07:11    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

557 2 0 25

خاموش قتل

‘’ڈاکٹر وامق.... کیا کہہ رہے ہیں آپ.... اور کس سے کہہ رہے ہیں .... کچھ پتہ ہے آپ کو....؟’‘

‘’ جی سر.... میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ کیا کہہ رہا ہوں .... اور کس سے کہہ رہا ہوں ....’‘ دوسری طرف سے ڈاکٹر وامق نے کہا۔

‘’ کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟’‘

‘’ یس سر.... میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ، وزیر ترقیات و تعمیرات کی موت ہو چکی ہے.... اور وہ بھی ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے .... جسے ایک انجکشن کے ذریعہ بڑھایا گیا تھا۔’‘

‘’یہ کیسے ہو سکتا ہے.... یہ ہونا تو ممکن ہی نہیں ۔ ‘‘

‘’ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں سر.... مگر ہونی تو ہو چکی ہے۔’‘

‘’ مگر وہ تو ڈاکٹر شمشاد کی نگرانی میں تھے ۔ ان کی ذمہ داری اور فرض شناسی پر تو کوئی بھی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ ‘‘ ڈاکٹر وامق نے کہا۔پھر ٹھہر کر ڈاکٹر وامق بولے۔ ‘’سر یہ ضروری تو نہیں کہ جس انجکشن سے وزیر ترقیات و تعمیرات کی موت واقع ہوئی ہے وہ ڈاکٹر شمشاد نے لگائے ہوں یا ان کی نگرانی میں ان کے علم میں لا کر لگائے گئے ہوں ۔’‘

‘’ نہیں ڈاکٹر وامق یہ ممکن نہیں .... ہم ڈاکٹر شمشاد پر ذرہ برابر بھی شک نہیں کر سکتے....’‘ڈاکٹر خان اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولے۔اسی لمحے ڈاکٹر خان کا بیٹا ولید وہاں پہنچا.... انہوں نے بات کو وہیں ختم کر دینے کے خیال سے کہا.... ‘’ٹھیک ہے.... میں ابھی وہیں پہنچ رہا ہوں ۔’‘ پھر فون کریڈل پر رکھتے ہوئے بیٹے سے کہا۔ ‘’ہاں ولید میاں کیا بات ہے؟ کیسے آنا ہوا؟’‘

‘’ڈیڈی.... آپ کو یاد نہیں کہ آج میرے ساتھ آپ کو کہاں چلنا ہے؟’‘

‘’ارے ہاں .... واقعی میں بھول گیا تھا۔ آج ۳۲ مارچ ہے۔ ‘‘

‘’ابو پانچ بج رہے ہیں اور ٹھیک چھ بجے میرا شو شروع ہو جائے گا۔’‘

‘’لیکن بیٹے....’‘

‘’لیکن ویکن کچھ نہیں ڈیڈی.... آپ ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتے ہیں جب دیکھو کام.... جب دیکھو کوئی نہ کوئی ایمرجنسی.... ہمارے لیے تو آپ کے پاس کوئی وقت ہے ہی نہیں .... ‘‘ولید نے باقاعدہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا.... ‘’لیکن آج میں کسی بھی قیمت پر آپ کو چھوڑوں گا نہیں .... ساتھ لے کر ہی چلوں گا۔’‘

یہ سن کر ڈاکٹر خان بڑی حد تک پگھل گئے مگر اسی لمحے ڈاکٹر وامق کا فون پھر آ گیا۔ ان سے گفتگو کرنے کے بعد انہوں نے ولید سے کہا ‘’بیٹے جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ حقیقت ہے۔ سچ ہے۔ ابھی تم نے خود دیکھا میں فون پر کیا بات کر رہا تھا۔ تمہیں شاید اندازہ نہیں کہ فون کرنے والے نے مجھے کیا پیغام دیا ہے۔ تم ضد نہ کرو۔ اپنے پروگرام میں شرکت کرو۔ جانتے ہو ہمارے اسپتال کے ڈاکٹروں کی نگرانی میں زیر علاج ایک صوبائی وزیر کی موت واقع ہو گئی ہے۔ وہ بھی کسی کی لاپروائی کی وجہ سے.... پوسٹ مارٹم رپورٹ نہ صرف حیرت انگیز اور چونکا دینے والی ہے بلکہ قصوروار ٹھہرائے گئے شخص کو سزائے موت تک دلوا سکتی ہے۔ مجھے تو محسوس ہو رہا ہے جیسے ہی یہ خبر عوام تک پہنچے گی لوگ جذبات سے بپھر جائیں گے۔ ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہو گا۔ اس وقت میرا اسپتال پہنچنا بے حد ضروری ہے۔’‘

‘’ابو آپ....’‘

‘’باقی باتیں بعد میں بیٹا!’‘ڈاکٹر خان نے ولید کی بات کو درمیان سے ہی کاٹتے ہوئے بڑی نرمی اور شفقت سے کہا اور پھر بڑے بڑے قدم اٹھاتے وہاں سے چلے گئے۔

ولید کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ پھر وہ بھی باہر نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا اور آرٹس کونسل کی طرف روانہ ہو گیا۔

ادھر ڈاکٹر خان کے دل و دماغ میں ایک طوفان سا اٹھا ہوا تھا۔ وہ ڈاکٹر وامق سے ہونے والی گفتگو پر برابر غور کر رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب ہو گا کیا.... صوبے کے عوام اپنے اس ہر دلعزیز رہنما اور وزیر کی ڈاکٹروں کی لاپروائی سے ہونے والی موت پر کتنے شدید ردِ عمل کا اظہار کریں گے کیا وہ اسپتال کی انتظامیہ اور ڈاکٹروں کی لاپروائی کو معاف کر سکیں گے جب ایک عوامی رہنما ایک صوبائی وزیر.... جس پر خاص توجہ خاص نگرانی ، خاص انتظامات کیے گئے اور وہ لاپروائی سے موت کی آغوش میں چلا گیا تو عام مریض، عام آدمی کا کیا ہو گا؟

حقیقت تو یہ تھی کہ وزیر موصوف کی موت ایک قتل تھا.... مگر یہ قتل کس نے کیا.... کیسے کیا؟.... یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ ابھی تک تحقیقاتی سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی۔ پاکستان کے تمام طبی ماہرین کا گروپ اس بات کو سمجھنے میں ناکام تھا کہ آخر انجکشن مرحوم وزیر کو دیا کیسے گیا۔ ان کے علاج میں کہیں بھی اس انجکشن کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ جبکہ موت اسی انجکشن کی وجہ سے ہوئی تھی۔

وزیر ترقیات و تعمیرات شیخ امجد حیات کا سیاسی قد کچھ اس قدر بلند و بالا تھا کہ وہ ایک عزیز سیاسی و سماجی شخصیت ہی نہیں بے حد عوام دوست اور مذہبی حلقوں میں بھی احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی وزارت کے دوران صوبے میں اچھے ترقیاتی اور تعمیراتی کام ہوئے تھے۔ بہت سی عوامی استعمال کی جگہوں اور پلاٹوں پر سے انہوں نے ناجائز قبضہ ختم کرا کے وہاں پارک اور عوامی مراکز قائم کرائے تھے۔ سب سے بڑی بات تو یہ کہ ان سے ہر شخص ہر وقت مل سکتا اور اپنا مسئلہ حل کرا سکتا تھا۔ عوام میں ان کا بے حد احترام اور اثر و رسوخ تھا۔

جب وہ اسپتال میں بغرض علاج داخل کرائے گئے تھے تو انہیں معمولی سا بخار تھا لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ معمولی سا بخار ان کے لیے موت کا سبب بن جائے گا۔

سب اپنی اپنی جگہ خاموش تھے کہ ڈاکٹر خان نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا مریض کی ٹریٹمنٹ فائل کے مطابق شیخ امجد حیات صاحب کو آٹھ مارچ کو اسپتال میں داخل کیا گیا ۔ آج صبح گیارہ بجے انہیں ایک انجکشن لگایا جانا تھا اور جو انجکشن ان کے لیے تجویز کیا گیا تھا اس کے بدلے انہیں دوسرا انجکشن لگا دیا گیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ یہ ساری تفصیل ان کی ٹریٹمنٹ فائل میں موجود ہے۔

غلط انجکشن لگانے کی وجہ سے وزیر موصوف کو برین ہیمرج ہو گیا اور اسی نے ان کی جان لے لی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وزیر موصوف کو وہ انجکشن کس نے اور کیوں لگایا.... اور کس کے کہنے یا مشورے پر ۔ اسی دوران ڈاکٹر فہیم بھی وہاں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر آفرین بھی تھیں ۔

جب کسی سے کچھ کہتے بن نہ پڑا تو ڈاکٹر آفرین نے کہا۔ ۲۲ مارچ کی رات آخری راؤنڈ والی ڈاکٹر میں خود تھی.... جہاں صوبائی وزیر موصوف داخل تھے چونکہ وہ مخصوص حصہ تھا وہاں کا ہر مریض اپنے اپنے ماہرین معالج کے کیبن میں تھا۔ وزیر موصوف کو بھی دس بجے جو انجکشن لگایا گیا تھا وہ ان کی میڈیکل ریزیوم کو کمپیوٹر اسکرین پر پڑھنے کے بعد ہی لگایا گیا تھا اور اس انجکشن کو لگانے والا کوئی اور نہیں میں خود تھی۔ ‘‘ کہہ کر ڈاکٹر آفرین لمحے بھر کے لیے رکیں ۔ پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولیں .... ‘’مگر یہ یاد رہے کہ جس وقت میں نے انجکشن لگایا تھا اس وقت اسپتال کے وی آئی پی ٹائم کیپر احمد علی صدیقی اور اسپتال کا سوئپر ڈینیل مارش اور میری نائب نرس معطر نے بھی اپنی اپنی ڈائری میں نوٹ کیا تھا کہ مریض کی ٹریٹمنٹ ریزیوم میں جو انجکشن درج تھا وہی انہیں دیا گیا۔

ڈاکٹر آفرین نے جس طرح ٹائم کیپر اور سوئپر کا نام اور ساتھ ساتھ اپنی معاون معطر کا نام شامل کیا تھا اس کی وجہ سے ان پر کسی بھی قسم کے شک کیے جانے کا جواز ہی باقی نہیں رہتا تھا۔

‘’ڈاکٹر خان .... آپ کا کیا خیال ہے؟اس طرح ہونی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔’‘ ڈاکٹر شمشاد نے ایک طائرانہ نظر سب پر ڈالتے ہوئے سوال کیا۔

‘’یہی تو میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت میڈیکل ریزیوم میں جو انجکشن لکھا ہوا ہے وہ اس وقت تبدیل کیسے ہو گیا؟’‘

‘’آپ نے کمپیوٹر لاک کرتے وقت بھی تو چیک کیا ہو گا ۔’‘

‘’ یس سر.... جب میں یہاں سے گیا تھا تو کمپیوٹر لاک تھا اور جب میں واپس آیا اس وقت بھی وہ لاک ہی تھا۔ ‘‘ ڈاکٹر فہیم نے بتایا۔

سب کے دل و دماغ میں بس یہی ایک سوال گردش کر رہا تھا کہ پھر یہ سب کیسے ہو گیا.... اور اس غلطی کے نتائج سے وہ اپنی اپنی جگہ خوف زدہ بھی تھے۔ یہ ان کے پیشے اور ان کی عوامی ساکھ پر زبردست وار تھا۔

ڈاکٹر خان اپنے کمرے میں نڈھال پڑے سوچ کے گہرے سمندر میں غوطے کھا رہے تھے کہ ولید کی آواز کمرے میں گونجی۔ ‘’ابو .... ڈیڈی.... آپ کہاں ہیں ....’‘ اور کمرے کی لائٹ روشن کر دی۔

‘’ارے .... آپ .... یہاں اس طرح .... خیریت تو ہے بہت پریشان سے نظر آ رہے ہیں ۔ ‘‘ ولید نے اپنے ابو کو دیکھ کر سوال کیا۔ پھر ان کے جواب کا انتظار کیے بغیر خوشی سے چہکتا ہوا بولا۔ ‘’ابو آج کے پروگرام میں میری تقریر کو بہت سراہا گیا اور مجھے پہلے انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ اگر آپ پروگرام میں شریک ہوتے تو آپ بھی میری کامیابی پر پھولے نہ سماتے۔

ولید کی بات سن کر ڈاکٹر خان نے کہا

‘’ بیٹے.... اس وقت میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے.... کیونکہ آج میرے اپنے اسپتال میں ایک ایسی انہونی ہو گئی ہے جس نے ساری انتظامیہ اور ماہر ڈاکٹرز کے ذہن مفلوج کر کے رکھ دیئے ہیں ۔ ‘‘

‘’ایسی کیا انہونی ہو گئی ڈیڈ....’‘

‘’انہونی .... انہونی یہ ہوئی ہے کہ ایک اہم سیاسی رہنما اور صوبائی وزیر ہمارے یہاں زیر علاج تھے ان کی اچانک موت واقع ہو گئی ہے اور وہ بھی کمپیوٹر کی غلطی سے ۔’‘

‘’ کمپیوٹر کی غلطی سے....’‘ ولید نے حیرانی سے جملہ زیر لب دہرایا۔

‘’ہاں بیٹے کمپیوٹر کی غلطی سے .... ‘‘ ڈاکٹر خان نے اپنے بیٹے کو تفصیل سے آگاہ کیا۔

‘’ یہ تو بہت افسوس کی بات ہے۔ مجھے آپ سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ‘‘ ولید کمرے سے باہر نکل گیا۔ اسے اپنے باپ کی پریشانی اور مسئلے کی نزاکت کا احساس ہی نہیں ہو سکا تھا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر خان اپنے ساتھ اسپتال سے لائی گئیں فائلیں دیکھ رہے تھے۔ دراصل ان سے کہا گیا تھا کہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران جواب دینے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے جواب بنا لیں .... اس لیے وہ وطن عزیز میں ہونے والے اس پہلے سائبر کرائم کو اچھی طرح خود سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔

دوسرے دن صبح کے ہر عوام کے دلعزیز رہنما کے قتل کی تحقیقات پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ اب آگے پڑھئے کہ حکومت قتل کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئی یا نہیں ؟....

حکومت نے اب میڈیا کے دبا و میں آ کر اس قتل کی تحقیق کی ذمہ داری سی آئی بی کے حکام کو سونپی ہے۔سی آئی بی کو تحقیقات کرتے ہوئے ایک دو دن نہیں پورا ایک ماہ ہو گیا۔ مگر وہ بھی مجرم تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ اخبارات محکمہ پولیس اور صوبائی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سی آئی بی کے حکام کی ناکامی پر طنزیہ جملوں میں باتیں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے کالم بھی لکھے اور کارٹون بھی شائع کیے۔ مگر سب بے سود ہی رہا۔ گھوم پھر کر ایک ہی سوال رہ گیا تھا کہ آخر وہ کون ہے جس نے لاک کمپیوٹر میں نقب لگا کر یہ واردات کی۔

سینئر ڈاکٹر اور انتظامی چیف ہونے کے ناطے ڈاکٹر خان اپنے گھر میں اپنے ادارے کی بدنامی اور رسوائی پر غور و فکر کر رہے تھے اور واردات کے ذمہ دار کا پتہ لگانے کی کوشش میں مصروف تھے کہ فون کی گھنٹی نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا اور کان سے لگا کر بولے

‘’ہیلو .... ‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔

‘’ڈاکٹر صاحب، السلام علیکم ! میں کراچی سے سائبر انجینئر کاشف لطیف بات کر رہا ہوں ۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جو کام آپ یا آپ کی حکومت کے ادارے انجام نہ دے سکے۔ اسے انجام دینے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں ۔ آپ کراچی میں کہاں سے بول رہے ہیں ۔ ڈاکٹر خان نے سوال کیا۔

ڈاکٹر صاحب یہ اتنا ضروری نہیں ہے۔ آپ یہ جان لیں کہ میں نیو یارک میں ہیکنگ سائبر کے معاملات دیکھنے والا واحد پاکستانی ہوں ۔ میں یہ کام اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت یہ سمجھ سکے کہ جن نوجوانوں کی صلاحیتوں کو وہ نظر انداز کرتی ہے وہ کیسی کیسی بے مثل صلاحیتوں کے مالک ہیں اور وہ اپنے وطن اور اہل وطن کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں .... اور فون کا رابطہ کٹ گیا۔ لیکن ڈاکٹر خان کے چہرے پر سے تفکرات کے بادل چھٹ گئے۔ وہ سوچوں کے بھنور سے نکل آئے ان کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی۔

دوسرے دن ڈاکٹر خان اپنے چیمبر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی اپنی مخصوص آواز میں بج اٹھی۔ ڈاکٹر خان نے ریسیور اٹھایا تو ادھر سے کل ہی والی آواز سنائی دی۔’’ ڈاکٹر خان .... السلام علیکم ، میں کاشف سائبر انجینئر بات کر رہا ہوں ۔ کیا آپ اس وقت مجھ سے ملنا پسند کریں گے۔’‘

‘’کیوں نہیں ؟ مجھے آپ سے مل کر یقیناً خوشی ہو گی۔’‘ ڈاکٹر خان نے خوشگوار انداز میں کہا۔ ٹھیک ہے تو پھر میں آپ کے پاس دس پندرہ منٹ میں اسپتال پہنچ رہا ہوں ۔ دوسری طرف سے آواز آئی اور رابطہ منقطع ہو گیا۔

ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ آواز آئی۔

‘’ السلام علیکم، کیا میں اندر آسکتاہوں ۔’‘

انہوں نے کھڑے ہو کر استقبال کرتے ہوئے اندر آنے کی اجازت دی۔ ان کے سامنے ایک خوبصورت خوش لباس نوجوان بڑی خود اعتمادی سے کھڑا تھا۔

‘’ ڈاکٹر صاحب .... میرا تعلق اسی کراچی شہر سے ہے۔ آج کل میں چھٹیاں گزارنے یہاں آیا ہوا ہوں ۔ میں نے اخبارات میں آپ کے اسپتال میں ہونے والی ایک اہم شخصیت کی موت کے بارے میں پڑھا اور مجھے امید ہے کہ انشاء اﷲ یہ معمہ حل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔

ڈاکٹر خان کاشف سے پہلی مرتبہ نہیں مل رہے تھے۔ ہاں اس انداز اور اس روپ میں ان کی کاشف سے یہ پہلی ملاقات ضرور تھی۔ حالانکہ وہ کاشف سے پہلے بھی مل چکے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کاشف ایک طالب علم تھا۔اور اس کالج میں ان کا بیٹا ولید بھی۔ کاشف کی دوستی اسلامی ذہن رکھنے والے طالبعلموں سے تھی۔ جبکہ ڈاکٹر خان کو ان دنوں مذہب سے تعلق رکھنے والوں سے خدا واسطے کا بیر سا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹے ولید کو کاشف کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بڑی سختی سے منع کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مذہبی لوگ قدیم فرسودہ خیالات کے مالک ہوتے ہیں ۔ تم ان کے ساتھ رہو گے تو جدید دنیا سے دور ہو جاو گے۔ یوں انہوں نے ولید کو تو پابند کر دیا تھا مگر کاشف نے اس سے رابطہ برقرار رکھا تھا۔ یہ اس کی دینی تعلیم کا اثر تھا۔

کاشف کو سائنس سے دلچسپی تھی۔ اس نے ایم ایس سی کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینئرنگ کی طرف توجہ کی اور جلد ہی اپنی ذہنی اور خداداد صلاحیتوں کے سبب امریکہ میں اسکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ نیویارک میں اس کی شہرت اور اس کے کردار و اخلاق کا اثر یہ ہوا کہ اسے انٹرپول جیسے بین الاقوامی ادارے میں سائبر انجینئر کے عہدے کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ وہ انٹرپول کا پہلا پاکستانی اور مسلمان شخص تھا جسے یہ اہم عہدہ سونپا گیا تھا۔

ڈاکٹر خان نے میز پر رکھی فائلوں کو خاموشی سے کاشف کی طرف بڑھا دیا۔ کاشف اب فائلوں میں گم تھا۔ اسی وقت قریبی مسجد سے ظہر کی اذان بلند ہوئی اورکاشف ڈاکٹر خان سے اجازت لے کر فائل سمیت سیدھا مسجد جا پہنچا۔

نماز پڑھنے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کاشف نے زمانہ طالبعلمی کے دوست واصف کو فون کیا۔ واصف جسے تعمیرات کے کاموں سے دلچسپی تھی اور تعلیم مکمل کر لینے کے بعد ایک بلڈر کے ساتھ منسلک ہو گیا تھا۔

‘’کہاں ہو بھائی.... ‘‘اس نے سلام کے بعد پہلا سوال کیا اور واصف نے اسے اپنے ساتھ چائے پر شام کو مدعو کر لیا۔

شام کے وقت دونوں ایک کیفے میں ملے۔ واصف نے بھی بڑی گرم جوشی کا اظہار کیا اور پھر دونوں ماضی کے دور طالب علمی کی باتوں میں کھو گئے۔ کون کہاں ہے؟ کیا کر رہا ہے؟ باتوں باتوں میں واصف سے تعمیراتی باتوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ وہ جس بلڈر کے ساتھ وابستہ تھا وہ ایک اچھا اور نامور بلڈر تھا۔ اس کا اثر و رسوخ وزارت ترقیات و تعمیرات میں بھی تھا۔ وزارت ترقیات و تعمیرات کے ذکر پر کاشف کو اپنی بات کرنے کا موقع مل گیا۔ کچھ اور باتیں ہوئیں تو کاشف سے واصف نے کہا کہ وہ اس سے تعاون کرے تو اس موت کے راز سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔ واصف نے کہا۔ میں سمجھا نہیں ۔ اس موت کے راز سے پردہ اٹھانے کے لیے بھلا میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں ۔

ہاں شاید تم یہ بات اس لیے کہہ رہے ہو کہ یہ ایک سائبر کیس ہے اور کمپیوٹر ، نیٹ یا سائبر سے تمہارا کیا تعلق .... کیوں ؟ ہے نا یہی بات.... مگر تمہارے تعاون کے بعد شاید میں اس راز سے جلدی پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ کیونکہ تمہارا تعلق تعمیرات کرنے والے ایک بڑے اور ملک کے اہم ادارے سے ہے۔

چلو ، ٹھیک ہے میں تعاون کروں گا۔ مگر کس طرح ؟ واصف نے اپنی رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

ٹھیک ہے میں اس سلسلے میں کل پھر تم سے ملوں گا ۔ تم یہیں اسی وقت اس کیفے میں مجھ سے ملنا۔ کہتے ہوئے کاشف نے کھڑے ہو کر بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور السلام علیکم کہتے ہوئے رخصت ہو گیا۔

ادھر ڈاکٹر خان ہیڈ آف دی منیجمنٹ ہوتے ہوئے شہریوں اور اعلیٰ حکام کے سخت دباؤ میں تھے۔ وزیر موصوف کے ایک حامی نے تو دھمکی دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر حقائق عوام کے سامنے نہ لائے گئے تو خود ان کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اور ڈاکٹر خان اس دھمکی سے بے حد خوف زدہ تھے۔

کاشف نے آج ہی ان سے کہا تھا کہ آج اسے کچھ قانونی دستاویز تیار کرنے ہیں اس سلسلے میں وہ ان سے صبح کو ملنا چاہتا ہے اور یہ ملاقات وہ پولیس ہیڈ آفس میں کرے گا جہاں سے اسے کیس کے متعلق پولیس کی اب تک کی تحقیق درکار ہے۔ وہ وہیں مل جائیں اور میڈیکل رپورٹس سے متعلق فائلیں بھی اسے دے دیں ۔

شام کو کاشف نے واصف سے رابطہ کیا اور اس سے ملنے کے لئے کہا۔ واصف نے اسے پانچ بجے کے بعد طارق روڈ پر واقع ایک کیفے میں ملنے کے لیے وقت دے دیا۔

شام کو پانچ بج کر بیس منٹ پر دونوں دوست کیفے میں ملے ۔ رسمی گفتگو کے بعد کاشف اصل موضوع پر آ گیا۔

‘’ دراصل مجھے کراچی کا ماسٹر پلان چاہیے۔ پھر قدرے ٹھہر کر بولا۔

‘’واصف .... کیا تمہارے باس کی مرحوم صوبائی وزیر شیخ امجد حیات سے کوئی رنجش تھی۔’‘

‘’ ہاں ....تھی تو سہی۔ واصف نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

وہ کس لیے.... کاشف نے اس کے چہرے پر اپنی نظریں جماتے ہوئے سوال کیا۔

دراصل اس کی وجہ کراچی کا ماسٹر پلان ہی تھا۔ اس پلان کی زد میں میرے باس کی پانچ فیکٹریاں اور دو شاپنگ پلازے آ رہے تھے اور اس کے علاوہ تین رہائشی فلیٹوں کے بلند و بالا منصوبے بھی.... واصف نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا اور یہ تفصیلات سنتے ہی کاشف کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک آ گئی اور واصف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کاشف نے اپنی جیب سے ایک چمکدار بٹن جیسا گول خوبصورت ٹکڑا نکالا اور واصف کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔

اسے اپنے پاس رکھ لو.... یہ ایک جدید اور نہایت ہی حساس قسم کا ٹیپ ریکارڈر ہے۔ تم اسے اس کرسی کے ساتھ منسلک کردینا جو کرسی تمہارے باس استعمال کرتے ہیں ۔

دو دن بعد یہ ٹیپ ریکارڈر تم مجھے واپس لا کر دو گے.... اب تو مجھے صرف تمہارے اس کام کو کر دینے کا ہی انتظار ہے۔ اور دو دن بعد واصف نے اپنے وعدے کے مطابق وہ ٹیپ اور کراچی کے ترقیاتی منصوبے کی فائل کاشف کے حوالے کر دی۔ کاشف نے اس ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ کی ہوئی ڈیجیٹل گفتگو کو ایک عام ٹیپ ریکارڈر پر منتقل کیا تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں ۔ پورے تین سو منٹ کا تیار آڈیو کیسٹ جب رات کو اطمینان سے کاشف نے سنا تو ایک جگہ کی گفتگو سن کر وہ حیران رہ گیا۔ دراصل وہ چودھری حمید کا نام سن کر چونکا تھا۔ اس نے یہ نام نیند کی حالت میں نہیں اپنے پورے ہوش و حواس میں سنا تھا۔ اس نے فوراً ہی ٹیپ کو ذرا سا پیچھے کیا اور دوبارہ سنا۔ یہ نام کسی عام شخص کا نہیں تھا۔ کاشف کو اچھی طرح معلوم تھا کہ امریکہ میں یہ نام رابرٹ مائیکل نامی سائبر ہیکر کے بہت ہی اہم رکن کا نام ہے۔

کاشف کو یہ بھی معلوم تھا کہ رابرٹ مائیکل کی ٹیم سے الگ ہو کر چوہدری حمید کو پاکستان کے انڈر ورلڈ گروپ نے امریکہ سے زیادہ معاوضے پر اپنے ساتھ کام کرنے کے لئے رکھ لیا تھا۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ آج کل چوہدری حمید کراچی میں کوئی ویب سائٹ بھی چلاتا ہے۔ اور پھر اسے اس نتیجے تک پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ شاید حمید نے کراچی کا ماسٹر پلان برباد کرنے کے لیے ہی یہ سب کچھ کیا ہے۔

صبح ہوتے ہی کاشف کراچی پولیس کے ہیڈ آفس پہنچا اور وہاں سے کچھ ضروری کاغذات تیار کرانے کے بعد ڈاکٹر خان کو بھی وہیں بلوا لیا اور کراچی پولیس کے چند اہم افسروں کو ساتھ لے کر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے وہاں سے چل پڑا۔

ڈاکٹر خان ابھی تک کاشف کی تمام سرگرمیوں کا مطلب سمجھ نہیں سکے تھے لیکن انہوں نے کاشف کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر سکون و اطمینان کے سائے لہراتے دیکھ کر یہ اندازہ ضرور کر لیا تھا کہ وہ کامیابی کے قریب پہنچ چکا ہے۔ وہ دل ہی دل میں اس کی کامیابی کے لیے دعا بھی کر رہے تھے۔

12بج کر پچاس منٹ پر پولیس حکام اور ڈاکٹر خان کے ساتھ کاشف ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی میں قائم شاپنگ اسٹار سائبر ایجنسی میں پہنچا جہاں چوہدری حمید اپنی ویب سائٹ چلایا کرتا تھا۔ چودھری حمیداس طرح اچانک پولیس کا سامنا کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھا۔ وہ پولیس کو اپنے سامنے دیکھ کر بری طرح چونک گیا۔ خود کو معمول کے مطابق پر سکون ظاہر کرنے لگا۔ مگر اس کے چہرے پر آیا ہوا پہلا تاثر کاشف اور پولیس حکام کی تیز نظروں سے چھپا نہ رہ سکا تھا۔ مگر جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کی سائبر ایجنسی پر چھاپہ مارنے والا کاشف صدیقی ہے تواس کے چہرے پر حیرت اور گھبراہٹ کے آثار پھر ابھر آئے۔

امریکہ میں رہنے کی وجہ سے چوہدری حمید کاشف کے نام اور اس کی خداداد صلاحیتوں سے بے خبر نہیں تھا۔ اس لیے اس نے خاموشی سے مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پولیس ہیڈ آفس پہنچتے پہنچتے وہ پوری طرح ڈھیلا پڑ گیا۔

جب پولیس نے معلومات کے لیے اس سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا تو اس نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ چار اگست کو شہر کے معروف بلڈر شیخ ابوالحسنات احمد نے بلا کر کہا کہ یہیں ٹھہرو.... تمہارے لیے دبئی سے کال آنے والی ہے۔ دبئی سے کال کا نام سنتے ہی ایک بارگی تو میں سکتے میں پڑ گیا لیکن پھر اس کال کا انتظار کرنے لگا۔ دس منٹ بعد وہ کال آ گئی۔ جیسے ہی ریسیور میں نے کان سے لگایا تو مجھے معلوم ہوا کہ ادھر سے انڈر ورلڈ کا سربراہ بات کر رہا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ شیخ ابوالحسنات احمد جیسے کہیں اس کے مطابق ان کا کام کر دو۔ میں یہ سن کر گھبرا گیا۔ مگر میرے پاس اس کام سے انکار کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں شیخ ابوالحسنات احمد کی بات سنوں اور اسی پر عمل بھی کروں ۔ جب میں نے شیخ ابوالحسنات احمد سے بات بتانے کے لیے کہا تو اس نے سوال کیا کہ کیا میں کسی لاک کمپیوٹر کو کھول کر اس کی فائل بدل سکتا ہوں ۔ تمہیں اس کام کا معاوضہ پانچ لاکھ روپیہ ملے گا۔ میں پیسے کے لالچ میں تو نہیں ہاں انڈر ورلڈ سربراہ کے حکم سے مجبور ہو کر اس کام کے لئے تیار ہو گیا لیکن اس وقت تک مجھے اصل پروگرام کا علم نہیں تھا۔

14اگست کو مجھے پروگرام کے متعلق بتایا گیا کہ نو بج کر پینتالیس منٹ پر مجھے اسپتال کی ویب سائٹ کھول کر اس میں تبدیلی کرنی ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا تھوڑی سی جدوجہد کے بعد مجھے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو گئی اور جب میں نے اپنی کامیابی کے بارے میں شیخ صاحب کو بتایا تو وہ خوش ہو گئے۔

اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق میں نے لاک کمپیوٹر کو نو بج کر پچاس منٹ پر کھول کر اس میں لکھے انجکشن کا نام بدل دیا اور انجکشن لگائے جانے کے وقت کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ دس بج کر دس منٹ پر میں نے پھر وہی پہلے والے انجکشن کا نام ریزیوم میں لکھ کر کمپیوٹر کو لاک کر دیا اور اس کام کا نتیجہ وہی ہوا جس کا ہمیں انتظار تھا یعنی وزیر موصوف کی موت....

کراچی پولیس ہیڈ آفس میں اس اقبالی بیان کو سننے کے لیے تمام پولیس افسران اور اعلیٰ حکام اور سرکردہ اخبار نویس ، صحافی، الیکٹرونک میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔

دوسرے دن اخبارات میں جب اس خاموش قتل کی تفصیلات شائع ہوئیں تو تمام پڑھنے والے حیران رہ گئے۔ اور جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ کارنامہ ایک پاکستانی کا ہے جو امریکہ سے یہاں اپنی تعطیلات گزارنے کے لیے آیا ہوا ہے تو خوشی اور حیرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

ڈاکٹر خان کو جب ان کے بیٹے ولید نے کاشف کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ابو یہ وہی کاشف ہیں جن سے میری دوستی پر آپ کو اعتراض تھا تو وہ بھی حیرت سے کاشف کو دیکھتے ہوئے بولے۔

‘’ معاف کرنا بیٹے.... میں نے تمہیں غلط سمجھا۔ تم نے تو واقعی حیران کن ترقی کی ہے۔ ایسی ترقی کا تو میں تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ کاش میں نے ولید کو تم سے الگ نہ کیا ہوتا تو آج یہ بھی ملک کی خدمت کرنے کے قابل ہوتا۔

انکل .... دراصل یہ آپ کا قصور نہیں ان لوگوں کی ذہنیت کا قصور ہے جو اسلامی تعلیمات کو صرف روزے ، نماز، حج اور زکوٰة تک محدود کرتے ہیں اسلام تو زندگی کے ہر ہر شعبے پر نافذ کرنے والا دین ہے۔ اسلام نے ہی دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنسی تحقیقات کی تعلیم دی۔ ہمارے وہ قرون اولیٰ کے مسلمان سائنسدان اور موجد اس کی واضح اور زندہ مثال ہے۔

تم نے بالکل ٹھیک کہا بیٹے.... مجھے بھی اپنا لٹریچر لا کر دینا میں بھی اپنے اندر تبدیلی لانے کی کوشش کروں گا۔ ڈاکٹر خان نے کہا اور اپنے جدید نظریات اور نام نہاد روشن خیالی سے دل ہی دل میں تائب ہو کر صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ ان کے اسپتال میں ہونے والا ایک خاموش قتل ان کی اصلاح کا راستہ بھی دکھا گیا تھا۔

میں یہی خبر شہ سرخیوں میں نظر آ رہی تھی۔ ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھ دیا تھا کہ وزیر ترقیات و تعمیرات شیخ امجد حیات کو ان کے سیاسی مخالفین نے اسپتال کی انتظامیہ سے مل کر قتل کرایا ہے۔

تیسرے دن ایک قومی اخبار نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ قاتلوں کی پہنچ سے اب اسپتال بھی محفوظ نہیں رہے۔ جس کا ثبوت اہم سیاسی شخصیت ، عوامی رہنما اور صوبائی وزیر شیخ امجد حیات کی نامعلوم قاتل کے ہاتھوں موت ہے....

٭٭٭

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 2 تبصرے

شہزاد بشیر (کتاب دوست ڈوٹ کوم)
اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھ سے اس نمبر پر کال یا واٹس ایپ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ 03072395447 ای میل ۔ info@kitabdost.com ز سوشل میڈیا پروفائل : https://www.facebook.com/shahzadbashir.author/
شہزاد بشیر (کتاب دوست ڈوٹ کوم)
سید کاشان جعفری صاحب۔ السلام علیکم۔ میں بچپن میں‌آپ کی تحاریر شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ بچوں کا رسالہ ٹوٹ بٹوٹ اور دیگر میں آپ کی جو تحاریر ہوتی تھیں مجھے بہت پسند تھیں۔ اب میں الحمد للہ خود ایک ناول نگار ہوں اور پبلشر بھی ہوں۔ آپ کو کئی بار سرچ کیا اور ابھی یہ تحریر مل گئی ۔ برائے مہربانی آپ اپنا کوئی رابطہ نمبر یا سوشل میڈیا لنک دیجئے یا ای میل۔ میں آپ سے رابطہ کرنا چاہتا ہوں۔ شکریہ

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔