیں ان ہی کے ساتھ چلی جائیے! اتنی مہنگائی ہو گئی ہے اتنا پیٹرول خرچ کر کے وہ یہاں آئیں اور آپ بھی اتنے پیسے پھونک کے گھر جاچکی ہوں تو ان کو غصہ نہیں آئے گا اور پیسوں کا الگ زیاں (میں جو سوچ رہا تھا شاید وہی میرے منہ سے نکل رہا تھا۔

‘’مم میرا مطلب ہے آپی! میری پیاری آپی مت جائیں آئندہ اتنی سفاک غلطی کرنے کی نہ ہمت کروں گا میں نہ جرا ت’‘ آپی کے بری طرح گھورے پر میں نے اپنا بیان اور انداز دونوں بدل لئے تھے۔ کیونکہ سکون تھا کہ آپی تو شام میں چلی جائیں گی مگر میرا سکون تو اس وقت غارت ہو گیا جب مجھے پتہ چلا کہ آپی اتوار تک رہیں گی یعنی پورے دو دن! میں دھک سے رہ گیا اور اپنا غم غلط کرنے کے بعد ہاں پہنچ گیا۔ میں بیزاری سے پتھر اٹھا اٹھا کر نشانے لے رہا تھا مگر جمال ہے کہ ایک بھی پتھر موصوف ولید کے کمرے کی کھڑکی پر لگا ہو میرا ہر نشانہ خطا ہو رہا تھا اور میری بے زاری .... کو چھو رہی تھی۔ موصوف یقیناً سو رہے تھے کیونکہ اسے آوازیں دے دے کر میرا گلا سوکھ گیا تھا! میں بیل دے دے کر انگلیاں تھک گئی تھیں ‘ مگر جمال ہے کہ محترمہ ولید صاحب کے کام پر ‘’جواں ’‘ بھی رینگا ہو۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں نے ہمت کر کے بیل بجا ہی دی اور زورو شور سے دعا کرنے لگا کہ محترم ولید صاحب کی محترمہ والدہ دروازہ نہ کھولیں کیونکہ میں جب گلی میں داخل ہو رہا تھا تو محترم ولید صاحب کی والدہ نے مجھے دیکھ لیا تھا اور دروازہ اتنی زور سے دھڑ کر کے بند کیا کہ برابر والے منظور انکل سر کھجاتے باہر آ گئے وہ اتنے کاہل تھے کہ سبزی والے کے برابر والی دکان میں کھڑے ہوں اور انہیں  کوئی دکھ جائے تو ان کی بھر پور کوشش ہوتی تھی کہ وہ بندہ انہیں سبزی خرید کر دے جائے اور ہوسکے تو گھر بھی پہنچا جائے۔ (اور وہ بندہ اکثر و بیشتر میں ہی ہوتا تھا)

‘’ہومی ماموں !’‘ رمل دروازہ کھول کے میری گود میں چڑھ گئی حسب معمول یقیناً میری دعائیں تھیں جو کار گر گئیں تھیں ! ولید کی بہن رمل میری بھانجی‘ رمیہ‘ جتنی تھی اسی لئے ان کی دیکھا دیکھی وہ بھی مجھے ‘’ہومی ماموں ’‘ کہتی تھی۔

‘’بھائی اوپر ہیں ‘ میں نے حتی المقدور اپنی آواز دبائی (مبادا والدہ محترمہ نہ سن ہیں ) ‘’نئیں ’‘ اس نے بھی میرے انداز میں جواب دیا۔

’اچھا!’‘ میں نے اسے گود سے اتارا اور سیدھا اوپر بھاگا ۔وہی ان کی والدہ محترمہ کا ڈر)

‘’اللہ کرے پشاور والی تمہاری خالا تین مہینے کے لئے رہنے آ جائیں تمہارے ہاں ’‘ یہ ایک ایسی دعا تھی جس کو سن کہ ولید صاحب تھرا اٹھتے تھے کیونکہ اس کی وہ خالہ خاصی تنقیدی تھیں ۔ ہم تو انہیں کہتے ہی تنقیدی خالہ تھی۔

‘’ولید کے بال کیسے ہیں ! ہاں بھئی یہاں کے لڑکے تو فیشن میں دبلے ہیں ’‘

‘’یہ کیسی شرٹس پہنتا ہے! تو یہ فیشن بھی بندہ اپنے آپ کو دیکھ کر کرے’‘ قسم کے تبصرے ولید کو بری طرح تپا دیتے تھے اور ان دنوں اس کے دن رات میرے ہاں سر ہوتے تھے۔

اور ہماری ‘’کمبائن اسٹڈی’‘ ڈے اینڈ نائٹ ہو جاتی تھی۔

‘’اللہ کے واسطے! جتنے پیسے ادھار چاہیں لے لو! میری کوئی شرٹ پہننے چاہے لے لو! مگر ایسی بددعا مت دو ‘’وہ رونی صورت بنائے اپنے بستر پہ اکڑوں بیٹھا ہاتھ جوڑ ے کہہ رہا تھا۔

‘’یار! آپی دو دن رہیں گی’‘ میں نے اس سے بھی زیادہ رونی صورت بنا کر اسے اطلاع دی۔

‘’ایں ! اس نے میرے جیسی رونی صورت بنانے کی ناکام کوشش کی اور اس کوشش میں وہ صاحب خاصے ہونق لگے رہے تھے۔

‘’اب ان دو دن رمل سمیت دونوں بچوں کو پارک لے جانا‘ جھولے دلوانا‘ ان کی بے جا فرمائش پوری کرنا یہ سب میں کروں گا’‘ ولید رونی صورت بنانے میں ناکام ہو کر اب اپنا غم لفظوں میں ڈھال رہا تھا۔ ‘’تمہاری اتنی پریڈ نہیں لگتی جتنی میری لگتی ہے۔’‘

‘’کیوں تم ان کے ماموں ہو اس لئے؟’‘ میرے کہنے پر اس نے سوال کیا۔

‘’ہاں ظاہر ہے! اور تمہاری بہن کا بھی میں ‘’ہومی ماموں ‘’ ہوں ! تو سب کا ماموں بنا میں ان کو چیزیں دلا رہا ہوتا ہوں ’‘ میں نے اپنا راگ الاپا۔

‘’اتنے فقیر تو مت بنو! آئندہ اپنی بہن کے پیسے میں خود دے دوں گا’‘ ولید صاحب اپنی بہن کے ذکر پر بری طرح جذباتی ہوئے۔

‘’میرے دوست! میرے عزیز پیسوں پر نہیں ہم تو وقت کی بربادی پر اور اس شرمندگی پر کڑھ رہے ہیں جو ان کی حرکتوں کے نتیجے میں ہمیں اٹھانی پڑتی ہے۔’‘ میں نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔

‘’یار قسم سے یہ بچے! (میں نے اپنے دانت بھینچے) اللہ کرے آصف بھائی آپی کو لینے آ جائیں ۔’‘

میرے ساتھ تم بھی دعا کرو، یوں کسی کے حق میں برا نہ ہو

کہیں اور ہو نہ یہ حادثہ، کہیں آپی کا نزول نہ ہو

میں او ولید دعا کے انداز میں ہاتھ اٹھائے لہک لہک کر پڑھ رہے تھے۔

میرا اصل مسئلہ شاید یہ ہی تھا! یعنی توجہ کا آپی مجھ سے کافی سال بڑی تھیں اس لئے انہیں زیادہ توجہ ملی اور میرے فوراً بعد سمیر تھا‘ تو امی ابو کی توجہ اس کی طرف منتقل ہو گئی ساتھ شاید محبت بھی۔ مزاجاً تو میں اپنے آپ میں مگن رہنے والا ہوں لیکن اس کمتری کے احساس نے (کہ میں اپنے گھر والوں کے لئے اتنی اہمیت کا حامل نہیں ہوں ! مجھے اپنے گھر والوں سے دور کر دیا اور میں آہستہ آہستہ ان سے دور ہوتا گیا مگر اف یہ بچے! یہ تو خواہ مخواہ ہی فری ہو جاتے ہیں چاہے وہ رمل ہو، ریان ہو، یا رمیہ شاید ان کے اتنے اہمیت دینے پر میں گڑبڑا گیا تھا، یا شاید حواس باختہ ہو گیا تھا کہ یہ جتنا میری طرف آتے ہیں اتنا ہی ان سے بھاگتا شاید میں شروع سے ہی اکیلا اکیلا رہا تھا اس لئے ولید ہی میرا واحد دوست تھا جس سے میں بہت بے تکلف تھا اور ہر وقت اس کے ہاں ہی پڑا رہتا تھا اور اس کی والدہ! آہ ان کا قصہ.... وہ تو شاید مجھے دیکھ کر مزید بڑھا جاتا تھا۔ (سوری آنٹی)

آپی سے عمروں کے اتنا فرق ہونے کی وجہ سے میں فری نہ ہوسکا کیونکہ وہ ہر وقت حکم دیدے کر کام کرتی تھیں اور اب بھی یہ ہی کرتی ہیں ۔

‘’اور سمیر وہ تو امی حضور کے پاس ہی براجمان رہتا ہے ہر وقت’‘

اور میں غالباً آپی اور امی کی ضد میں ہی آپی کے بچوں کو نظر انداز کرتا تھا۔ (کیونکہ آپی سے محبت کا تقاضا تھا کہ امی دوسروں کو بھی ان سے اور ان کے بچوں سے محبت کرنے پر مجبور کریں ) اور جو وہ ہر وقت کرتی تھیں ۔

‘’آپی نہیں آ رہی بہت دنوں سے’‘ کتنے دنوں سے صبح صبح مجھے کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔ میری چیزیں بھی اپنی جگہ پر موجود تھیں جب میں پیسے بھی ہنوز موجود اور لو اور کل میں پارک میں سموکنگ کرنے گیا تو جھولے والے انکل مجھ سے کہہ رہے تھے ‘’آپ کے بھانجا بھانجیاں نہیں آ رہے بہت دنوں سے’‘ میں امی سے سوال پوچھنے کے بعد اپنا ہی سوچنے لگا اور ان کا جواب بھی نہ سن پایا۔

‘’بتائیں !’‘ میں دوبارہ بضد ہوا۔ ‘’بتایا تو ہے مجھے نہیں پتا’‘ امی ہمیشہ کی طرح مجھے جواب دیتے ہوئے جھنجھلا گئیں ۔

‘’میں کیا کروں ؟ ولید مجھے رمیہ، ریان یاد آ رہے ہیں ’‘ بالآخر دن بھر کی کوفت کے بعد میں ولید کے پاس چلا آیا اپنا غم غلط کرنے (ہمیشہ کی طرح)

‘’میرے سر کے بال نوچو’‘ ولید نے اپنا سر آگے کیا۔

‘’بنا تو لیا کرو؟ پھر ایسی پیشکش کیا کرو’‘ میں نے ناک بھوں چڑھائی اور امل کو گود میں اٹھاتا بائیک مین بیٹھ گیا۔

‘’تم مجھ سے ناراض کیوں تھیں بھانجی’‘ میں نے اس کی پونی جھلائی‘ کیونکہ جب میں ولید کے گھر پہنچا تھا تو رمل گود میں آنے کے بجائے بھاگ گئی تھی۔

‘’بھائی کہہ رہے تھے فری ہونے والے بچے اچھے نہیں لگتے’‘ منہ بنا کر بولی اور میں ہنس دیا اس کی معصومیت پر بھی اور اس کے بھائی کی معصومیت بڑھی‘ کیونکہ باوجود ناراضگی کے وہ میرے پیچھے بائیک پر براجمان تھا اور میرے بائیک چلانے کا منظر تھا۔

‘’ہومی ماموں ’‘ رمیہ حسب عادت آ کر مجھ سے لپٹ گئی اور ریان خوشی سے کھڑا مسکرا رہا تھا میں نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا جب تک رمیہ صاحبہ ولید کے ساتھ معاونت میں مصروف تھیں ۔

‘’ارے ضمیر! ولید تم بھی آئے ہو! چلو اندر اب کھانا کھانے سے پہلے تم لوگوں میں باہر قدم بھی نکالنے نہیں دو گی ابھی آصف کو فون کرتی ہوں ؟ آپی خوشی سے باؤلی ہو رہی تھیں (آپس کی بات ہے ویسے وہ غصے میں بھی باؤلی ہوتی ہیں ؟ کیوں ؟؟؟

‘’نہیں آپ بیٹھیں آصف بھائی آئیں گے تو ان سے اجازت لیکر رہنے چلیں ! میں تو بور ہو گیا یار بچوں کے بغیر’‘ میں نے گود میں براجمان رمیہ کی پونی جھلائی (آہ!میری عادت)

‘’ہاں کچھ مصروفیت تھی اس لئے نہیں آپا رہی تھی آؤں گی کسی دن’‘ مجھے پتہ تھا وہ مجھ سے نالاں تھیں ۔

‘’کسی دن کیوں ؟ میں آج! پارک میں سب پوچھ پوچھ کر تھک گئے کہ آپ کے بھانجہ بھانجی کب آئیں گے اور گھر میں تو آپ کو پتہ ہے سمیرا اور امی‘ ابو کا اور میرا بھی’‘ میں نے تقریباً ان کے کام میں گھس کر آخری الفاظ ادا کئے۔

‘’مگر آصف!’‘ انہوں نے اک بار پھر عذر تراشا۔

‘’اچھا رکیں ’‘ میں نے جھٹ موبائل نکالا اور آصف بھائی سے اجازت لی اور ظاہر ہے وہ میرے بہنوئی تھے اچھے سے فوراً مان گئے۔

‘’تم بہت بدتمیز ہو! مجھے بہت کام ہیں حمیر’‘ ان کے نخرے ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے۔

‘’ٹھیک ہے ہم انتظار کر لیتے ہیں ’‘ میں ان کا ہی بھائی تھا۔

‘’تمہاری پڑھائی کا خرچ ہو گا’‘ توبہ تاک کے نشانہ مارا تھا انہوں نے۔

آپی جب کسی کو غلطی کا احساس ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہئے نخرے نہیں دکھائے چاہئیں ‘’ہائے ولید تم نے تو میرا آدھا کام کر دیا۔’‘ انہوں نے تیار شیار بچوں کو دیکھ کر کہا اور میری بات نظر انداز کر دی۔

‘’آپی!’‘ میں نے انہیں جھنجھوڑا ‘’جاؤ معاف کیا پیارے بھائی! اب چلیں ’‘ انہوں نے میرا دل خوش کر دیا۔

‘’گڈ اب کی ہے ناں میری آپی بنے والی بات!’‘ میں نے ولید کو اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے‘ ہونٹ پھیلائے اور ٹیکسی لینے چل دیا اب اتنی پلٹن بائیک پر تو سوار ہونے سے رہی۔ میں نے تو اپنوں کو منا لیا! آپ کا اپنا آپ سے ناراض ہے تو آپ بھی بھاگیں دیر ہو گئی تو....؟؟؟

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔