خانۂ درد ترے خاک بسر آگئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھرآگئے ہیں
جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آگئے ہیں
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانی ٔ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں
اس کے ہاتھوں میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آگئے ہیں
ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آگئے ہیں
اتنا آسان نہیں فیصلۂ ترکِ سفر
پھر مری راہ میں دوچار شجر آگئے ہیں
نیند کے شہرِ طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آگئے ہیں