ہم پروَرشِ لَوح و قلَم کرتے رہیں گے
جو دِل پہ گُزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اسبابِ غمِ عِشق بَہم کرتے رہیں گے
وِیرانئی دَوراں پہ کَرَم کرتے رہیں گے
ہاں تلخئی ایّام ابھی اور بڑھے گی !
ہاں اہلِ ستم مشقِ سِتم کرتے رہیں گے
منظُور یہ تلخی، یہ سِتم ہم کو گوارا
دَم ہے تو مداوائے الَم کرتے رہیں گے
مے خانہ سلامت ہے تو ہم سُرخئی مے سے !
تزئینِ دَرو بامِ حَرَم کرتے رہیں گے
باقی ہے لہُو دِل میں تو ہر اشک سے پیدا
رنگِ لب و رُخسارِ صنم کرتے رہیں گے
اِک طرزِ تغافُل ہے سو وہ اُن کو مُبارک
اِک عرضِ تمنّا ہے سو ہم کرتے رہیں گے