ایک مرتبہ کی بات ہے جب کہ میں بہت چھوٹا تھا، میرے چاچا اور چاچی بس کے ذریعے اورنگ آباد آ رہے تھے۔ اسی دن کنڑ گھاٹ پر ایک بس کھائی میں گر گئی تھی اور ایک بہت بڑا حادثہ ہوا تھا کئی لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں اور گئی لوگ بہت زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ چاچا اور چاچی سے ہمارا رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا بار بار ان کو موبائل کرنے پر وہ سوئچ آف ہی بتا رہا تھا۔ میرے ابّو امّی اور پورے گھر والے بہت پریشان ہو گئے تھے۔ اسی پریشانی میں پوری رات گذر گئی ہم صبح کے اخبار کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ تاکہ حادثے کی صحیح خبر سے واقف ہوسکیں۔
صبح جیسے ہی اخبار آیا میرے ابّو نے مرنے والوں کے ناموں کی فہرست کو بہ غور پڑھنا شروع کیا۔ اچانک میرے منھ سے یہ نکلا کہ ’’کاش! ان کا نام بھی فہرست میں ہو۔‘‘یہ سن کر گھر کے سبھی لوگ حیران رہ گئے اور مجھے دیکھنے لگے، تھوڑی دیر بعد مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دراصل میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ’’کاش ! ان کا نام اس فہرست میں نہ ہو۔‘‘
اخبار میں مرنے والوں کی جو فہرست چھپی تھی اس میں چاچا اور چاچی کا نام نہیں تھا، گھر کے سبھی لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔چاچا اور چاچی دوپہر کے بعد اورنگ آباد پہنچے اور یہ سب ماجرا سن کر وہ ہنسنے لگے۔
اس واقعہ کے بعد مجھے یہ احساس ہو گیا کہ کبھی بھی کچھ بولنے سے پہلے سوچنا بے حد ضروری ہے کہ بغیر سوچے سمجھے بس اوٹ پٹانگ باتیں بگھارنے سے نقصان تو الگ ہوتا ہی ہے اور لوگوں کے نزدیک عزت اور قدر بھی گھٹ جاتی ہے۔