06:37    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

912 0 0 00

بونگا ایڈیٹر

  احمد صاحب تھوڑے دن قبل ہی اپنے مختصر سے خاندان کے ساتھ ہمارے محلے میں منتقل ہوئے تھے ، بہت ہی شریف النفس اور اچھے انسان تھے چند ہی دنوں میں انھوں نے تمام محلے میں اپنی اچھی ساکھ بنا لی ۔سیانوں کا قول ہے کہ’’ اچھے لوگ کم ہی جیتے ہیں ’‘۔بالکل اسی طرح اچانک احمد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کے صرف دو ہی بیٹے تھے،بڑا بیٹا علی اور چھوٹا بیٹا شریم۔پہلے تھوڑا سا ذکر علی کا۔علی صورت اورسیرت میں تو اپنے والد کی ہو بہو تصویر تھا اور ذہانت میں تو اس کا کو ئی مقابل ہی نہیں تھا وہ کم بولتا مگر جب بھی بولتا سامنے والے کو دنگ کر دیتاساتھی اور دوست اس کے بولنے کا انتظار کرتے تھے۔المختصر کہ وہ بے انتہا خوبیوں کا اکیلا مالک تھا ۔بس پھر والد کے انتقال کے بعد یہ بات پھر ثابت ہو گئی کہ اچھے لوگ زیادہ نہیں جیتے اور ایک سال کے بعد علی بھی اس دنیا سے چلا گیا۔اب ذرا ذکر شریم کا۔شریم حد سے زیادہ سادہ اور بغیر سوچے سمجھے کام کرنے والا لڑکا تھا محلے کے لڑکوں میں وہ ‘’بونگا’‘ یعنی بیوقوف مشہور تھا ۔پہلے تواس کا حلیہ مبارک سنیئے جو وقتاً فوقتاً ہم نے دیکھا ۔سیدھے پاﺅں میں ہری چپل تو اُلٹے میں کالی وہ بھی ایک بڑی تو دوسری چھوٹی ۔پینٹ کا ایک پائنچا کھلا ہوا اور دوسرامُڑا (fold)ہوا۔ناک بہہ کر جیب میں جاتی ہوئی تو قمیض بغل تک پھٹی ہوئی ۔شرٹ سے ناک صاف کرنے کے لئے جو شرٹ اُوپر اُٹھائی تو پینٹ میں بیلٹ کی جگہ اَزار بند ڈلا ہوا۔،قمیض کی ایک طرف کی جیب کسی سخت پیاسے جانور کی زبان کی طرح باہر کو لٹکتی ہوئی ۔کالر ایک طرف سے اندر کو مڑا ہوا تو گریبان کے اوپر والے بٹن نیچے اور نیچے والے اُوپر کو لگے ہوئے۔ یہ تھا مختصر ساحلیہ شریم المعروف ‘’بونگے’‘ کا۔والد اور بڑے بھائی کے اچانک انتقال کے بعد اب صرف شریم اور اس کی والدہ بچے تھے۔علی ہمیشہ گھر کے کام کاج میں والدہ کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔اب شریم کو جوش چڑھا اور اس نے والدہ سے کہا کہ اب میں آپ کا ہاتھ بٹایا کروں گا۔ماں نے سمجھایاکہ بیٹا تمہیں ابھی کام کرنے کی عادت نہیں ہے اس لئے تمہیں کام کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آئے گا تم اُلٹا میرا کام بگاڑ  دو گے۔ کہنے لگا نہیں امی آپ دیکھیں گی کہ میں کیسے محنت اور لگن سے کام کرتا ہوں ۔دوسرے دن صبح سویرے جب اس کی امی کی ابھی آنکھ نہیں کھلی تھی۔اس نے کمرے کی قالین کی صفائی کا فیصلہ کیا اور تمام قالین کی پانی اورسرف سے صفائی کر دی۔ جب امی کی آنکھ کھلی تو بیڑہ غرق ہو چکا تھا،اور قالین نہا چکا تھا۔امی نے یہ دیکھ کر سر کو پیٹ بلکہ کوٹ لیا۔ دوسرے دن کپڑے استری کرنے بیٹھے تو انہیں اپنے والد مرحوم کی وہ بات یاد آئی جو وہ کہا کرتے تھے کہ ’’کاٹن تو بڑا ہی نازک اور نفیس کپڑا ہو تا ہے ‘‘یعنی ذراسا کسی کی چیزسے اٹکے تو پھٹ جاتا ہے ۔مگر شریم صاحب کچھ اور ہی سمجھے اور انہوں نے استری کو کم گرم کیا اور کاٹن کا سوٹ استری کر لیا اور جب ریشم(silk)کی باری آئی تو استری کو اچھی طرح گرم کیا اور لگے استری کرنے بس پھر استری جہاں جہاں سے گزرتی گئی اپنا راستہ بنا تی گئی اور ریشم کی جگہ ریشے چھوڑتی گئی۔انہوں نے ہاتھ میں جلے ہوئے ریشے لئے اور استری سے درد بھرا شکوہ کرنے لگے کہ’’ تجھے بھی مجھ سے ہی دشمنی تھی ہیں !تو نے بھی میرا خیال نہیں کیا ناں !ہیں !ذرا بھی رحم نہیں آیا تجھے۔اب مجھے کون بونگا نہیں کہے گا’‘۔ اسی طرح ایک دن موصوف کھانا پکانے لگے تھے ۔گھی کو دیگچی میں ڈال کر سخت گرم کیا اور پھر اس میں پانی ڈال دیا۔ شاید گھی کو گلانے لگے تھے۔ سخت گرم گھی میں تھوڑا سا جو پانی پڑا تو اس نے آگ پکڑ لی۔پھر جو ہوا مت پوچھئے۔آٹا گوندھنے لگے توآستینیں اُوپر چڑھانے کے بجائے شلوار کے پائنچے اُوپر چڑھا لئے ،شاید ہاتھوں کے بجائے پاؤں ۔جس برتن میں آٹا گوندھنا تھا وہ تو ملا نہیں اور امی سے پوچھتے تو ظاہر ہے کہ وہ منع کر دیتیں ۔ پھر انہیں سمجھ نہ آیا کہ کیا کریں ۔بالآخر انہوں نے دیگچی لی اور اس میں پانی بھر لیا پھر اس میں احتیاط کے ساتھ تھوڑا تھوڑا آٹا ڈالتے گئے اور وہ ڈلیاں بنتا گیا۔پھر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے ان کو پھینٹ کر اس آٹے کو پتلی پتلی لئی (گوند)بنا دیا۔اور پھر وہی مثال بن گئی کہ ‘’مفلسی(غریبی) میں آٹا گیلا’‘۔کھانے میں انہیں میٹھا بہت پسند ہے۔ویسے ہر میٹھی چیز شوق سے کھاتے ہیں مگر سوجھی کا حلوہ تو ان کی کمزوری ہے ۔ایک دن امی سے فرمائش پر حلوہ پکوایا اور سلاد کے ساتھ کھا نے لگے کہ آخر میٹھی چیز سلاد کے ساتھ کیوں نہیں کھائی جا سکتی ۔پیٹ بھر کے پیاز کے ساتھ حلوہ کھایا اور پھراس’’ صحت بخش غذا’‘ کے بعد طبعیّت ایسی’’ ہری’‘ ہوئی کہ اللہ کو پیارے ہوتے ہوتے بچے۔لیجئے اور سنئے ایک دن تو انہوں نے عجیب ہی حرکت کی۔ ہوا یوں کہ انہوں نے ٹھنڈے پانی کا گلاس کولرسے بھرا کہ اتنے میں ان کی والدہ وہاں آ گئیں اور ان سے کوئی بات پوچھنے لگیں ۔وہ تو بات کر کے چلی گئیں مگر شریم صاحب یہ بھول گئے کہ انھوں نے پانی نہیں پیا۔ وہ سمجھے کہ انہوں نے پانی پی لیا ہے اور خالی گلاس اس کے ہاتھ میں ہے اس نے وہ بھرا ہوا گلاس دوبارہ اُلٹا کر کے کولر پر رکھ دیا۔اب تو محلے کے کتے بھی ان پر آوازیں کسنے لگے تھے ۔ جب وہ باہر نکلتے تو ان کو دیکھ کے وہ بھونکنے لگتے شاید اپنی زبان میں وہی لفظ کہتے ہوں جو محلے کے لڑکے انہیں کہتے تھے ۔ایک دن جو کتا بھونکا تو انہوں نے جیب سے موبائل نکالا اور دے کھینچ کے مارا کتے کو۔موبائل لگتے ہی کتا بھاگ گیا تو فر مایا ’’ہاں تو تجھے بھی نوکیا(NOKIA)کی چوٹیں اچھی لگتی ہیں ۔پتھر سے تو تیرا بھی گزارہ نہیں ہوتا ۔ہم نے کہا شریم یہ کیا کیا!موبائل کا بیڑہ غرق کر دیا ؟۔کہنے لگے پتھر سے جا ہی نہیں رہا تھا ظالم ۔اب کچھ دنوں سے انہیں جوش چڑھا ہو ا تھا اور انہوں نے ضد شروع کی ہوئی تھی کہ وہ کہیں نہ کہیں ملازمت کریں گے۔ماں نے بہت کہا کہ کیا ضرورت ہے۔ اللہ کا احسان ہے والد کی پینشن سے گزارا ہو رہا ہے اور زیادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔مگر وہ یہی کہتے رہے کہ مجھے بھی کام کرنا چاہئے ۔انھوں نے محلے کے ایک جنرل اسٹور پر کام شروع کیا اور اپنی’’ طبعی سخاوت ‘‘کے در کھول دئے ۔اب آپ اس کو شریم کا بونگاپن کہیں یا کچھ اور کہ گاہک آٹا تو پیسوں سے لے کر جاتا اور چینی!بالکل مفت ۔ٹافیاں تو کوئی سودا لے یا نہ لے مفت بلکہ اب تو محلے کے بچے اتنے فری ہو گئے تھے کہ خود ہی آ کر ٹافیوں میں ہاتھ ڈال دیتے۔تھوڑا عرصہ تو یہ سلسلہ چلا مگر اس سے پہلے کہ اسٹور میں کچھ نہ رہتا شریم کی ملازمت نہ رہی۔اتنے میں ان کے امتحان شروع ہو گئے ۔ایک دن پرچہ دے کے آئے توہم نے پوچھا کہ کیسا ہوا آج کا پرچہ؟۔کہنے لگے یار اتنا کوئی اچھا نہیں گیا ہم نے پوچھا کیوں ؟۔کہنے لگے ‘’پسندیدہ شخصیت‘‘ پر مضمون لکھنے کو آ گیا۔ہم نے پوچھا ’’پھر؟’‘ آنکھیں پھاڑ کر ہمیں دیکھا اور کہنے لگے پھر کیا!میں نے چھوڑ دیا،میں نے پسندیدہ شخصیت پر تھوڑی یاد کیا تھا ،میں نے تو ‘’ قائد اعظم ‘‘پر مضمون یاد کیا تھا ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی ایک آفس میں اندر باہر کے کام کے لئے ایک لڑکے کی ضرورت تھی تو فہیم نے شریم کو وہاں لگوا دیا تھا۔آج ہم نے فہیم سے پوچھا کہ کیا بات ہے آج کل شریم کم کم نظر آ رہا ہے تمہارا تو بڑا پکا دوست ہے کیا خیر خبر ہے اس کی؟کیا دفتر میں کام زیادہ ہوتا ہے؟۔ تو وہ مسکرایا اوراس نے جو جواب دیا تو ہمارا منہ بھی بونگوں کی طرح کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ہمیں تو اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا اورسمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سینے کو کُوٹیں یا عقل کو پیٹیں ۔جیتے جی ہم نے بھی کیا کیا تماشے نہیں دیکھے ۔ کہنے لگا ’’بونگا’‘ بچوں کے ایک رسالے کا ‘’ایڈیٹر ‘‘ہو گیا ہے۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔