نظریں اٹھا کے دیکھو، بگلوں کی ڈار آئی
اُڑتی ہوئی مزے سے ، ان کی قطار آئی
بگلوں کی ڈار میں ہے، تنظیم اور سلیقہ
اُڑتے ہیں ٹولیوں میں، بگلوں کا ہے طریقہ
ہیں بے شمار بگلے، موجود اس جہاں میں
چند ماہ روس میں ہیں، جاڑوں میں وہ یہاں ہیں
بگلے کی زندگی ہے، یا سال بھر سفر ہے!
اڑنا ہے کام اُن کا، ناپید مستقر ہے
اﷲ کی زمیں پر، کرتے ہیں وہ سیاحت
جاری رہے گا اُن کا، یہ کام تا قیامت
وہ خوب جانتے ہیں، جانا انہیں کدھر ہے
پرواز کر رہے ہیں، اور زندگی سفر ہے
مل جل کے ساتھ رہنا، اور مچھلیاں پکڑنا
بگلوں کا مشغلہ ہے، دنیا کی سیر کرنا
اک جھیل کے کنارے، پہنچا ہے اُن کا لشکر
پرامن زندگی ہے، رہتے ہیں ساتھ مل کر
ہے جسم خوب صورت، گردن ہے اُس کی لمبی
دیکھیں جو دور سے تو ، لگتا ہے وہ صراحی
تالاب کے کنارے، ساکت کھڑا ہوا ہے
مچھلی سمجھ رہی ہے، کھونٹا گڑا ہوا ہے
حرکت نہیں بدن میں، مسکین سی ہے صورت
کوئی اسے جو دیکھے، سمجھے گا اس کو مورت
بت کی طرح کھڑا ہے، اک پاؤں کو چھپا کر
گھنٹوں گزارتا ہے، دریا کے پاس اکثر
ہے چونچ اس کی لمبی، مضبوط اس کے پنجے
مچھلی شکار ہو کر ، سیدھی شکم میں پہنچے
پر ہیں سفید اس کے ، ٹانگیں ہیں اس کی لمبی
آزاد زندگی ہے، اس کی غذا ہے مچھلی
لپٹی ہوئی ہے شاید، اس کے بدن پہ چاندی!
یا اُس کے جسم پر ہے، اُجلی سفید وردی؟
چونا کہیں سے لایا اور جس پر لگایا؟
یا دودھ سے نہا کر، براق بن کر آیا
پانی کے پاس لائی اس کو غذا کی حاجت
اک ٹانگ پر کھڑا ہے، سہتا ہے وہ مصیبت
تالاب پر نظر ہے، اور گھات ہے لگائے
مچھلی جو پاس آئے، بے چاری ماری جائے
لگتا ہے بھولا بھالا، معصوم سی ہے صورت
کیا گل کھلا رہی ہے، خوراک کی ضرورت
غوطے لگا لگا کر، دریا سے ماہی لائے
اور پھر مزے مزے سے اپنا شکار کھائے
بگلا ہے اک پرندہ، کوا بھی اک پرندہ
بگلے میں ہے قناعت، کوا ہوس کا بندہ
عادت الگ الگ ہے، رنگ بھی جدا جدا ہے
بگلا سفید ابرق، وہ کالا کوئلہ ہے
ہر کام میں خدا کی، ہوتی ہے خاص حکمت
انسان غور کر کے ، پاتا ہے کچھ حقیقت
بگلا ہو یا ہو کوا، قدرت کے ہیں کرشمے
کوئی برا نہیں ہے، سب ہیں جہان میں اچھے
حیوان اور پرندے، سب ہیں خدا کی خلقت
ہے علم کی بدولت ، انسان کی فضیلت