نارسائی کی حدیں جرمِ وفا بھول گیا
وہ بھی کیا عشق ہے جو لغرشِ پا بھول گیا
تم نہ نکلو کہ ابھی شہر کی شمعیں گُل ہیں
روحِ شب کو ہے کسی گھر کا پتا بھول گیا
ناز تھا دل کو جس آئینِ ہم آغوشی پر
وہ بھی ، اک حیلہ گرِ مہر و وفا بھول گیا
ربطِ ہر آئنہ و شانہ سے نکلی ہوئی زلف
ہر تغیّر تھا کہ جو اپنی ادا بھول گیا
خیر اس بات پہ لازم ہی سہی سجدۂ سہو
ہم نہ بھولے تھے مگر ہم کو خدا بھول گیا
دل وہ کافر ہے کہ خود دیکھ کے سایہ اپنا
تشنگی ساری، سرِ آبِ بقا بھول گیا