01:50    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

1983 0 0 00

( 1 ) یاد اللہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمانوں کا محاورہ ہے اور اُن کے مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اس کے معنی اللہ کی یاد کے نہیں لیکن محاورے میں اچھے خاصے خوش گوار تعلقات کے لئے یا د اللہ کہا جاتا ہے کہ ہماری اُن سے یاد اللہ ہے اِس کے معنی ہیں کہ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔

( 2 ) یادش بخیر۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب کبھی کسی اپنے کو یاد کیا جاتا ہے اور اُس کا ذکر آ جا تا ہے تو یادش بخیر کہتے ہیں کہ اُس کی یاد بخیر ہو ان کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ سماج میں گفتگو کے کچھ آداب ہوتے ہیں یادش  بخیر کہنا گفتگو کے آداب کو برتنا ہے۔

( 3 ) یاد گُدا گانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی بار بار یاد آنا گدگدی کرنا ایک ایسا عمل ہے جس سے ہنسی آتی ہے اسی لئے ’’گدگدانا‘‘ ایک دلچسپ عمل ہے وہ بھی خو ش کرنے والا عمل ہے۔ یعنی ان کی یاد دل کو’’ گدگدا‘‘ رہی ہے۔ اچھی اچھی باتوں کا خیال آ رہا ہے اور دل خوش ہو رہا ہے۔

( 4 ) یاروں کا یار۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو آدمی اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اُن کا وفادار ہو وہ یاروں کا یار کہلاتا ہے اصل میں یار ہونے کے معنی مددگار ہونے کے ہیں اسی لئے اللہ کا ساتھ بھی یار لگتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا ا للہ یا رہے۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اُس کا مددگار اللہ ہوتا ہے۔

’’یاری‘‘ ہونا دوستی ہونے کے معنی میں آتا ہے عورتیں جب عام طریقہ کے خلاف کسی غیر شخص سے دوستی کر لیتی ہیں تو وہ ان کا یار کہلاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے یا رکی یاری سے کام اُس کے فعلوں سے کیا تعلق یعنی دوستی بڑی چیز ہے باقی باتوں کے چکر میں کیوں پڑا جائے جو کچھ ہے ٹھیک ہے۔

( 5 ) یاری کُٹ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بچوں کا محاورہ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں دوستی ختم کرنا اگریوں دوستی ختم نہیں ہوتی جس طرح بچّے ایک خاص عمل کے ذریعہ دانتوں کو انگوٹھے کے ناخن سے چھُوتے ہیں اور پھر کٹ کرتے ہیں اور  اِسے یاری کٹ کرنا کہتے ہیں۔

( 6 ) یافت کی آسامی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یافت فارسی کا لفظ ہے اور یافتن مصدر سے بنا ہے اِس کے معنی ہیں پانا، روپیہ پیسہ کا فائدہ ہونا، آسامی موقع جگہ اور ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ اِس اعتبار سے اِس محاورہ کے معنی ہوئے وہ جگہ یا وہ آدمی جس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہویا اس کی توقع ہو۔

( 7 ) یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یقین اعتماد کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جو آدمی کسی پراعتماد کرتا ہے وہی اُس کی بات پر یقین بھی کرتا ہے اور اس کے وعدہ کو سچ سمجھتا ہے

لیکن اگر کسی پر بھروسہ ہی نہیں تو اس کی بات کا یقین بھی نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے۔

( 8 ) یک جان دو قالب۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت ہی قریبی رشتہ کو کہتے ہیں جب انتہائی محبت ہوتی ہے کہ اُن کے بدن ہی الگ الگ ہیں اُن کی روح تو ایک ہے یہ ہمارے سماج کا ایک آئیڈیل ہے کہ الگ الگ وجود ہونے کے باوجود وہ ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں ایک ہی زندگی جیتے ہیں اور ایک دوسرے سے کبھی الگ نہیں ہوتے۔

( 9 ) یوم الحساب۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قیامت کا دن جس کے لئے تصوّر کیا گیا ہے کہ حشر کا میدان ہو گا تمام لوگ جمع ہوں گے اور سب کے اعمال نامہ ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور خُدا اُن کا فیصلہ کرے گا یہی یوم القیامت ہے اسی کو یوم الحساب کہتے ہیں یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو اس سے متعلق تصورات بھی انہی کے عقائد اور خیالات کا حصہ ہوں گے اس طرح کے محاورہ خاص کلچر سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ اگرچہ عام ہوتا ہے مگر بعض محاوروں کا تعلق علاقائی تہذیب طبقاتی ذہن اور  مذہبی تصورات سے ہوتا ہے۔

( 10 ) یوں توں کرنا، یوں ہی، یوں ہی سہی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بُرا سلوک کرنا، تلخ کلامی یا ترش روئی سے پیش آنا اسی لئے بے تکلف لہجہ میں کہتے ہیں کہ اس نے تو ہماری ’’یوں توں ‘‘ کر دی یوں ہی یا یوں ہی سہی یہ ایک عام فقرہ ہے اور جب دوسرے کی بات کو ہم کاٹنا نہیں چاہتے تو کہتے ہیں چلو یوں ہی سہی اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ تیری مرضی ہے اگریوں ہی تولے یوں ہی سہی

بہادر شاہ ظفر کا بھی شعر ہے۔

؂ جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی

یوں خوشی ہے آپ کی تو وہاں یوں ہی سہی

( 11 ) یہاں کا یہیں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی دنیا کا دنیا ہی میں رہ جائے گا جو کچھ ہونا ہے وہ یہیں ہو گا اسی لئے ایسے فقرہ استعمال کئے جاتے ہیں کہ یہاں کا جوہو نا ہے وہ یہیں کسی شاعر کا شعر ہے۔

؂ چاہو جتنا گھوٹ لو لوگوں کا تم صاحب گُلا

ہاتھ خالی جاؤ گے یاں کا یہیں رہ جائے گا

؂ یوں تو رشتہ کبھی نہیں توڑا

جو یہاں کا ہے وہ یہیں چھوڑا

اس لیے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان کا ہمارے محاورے سے کیا رشتہ ہے اور اِن دونوں کا ہماری زندگی و ذہن سے کیا تعلق ہے۔ ہم اپنی بات سیدھے سادھے انداز میں بھی کرتے ہیں لیکن اکثر جذبہ کے اظہار اور  خیال کی تصویر کشی کے لئے اُس میں لسانی اور لفظی سطح پر اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کی غرض سے نئی نئی پہلوداریاں بھی پیدا کرتے ہیں یہاں کا یہیں رہ جانا عقیدہ کا اظہار بھی ہے اور عبرت دلانے کے لئے ایک اندازِ گفتگو بھی جس کے پس منظر میں ہمارے سماجی ضابطے عقیدہ تصورات سب آ جاتے ہیں۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔