09:11    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1614 1 0 00

دادا جان ، تسبیح اور چمگادڑ

’’ناسمجھ، نامعقول اور نہایت ہی فضول انسان کہتے ہیں اس گھر میں ’‘ دادا جان بڑے کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی لاٹھی ٹیکتے چکر لگا رہے تھے۔ جب ہمارے چھوٹے بھائی جان نے انٹری دی اور آتے ہی اعلان کیا ، بم پھوڑا۔

‘’دادا جان قاضی انکل کہہ رہے ہیں تمہارے دادا جان نے کبھی اپنا بدلہ تو چھوڑا نہیں تو تسبیح کیسے چھوڑ گئے؟’‘

‘’اور تم خاموشی سے سنتے رہے ہمارے بارے میں غلط خیالات؟’‘ دادا جان کے غصے کا رخ جب اجو میاں نے اپنی جانب مڑتے دیکھا تو بالائی کھاتے بڑے پھپھو کے فرزند خالد کی جانب اشارہ کیا۔

‘’ نہیں دادا جان نے فوراً ہی ان سے معذرت کر لی تھی سننے سے ‘‘خالد نے حیرانی سے دادا جان اور ابو کی جانب دیکھا اور کندھے اچکا کر نہایت بے نیازی سے دوبارہ بالائی کھانے لگا۔

‘’ دیکھا یہ ہے بس میرا شہزادہ اور تم نہایت ہی لا پرواہ ہونا لائق۔’‘ دادا جان نے آگے بڑھ کر خالد کی پشت تھپکی جو اجو میاں کو قطعی بھائی نہیں تبھی جاتے جاتے وہ ننھی سی پھلجڑی چھوڑ گئے۔

‘’ پورا تو سن لیں دادا جان اس نے کہا تھا یہ سب تو ہمیں معلوم ہے کچھ نئی معلومات سے نوازیں ۔’‘

اور بڑے کمرے سے صحن تک اجو میاں وہ تمام اعزازی کلمات سنتے آئے جو دادا جان خالد کو نواز رہے تھے اور خالد بیچارہ یہ بھی نہ کہہ سکا کہ اس نے قاضی انکل سے تسبیح کے متعلق تفصیلات کے درمیان کہا تھا جب قاضی انکل اس سنگ مرمر جیسے ننھے ننھے موتیوں سے بنی تسبیح کی تعریف میں K-2کی چوٹی پر چڑھتے جا رہے تھے جو دادا جان کے بچپن کے دوست احمد ہمدانی صاحب نے مالدیپ سے واپسی پر تحفتاً دی تھی ۔ مالدیپ ویسے بھی نایاب و قیمتی موتیوں پتھروں کی بنا پر مشہور ہے اور چونکہ وہ جزیرہ نما ملک ہے تو ارد گرد سمندر کی تہوں سے ایسے ایسے قدرت کے تحفے نکالے جاتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جائے۔ انہی خوبصورت موتیوں سے بنی تسبیح جو آج کل ہمہ وقت دادا جان کے ہاتھوں میں رہتی تھی اچانک غائب ہو گئی تھی ذرا سا ذہن پر زور ڈالا تو یاد آیا پچھلی شام قاضی انکل کے گھر گذری تھی چنانچہ اجو میاں کو دوڑا دیا گیا اور پھر اجو میاں دوڑتے دوڑتے اور دادا جان دماغ کو دوڑاتے دوڑاتے نڈھال ہو گئے اور پھر زیر تفتیش گھر کے افراد آ گئے جن پر ذرا سا بھی نمازی ہونے کا گمان ہوتا وہ پوچھ تاچھ کے لئے کمرے میں بلا لیا جاتا اور جب سب حسب مراتب گھوری ، ڈانٹ اور دھمکی کے مراحل معصومیت کے ساتھ طے کر گئے تو سب گھر والوں کی نظریں دادی جان پر جا ٹھہریں جو نہایت ہی بے نیازی سے اپنی نماز کی چوکی پر بیٹھیں نماز ادا کر رہی تھیں اور جب ان کو سب کی ٹکٹکی کی وجہ معلوم ہوئی تو پھر کمرہ تفتیش میں دادا جان کی تفتیش شروع ہو گئی۔

دادی جان: ‘’ میں پوچھتی ہوں آخر میں کیوں شک کی زد پر آئی؟’‘

دادا جان: ‘’ارے بھئی ایسے ہی ہم پوچھنا چاہ رہے....’‘

دادی جان:’’ پوچھنے کا مطلب؟ میں کوئی چور ہوں ؟’‘

دادا جان: ‘’ بھئی وہ آپ اکثر درود پڑھتی رہتی ہیں نا؟’‘

دادی جان: ‘’ حد کر دی آپ نے میں کیا تسبیح چرا کر درود پڑھتی ہوں ؟ ویسے بھی چوری کی تسبیح پر درود پڑھنے کا پورا ثواب بھی نہیں ملے گا۔’‘

دادا جان: ‘’ بس ہمیں اب آپ کی بے گناہی کا یقین ہو گیا ہے۔’‘

دادی جان: ‘’ کیا ؟ گویا ابھی تک میں ملزم تھی؟ اور اب میں با عزت بری ہوئی ہوں ؟ لیکن اگر میں آپ پر الزام لگا دوں کہ تسبیح آپ نے خود غائب کی ہے تو؟’‘

‘’لاحول ولا’‘ دادا جان نے بے ساختہ کہا اور بڑے کمرے سے صحن کی جانب چل دیئے اور پیچھے دادی جان انتہائی افسوس کے عالم میں خود کو ملزم ٹھہرائے جانے پر زیر لب بڑبڑا رہی تھیں ۔

٭....٭

‘’ویسے یار مجھے حیرانی بہت ہے تسبیح جا کہاں سکتی ہے؟ خالد جو مزے سے پاپ کان کھا رہا تھا۔ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

‘’ بھوت لے گئے اسے؟’‘

‘’ خدا کے لئے اب اس بھوت کا مت بتا دینا دادا جان کو ورنہ اس آدھی رات میں بھی اس کے گھر بھجوا دیں گے پوچھنے کے لئے پہلے سارا دن دوڑیں لگاتے جوتے گھس گئے ہیں ۔ نیند بھی اڑ چکی ہے مارے تھکن کے۔’‘ اجو میاں جو آدھے صوفے اور آدھے زمین پر تشریف فرما تھے جھلا کر بولے۔

‘’ اے .... اجو سن....؟’‘ خالد نے پاپ کارن کھانے چھوڑ کر کسی نادیدہ شے کو دیکھنے کی کوشش کی۔

‘’ کیوں ؟’‘

‘’ارے یہ شوں کی کیسی آواز ہے؟’‘

‘’تم یہ پھولے پھولے پاپ کارن کھا رہے ہو تو تم میں ہوا بھر رہی ہو گی۔’‘ اجو میاں نے بے نیازی سے آنکھیں موندے جواب دیا۔

‘’ٹھک کی آواز کے ساتھ جب کوئی شے ڈرائنگ روم کے بند دروازے سے ٹکرائی تو جہاں پاپ کارن خالد کی گود سے گرے وہیں اجو میاں بھی بقیہ آدھے زمین پر گر پڑے۔

‘’ کو .... کو.... کون؟’‘ اجو میاں کی مارے گھبراہٹ کے اتنی باریک آواز نکلی کہ خالد اسے گھورنے لگا اور چند قدم بڑھ کر دروازہ کھول دیا تبھی کوئی کالی سی چیز اڑتی ہوئی اس کے چہرے سے ٹکرائی اور خالد نے نعرہ مدد مارا۔ اجو میاں کو جب کچھ نہ سوجھا تو چلانے لگے ۔

‘’ آگ آگ.... مدد مدد۔’‘

آن کی آن میں پورا گھر جمع ہو گیا ۔ خالد زمین پر اور اجو میاں صوفے پر اچھل اچھل کر شور مچا رہے تھے۔

‘’خاموش ‘‘ دادا جان کی آواز نے ان دونوں کو تو خاموش کروا دیا مگر خالد کا زمین پر لیٹے لیٹے اپنے منہ سے ہاتھ پھیرنے اور اجو میاں کا صوفے پر چھلانگیں مارنا بند نہ کروا سکی۔

‘’اب تم کیا جو کروں کی طرح اچھل کود کر رہے ہو؟’‘ امی جی نے کچھ خفگی سے ڈپٹا۔

‘’وہ چمگاڈر آئی تھی خالد کا خون پینے۔’‘ اجو میاں جو پی ٹی کر کر کے ہلکان ہو چکے تھے۔ سنبھل کر بولے اور پھپھو ہائے میرا بچہ کہہ کر خالد کے چہرے اور گردن کو بغور دیکھنے لگیں جب یقین ہو گیا کہ وہ ٹھیک ہے تو بولیں ۔

‘’ نجانے کیسے بچہ بچ گیا ورنہ تو آدم خور چمگادڑیں چھوٹی نہیں کل ہی صدقہ دوں گی۔’‘

‘’ کیا فائدہ امی اس چمگادڑ کو پتہ چل گیا ہے یہ خون کڑوا ہے وہ سب کو منع کر دے گی پینے سے۔’‘ خالد کے چھوٹے بھائی ریحان نے کہا اور زبردست سی گھوری بھی سہی۔

‘’ اور یہ تم نے پھر گندگی مچا رکھی ہے؟ ہم نے جب ڈرائنگ روم کے قالین پر بکھرے پاپ کارن دیکھے تو کہے بنا نہ رہ سکے تھے اور پھپھو تو خالد کو اٹھا کر ساتھ لے گئیں ۔رہ گئے اجو میاں جن کے تیور ہر گز فرمانبرداری کے دکھائی نہیں دے رہے تھے چنانچہ دادا جان سے خصوصی ہدایت جاری کروائی اجو میاں نے نہایت بیچاری بلکہ ‘’بے چارا’‘ سی شکل بنائی اور صوفے کے نیچے سے پیالہ جو نکالنا چاہا تو چیخ مار کر بندر کی سی پھرتی سے اٹھے اور کسی بھوکے چمپیزی کی خوشی کے تاثرات کی نقل اتارتے ہوئے دادا جان کی جانب لپکے ۔ دادا جان نے جو ان کو اپنی جانب لپکتے دیکھا تو بوکھلا کر اجو میاں کے قریب آتے ہی اپنی جگہ سے سرک گئے ۔ نتیجتاً اجو میاں دروازے کے شیشے سے ٹکرائے اور پکے ناریل کی مانند زمین پر ٹپک گئے اور ساتھ ہی ان کی بند مٹھی سے دادا جان کی تسبیح برآمد ہوئی ۔ قصہ مختصر دادا جان کو تسبیح اور دادی جان کو دوبارہ سے شکوہ مل گیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا بس کسی کو یہ نہ سمجھ میں آسکا تھا کہ چمگادڑ کب آئی اور کیسے چل گئی اور ہم یہ جانتے ہوئے بھی ان کو نہیں بتائیں گے کہ وہ تو کالا موزہ تھا جس میں ہم نے پانی بھرا غبارہ گھسا رکھا تھا جسے بعد میں ہم نے ہی ہوشیاری سے غائب کیا تھا۔ خود سوچئے وہ خود تو اکیلے پاپ کارن کھائیں اور ہم کچن صاف کریں ؟ لیکن خیر ہے شرارت کرتے کرتے اگر تسبیح مل گئی تو کیا برا ہے؟ ہاں بس ایک چھوٹی سی الجھن ہمیں تنگ کرتی ہے کہ اجو میاں کو یہ کیوں لگا کہ وہ چمگاڈر ہے؟ جبکہ انہوں نے تو کبھی چمگادڑ دیکھی ہی نہیں ہے۔ ویسے کیا آپ نے دیکھی ہے؟

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔