ٹوٹ بٹوٹ نے بکری پالی
دُبلی پتلی ٹانگوں والی
دن اور رات مٹھائی کھائے
مکّھن، دودھ، ملائی کھائے
حلوہ، ربڑی، دہی، پنیر
یخنی، دلیا، کھچڑی، کھیر
جو کچھ آئے چٹ کر جائے
پھر بھی اس کو ہوش نہ آئے
اِک دن کی تم سنو کہانی
بکری کو یاد آئی نانی
کتنا ہی سمجھایا اس کو
پھسلایا، بہلایا اُس کو
وہ تھی اپنے من کی رانی
ٹوٹ بٹوٹ کی بات نہ مانی
جنگل کو چل پڑی اکیلی
بکری تیرا اللہ بیلی
مَیں مَیں مَیں کرتی تھی وہ
جی میں لیکن ڈرتی تھی وہ
یا اللہ کوئی شیر نہ آئے
یوں ہی مجھ کو کھا نہ جائے
وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا
رستے میں اِک شیر کا گھر تھا
مَیں مَیں سن کر باہر آیا
بکری دیکھ کے جی للچایا
شیر کو دیکھ کے ڈر گئی بکری
ڈر گئی کیا، بس مر گئی بکری
بولی ’’دبلی بکری ہوں میں
دیکھ تو مجھ میں جان نہیں ہے
کیا تُو مجھ کو کھا جائے گا؟
یہ تو شیر کی شان نہیں ہے
نانی کے گھر جاؤں گی میں
موٹی ہو کر آؤں گی میں
پھر اُس وقت مجھے تم کھانا
جیسے چاہو، مزے اڑانا‘‘
شیر پکارا ’’جاؤ جاؤ
جلدی موٹی ہو کر آؤ‘‘
بکری نانی کے گھر آئی
ساری اُس کو بات بتائی
نانی بولی ’’واری جاؤں
جو تم چاہو وہی کھلاؤں
چارہ کھاؤ، گھاس بھی کھاؤ
دال بھی کھاؤ، ماس بھی کھاؤ‘‘
دو دن میں بن ٹھن گئی بکری
پھول کے کُپّا بن گئی بکری
نانی نے اک ڈھول بنایا
ڈھول میں بکری کو بٹھلایا
بولی ’‘سُن مرے گول مگول
چلتا جا اور منہ نہ کھول‘‘
شیر نے ڈھول کو آتے دیکھا
تیزی سے بل کھاتے دیکھا
گرج کے بولا ’’ڈھول رے ڈھول
کہاں چلا ہے جلدی بول؟
کہاں گئی ہے میری بکری؟‘‘
بولا ’’یہ ہے تیری بکری‘‘
بکری کی آواز جو آئی
شیر پکارا ہیں ہیں ہیں
یہ کہ کر اِک پنجہ مارا
بکری بولی مَیں مَیں مَیں
ٹوٹ بٹوٹ کا طوطا بولا
ٹوٹ بٹوٹ کی ٹیَں ٹیَں ٹیَں