انجم و مہتاب کے سائے میں جب آئے گی رات
نیلگوں زلفوں کے پیچ و خم میں بل کھائے گی رات
مسکرائے گی گریبانوں میں پھولوں کی طرح
آنچلوں کی ریشمی شکنوں میں لہرائے گی رات
مطربِ رنگیں نوا کے ساتھ ہو گی نغمہ سنج
ساقئ کافر ادا کے ساتھ اٹھلائے گی رات
شعلہ پیکر قامتوں کے حلقۂ آغوش میں
کہکشاں در کہکشاں پھر رقص میں آئے گی رات
چھیڑ دے گی جنبشِ مژگاں کا سازِ دلبری
عارض و لب کے مہکتے پھول برسائے گی رات
عشق کے ہونٹوں سے پی کر جرعۂ آبِ حیات
حسن کے پیمانۂ سیمیں کو چھلکائے گی رات
گنگنائے گی جواں پیروں کی پازیبوں کے سنگ
ساعدوں کی شمعِ کافوری میں جل جائے گی رات
چشمِ ساقی ہی میں ٹھہرے گی نہ زلفِ بادہ میں
ساغر و مینا کے سینے سے ابل جائے گی رات
جرعہ جرعہ کر کے ذوقِ تشنگی پی جائے گا
قطرہ قطرہ کر کے پیمانوں میں ڈھل جائے گی رات
رنگِ خونِ آرزو بن کر سحر ہو گی طلوع
دردِ دل بن کر مگر سینے میں رہ جائے گی رات
رنگ و بو کے قافلے، غنچوں کی آوازِ جرس
دور بادِ صبح کی صورت نکل جائے گی رات
ہم نہ ہوں گے پر قدح خوارانِ بزمِ نو کے ساتھ
لے کے صہبائے طرب کے جام پھر آئے گی رات