08:05    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1128 0 0 00

امی ابو

‘’امی گھر پر نہیں ہیں ۔’‘ تانیہ نے ناجی سے کہا۔

‘’کک کک کیا.... امی گھر پر نہیں ہیں ! آخر کہاں گئیں !! وہ تو کہیں بھی نہیں جاتیں ۔’‘ ناجی نے تشویش سے سوچا اور ہاتھ میں پکڑا رجسٹر میز پر رکھ دیا۔

‘’مگر تم اب تک کہاں تھیں ۔’‘ تانیہ نے سوال داغا۔

‘’تمہیں اس سے کیا مطلب، ظاہر ہے دیر سویر تو ہو جاتی ہے، آج امی کی پوچھ گچھ کا فریضہ تم انجام دے رہی ہو....’‘

‘’نہیں نہیں مجھے تو فکر کھائے جا رہی ہے کہ آخر میری پیاری سی امی کہاں گئیں ۔’‘ تانیہ نے پریشانی سے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھاما۔

‘’ابو کے آنے کا وقت تو ہو گیا ہے، ہو سکتا ہے ابو کو اس بات کا علم ہو۔’‘ ناجی نے گھڑی پر نظریں جمائیں ۔

اور پھر دس بھی بجے اور گیارہ پھر بارہ بھی مگر آج تو ابو کا بھی اتہ پتہ نہ تھا۔

ہاں البتہ بارہ بجے کے بعد حسب معمول جنید گھر میں داخل ہوا۔

‘’امی امی۔’‘ جنید حسب معمول امی امی پکارتا ہوا ڈائننگ روم میں آیا۔ مگر تانیہ اور ناجی کو فکر مند دیکھ کر اس کی بھی سٹی گم ہو گئی۔ امی ابو دونوں لاپتہ تھے۔

‘’ایسا مت کرو نیلو آنٹی کو فون کرو، شاید انہیں کچھ علم ہو۔’‘ ناجی نے تانیہ سے کہا۔

‘’تم خود بھی تو کر سکتی ہو، مجھ سے ہر کام کروانے کی تمہیں عادت پڑ چکی ہے۔’‘ تانیہ نے ناک سکریٹری۔

‘’ایسے آڑے وقت میں بھی تم لڑائی کرو گی، حد ہوتی ہے۔’‘ ناجی نے پلکوں پر آئے ہوئے آنسوؤں کے ننھے قطروں کو ٹشو پیپر میں جذب کیا اور خود ہی فون کے ڈائل میں انگلیاں الجھانے لگی۔

‘’جنید بھائی امی ابو آخر کہاں گئے، ابو کے آفس تو فون کر کے دیکھیں ۔’‘ ناجی نے تجویز پیش کی۔

‘’مگر میری بھولی بہن، رات ایک بجے آفس میں کوئی بھی نہیں ہوتا۔’‘

اب تو جنید بھی پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔

‘’جہاں بھی جانا ہے آخر بتا کر تو جاتے ، انہیں ہماری پریشانی کا کچھ علم ہی نہیں ۔’‘ جنید نے اپنی جینز کی جیب سے چابی نکالتے ہوئے کہا۔

‘’یہی بات تو امی بھی آپ سے روز کہتی تھیں ۔’‘ ناجی نے روتے ہوئے کہا۔

‘’بس خاموش ہو جاؤ اپنی بک بک بند کرو۔’‘ جنید نے غصے سے دانت پیسے۔

‘’دیکھو یہ وقت لڑنے کا نہیں بلکہ اپنی پریشانی کو شیئر کرنے کا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ خدانخواستہ امی ابو کسی مصیبت میں گرفتار ہو چکے ہوں ۔’‘ ناجی نے بہت کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

‘’کہیں کوئی روڈ ایکسیڈنٹ ....’‘

‘’بس بس اس سے آگے ایک لفظ بھی نہ بولنا، ورنہ میں تمہارا سر توڑ دوں گی۔’‘ ناجی تو اب زار و قطار رونے کو تھی۔

‘’امی ابو پلیز جلد آ جائیں نا، ہم آپ کے بغیر نہیں رہ سکتے....’‘ ناجی روتی جاتی اور خود کلامی کے سے انداز میں کہتی جاتی۔

رات کے دو بج چکے تھے اور اب تو جنید کی بھی سٹی گم تھی۔دونوں کے موبائل سے بھی کوئی جواب نہ آ رہا تھا،دونوں کے موبائل فون بھی بند تھے۔

‘’ میں اب باہر پتہ کرتا ہوں ۔’‘ جنید نے گاڑی کی چابی نکالی۔

‘’لیکن ہم اکیلے گھر پر نہیں رہ سکتے، ہم بھی ساتھ چلیں گے۔’‘ تانیہ اور ناجی دونوں نے اپنے اپنے اسکارف سنبھالے اور گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئیں ۔

‘’ پہلے سجیلہ آنٹی کے گھر پتہ کرتے ہیں ۔’‘ تانیہ نے تجویز پیش کی۔

‘’بیوقوف یہ وقت آنٹیوں کے گھر پتہ کرنے کا نہیں اس سے بہت برا تاثر ابھرے گا، میں تو اسپتالوں میں پتہ کرنے نکلا ہوں ۔ ‘‘

‘’ لیکن امی ابو بیمار تو نہیں ۔’‘ تانیہ نے معصومیت سے کہا۔

‘’ارے میری بھولی بہن انہیں کوئی حادثہ بھی تو پیش آسکتا ہے ورنہ آدھی رات تک دونوں کا گھر سے باہر رہنا کیا معنی رکھتا ہے۔

‘’ نہیں نہیں جنید بھائی ایسا نہ کہیں ۔’‘ تانیہ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور اب وہ پھر بلکنے لگی۔

‘’امی پیاری امی آپ کہاں ہیں .... ابو آپ ہی آ جائیں ہم اکیلے نہیں رہ سکتے....’‘ تانیہ کی بڑبڑاہٹ جاری تھی اور پھر ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ تینوں اک بار پھر گھر پر تھے۔

‘’ابو تو اتنے غیر ذمہ دار نہیں ۔’‘ جنید نے گویا اک حتمی رائے دی۔

‘’بہرحال اب ہم سب سے جتنا ہو سکتا تھا ہم نے کر لیا، اب ایسا کرتے ہیں ہم سب صلوٰة حاجات پڑھنا شروع کر دیتے ہیں ، اﷲ تعالیٰ کے آگے جھکنے سے مسئلے خود بخود حل ہو جاتے ہیں ۔’‘ ناجی نے رائے دی اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں مصلّے پر تھے۔

ناجی اور تانیہ تو باقاعدہ رو رہیں تھیں جبکہ جنید کی پلکوں پر بھی ننھے ننھے آنسو ڈول رہے تھے۔ کچھ دیر بعد نماز سے فارغ ہوئے تو تینوں امی ابو کے کمرے میں جا دھمکے ۔دونوں کے نہ ہونے سے وہاں گہرا سکوت تھا۔

امی کی آرام کرسی خالی تھی، امی کا چشمہ، دوائیاں ، رومال سب کچھ سائیڈ ٹیبل پر دھرا تھا جبکہ ابو کی کتابیں ، گاؤن اور پائپ بھی قریب ہی رکھا تھا۔

ناجی نے یونہی بے خیالی سے امی کا دراز کھول لیا۔ مگر یہ کیا! اس میں تو ان تینوں کے نام خط تھے۔سب سے پہلے تینوں نے جنید کے نام لکھا خط کھولا۔

‘’پیارے اور میرے راج دلارے جنید!

میں اور تمہارے ابو یہاں سے جا رہے ہیں ، اس لیے کہ ہم دونوں تمہارے معمولات زندگی سے بہت پریشان ہیں تم سے ہر دفعہ کہتے آئے ہیں کہ جلد گھر لوٹا کرو اور اگر کسی معقول وجہ سے دیر بھی ہو تو اطلاع کر دیا کرو مگر یہ تو تمہاری توہین ہے کہ تم اپنی امی کی پریشانی کا ذرا خیال کر لو اور جلدی گھر آنے کی کوشش کر لو، اب شاید تمہیں احساس ہو گیا ہو گا کہ اطلاع نہ کرنے سے اور گھر دیر سے لوٹنے سے تمہاری امی کے دل پر روز کیا گزرتی ہو گی۔’‘

خط پڑھ کر جنید کی آنکھوں میں آنسو ڈول گئے۔

‘’ امی مجھے معاف کر دیں ۔’‘ جنید کی آنکھیں بھیگی جا رہی تھیں ۔ دوسرا خط تانیہ اور ناجی کے نام تھا۔

پیاری ناجی اور تانیہ!

میں اور تمہارے ابو یہاں سے جا رہے ہیں ۔ اب یہ سارا گھر تم دونوں کے سپرد ہے ۔ تم لوگ ہمارے یہاں سے جانے کو اپنی سزا سمجھو کیونکہ غیر ذمہ داری کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر پڑھنے کا معاملہ ہو یا دیر سے گھر لوٹنا ہو ، دونوں صورتوں میں اپنی امی کو اطلاع کر دینا گویا کچھ ایسا ضروری نہیں ۔ اب تو روز تم لوگوں کا انتظار کرتے ہوئے اور دروازوں کو تکتے ہوئے میں بلڈ پریشر کی مریض بن چکی ہوں ۔ اب تم لوگ آزاد ہو۔ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارو۔جس وقت جی کرتا ہے لوٹو کوئی تمہارا انتظار نہیں کرے گا۔

تینوں کی آنکھیں خط پڑھ کر اشک بار تھیں ، تینوں ہی خاموش سسکیاں بھر رہے تھے اور پھر ناجی نے غور و فکر سے دوبارہ خط پڑھنا شروع کیا اور ان سب کی توجہ خط کے نیچے لکھے ہوئے ایک گمنام نمبر پر دلائی۔

جنید کی آنکھیں سخت متورم تھیں ، دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس نے بے ساختہ ہی نمبر ملایا۔ دوسری طرف امی تھیں ۔

‘’امی ہم تینوں آپ سے سخت شرمندہ ہیں ، ہم آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیں گے....پلیز ہمارے پاس آ جائیں ....!!’‘ جنید کی آواز ابھری اور پھر کچھ دیر بعد امی ابو کی گاڑی گھر کے پورچ میں داخل ہوئی ۔ وہ تینوں باہر کی طرف دوڑے اور پھر ان تینوں کی بھیگی پلکیں اور مسکراتے لب امی ابو کے فراخ سینے میں چھپے ہوئے تھے۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔